کلامِ نبوی ؐکی کرنیں

حضرت ابراہیمؑ کی دعا

جب بڑھاپے میں رب کریم نے حضرت ابراہیمؑ کو حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیلؑ جیسے فرزند عطا کیے تو انہوں نے یہ دعا کی اور پھر ان کی دعا یوں قبول ہوئی کہ ان کی یہ دعا قیامت تک ہر مومن کی نماز کا مستقل حصہ بنادی گئی۔
’’اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا، اور میری اولاد سے بھی ایسے لوگ اٹھا جو یہ کام کریں، پروردگار! میری دعا قبول کر، پروردگار! میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اُس دن معاف کردینا جب کہ حساب قائم ہوگا‘‘۔
۔(ابراہیم: 40، 41)۔

مولانا عبدالمالک
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب فرمایا، اس میں فرمایا کہ جھنڈا زید نے لیا پھر جامِ شہادت نوش کرلیا، پھر جھنڈا جعفر نے پکڑا اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ اس کے بعد عبداللہ بن رواحہ نے پکڑا تو وہ بھی شہید ہوگئے۔ پھر خالد بن ولید نے جھنڈا لے لیا بغیر اس کے کہ اسے مقرر کیا گیا ہو۔ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں مذکورہ صحابہ کرامؓ زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ کو امیر مقرر کیا تھا، تینوں شہید ہوگئے تو خالد بن ولیدؓ نے ہنگامی بنیادوں پر جھنڈا پکڑ لیا۔جھنڈا فوج کی کمان کرنے والے کے پاس ہوتا تھا اور اسی کو سربراہ اور امیر سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ صحابہؓ نے ان کو اپنا امیر سمجھ کر ان کی قیادت میں جنگ کی اور جنگ جیت لی) اور فتح پائی۔ (بخاری، کتاب الجہاد)
یہ غزوہ موتہ کا واقعہ ہے۔ 3ہزار کی تعداد میں صحابہ کرامؓ تھے اور قیصر روم کی ایک لاکھ فوج تھی۔ 3ہزار کی فوج نے ایک لاکھ کا مقابلہ کیا۔ ایک اور 33 کی نسبت تھی۔ مسلمانوں نے اپنی قلتِ تعداد کے باوجود دوردراز علاقے میں کفار کی فوجوں کا مقابلہ کیا اور انھیں شکست سے دوچار کیا۔ اس جنگ کا پس منظر یہ ہے کہ رومی سلطنت کے ساتھ کش مکش کی ابتدا فتح مکہ سے پہلے ہوچکی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد اسلام کی دعوت پھیلانے کے لیے جو وفود عرب کے مختلف خطوں میں بھیجے تھے، ان میں سے ایک وفد شمال کی طرف سرحد شام سے متصل قبائل میں بھی گیا تھا۔ یہ لوگ زیادہ تر عیسائی تھے اور رومی سلطنت کے زیراثر تھے۔ ان لوگوں نے ذات الطلع یا ذات اطلاع کے مقام پر اس وفد کے 51آدمیوں کو قتل کردیا، اور صرف امیرِ وفد کعب بن عمیر غفاری بچ کر واپس آئے۔ اسی زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بصرہ کے رئیس شرحبیل بن عمرو کے نام بھی دعوتِ اسلام کا پیغام بھیجا تھا، مگر اس نے آپؐ کے ایلچی حارث بن عمیر کو قتل کردیا۔ یہ رئیس بھی عیسائی تھا اور براہِ راست قیصرروم کے احکام کا تابع تھا۔ ان وجوہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمادی الاولیٰ 8ہجری میں تین ہزار مجاہدین کی ایک فوج سرحد شام کی طرف بھیجی تاکہ آئندہ کے لیے یہ علاقہ مسلمانوں کے لیے پُرامن ہوجائے اور یہاں کے لوگ مسلمانوں کو بے زور سمجھ کر ان پر زیادتی کرنے کی جرأت نہ کریں۔ یہ فوج جب ہان کے قریب پہنچی تو معلوم ہوا کہ شرحبیل بن عمرو ایک لاکھ کا لشکر لے کر مقابلے پر آرہا ہے۔ خود قیصرروم مقامِ حمص پر موجود ہے اور اس نے اپنے بھائی تھیوڈور کی قیادت میں ایک لاکھ کی مزید فوج روانہ کی ہے۔ لیکن ان خوف ناک اطلاعات کے باوجود تین ہزار سرفروشوں کا یہ مختصر دستہ آگے بڑھتا چلا گیا اور موتہ کے مقام پر شرحبیل کی ایک لاکھ فوج سے جاٹکرایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ مجاہدینِ اسلام بالکل پس جاتے، لیکن سارا عرب اور تمام شرقِ اوسط یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ ایک اور 33 کے اس مقابلے میں بھی کفار مسلمانوں پر غالب نہ آسکے۔ یہی چیز تھی جس نے شام اور اس سے متصل رہنے والے نیم آزاد عربی قبائل کو، بلکہ عراق کے قریب رہنے والے نجدی قبائل کو بھی جو کسریٰ کے زیراثر تھے، اسلام کی طرف متوجہ کردیا اور وہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان ہوگئے (بحوالہ تفہیم القرآن، سورۂ توبہ)۔ آج بھی اس تاریخ کو دہرایا جاسکتا ہے، مسلمان اپنی قلتِ تعداد اور فوج اور اسلحہ اور ٹیکنالوجی میں کفار سے کم تر ہونے کے باوجود اُن کو پسپا کرسکتے ہیں بشرطیکہ ان میں اسی طرح کی جاں سپاری، سرفروشی، جرأت اور بہادری ہو، اور وہ کفار سے مرعوب ہونے کے بجائے مرعوب کرنے والے ہوں۔ لیکن آج تو صورتِ حال یہ ہے کہ مسلمان حکمران کفار کے لیے نرم چارہ بن چکے ہیں اور ان کے سامنے جھک کر، تابع فرمان بن کر زندگی گزارنے کو اپنی زندگی کا سامان سمجھتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی قیادت آگے آئے جو صحابہ کرامؓ کے جذبۂ ایمان اور شوقِ شہادت کو زندہ کرنے والی ہو اور زمین پر اللہ تعالیٰ کی حکمرانی قائم کردینے کا مشن رکھتی ہو۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے ایک درجہ تواضع کرے اللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ اُونچا کرتے ہیں اور اس کو اتنا اُونچا کرتے ہیں کہ وہ علیین تک پہنچ جاتا ہے، اور جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں تکبر کرے اللہ تعالیٰ اسے اسفل السافلین تک پہنچا رہے ہیں۔ (مسند احمد)۔
اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنا، اس کے احکام کے سامنے سرِتسلیم خم کرلینا عزت و رفعت کا سامان ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ہم وہ قوم ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بدولت عزت دی ہے، جب ہم اسلام کے سوا کسی اور چیز سے عزت طلب کریں گے تو اللہ ہمیں ذلیل کردے گا۔ آج مسلمان اللہ تعالیٰ کے دین کو چھوڑ کر پستی میں گر چکے ہیں۔ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا :

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

دین کو چھوڑنا اور لادینی نظاموں کو قبول کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں بڑا بننا ہے، جو اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’عظمت پر آزاری ہے اور بڑائی میری چادر ہے، جس نے میرے ساتھ ان کے معاملے میں کش مکش کی میں اسے ذلیل کروں گا‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین کے تابع کردے تاکہ ہماری ساری ذلتیں اور پستیاں ختم ہوجائیں اور ہم اس دنیا میں بھی سربلند اور آخرت میں بھی سرخرو اور کامیاب ہوجائیں۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ساتھ احسان کیا جائے تو وہ اس کا بدلہ دے۔ اگر بدلہ نہ دے سکے تو اس کا تذکرہ کرے۔ جس نے اس کا تذکرہ فرمایا تو اس نے اس کی شکرگزاری کردی۔ اور جو آدمی اپنے آپ کو سیر ظاہر کرے درآنحالیکہ وہ بھوکا ہو، اس کے پاس وہ چیز نہ ہو جسے وہ اپنے پاس ظاہر کر رہا ہے تو وہ جھوٹا لباس پہننے والے کی طرح ہے۔(مسند احمد)۔
بہت سے لوگ بھوکے ہوتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو سیر ظاہر کرتے ہیں، جاہل ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو عالم ظاہر کرتے ہیں، سیرت و کردار کے خام ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو متقی و پرہیزگار ظاہر کرتے ہیں۔ یہ دراصل نفاق میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ان کے ظاہر و باطن میں اختلاف ہے، اور جس کے ظاہروباطن میں اختلاف ہو وہ منافق ہوتا ہے۔ یہ جھوٹا لباس ہے۔اپنے آپ کو متقی اور پرہیزگار ظاہر کرنا درآنحالیکہ اس میں تقویٰ نہ ہو، ایسی بیماری ہے کہ اس کا جلداز جلد علاج کیا جائے، ورنہ نفاق کی بیماری بڑھ گئی تو وہ کینسر بھی بن سکتی ہے، جو لاعلاج بیماری ہے۔