وفیات مشاہیر لاہور

کتاب : وفیات مشاہیر ِ لاہور
مؤلف : ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ
ضخامت : 430 بڑے صفحات+ 24 رنگین گلیز پیپر پر تصاویر
قیمت : 3500 روپے
ناشر : قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل
بینک اسٹاپ، والٹن روڈ، لاہور چھائونی
فون : 03000515101-03234393422
qalamfourdation3@gmail.com :برقی پتا

ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ پیشے کے لحاظ سے طبیب اور ماہر طبی نفسیات ہیں، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کے بعد طبی نفسیات (سائیکاٹری) میں ایم سی پی ایس اور ایف سی پی ایس کے اسناد یافتہ بھی ہیں، مگر وفیات نگاری کے نسبتاً غیر معروف شعبے میں تحقیق و جستجو اور تصنیف و تالیف میں اس قدر محنت اور لگن سے کام کیا ہے کہ یہ شعبہ ان کی شناخت قرار پایا ہے۔ تاہم ان کا اعزاز یہ بھی ہے کہ طب کے علاوہ اردو اور پنجابی میں ایم اے کی اسناد کے حامل بھی ہیں۔
وفیات نگاری پر کام کا آغاز ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ نے گجرات سے کیا۔ مجموعی طور پر اب تک ان کی ایک درجن کے قریب کتب چھپ چکی ہیں۔ ان کی پہلی کتاب ’’ففتگان خاک گجرات‘‘ کے نام سے 1996ء میں شائع ہوئی، گجرات ہی کے حوالے سے ان کی ایک اور کتاب ’’اقبال اور گجرات‘‘ بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ ’’وفیات نامورانِ پاکستان‘‘ قیام پاکستان 14 اگست 1947ء سے 31 دسمبر 2004ء تک کے دوران وفات پانے والی معروف پاکستانی شخصیات کے مختصر کوائف پر مشتمل ہے، جب کہ ’’وفیات اہلِ قلم‘‘ میں 14 اگست 1947ء سے 14 اگست 2007ء تک کے ساٹھ برس میں انتقال کر جانے والے 4200 صاحبانِ قلم کے حالات و خدمات کا تذکرہ ہے۔ اسلام آباد کے مختلف قبرستانوں میں دفن پانچ سو اہم افراد کے حالات اور کتباتِ قبور کی تفصیل 2012ء میں شائع ہونے والی ان کی کتاب ’’تنہائیاں بولتی ہیں‘‘ میں شامل ہے۔ ملک کے قابلِ ذکر نعت گو حضرات کے احوال 2015ء میں کراچی سے چھپنے والی ڈاکٹر صاحب کی کتاب ’’وفیات نعت گویانِ پاکستان‘‘ میں شائع کیے گئے ہیں۔ کراچی ہی سے 2016ء میں 2600 اہم افراد کے تذکرے پر مشتمل ’’وفیات مشاہیرِ کراچی‘‘ شائع ہوئی۔ تین ہزار دو سو پاکستانی، اردو اہلِ قلم سے متعلق معلومات پر مبنی کتاب ’’بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ‘‘ 2018 ء میں چھپی۔ ان کے علاوہ ’’خفتگان خاک راولپنڈی‘‘، ’’وفیات مشاہیرِ خیبر پختون خوا‘‘ اور ’’وفیات علماء پاکستان‘‘ بھی ڈاکٹر منیر احمد سلیچ کی تحقیق و جستجو کے نچوڑ پر مبنی تازہ تصنیفات ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی کتب کی یہ فہرست دیکھنے کے بعد بخوبی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وفیات کو ان کی تحقیق میں تخصص کا درجہ حاصل ہے، اور ان کا اس شعبے میں مقام بھی منفرد ہے، تاہم ان کا کام کسی ایک شہر یا علاقے تک محدود نہیں بلکہ ان کی تحقیق کا دائرہ پورے پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔ اسی طرح یہ تحقیق کسی ایک خاص شعبے کی حدود کی بھی پابند نہیں، بلکہ ہر شعبۂ زندگی اس کی وسعت میں شامل ہے۔ ظاہر ہے اس کام کے لیے شب و روز کی جس محنت اور عرق ریزی کی ضرورت ہے وہ ہر کسی کے بس میں نہیں۔
یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ اہلِ علم و فضل نے ڈاکٹر منیر احمد سلیچ کی زبردست پذیرائی کی ہے اور ان کی تحقیق اور معیارِ تحقیق کی داد دہی میں کسی بخل سے کام نہیں لیا، چنانچہ زیرنظر کتاب ’’وفیات مشاہیرِ لاہور‘‘ کا ابتدائیہ اکادمی ادبیات پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر راشد حمید نے ’’وفیات نگاری کی نئی منزل‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا ہے، جس کے آخری پیراگراف میں وہ شاندار الفاظ میں مؤلف کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اردو زبان کی وقعت بڑھانے کے لیے جو خدمت ڈاکٹر صاحب انجام دے رہے ہیں اسے پاکستان کی علمی، ادبی اور تحقیقی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کا خیال آتے ہی ایک نام آنکھوں کے سامنے جھلملانے لگتا ہے اور وہ ہے ’’ڈاکٹر آف وفیات نگاری‘‘۔ اہلِ لاہور کو مبارک ہو کہ ڈاکٹر سلیچ نے لاہور کے مشاہیر کو وفیات نگاری کا موضوع بنا کر اپنے رہوارِ قلم کو ادھر کا راستہ دکھایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے جس نفاست اور باریک بینی سے اندراجات کی چھان پھٹک کی ہے، اس نے کتاب کی حوالہ جاتی حیثیت کو اور بھی وقیع بنادیا ہے۔ کتاب کو سرسری طور پر بھی دیکھیں تو مواد میں جامعیت، اختصار، توازن اور اعتدال کی بڑی عمدہ مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ ڈاکٹر صاحب کا تحقیقی سفر بلندی سے عروج کی جانب جاری رہے گا اور اردو کی ثروت مندی میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہوتی رہے گی۔‘‘
کتاب کے فلیپ پر ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر وحید قریشی، مختار مسعود، ڈاکٹر انور سدید، مشفق خواجہ، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، احمد سلیم، اور افتخار عارف جیسی نابغۂ روزگار شخصیات کی ڈاکٹر منیر سلیچ کی مختلف کتب کے بارے میں مختصر آرا درج ہیں جن میں سب نقادانِ ادب نے ان کی محنت، لگن، سلیقہ شعاری، اندازِ تحقیق اور غیر معمولی صلاحیتوں کا کھل کر اعتراف کیا ہے… ڈاکٹر منیر احمد سلیچ کی اوّلین تالیف ’’خفتگانِ خاکِ گجرات‘‘ کے بارے میں ڈاکٹر وحید قریشی نے ان الفاظ میں رائے دی ہے: ’’آپ جس محنت اور جانفشانی سے کام کرتے ہیں، اردو ادب کے محققین اس سے محروم ہوتے جارہے ہیں‘‘۔ اسی کتاب کے متعلق مختار مسعود مرحوم کا یہ جملہ قابلِ توجہ ہے: ’’آپ کی محنت کے سبب کچھ مرنے والوں کو دوبارہ زندگی مل گئی ہے، مسیحائی آپ کا پیشہ بھی تو ہے!‘‘ ڈاکٹر انورسدید کا اعتراف کچھ یوں ہے: ’’بلاشبہ ڈاکٹر منیر احمد سلیچ اُن نوجوانوں میں سے ہیں جو ستاروں پہ کمند ڈالتے ہیں اور اپنے لیے مستقل محبت کے اسباب پیدا کرلیتے ہیں۔ میں ان کی محنت کا معترف ہوں‘‘۔ ’’اقبال اور گجرات‘‘ کی پذیرائی کرتے ہوئے مرحوم مشفق خواجہ یوں رقم طراز ہیں: ’’آپ نے جس انہماک اور محنت سے یہ کام انجام دیا ہے اس پر حیرت ہے، کسی ڈاکٹر سے ایسی اعلیٰ پائے کی ادبی تحقیق کی توقع نہیں ہوسکتی۔ آپ نے موضوع کا حق پوری طرح ادا کیا ہے اور کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا۔ اقبال اور گجرات کے حوالے سے آپ نے قابلِ قدر معلومات فراہم کی ہیں۔‘‘
جو شخص خود محنت اور لگن سے حقائق کی تہ تک پہنچنے کا خوگر ہو اُسے دوسرے لوگوں کی جانب سے اس ضمن میں روا رکھی گئی لاپروائی اور غفلت پر یقینا بہت قلق اور ذہنی اذیت محسوس ہوتی ہے۔ ڈاکٹر منیر سلیچ نے ’’وفیات مشاہیرِ لاہور‘‘ سے قبل اس موضوع پر شائع ہونے والی پانچ کتب میں اس تساہل پر شدید اندرونی کرب کا اظہار کیا ہے اور ان پانچوں کتب کا بائیس صفحات پر مشتمل نہایت تفصیل اور عرق ریزی سے تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ ’’وفیات مشاہیرِ لاہور‘‘ کو ڈاکٹر صاحب نے بڑی حد تک ان غلطیوں سے پاک رکھنے کی کوشش کی ہے، تاہم کہیں کہیں بعض چیزیں یہاں بھی کھٹکتی ہیں اور اصلاح یا وضاحت طلب ہیں، مثلاً صفحہ نمبر 315 پر جواں مرگ صحافی، شاعر و ادیب لیاقت قریشی کا تذکرہ ہے، وہ کراچی میں پیدا ہوئے، وہیں مدفون ہیں، اور وہیں تمام عمر گزاری، ’’مشاہیرِ لاہور‘‘ میں ان کو شامل کیے جانے کی وجہ سمجھ میں نہیں آسکی۔ صفحہ 317 پر مجید لاہوری، اور حبیب چونیوری، یا صفحہ نمبر 320 پر نواب محمد احمد خاں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اس طرح صفحہ 318 پر محرم شاہ نظامی اور صفحہ 325 پر پیر خواجہ محمد اقبال سے متعلق معلومات کے مآخذ میں صرف ’’قصوری‘‘درج ہے۔ بہت سی جگہوں پر مآخذ کے طور پر مخضفات مثلاً واپ، پ ک ت ا، خ خ ل اور دم پ وغیرہ تحریر کیا گیا ہے جنہیں سمجھنے میں بھی قاری کو مشکل پیش آتی ہے۔ اسی طرح باریک بینی سے مطالعے کے بعد بعض دیگر تسامحات کی نشاندہی بھی کی جا سکتی ہے۔ بہرحال کتاب اپنے موضوع پر نہایت قیمتی معلومات کی حامل قابلِ قدردستاویز ہے۔ کتاب کے آخر میں 24 رنگین صفحات پر کم و بیش چھ سو مشاہیر کی تصاویر بھی شائع کی گئی ہیں۔ اردو، پنجابی اور انگریزی کی 231 کتب، 103 اخبارات اور رسائل و جرائد، اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اردو کے ایم فل کی سطح کے نو غیر مطبوعہ مقالات کے حوالہ جات بھی شامل ہیں۔ ان سب باتوں نے کتاب کی قدرو قیمت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
کتاب کی قیمت ساڑھے تین ہزار روپے بظاہر زیادہ محسوس ہوتی ہے، مگر کتاب کے بڑے سائز، اعلیٰ کاغذ، معیاری طباعت، مشاہیر کی رنگین تصاویر، مضبوط جلد، اور سب سے بڑھ کر مؤلف کی تحقیق و جستجو میں کی گئی محنت و کاوش کے پیش نظر اس قیمت کا جواز موجود ہے۔