بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی بے لاگ گفتگو کرتے ہیں۔ وہ 2008ء کے عام انتخابات کے بعد وزیراعلیٰ بنے۔ ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔ 65 کے ایوان میں سوائے قاف لیگ کے شیخ جعفر خان مندوخیل اور سردار یار محمد رند کے، باقی سارے ارکان یا تو وزیر تھے یا مشیر۔ شیخ جعفر خان مندوخیل فعال تھے، البتہ سردار یار محمد رند حلف اٹھانے کے بعد ان پانچ برسوں میں اسمبلی کے کسی اجلاس میں شریک نہ ہوئے۔ بعض محکموں کو دو یا تین وزارتوں میں تقسیم کیا گیا۔ نواب رئیسانی کے لیے مشکلات بھی تھیں جن کا انہوں نے بڑی جرأت کے ساتھ سامنا کیا۔ یہاں تک کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری جو ملک کے بہت ہی بااختیار صدر تھے، کے آگے بھی زیر نہ ہوئے۔ نواب رئیسانی نے اپنی کابینہ کے بارے میں کہا کہ ان کو ساتھ لے کر چلنا مینڈکوں کو ترازو میں تولنے کے مترادف ہے۔
ان ہی مسائل کا سامنا 2013ء کی اسمبلی میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو کرنا پڑا، جن کو نواب ثناء اللہ زہری نے مخلوط حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود چین سے بیٹھنے نہ دیا۔ ڈاکٹر عبدالمالک مری معاہدے کے تحت ڈھائی سال کے لیے وزیراعلیٰ بنائے گئے تھے۔ ان کی مدت ختم ہوئی تو مسلم لیگ (ن) کے نواب ثناء اللہ زہری وزیراعلیٰ بن گئے۔ سچی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک یعنی نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی نے نواب زہری سے پوری طرح تعاون کیا۔ تاہم وہ لوگ جو نواز لیگ کے تھے اور کابینہ میں شامل تھے اور قاف لیگ کے اراکینِ اسمبلی پسِ پردہ نواب زہری کے خلاف سازشوں میں لگے رہے۔ واضح رہے کہ ان کے ساتھ مل کر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ پر عرصۂ حیات تنگ کیا گیا تھا۔ آخرکار حکومت کے آخری ایام میں نواب زہری کے حلقۂ اثر کے ارکان ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی سازش میں شریک ہوئے۔
۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت بنی۔ جام کمال وزیراعلیٰ بنائے گئے۔ چناں چہ ان کے خلاف بھی پریشر گروپ بنانے کی کوششیں ہوئیں۔ عبدالقدوس بزنجو جن کو نواب زہری کے خلاف عدم اعتماد اور چھ ماہ وزارتِ اعلیٰ کے منصب کا چسکا لگا، گاہے بگاہے جام کمال مخالف بیٹھک کرتے، اور سازشی تھیوری کو عملی جامہ پہنانے کی اپنی سی کوشش کرتے۔ یقینا چند لوگ اب بھی جام کمال خان کے خلاف تاک میں بیٹھے ہیں، لیکن فی الوقت جام کی کرسی زمین میں مضبوطی سے پیوست ہے۔ ان کے بدخواہوں نے صوبے میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کو ایشو کے طور پر زبان زدِ عام کیا، یہ کارڈ حزبِ اختلاف کے حوالے کردیا۔ بڑا ایشو رہا، لیکن پھر رفتہ رفتہ شور غائب ہوگیا۔ صوبے کے اندر بہت کچھ اصلاح طلب ہے۔ یقینا بہت کچھ بہتر کرنا جام کمال کی استطاعت سے باہر ہے۔ یعنی ’اسٹیٹس کو‘ کی صورت حال ہے۔ عدم شفافیت کی بازگشت ہے ۔ وزراء کے عیش و عشرت کے لیے سرکاری وسائل و ذرائع کا بے دریغ استعمال ہورہا ہے۔ حکمرانی کا سول نظام دھندلا ہے۔ غرض جام کمال کی کابینہ کے ایک وزیر سردار سرفراز ڈومکی مستعفی ہوگئے۔ ان کے پاس محنت و افرادی قوت کی وزارت تھی۔ گورنر نے ماہ اگست میں ان کا استعفیٰ منظور کرلیا۔ مطلب یہ ہوا کہ سرفراز ڈومکی استعفیٰ واپس لینے پر آمادہ نہ ہوئے۔ انہوں نے جام کمال خان پر یہ الزام لگایا کہ وہ ان کی وزارت اور حلقۂ انتخاب میں مداخلت کررہے ہیں اور ان کے مخالفین سے تعاون کرتے ہیں۔ بقول سرفراز ڈومکی، اس حوالے سے جام کمال کو آگاہ بھی کیا جاچکا ہے۔ انہوں نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ صوبائی حکومت نے نو ارب روپے کے فنڈز غیر منتخب لوگوں کو جاری کیے ہیں۔ سرفراز ڈومکی کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ پارٹی سے الگ نہیں ہوئے ہیں۔