جدید مغربی دنیا پرمسلمانوں کے علمی احسانات

کتاب : جدید مغربی دنیا پرمسلمانوں کے علمی احسانات
مصنف : شاہنواز فاروقی
صفحات : 40 قیمت:60 روپے
ناشر : جسارت پبلی کیشن
جمعیت الفلاح بلڈنگ، اکبر روڈصدر، کراچی
فون : 021-32777060-3
jasaratpublication@jasarat.com : ای میل
www.jasarat.com : ویب سائٹ

معروف صحافی اور کالم نگار شاہنواز فاروقی کا یہ کتابچہ درحقیقت ایک تحقیقی مقالہ ہے جسے مغرب پرستوں اور مغرب کی چکا چوند سے مرعوب ہونے والوں کے لیے ایک آئینہ کہا جانا چاہیے۔ علامہ اقبالؒ نے تو بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ ’’یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے‘‘۔ انہوں نے مغرب کو بہت قریب سے دیکھا تھا، چنانچہ جسے تہذیبِ حاضر کہا جاتا ہے وہ اُن کی نظروں کو خیرہ نہیں کرسکی۔ اس کی بنیادی وجہ انہی کے الفاظ میں ’’سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف‘‘۔ لیکن جن کے دیدوں کا پانی ہی ڈھل گیا ہے انہیں کچھ نظر نہیں آتا، چنانچہ تمام تر حقائق سامنے لانے کے باوجود مغرب پرستوں کی ہٹ دھرمی اپنی جگہ رہے گی۔
دراصل شاہنواز فاروقی کا یہ مقالہ وقت کا تقاضہ ہے تاکہ کم از کم نوجوان نسل کو تو مغرب کی مرعوبیت کے فریب سے بچایا جاسکے۔ وہ جو نام نہاد دانشور ہیں اُن کی تو پوری کوشش ہے کہ یورپ و امریکا کی بالادستی امتِ مسلمہ پر ثابت کرکے رہیں۔ ایسی صورتِ حال میں مغربی دنیا پر مسلمانوں کے علمی احسانات کا بار بار اور مستحکم دلائل کے ساتھ ذکر کیا جائے۔ بقول شاہنواز فاروقی ’’مسلم دنیا میں مغرب سے مرعوبیت ایک روحانی، نفسیاتی، ذہنی، علمی، تہذیبی اور تاریخی بیماری کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس بیماری نے مسلمانوں کے اجتماعی وجود کو ڈیڑھ سو سال سے ریزہ ریزہ کیا ہوا ہے۔ کروڑوں مسلمانوں کو خود میں کوئی ہنر اور مغرب میں کوئی عیب نظر نہیں آتا۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب آج جو کچھ بھی ہے مسلمانوں کا رہینِ منت ہے‘‘۔
اور یہ محض دعویٰ نہیں ہے بلکہ مغرب ہی کے دو دانشوروں کی تصانیف کے حوالے سے ثابت کیا گیا ہے کہ مسلمان اور ان کی تہذیب نہ ہوتی تو مغرب مغرب نہیں بن سکتا تھا۔ لیکن جن نام نہاد پاکستانی دانشوروں کا مطالعہ محدود ہے وہ مرعوبیت کے بھنور سے باہر نکلنے پر تیار نہیں، اور طنز کرنے پر اُتر آتے ہیں کہ ہمارے کچھ ایسے نابغۂ روزگار لوگ موجود ہیں جو ہر ایجاد یا ہر دریافت کے بعد کوئی حوالہ ڈھونڈ لاتے ہیں کہ قرطبہ، طلیطلہ یا پھر اشبیلیہ کی فلاں یونیورسٹی میں فلاں ابنِ فلاں نے یہ نظریہ کئی سو سال پہلے پیش کردیا تھا۔ ایسے لوگوں کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی قوم کو گمراہ کرنے سے باز رہیں۔ انہیں چاہیے کہ مذکورہ مقالے میں موجود مغرب کے دانشوروں کی تحقیقات ہی پڑھ لیں تو ان کی اپنی مرعوبیت بھی کچھ کم ہوجائے گی، ختم ہونے کا امکان کم ہے۔ ستم یہ ہے کہ ایسے لوگ ذرائع ابلاغ پر قابض ہوکر دوسروں کو بھی مغرب کی ذہنی غلامی میں مبتلا کررہے ہیں۔ یہ مرعوبیت شاہنواز فاروقی کے بقول ایک نفسیاتی عارضہ بھی ہے۔
1927ء میں نامور نومسلم اور دانشور علامہ محمد اسد نے اپنی معروف تصنیف ROAD TO MACCA (شاہراہ مکہ) میں لکھا ہے ’’مغربی تہذیب کی نقالی کرنے والے مسلمان مرد اور عورتیں اپنے سماج کا ارتقا روز بروز مسدود کرتے جارہے ہیں اور نہیں جانتے کہ جو سماج آزادانہ خلاقی کے بجائے دوسروں کی نقالی اختیار کرلے اس کی جوئے باد زندگی کا کم آب ہوجانا یقینی ہے‘‘۔ علامہ محمد اسد کی زندگی یورپ ہی میں گزری۔ انہوں نے بہت پہلے یہ نکتہ سمجھ لیا تھا کہ مغرب کی نقالی کتنی نقصان دہ ہے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ ’’کون نہیں جانتا کہ ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب مسلمانوں کی تہذیب یورپ کی تہذیب سے کئی گنا اعلیٰ، ارفع اور طاقت ور تھی۔ مسلمان اہلِ علم نے متعدد انقلابی قسم کی مشینی ایجادات ساری دنیا کو اور اس کے ساتھ ساتھ یورپ کو بھی عطا کیں۔ مزید برآں انہوں نے یورپ کو پہلی دفعہ ان بنیادی اصولوں کے علم سے فیض یاب کیا جو بعد میں اہلِ مغرب کے ہاں ان کے ’’جدید سائنٹفک طریق کار‘‘ اور جدید تہذیب و ثقافت کی اساس قرار پائے۔ دنیا جانتی ہے کہ موجودہ علم کیمیا کے بنیادی اصول مشہور مسلم سائنسدان جابر بن حیان کے ذہنی اکتشافات کے مرہون منت ہیں۔ الجبرا اور مساحت کے علوم الخوارزمی اور البتّانی نے ایجاد کیے‘‘۔ یہ باتیں 1927ء میں لکھی گئیں، مگر اُس وقت ہمارے موجودہ دانشوروں میں سے کوئی ہوتا تو علامہ محمد اسد پر طنز کرنے سے باز نہ آتا، یا شاید اس کی ہمت نہ کرسکتا کہ یہ ایک یورپی عالم کے نظریات ہیں۔
مغرب سے مرعوب ہونے والے اس پر بھی طنز کرتے ہیں کہ جب یورپ میں فلاں یونیورسٹی تعمیر ہورہی تھی اور علوم کا دائرہ وسیع ہورہا تھا تو برعظیم پاک و ہند میں تاج محل تعمیر ہورہا تھا، لال قلعہ بن رہا تھا۔ عقل کے ان اندھوں کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ پورے برعظیم میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے کہیں زیادہ بڑی اور عظیم الشان جامعات کا جال پھیلا ہوا تھا، جہاں سے فارغ ہونے والے افراد ہی حکومتیں چلاتے تھے اور ان میں ماہر انجینئر بھی تھے، اطبا بھی تھے اور ہر طرح کے علوم کے ماہر بھی تھے۔ برطانوی تسلط سے پہلے یہاں کا نظام کون چلا رہا تھا؟ لیکن انگریزوں نے قبضہ کرکے سب سے پہلے علوم کے ان مراکز کو تباہ کیا اور انگریزی زبان مسلط کی۔ وہ انگریزی آج بھی ذہنوں پر مسلط ہے، جو آج بھی پوچھتے ہیں کہ ’’تم مغرب کے مقابلے پر کیا ہو؟‘‘ لیکن کبھی مغرب کے لوگ علم حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کی جامعات کا رُخ کرتے تھے۔ جو قوم ذہنی طور پر مفتوح اور مغلوب ہوجائے وہ جیتے جی مرجاتی ہے۔ اگر مغرب سائنس و ٹیکنالوجی میں آج آگے ہے تو اس سے استفادہ کرنے میں اسی طرح کوئی ہرج نہیں جس طرح کبھی یورپ نے استفادہ کیا۔ تمام علمی کارنامے بنی نوع انسان کی مشترکہ میراث ہیں۔ لیکن مغربی طرزِ زندگی، مغرب کے عقائد و نظریات کی نقالی سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ شاہنواز فاروقی کے اس مقالے کے زیادہ سے زیادہ ابلاغ کی ضرورت ہے۔ پبلشر کی طرف سے اس کی طباعت و اشاعت پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔