واشنگٹن کے سیاسی و عسکری حلقوں کا خیال ہے کہ گومگو کے باوجود صدر ٹرمپ افغانستان سے فوجی انخلا کے لیے پُرعزم ہیں
افغان امن کے راستے میں حائل اختلافات کی خلیج گہری ہوتی نظر آرہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل کچھ ایسے اشارے مل رہے تھے کہ گویا امن معاہدے پر دستخط اب چند دنوں کی بات ہے۔ بلکہ کہا جارہا تھا کہ طالبان کے سربراہ ملّا ہبت اللہ کی جانب سے مسودے کی توثیق کے بعد دستخط کے لیے انگریزی، دری اور پشتو زبانوں میں دستاویزات تیار کی جاچکی ہیں۔31 اگست کو دوحہ میں طالبان مذاکرات کاروں کے ترجمان ملّا سہیل شاہین نے بتایا کہ ہماری قیادت دستخط سے قبل مسودے کی نوک پلک درست کررہی ہے۔ انھوں نے معاہدے کی راہ میں کچھ رکاوٹوں کا اعتراف تو کیا لیکن پُرامید لہجے میں کہا تھاکہ اگلے چند دنوں میں امن معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے۔ امریکی وفد کے ترجمان زلمے خلیل زاد نے بھی کچھ اسی انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس امن معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں جس سے افغانستان میں پائیدار امن کا راستہ ہموار ہوجائے گا۔ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں، اور اس کے کھٹائی میں پڑنے کے امکانات بھی خاصے قوی ہیں۔ متنازع نکات کچھ اس طرح ہیں:
٭ امریکی جرنیلوں اور قدامت پسند سیاست دانوں کو لفظِ انخلا یا Withdrawal میں شکست کا پہلو نظر آرہا ہے۔ امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل ڈنفورڈ کہہ چکے ہیں کہ امریکی فوج ’پسپا‘ نہیں ہورہی۔ طالبان کے لیے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں کہ اس کے لیے Transfer، Return back home یا کوئی اور ’باوقار‘ متبادل استعمال کیا جاسکتا ہے۔
٭ طالبان کا اصرار ہے کہ معاہدہ امارتِ اسلامی افغانستان اور امریکہ کے درمیان ہونا چاہیے، جبکہ امریکیوں کا خیال ہے کہ معاہدے کے فریق امریکہ اور تحریک طالبان ہیں۔ ملّا شاید اس بات پر بھی رضامند ہوجائیں۔
٭ ایک بڑا مسئلہ امریکیوں کی یہ خواہش ہے کہ معاہدے پر دستخط کے ساتھ ہی مکمل فائر بندی ہوجائے۔ طالبان کہتے ہیں کہ وہ لڑائی بند کرکے امریکی فوج کو واپسی کے لیے محفوظ راستہ دینے کے وعدے پر تو قائم ہیں لیکن کابل انتظامیہ پر حملے جاری رہیں گے۔ ملّائوں کا کہنا ہے کہ امریکیوں سے امن معاہدے کے بعد وہ کابل انتظامیہ سے بات چیت کا آغاز کریں گے جن سے امن معاہدے کے بعد ہی وہ اپنی تلواریں نیام میں رکھیں گے۔ شمالی افغانستان کے صوبے قندوز کا صدر مقام طالبان کے حصار میں ہے اور یکم ستمبر سے طالبان نے اپنی کارروائیوں کا دائرہ بڑھاتے ہوئے قندوز کے مغرب میں بلخ، مشرق میں تخار اور بدخشاں صوبوں کے گرد بھی گھیرا تنگ کردیا ہے۔ افغان حکومت کا کہنا ہے کہ ایرانی سرحد سے متصل فرح اور ہرات صوبوں کی طرف بھی طالبان پیش قدمی کررہے ہیں۔ عسکری تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ طالبان کی تازہ ترین کارروائی امریکیوں کو یہ باور کرانے کے لیے ہے کہ امن معاہدہ ان کی مجبوری نہیں اور وہ طاقت کے بل پر بھی اپنی بات منوا سکتے ہیں۔ طالبان کی جانب سے یہ عسکری کارروائی اُس وقت کی جارہی ہے جب امن معاہدے پر افغان حکومت کو اعتماد میں لینے کے لیے زلمے خلیل زاد کابل میں ہیں۔
٭ طالبان کا کہنا ہے کہ اگر کابل انتظامیہ امن مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو 28 ستمبر کے صدارتی انتخابات کو منسوخ کردے تاکہ امریکہ سے امن معاہدے کے فوراً بعد ایک وسیع البنیاد عبوری حکومت قائم کی جاسکے۔ افغان صدارت کے دو بڑے امیدوار ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور حزب اسلامی کے گلبدین حکمت یار انتخابات ملتوی کرنے کے حامی ہیں، لیکن ڈاکٹر اشرف غنی اس پر تیار نہیں۔ طالبان کے لیے مشکل یہ ہے کہ اگر وہ ان انتخابات کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو سارے افغانستان میں خون خرابہ ہوگا، جبکہ پُرامن انتخابات کی صورت میں کابل حکومت کو عوامی مینڈیٹ کی سند مل جائے گی، اور بعد از انخلا مذاکرات کے دوران طالبان دبائو میں ہوں گے۔
٭ امریکی جرنیل اور قدامت پسند رہنما بھی افغانستان سے واپسی کو شکست قرار دیتے ہوئے واپسی کی مخالفت کررہے ہیں۔ سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کے رہنما سینیٹر لنڈسے گراہم افغانستان سے انخلا کے سخت مخالف ہیں۔ چند روز پہلے ان کا ایک مقالہ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا جس میں انھوں نے متنبہ کیا کہ جلد بازی میں افغانستان سے واپسی 9/11جیسے ایک اور سانحے کا سبب بن سکتی ہے۔ انھوں نے جذبانی انداز میں لکھا کہ طالبان ہمارے جوانوں کے قاتل ہیں اور اس طویل جنگ پر امریکی قوم نے 1000 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی طالبان کے بجائے امریکہ کی شرائط پر ہونی چاہیے۔ سینیٹر لنڈسے گراہم ری پبلکن پارٹی کے سینئر رہنما اور صدر ٹرمپ کے مخلص نظریاتی حلیف ہیں۔ میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر، مسلمانوں کی امریکہ آمد پر پابندی، سپریم کورٹ کے لیے قدامت پسند ججوں کے تقرر سمیت تمام مشکل فیصلوں میں وہ صدر ٹرمپ کے شانہ بشانہ رہے ہیں، اس لیے سینیٹر گراہم کی بات کو یکسر مسترد کردینا امریکی صدر کے لیے آسان نہیں۔
٭ صدر ٹرمپ کے مشیر قومی سلامتی جان بولٹن کو بھی بعد از انخلا صورتِ حال پر شدید تحفظات ہیں۔ انھیں ڈر ہے کہ نیٹو کی واپسی کے بعد کہیں افغانستان ویسی ہی خانہ جنگی کا شکار نہ ہوجائے جس کا سامنا 1988ء میں روسی انخلا کے بعد ہوا تھا۔ اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ مکمل انخلا سے پہلے طالبان اور افغان حکومت میں شرکتِ اقتدار کا معاہدہ طے پا جائے۔
٭ سب سے بڑا تنازع انخلا کے ٹائم ٹیبل پر ہے۔ امریکیوں کاکہنا ہے کہ 7200 فوجی اگلے 9 سے 14 ماہ میں واپس بلا لیے جائیں گے اور پیچھے رہ جانے والے 6800 سپاہیوں کی واپسی افغانستان میں ایک ’مستحکم‘ حکومت کے قیام کے بعد ہوگی۔ فرانس میں G-7سربراہ کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ انھیں افغانستان سے واپسی کی کوئی جلدی نہیں۔ ساتھ ہی وہ اپنی یہ دھمکی بھی باربار دہرا رہے ہیں کہ ان کے لیے افغانستان پر قبضہ کچھ مشکل نہیں، بس اس کے لیے ایک کروڑ افغانوں کو ہلاک کرنا پڑے گا۔ 29 اگست کو Foxریڈیو پر گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ امن معاہدے پر دستخط ہوتے ہی افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد 14000 سے گھٹاکر 6800 کردی جائے گی جس کے بعد صورتِ حال کے مطابق بقیہ فوج کی واپسی کا فیصلہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ داعش یا القاعدہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے افغانستان میں سراغ رسانی کا ایک مؤثر نظام برقرار رکھا جائے گا۔ صدر ٹرمپ نے دوٹوک انداز میں کہا کہ ’’فوجی انخلا کے بعد بھی افغانستان پر نظر رکھی جائے گی، معلوم نہیں طالبان اس پر تیار ہوتے ہیں یا نہیں؟‘‘ صدر ٹرمپ کو خوف افغانستان کے جغرافیہ سے ہے اور ان کا خیال ہے کہ وہاں چھپنے کی جگہیں بہت زیادہ ہیں۔ امریکی چاہتے ہیں کہ انھیں تین فوجی اڈوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے دیا جائے۔ واشنگٹن یہ ضمانت دینے کو تیار ہے کہ ان اڈوں پر تعینات عملہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا اور ان کے باہر طالبان کی چوکیاں ہوں گی۔ تاہم طالبان نے اس تجویز کو مذاکرات کی ابتدا ہی میں مسترد کردیا تھا۔ جون کے آخر میں مذاکرات کے دوران زلمے خلیل زاد نے صدر ٹرمپ کے ان خدشات کا دوبارہ اظہار کیا، جس پر طالبان نے صدر ٹرمپ کے تحفظات دور کرنے کے لیے اضافی ضمانت کی پیشکش کی تھی، لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ امریکی حکومت طالبان کی ان یقین دہانیوں سے مطمئن نہیں۔
٭ امریکہ کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل مائک ملی (Gen Mike Milley) بھی فوری انخلا کے خلاف کھل کر بیان دے چکے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اس سے امریکہ کے مفادات متاثر ہوسکتے ہیں۔ سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے عسکری خدمات کی سماعت کے دوران انھوں نے جذباتی انداز میں کہا تھاکہ واشنگٹن کا قبرستان شہدائے افغانستان سے بھرا پڑا ہے۔ ہمارے 20ہزار کڑیل جوان بھری جوانی میں معذور ہوگئے۔ اس عظیم الشان قربانی سے افغانستان میں جو استحکام حاصل ہوا اسے جلد بازی میں ضائع کردینا مناسب نہیں۔ جنرل صاحب کا خیال ہے کہ طالبان سے امن معاہدے کے بعد بھی دہشت گردوں پر نظر رکھنے اور علاقائی استحکام کے لیے کچھ امریکی فوجیوں کی افغانستان میں موجودگی ضروری ہے۔ طالبان اس پر بظاہر تیار نہیں اور مذاکرات کے آغاز ہی میں وہ اس تجویز کو مسترد کرچکے ہیں۔ طالبان نے امریکیوں کو یقین دلایا ہے کہ انخلا کے دوران واپسی کے لیے امریکی فوج کو ان کی مرضی کا محفوظ و پُروقار راستہ فراہم کیا جائے گا اور بعد میں افغانستان کی سرزمین امریکہ سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ انھوں نے داعش اور دوسرے دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی کا وعدہ بھی کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان، دہشت گردوں کی گوشمالی خود کرسکتے ہیں اور اس کے لیے امریکی فوج کی موجودگی ضروری نہیں۔ مولوی حضرات انخلا کے لیے وقت دینے کو تیار ہیں لیکن وہ غیر ملکی فوج کی مکمل واپسی کا واضح ٹائم ٹیبل چاہتے ہیں۔ مبہم شرائط اور مفروضوں کی بنا پر امریکی فوج کا افغانستان میں غیر معینہ مدت تک قیام ان کے لیے قابلِ قبول نہیں۔
٭ امریکی فوج کو طالبان کے اس عزم اور وعدے پر تو کوئی شبہ نہیں کہ یہ لوگ افغانستان کو داعش یا القاعدہ کے لیے محفوظ ٹھکانہ نہیں بننے دیں گے، لیکن ان کا خیال ہے کہ طالبان کے لیے عبدالرشید دوستم کی جنبش ملی جیسی مسلح و تجربہ کار ملیشیا، افغان فوج اور داعش سے بیک وقت لڑنا ممکن نہ ہوگا، اور ملّائوں کے خلاف داعش کا طالبان مخالف عناصر سے اتحاد بھی خارج از امکان نہیں۔
صدر ٹرمپ کے لیے افغانستان سے جان چھڑانے کی وجہ سیاسی و عسکری سے زیادہ وہاں اٹھنے والے بھاری اخراجات ہیں۔ امریکی حکومت کے نگراں ادارے سینئر انسپکٹر جنرل برائے افغان تعمیرِنو یعنی SIGARکے مطابق افغانستان میں قیام کے مجموعی اخراجات 70 ارب ڈالر سالانہ ہیں۔ تربیت پر خطیر اخراجات کے باوجود افغان فوج کی جنگی استعداد اطمینان بخش نہیں۔ سپاہیوں کی اکثریت منشیات کی عادی ہے اور نشہ آور مواد کے حصول کے لیے افغان فوجیوں کی جانب سے ڈاکہ زنی اور شہریوں کے قتل عام کی وارداتیں عام ہیں۔ حکومتی اخراجات کے لیے ملنے والی امدادی رقوم کا بڑا حصہ رشوت کی نذر ہوجاتا ہے۔
صدر ٹرمپ امریکی ٹیکس دہندگان کی کمائی کے معاملے میں بے حد حساس ہیں اور اپنے ایک قریبی رفیق کو اخراجات کے معاملے میں بے احتیاطی پر کابینہ سے برطرف کرچکے ہیں۔ امریکی صدر نے انتخابی مہم کے دوران افغان جنگ کو امریکی معیشت پرایک بھاری بوجھ قراردیا تھا اور وہ افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کے حق میں ہیں۔ امریکی صدر خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں اور جب کوئی فیصلہ کرلیں تو پھر کسی مشیر یا وزیر کی رائے کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اسی بنا پر واشنگٹن کے سیاسی و عسکری حلقوں کا خیال ہے کہ گومگو کے باوجود صدر ٹرمپ افغانستان سے فوجی انخلا کے لیے پُرعزم ہیں۔
امریکی فوج کی واپسی سے جہاں طاقت کا خلا پیدا ہونے کا خدشہ ہے، وہیں افغان حکومت کو فوجی انخلا کے نتیجے میں مالی امداد رک جانے کا خوف بھی ستا رہا ہے۔ گزشتہ 18 سال سے افغانستان کی گزربسر چچا سام کی اعانت پر ہورہی ہے۔ کابل کے ڈاکٹر صاحبان کے ساتھ حکومتی اخراجات کی فکر ملّائوں کو بھی دامن گیر ہے۔ انھیں اپنی باصلاحیت و دیانت دار ٹیم پر اعتماد ہے اور ملاّ ہبت اللہ کو یقین ہے کہ طالبان مقامی وسائل پر انحصار کرکے بہت جلد افغان قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس ضمن میں انھوں نے چین، روس اور قطر سے مذاکرات بھی شروع کردیے ہیں، لیکن امریکی امداد کی یکلخت معطلی سے پیدا ہونے والا متوقع بحران ان کے لیے بھی پریشان کن ہے۔ بہت ممکن ہے کہ وہ اقتصادی امداد کے عوض 6800 امریکی سپاہی کچھ عرصے کے لیے ملک میں رکھنے پر رضامند ہوجائیں۔
…………٭٭٭…………
اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم
masoodabdali.blogspot.com
اور ٹویٹر@MasoodAbdali بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔