مودی سے عرب حکمرانوں کا عشق

سارے ایوارڈز اپنے نام کرنے کی اس مہم کا مقصد پاکستان کے اس مؤقف کو کمزور کرنا ہے کہ نریندر مودی ایک قاتل، سفاک، فسطائی اور ہٹلر کا دوسرا جنم ہے

متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زید النہیان نے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو اپنے ملک کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ’’آرڈر آف زید‘‘ پہناتے ہوئے اعلان کیا کہ موجودہ حالات میں یہی وہ شخصیت تھی جو اس ایوارڈ کی مستحق تھی۔ متحدہ عرب امارات نے رواں برس اپریل میں نریندر مودی کو یہ ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا تھا، مگر ایوارڈ کی ٹائمنگ کو خاصا معنی خیز سمجھا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر امارات کے اس فیصلے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ حکومتِ پاکستان نے بھی’’ٹائمنگ‘‘ کی اس چٹکی کو محسوس کیا اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا پہلے سے طے شدہ دورۂ متحدہ عرب امارات اعلانیہ طور پر منسوخ کردیا۔ یہ آج کے دور کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا نظریاتی نہیں رہی بلکہ کلی طور پر مفاداتی ہوکر رہ گئی ہے۔ تجارت اور معاشی مفاد نے ہر انسانی جذبے اور جبلت پر غلبہ پالیا ہے۔ بالخصوص مسلمان دنیا کے بدن سے نظریات کا آخری قطرۂ خوں بھی نچوڑ دیا گیا۔ امتِ مسلمہ کا وجود محض عبادات اور کتابوں تک محدود کردیا گیا ہے۔ مسلمان دنیا میں احیاء کی تحریکوں کو پولیٹکل اسلام کا نام دے کر مطعون اور مصلوب ٹھیرایا گیا۔ خلافتِ عثمانیہ کا تیا پانچہ کرنے کے بعد مسلمانوں کو نیشنل اسٹیٹس میں بانٹ کر ان کی ذہنی کایا پلٹ دینے کا جو عمل شروع ہوا تھا وہ اب بام عروج پر ہے۔ فلسطین سرزمینِ انبیاء اور سفرِ معراج کا نقطۂ اوّل سورج کی مانند دھیرے دھیرے ڈوبتا چلا گیا اور عرب دنیا ’’غروبِ فلسطین‘‘ اور ’’سقوطِ القدس‘‘ کا بے رحمی اور ڈھٹائی سے نظارہ کرتی رہی، یہاں تک کہ اب مشرق وسطیٰ میں دو ریاستوں کا دھندلا سا تصور بھی معدوم ہوگیا۔ اب وہ سارا علاقہ اسرائیل ہے۔ جو آج کا اسرائیل نہیں وہ بھی آنے والے کل کا اسرائیل ہے۔ عرب دنیا نے اپنی کمزوری اور مصلحت سے اسرائیل کی صورت جو سنپولیا پالا تھا اب وہ سانپ بھی نہیں اژدھا بن کر بہت سے علاقوں کو نگل جانے کو تیار ہے۔ اب فلسطین کی لڑائی عرب دنیا کے گھر گھر میں پھیل چکی ہے اور خانہ جنگی کا بنجارہ ملکوں ملکوں اپنا سودا بیچتا جارہا ہے، اور عرب ملک ایک ایک کرکے یہ سودا خرید کر عدم استحکام کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔ خانہ جنگی کا شکار عرب ملکوں کے درمیان عافیت کا واحد جزیرہ اسرائیل ہے جو روز بروز عربوں کے انتشار کا خون پی کر تازہ وتوانا ہوتا جارہا ہے۔
غروب ِفلسطین کا نظارہ کرنے والوں سے مصر میں اخوان المسلمون کا اقتدار بمشکل سال بھر ہضم ہوپایا، کیونکہ اس میں انہیں پولیٹکل اسلام کی بو محسوس ہورہی تھی، اور اپنے پہلو میں یہ طرزِ سیاست اور حکومت، اور ایک دوسری نظریاتی ریاست کی موجودگی اسرائیل جیسی نظریاتی ریاست کو گوارا نہ تھی۔ اس سے تہذیبوں اور نظریات کا ایک ٹکرائو شروع ہوسکتا تھا جیسے کہ برصغیر میں پاکستان اور بھارت کی صورت میں 72 سال سے جاری ہے۔ اسرائیل کو اس مشکل سے نکالنے کے لیے محمد مرسی کے گرد سازشوں کا جال بُنا گیا اور ایک روز اُن کی حکومت برطرف کردی گئی۔ جب اخوان احتجاج کے لیے بیٹھے تو ایک رات جنرل عبدالفتاح السیسی کی حکومت نے سترہ سو انسانوں کو جن میں عورتیں، بوڑھے اور بچے بھی شامل تھے، اس بے دردی سے قتل کیا کہ خدا کی پناہ۔ اکثر بااثر عرب ملک سترہ سو معصوم انسانوں کے قتلِ عام پر حاصل ہونے والی اس ’’کامیابی‘‘ پر شاداں وفرحاں تھے، اور ایک غیر عرب ملک ترکی اس ظلم پر آنسو بہانے کو تنہا تھا۔ اس عرب دنیا سے کشمیر پر اصولوں اور نظریاتی بنیادوں کی حمایت خودفریبی کے سوا کچھ نہیں۔ اس رویّے پر تو گلے شکوے سے زیادہ اقبال کی زبان میں یہ پیغام دیا جا سکتا ہے ؎
تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
ہر ملک کو اپنے قومی مفادات کی بنیاد پر پالیسیاں تشکیل دینے کا حق ہوتا ہے۔ پاکستان نے بھی عرب ملکوں کے تنازعات میں اس اصول پر عمل کیا ہے۔ عراق کی دوسری جنگ ہو یا یمن کی خانہ جنگی، پاکستان نے اپنی فوج بھیجنے سے ہمیشہ انکار کیا ہے، البتہ سعودی عرب کی داخلی سلامتی کی حد تک پاکستان اپنا کردار ادا کرنے کو تیار رہتا ہے، اور اس کی وجہ بھی نظریاتی ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کے دومقدس ترین مقامات خانہ کعبہ اور روضۂ رسولؐ کی موجودگی پاکستان کو سعودی عرب کی داخلی سلامتی سے جوڑے رکھتی ہے۔ یمن میں فوج نہ بھیجنے کی یادیں شاید اب بھی عربوں کے لوحِ حافظہ پر تازہ ہیں، اور اسی لیے انہوں نے مودی کو ایوارڈ اور پذیرائی کے لیے اس موقع کا انتخاب کیا جب پاکستان مقبوضہ کشمیر کے حالات اور وہاں اس کے کردار کی بدولت مودی کو ہٹلر جیسا نسل پرست اور انسانیت کا دشمن ثابت کررہا ہے۔ ایسے میں متحدہ عرب امارات نے مودی کا یہ امیج بدلنے اور اس کی انسان دوست اور مسلمان دوست شبیہ بنانے کی کوشش کی۔ یہ پاکستان کے موجودہ بیانیے کو غیر مؤثر بنانے کی اپنی سی کوشش ہے۔ یوں بھی بھارت کے ساتھ عرب دنیا کے تعلقات ہمیشہ مثالی رہے ہیں، جبکہ پاکستان کے ساتھ تجارت اور تلور کی حد سے آگے نہیں بڑھے۔ پاکستان کو اپنی پالیسیوں کو مزید قومی مفاد سے ہم آہنگ کرنا چاہیے۔ اپنی قومی سلامتی اور سوشل اسٹرکچر کی قیمت پرکسی ملک کی مدد سے توبہ کرلینی چاہیے۔ عرب دنیا نے پہلو میں اسرائیل کے سانپ کو اژدھا بنادیا ہے، اب وہ جنوبی ایشیا میں بھارت کی صورت میں ایک اور سانپ پال رہے ہیں، اور دونوں کے مقاصد اور عزائم اپنی سرحدوںکے اندر تک محدود نہیں۔ عرب دنیا گریٹر اسرائیل اور مہا بھارت دونوں کے تصوراتی وجود کا لازمی حصہ ہے۔
متحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرف سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر اعلیٰ سویلین ایوارڈز کی برسات کیے جانے کے بعد پاکستان میں غصے اور ردعمل میں ایک بار پھر اسرائیل کو تسلیم کرکے عربوں کو سبق سکھانے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ سوشل میڈیا پر پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ عربوں کو چڑانے کے لیے ایران کے صدر حسن روحانی کو بلاکر پاکستان کا اعلیٰ اعزاز عطا کیا جانا چاہیے۔ متذکرہ بالا دو عرب ملکوں سے پہلے سعودی عرب بھی نریندر مودی کو اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نواز چکا ہے۔ نریند ر مودی عالمی دنیا کا ٹارزن اور مسیحا نہیں کہ جو مسلمان ملک اس پر اعزازات کی برسات کررہے ہیں، نہ وہ صلاح الدین ایوبی ہے جس نے مسلمانوں کی برتری اور بالادستی کا کوئی تاریخی معرکہ سر کیا ہے۔ آخر بھارت میں پہلے بھی کئی حکمران گزرے ہیں۔ مسلمان دنیا اور عرب اس انداز سے ان حکمرانوں پر لٹو اور فریفتہ نہیں ہوئے جس انداز سے وہ پروانوں کی طرح مودی کی شمع پر ڈھیر ہورہے ہیں۔ ان میں پُرکشش شخصیت کی مالک اور نسوانی حسن کا مجسمہ کشمیری پنڈتوں کی ذات’’کول‘‘ سے تعلق رکھنے والی اندرا گاندھی اور امن کا دم بھرنے والے مدبر واجپائی بھی شامل تھے۔ مسلمان دنیا نے ان کو تو کبھی ایوارڈ سے یوں نہیں لادا۔ حقیقت میں یہ مودی کے اندر کا چور ہے جو اسے مسلمان دنیا میں اپنے امیج کو بہتر اور مسلمان دوست رکھنے کے لیے ایوارڈز کی بھیک مانگنے پر مجبور کررہا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ بھارت کی موجودہ سوچ و فکر اور پالیسی کے حکمت کار اجیت دوول باقاعدہ ان ایوارڈز کے حصول کی لابنگ کررہے ہیں، اور مسلمان ملکوں کا چونکہ اس کے لیے کوئی خاص پیمانہ نہیں اس لیے وہ بھارتیوں کی اس خواہش کے آگے ڈھیر ہوکر مودی کو ایوارڈز دے رہے ہیں۔ اجیت دوول کے بس میں ہو تو وہ مودی کو امن کا عالمی انعام بھی دلوا کردم لیں۔ اس مہم کا مقصد مودی کے مسلمان دشمن ہونے کا وہ تاثر دور کرنا ہے جو گجرات کے قتل عام کے بعد سے بننا شروع ہوگیا تھا، اور جس کے خدوخال کشمیر کی خصوصی شناخت پر حتمی وار کے بعد پوری طرح عیاں ہوکر سامنے آگئے۔ وگرنہ مسلمان دنیا کو مودی کو ایوارڈز پر ایوارڈز دینے کی ایسی بھی کوئی خاص مجبور ی نہیں تھی۔ سارے ایوارڈز اپنے نام کرنے کی اس مہم کا مقصد پاکستان کے اس مؤقف کو کمزور کرنا ہے کہ نریندر مودی ایک قاتل، سفاک، فسطائی اور ہٹلر کا دوسرا جنم ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے دو تین ٹوئٹس میں ہی مودی کی ذات کے انہی پہلوئوں اور خصوصیات کا تذکرہ کیا تھا کہ مودی نے ٹرمپ کو شکایت لگاکر عمران خان کو اپنے مؤقف کو نرم کرنے پر مجبور کردیا، جس کے بعد سے عمران خان کا ٹوئٹر مودی کے خلاف پہلے کی طرح شعلے نہیں اُگل رہا۔ اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ مودی نے سیکولر اور جمہوری تاثر کے حامل بھارت پر کنٹرول تو حاصل کرلیا مگر وہ اپنا سیکولر اور جمہوری امیج کہاں سے لائے؟ اب وہ مسلمان ملکوں کے مانگے تانگے کے ان ایوارڈز سے ہی اپنا امیج بہتر بنانے کی مہم شروع کیے ہوئے ہے۔ ان ملکوں کے بعد او آئی سی اجتماعی طور پر بھی مودی کو کوئی ایوارڈ عطا کرے، مگر کیا اس سے مودی کی خصلت بدل جائے گی؟ اس سے بھارت میں اُس کی مسلمان دشمنی کی سیاست کو قرار آئے گا؟ وہ کشمیریوں کے سر سے جبر کا کوڑا ہٹا لے گا؟
انسان کے اصل امیج کا فیصلہ دھات کے ٹکڑے اور کاغذ کے پرزے نہیں کرتے۔ اس کا طرزِ حکمرانی، اعمال وافعال، زمینی حالات اور حقائق کرتے ہیں۔ کھوپڑیوں کے مینار پر کھڑا مودی یہ سارے ایوارڈ گلے میں لٹکائے ہوئے ہو تو کیا اس سے وہ انسان دوست قرار پاسکتا ہے؟ پاکستان کے عوام جذباتیت کے پی ایچ ڈی ہیں۔ تاریخ میں بہت سی غلطیاں جذبات کی رو میں بہہ کر کی گئی ہیں۔ مودی کی امیج بلڈنگ کے کشکول میں اعلیٰ ایوارڈز کے نام پر دھات کے چند ٹکڑوں کے ردعمل میں پاکستان اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرسکتا۔ ایران کے صدر کو ایوارڈ کا فیصلہ کسی ضد، ردعمل، کسی کو چڑانے اور جلانے کے جذبے کے تحت نہیں بلکہ اچھے تعلقات کے قیام کی کوششوں کے ریکارڈ اور مستقبل کے امکانات دیکھ کر کیا جانا چاہیے۔
اسی طرح اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا تعلق عرب ملکوں اور حکمرانوں کی خوشی اور ناراضی سے نہیں، اصولوں سے تعلق رکھتا ہے۔ مودی پر مرمٹنے والے عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے کو بے چین اور بے تاب ہیں۔ یہ سب فرینڈز آف اسرائیل ہیں۔ ان کی خواہش اور کوشش ہوگی کہ پاکستان فلسطینیوں کی اصولی اور تاریخی جدوجہد کی حمایت سے دست کش ہوجائے اور پھر اسی اصول کو زمینی حقیقت کی بنیاد پر کشمیر میں لاگو کیا جائے، اور اگلے مرحلے پر پاکستان اسرائیل کے اسٹرے ٹیجک پارٹنر بھارت کو بھی ریلیف فراہم کردے۔ ہم فلسطین میں مزاحمت کے ساتھ ہیں اور کشمیر میں بھی مزاحمت کے ساتھ ہیں۔ یاسرعرفات کی بھارت دوستی کے باوجود ہم نے ہر دور میں ایک اصول کے تحت فلسطینی کاز کی حمایت کی۔ فلسطین میں یہ اصول ترک کرکے ہم کشمیر میں زیادہ دیر تک اس اصول پر کاربند نہیں رہ سکتے۔ اسرائیل کا بڑھتا ہوا وجود اور فلسطینیوں کا کم ہوتا ہوا اثر، اور مٹتا ہوا وجود اگر حقیقت ہے تو کشمیر پر بھارت کا قبضہ بھی حقیقت ہے، اور کشمیر کا وجود مٹانے اور بے اثر کرنے کی اُس کی کوششیں بھی ایسی ہی حقیقت ہیں۔ ہر حقیقت کو وجود تو عطا ہوتا ہے، مگر ہر حقیقت صداقت نہیں ہوتی۔ صداقت کے اصول پرکاربند رہنا ہی قوموں کو سرخرو کرتا ہے۔