پاکستان ہر فورم پر کشمیر کا مقدمہ لڑرہا ہے

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے فرائیڈے اسپیشل کے لیے خصوصی گفتگو

فرائیڈے اسپیشل: اس وقت خطے میں نہایت غیر معمولی حالات ہیں، اور جنوبی ایشیا میں کشمیر ایک بار پھر سے فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا کہ ہم یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی حل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں اور اسی کی حمایت کرتے ہیں۔ آج بھارت نے اپنے آئین میں کشمیر سے متعلق خصوصی آرٹیکل ختم کرکے ایک نئی صورتِ حال پیدا کردی ہے۔ پاکستان اس صورتِ حال کو کس طرح دیکھ رہا ہے، اور اس چیلنج سے نمٹنے کی حکمت عملی کیا ہے؟ یہ بھی فرمائیں کہ عالمی برادری اس معاملے میں ہمیں کس حد تک حمایت دے رہی ہے؟
شاہ محمود قریشی: آپ کے سوال کا تفصیلی جواب تو حکومت کے اب تک کیے جانے والے اقدامات سے ہی آپ کو مل رہا ہے، مسلم دنیا کے علاوہ دنیا بھر کے اہم ممالک سے رابطے کیے گئے ہیں، اور ہمیں یہی جواب ملا کہ کشمیر ایک متنازع مسئلہ ہے، اسے انصاف کے ساتھ حل ہونا چاہیے کہ کشمیری عوام بھی اس حل پر مطمئن ہوں۔ جس حل پر کشمیری عوام مطمئن ہوں گے ہمیں بھی وہی حل قبول ہوگا۔ یہ بھی دیکھیے کہ اس وقت پہلی بار مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اٹھایا گیا ہے، جنیوا میں اقوامِ متحدہ کے دفتر میں اس مسئلے پر ہم اپنی بات کریں گے۔ مسلم دنیا میں خلیجی ممالک ہمارے ساتھ کھڑے ہیں، اور یورپ کو بھی یہ مسئلہ حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کو عالمی سطح پر ایک اور بڑی سفارتی کامیابی حاصل ہوئی ہے، امریکی کانگریس کی خارجہ امور کی ذیلی کمیٹی میں مسئلہ کشمیر اٹھانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ امریکی ایوانِ نمائندگان کی ایشیا ذیلی کمیٹی جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق کی صورت حال پر جلد سماعت کرے گی، جس میں کشمیر میں جاری انسانی بحران پر توجہ مرکوز ہوگی۔ امریکی ایوانِ نمائندگان کی ایشیا ذیلی کمیٹی کے ڈیموکریٹ چیئرمین بریڈ شرمن نے کمیٹی کا خود اجلاس بلایا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی سفاکی نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے پوری قوت کے ساتھ کشمیر ایشو عالمی برادری کے سامنے لانے کی کوشش کی گئی جس کے باعث سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا، جس میں پاکستان کے مؤقف کی متفقہ طور پر حمایت کی گئی۔ او آئی سی کشمیریوں کے حوالے سے تشویش کا اعادہ کررہی ہے، امریکہ کی خارجہ کمیٹی اور یورپی پارلیمان میں کشمیر ایشو کو پاکستان کی فعال سفارت کاری کے باعث ہی زیر بحث لایا جارہا ہے۔ وادی میں بھارتی فورسز نسل کُشی پر تلی ہوئی ہیں۔ عالمی تنظیم جینو سائڈ واچ نے شواہد کے ساتھ نسل کُشی کی بھارتی سازش بے نقاب کی ہے، اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے بھی کہا ہے کہ مودی سرکار کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کُشی کی اطلاعات سے دنیا بھر میں خطرے کی گھٹیاں بج اٹھنی چاہئیں۔
کشمیر پر غیر قانونی قبضہ مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی سازش ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: متعدد خلیجی ملکوں نے تو اپنا مفاد دیکھا ہے؟
شاہ محمود قریشی: میں پھر کہتا ہوں کہ خلیجی ممالک ہمارے ساتھ کھڑے ہیں اور کھڑے ہوں گے، وقت ثابت کرے گا کہ خلیجی ممالک ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ بھارت کشمیر میں روا رکھے جانے والے ظلم کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہورہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کشمیری عوام کو ان کے انسانی حقوق مل جائیں اور ان کے حقوق کا احترام کیا جائے۔
فرائیڈے اسپیشل: ہماری حکمت عملی کیا ہے، اس پر کچھ فرمائیے؟
شاہ محمود قریشی: پاکستان ہرفورم پرکشمیرکا مقدمہ بہترین طریقے سے لڑ رہا ہے۔ بھارت کی کشمیر سے متعلق نیت ٹھیک نہیں ہے۔ بھارت نے 28 دن سے مقبوضہ کشمیر کو جیل بنا کر رکھا ہوا ہے، وہاں اہم حریت رہنما نظربند ہیں اور بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہورہا ہے۔ ایران، ترکی اور دیگرممالک نے بھارت کے خلاف آواز اٹھائی، انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارت کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ یہی ہماری کامیابی ہے کہ عالمی تنظیموں میں بھارت کا کیس کمزور ہے، اس نے واقعی مقبوضہ کشمیرکے لوگوں کی زندگی تنگ کردی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: بھارت کیا چاہتا ہے؟
شاہ محمود قریشی: بھارت ظلم وجبرسے کشمیریوں کی آزادی کو دبانا چاہتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا یہ ممکن ہوگا کہ مستقبل میں کسی وقت پاک بھارت مذاکرات ہوجائیں، یا یہ معاملہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی حل ہو؟
شاہ محمود قریشی: پاکستان ہر وقت یہ معاملہ حل کرنے کی ہر کوشش کا احترام کرنے کو تیار ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا مقبوضہ کشمیر پر بیان واضح اور جامع ہے۔ بعض شرائط کو پورا کرنے کی صورت میں ہم مسئلہ کشمیر پر نئی دہلی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کرسکتے ہیں۔ پاکستان کو بھارت کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات پر کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے، اور تیسرے ثالث فریق کا بھی ہم خیرمقدم کریں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: ایسی صورت حال میں جب کہ کشمیری عوام پر زندگی تنگ کی جارہی ہے، کیا بات چیت کے لیے ماحول بن سکتا ہے؟
شاہ محمود قریشی: بھارتی حکومت کی جانب سے بعض شرائط کو پورا کرنے کی صورت میں نئی دہلی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات ممکن ہیں۔ بھارت نے تقریباً 4 ہفتوں سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کیا ہوا ہے۔ کرفیو ختم کیے جانے، زیر حراست کشمیری لیڈروں کی رہائی اور مجھے اُن سے ملاقات کی اجازت دئیے جانے کی صورت میں مسئلہ کشمیر پر مذاکرات شروع ہوجائیں گے۔ پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی خواہش کا اعادہ کرنے کے باوجود بھارت خاص طور پر کشمیر کے موضوع پر ڈائیلاگ کی میز پر آنے سے گریز کررہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین جنگ ہوسکتی ہے۔ ایک وفاقی وزیر تو کہہ رہے ہیں کہ وہ جنگ ہوتی ہوئی دیکھ رہے ہیں، تو کیا آپ بھی ایسے حالات دیکھ رہے ہیں؟
شاہ محمود قریشی: کوئی باشعور شخص جنگ کی خواہش نہیں کرسکتا، لیکن اگر جنگ مسلط کی جاتی ہے تو پاک فوج اور عوام دفاع کرنا جانتے ہیں۔ ہم بھارت کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے، لیکن اس کے باوجود اگر ہمیں مجبور کیا گیا تو ہماری مسلح فورسز جوابی کارروائی کے لیے تیار حالت میں ہیں۔ بھارت نے 5 اگست کو نصف صدی سے کشمیریوں کی امتیازی حیثیت پر مبنی آئینی شق 370 کو منسوخ کرکے جموں وکشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ تاریخ میں ایسے بلیک آؤٹ کی مثال نہیں ملتی جیسا مقبوضہ کشمیر میں ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں نہتے لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، نوجوانوں کو گرفتار کرکے ان پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے اسلامک کمیونٹی فار نارتھ امریکہ سے درخواست کی کہ وہاں کے لوگ کشمیریوں کے حق کے لیے آواز بلند کریں۔ کشمیریوں کے ساتھ ناانصافی اور ظلم ہورہا ہے۔ مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کے حقوق پامال ہورہے ہیں۔ آج ہٹلر کی سوچ مودی کی صورت میں برصغیر پر مسلط کی جارہی ہے۔ ہر کسی کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ بھارت خود کو جمہوری ملک کہتا ہے، لیکن وہاں میڈیا پر شدید پابندی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن اس معاملے میں ایک پیج پر ہیں؟
شاہ محمود قریشی:کشمیر کے معاملے پر اپوزیشن نے اسمبلی کی حد تک ہماری قرارداد پر ساتھ دیا، اگر ریلی میں اپوزیشن کا چہرہ دکھائی دیتا تو کشمیریوں کو اچھا پیغام جاتا۔ اپوزیشن اگر کشمیر آور میں شرکت نہ کرسکی تو آئندہ ریلیوں میں شرکت کرے۔ پاکستان کی طرف سے کشمیر ایشو پر عالمی برادری کو متحرک کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جارہی۔ اپوزیشن کو سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھ کر کشمیر ایشو کے یک نکاتی ایجنڈے پر حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے اس کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں۔ مسئلہ کشمیر اور بھارتی مظالم کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے حکومت نے انٹرنیشنل ڈپلومیٹک کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے، اس کانفرنس کا انعقاد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل ہوگا جس کے اختتامی سیشن سے وزیراعظم عمران خان خطاب کریں گے۔ کانفرنس میں برطانوی اور یورپی پارلیمنٹ کے کشمیر کاز پر متحرک اراکین کو بھی مدعو کیا جائے گا، جب کہ کانفرنس میں پاکستان کے اندر موجود سفارت کاروں کو بھی بلایا جائے گا تاکہ انسانی بحران پر بات ہوسکے۔
فرائیڈے اسپیشل: دفتر خارجہ میں کشمیر سیل بنایا جارہا ہے۔ کب تک یہ کام ہوجائے گا اور یہ سیل کیا کرے گا؟
شاہ محمود قریشی: کشمیر سیل اپنی تجاویز مرتب کرے گا جن پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان امریکہ جائیں گے جہاں ان کی بہت سی مصروفیات ہوں گی، وہ مختلف ممالک کے سربراہان سے ملاقات کریں گے۔ وزیراعظم 27 ستمبر کو کشمیریوں کا مقدمہ اقوام متحدہ میں سب کے سامنے پیش کریں گے۔ اگلے مرحلے میں سلامتی کونسل، یورپی پارلیمنٹ میں جائیں گے اور جنیوا میں ہیومن رائٹس کمیشن کے سامنے کشمیر کا معاملہ رکھیں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: بھارت کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات اس وقت کشیدہ ہیں۔ کیا کوئی ایسا بھی سرکل ہے جہاں دونوں ملک بات چیت کررہے ہیں؟ کیا کرتارپور راہداری پر بات چیت ہورہی ہے؟
شاہ محمود قریشی:کرتارپور راہداری کا 80 فیصد سے زائد کام مکمل ہوچکا ہے۔ بابا گرو نانک کے جنم دن پر سکھ کمیونٹی کو خوش آمدید کہیں گے۔ کرتارپور راہداری کھولنے کے معاملے پر پاکستان کی اعلیٰ مذاکرات کی پیشکش بھارت نے قبول کرلی۔ یہ مذاکرات4 ستمبر کو ہوں گے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین یہ اعلیٰ سطحی مذاکرات کا تیسرا دور ہو گا۔ مذاکرات واہگہ، اٹاری سرحد پر بھارتی علاقے میں ہونا طے پائے ہیں۔ مذاکرات میں پاکستان کی مخلصانہ کوشش ہے کہ حتمی مسودے پر اتفاقِ رائے طے پا جائے۔