ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم دنیا بھر میں حکمرانی کے نظام کو شفاف بنانے کے مختلف تجربات سے کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم روایتی حکمرانی کے نظام کو قائم کرکے عام آدمی کی زندگی میں مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں، اور ہمارا حکمرانی کا نظام بنیادی طور پر عام آدمی کے مفادات کے برعکس ہے۔ دنیا نے حکمرانی کے نظام کو شفاف بنانے کے لیے عدم مرکزیت پر مبنی نظام کو مضبوط بنایا ہے، اور حکمرانی کے اس نظام میں عام آدمی کی شمولیت کو یقینی بناکر نظام کی سیاسی ساکھ قائم کی ہے۔ دنیا کے بڑے شہروں کا حکمرانی کا نظام عمومی طور پر چھوٹے شہروں کے مقابلے میں زیادہ فعال، متحرک اور مختلف ہوتا ہے۔ کیونکہ بڑے شہروں کے مسائل چھوٹے شہروں کے مقابلے میں بہت مختلف ہوتے ہیں، اور ان مسائل سے نمٹنے کے لیے حکمرانی کے نظام میں غیر معمولی اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔
کراچی کا بحران بھی کچھ اسی طرز کا ہے۔ حالیہ چند برسوں میں کراچی اپنے مقامی مسائل کے تناظر میں مسائل کا گڑھ بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ سیاسی بحث و مباحثے کا موضوع کراچی کے مسائل ہیں۔ گندگی، صفائی، پانی، نکاسی آب، ٹرانسپورٹ، ناجائز تجاوزات، پارکس، قبرستان، سیوریج، مقامی امن و امان سمیت شہری ترقی کا نظام لوگوں میں اپنی افادیت کھو بیٹھا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ سندھ حکومت اور کراچی کی شہری حکومت کے درمیان بداعتمادی کی فضا ہے جس نے عملی طور پر کراچی کے مسائل سے حکمران طبقے کی لاتعلقی کے پہلو کو مضبوط کیا ہے۔ سندھ حکومت اور کراچی کی شہری حکومت ایک دوسرے پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کرکے ایک دوسرے کو شہری نظام کی بربادی کا ذمہ دار سمجھتی ہیں۔
18ویں ترمیم کے تحت سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ضلعی حکومتوں سمیت کراچی کی شہری حکومت کو صوبوں سے ضلعوں میں 1973ء کے آئین کی شق140-Aکے تحت سیاسی، انتظامی اور مالی خود مختاری کے عمل کو یقینی بنائے۔ پیپلز پارٹی کو 18ویں ترمیم کے تناظر میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ پیپلز پارٹی کو یہ کریڈٹ یقینی طور پر ملنا چاہیے۔ مگر یہ بھی کڑوا سچ ہے کہ اب پیپلز پارٹی کسی بھی صورت میں کراچی کی شہری حکومت کو اختیارات دینے کے لیے تیار نہیں۔ بلاول بھٹو وفاق پر تو الزام لگاتے ہیں کہ وہ 18ویں ترمیم کا مخالف ہے، مگر اپنی سیاسی ادائوں پرغور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ وہ کیسے سندھ کی شہری حکومت کا سیاسی، سماجی اور معاشی استحصال کررہے ہیں، اور اس عمل کا مقصد سیاسی انتقام اور مخالفین کے ووٹ بینک کو قبول نہ کرنا ہے۔
کراچی کی شہری حکومت سندھ حکومت کے طرزِعمل سے نالاں ہوکر وفاق سے مدد طلب کررہی ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ وہ آئین میں دیے گئے اختیارات کے تحت کراچی میں خود براہِ راست اقدامات کو یقینی بناکر شہری نظام کو شفاف بنائے۔ تحریک انصاف کو 2018ء کے انتخابات میں کراچی سے ایک بڑا سیاسی مینڈیٹ ملا، مگر وفاق کا بھی کراچی کے شہری نظام کی بہتری میں کوئی مؤثر کردار دیکھنے کو نہیں مل رہا، اور عملی طور پر اس نے بھی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ماضی میں ایم کیو ایم کراچی کی سب سے بڑی سیاسی طاقت تھی، لیکن اب وہ اس طاقت سے محروم ہے۔ ایم کیو ایم عملی طور پر کئی دھڑوں میں تقسیم ہے، اور اس کی کمزوری کی وجہ سے کراچی شہر کا منظر اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہے۔ ایم کیو ایم اس وقت وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت ہے، لیکن بظاہر کراچی کے مسائل کا حل اب اس کے پاس نہیں ہے۔ وجہ پیپلز پارٹی کے ساتھ اُس کے تعلقات کا بگاڑ ہے۔
کراچی میں پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی اور تحریک انصاف نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن پیپلزپارٹی کسی بھی طور پر ان جماعتوں کے ساتھ مل کر کراچی شہرکے بنیادی مسائل کے حل میں غیر سنجیدہ نظر آتی ہے۔ پیپلزپارٹی بنیادی غلطی یہ کررہی ہے کہ وہ کراچی کی حقیقی قیادت کو نظرانداز کرکے مصنوعی انداز سے کراچی کا نظام چلانا چاہتی ہے۔ بہتر ہوتا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان اچھے تعلقاتِ کار ہوتے، اور دونوں مل کر کراچی کے نظام کو شفاف بناتے۔ لیکن ان کے درمیان بداعتمادی اور پیپلز پارٹی کا ایم کیو ایم کو نظرانداز کرکے حکمرانی کا نظام چلانا خود مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
کراچی شہر کے تناظر میں 6 پہلو اہمیت رکھتے ہیں:
(1) کراچی میں مکمل اختیارات کے ساتھ مقامی نظام حکومت کی بحالی۔
(2) پیپلز پارٹی اورایم کیو ایم کے درمیان مثبت تعلقاتِ کار۔
(3) پیپلزپارٹی کا مقامی نظام حکومت کی اہمیت کو تسلیم کرنا اور اسے تیسری حکومت کا سیاسی درجہ دینا۔
(4) کراچی میں شہریوں کی شمولیت کے ساتھ مقامی نظام حکومت کو مضبوط بناکر اس کی کڑی نگرانی اور جوابدہی کے نظام کو مؤثر بنانا۔
(5) وسائل کی اس انداز سے تقسیم کہ ہر مقامی یونٹ خود اپنے فیصلے کرسکے اور اپنے مسائل کو خود حل کرسکے۔
(6) شہری ترقی کا مکمل اور جامع منصوبہ یا خاکہ، جس کی منظوری صوبائی حکومت اور شہری حکومت سے لی جائے اور عوامی منتخب نمائندوں کو مقامی ترقی کے عمل میں برابری کی بنیاد پر حصہ دار بنایا جائے اور بالخصوص سوک ایجوکیشن کے عمل کو مضبوط کیا جائے۔
کراچی سمیت جتنے بھی بڑے شہر ہیں ان کے مسائل کا واحد حل مضبوط مقامی نظام حکومت ہے، اور یہ حکومتیں جتنی زیادہ بااختیار ہوں گی اتنا ہی مقامی ترقی کا عمل یقینی بھی بنے گا اور شفاف بھی۔ سب سے بڑھ کر شہریوں اور حکومت کے درمیان مسائل کے تناظر میں جو لاتعلقی ہے اسے بھی ختم کرنے میں مدد ملے گی، اور شہریوں کا اپنی مقامی حکومتوں پر اعتماد بڑھے گا۔ کیونکہ اس وقت ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ لوگ حکمرانی کے نظام پر عدم اعتماد بھی کرتے ہیں اور حکمرانی کے نظام کو شفاف بنانے کے عمل سے لاتعلق بھی رہتے ہیں۔ یہ لاتعلقی عملاً کراچی میں موجود مافیاز کے حق میں جاتی ہے جو حکمرانی کے اس نظام کو اپنے حق میں استعمال کرکے مقامی لوگوں کا عملاً اور زیادہ استحصال کرتے ہیں۔
یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ ہمارے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور حکومتیں خود بھی مقامی نظام کے خلاف ہیں، اور ان کا خیال ہے کہ مقامی نظام حکومت کی مضبوطی ان کی سیاسی طاقت کو کمزور کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں مقامی نظام حکومت میں سب سے زیادہ عدم دلچسپی قومی اور صوبائی ارکان کی نظر آتی ہے۔ اس میں سیاسی جماعتوں کا کردار بھی خاصا مایوس کن ہے، اور وہ بھی ایسی کسی سیاسی مہم کا حصہ نہیں ہیں جس کا مقصد کراچی یا مقامی نظام حکومت کی بحث کو بھرپور سیاسی طاقت دینا ہو۔ یاد رکھیں اس وقت بھی سندھ میں مقامی نظام موجود ہے، لیکن اگر اس نظام کو مفلوج بناکر چلانا ہے اور سارے اختیارات صوبائی حکومت کو خود براہِ راست استعمال کرنے ہیں تو پھر ہمیں اس مصنوعی نظام کی کیا ضرورت ہے! اورکیوں ہم کمزور ادارے قائم کرکے ان پر اپنی سیاسی اجارہ داری قائم کرتے ہیں؟ اس روش سے ہمیں باہر نکلنا ہوگا اور شہریوں کو بھی اپنی اپنی صوبائی حکومتوں پر دبائو ڈالنا ہوگا کہ وہ مقامی نظام کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنائیں، وگرنہ شفاف اور عوامی خواہشات پر مبنی مقامی نظام محض خواب ہی رہے گا۔
سندھ حکومت اور بالخصوص پیپلزپارٹی کو کراچی شہر کو محض ایک شہر کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔ کراچی کے مسائل قومی مسائل سے جڑے ہوئے ہیں اور اس پر پوری ملکی معیشت کا انحصار ہے۔ ایسے میں ہمیں کراچی کی سطح پر ایک بڑی سیاسی، انتظامی اور مالی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی ہمیں کراچی کے بحران کو ایک حقیقی ترجیحی عمل کی مدد سے دیکھنا ہوگا، اور سب فریقین کو ملا کر کراچی کے بحران کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ کیونکہ کراچی جیسے بڑے شہر کا مسئلہ اب ایک فریق کا نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی ایک جماعت ان سنگین مسائل کو حل کرسکے گی۔ اس کے لیے سب جماعتوں اور قیادتوں کو کراچی کے بحران کے تناظر میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، اور یہ کردار ایک مشترکہ حکمت عملی اور سیاسی کوششوں سے جڑا ہونا چاہیے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم کراچی کا سیاسی نوحہ پڑھنے کے بجائے براہِ راست سیاسی طاقت پر دبائو ڈالیں کہ وہ کراچی میں مقامی نظام حکومت کو ہی اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ بناکر وہ کچھ کرے جو کراچی کی سیاسی ضرورت بنتا ہے۔