ڈنمارک کی وزیراعظم فریڈرکسن نے اس تجویز کو لغو (absurd) قراد دیتے ہوئے یکسر مسترد کردیا
جائداد کی خریدو فروخت اور تعمیرات امریکی صدر ٹرمپ کا خاندانی پیشہ ہے۔ انھیں Real Estate کا عظیم الشان کاروبار اپنے والد سے ورثے میں ملا ہے اور صدر بننے سے پہلے تک یہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔ صدر کا حلف اٹھانے کے بعد انھوں نے ٹرمپ کارپوریشن میں اپنی سرگرمیاں معطل کردی ہیں، لیکن ادارے میں ان کے مفادات اب بھی موجود ہیں۔ مخالفین الزام لگارہے ہیں کہ جناب ٹرمپ اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے صدارتی منصب استعمال کررہے ہیں جو اس اہم عہدے کے شایانِ شان نہیں۔ صدر کے دونوں بڑے صاحب زادے ٹرمپ کارپوریشن چلا رہے ہیں اور امریکہ کے دامادِ اوّل جیررڈ کشنر بھی اسی کاروبار سے وابستہ ہیں، تاہم اُن کا ٹرمپ کارپوریشن سے کوئی تعلق نہیں۔ زمین خریدنے کے شوق بلکہ ہونکے میں صدر ٹرمپ نے اپنے نیٹو اتحادی ڈنمارک سے تعلقات کشیدہ کرلیے ہیں۔
ٹرمپ خاندان کی جانب سے جائداد کا کاروبار شروع کرنے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ صدر کے پردادا جرمنی میں ایک قلعی ساز تھے جن کا گزارہ بہت مشکل سے ہوتا تھا۔ اُس زمانے میں یورپی نوجوانوں پر خوشی اور خوش حالی کی تلاش میں ”خوابوں کی جنت“ یعنی امریکہ جانے کا خبط سوار تھا، چنانچہ صدر ٹرمپ کے دادا فریڈرک ٹرمپ 1885ء میں اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈتے نیویارک آگئے۔ اُس وقت ان کی عمر صرف 15 سال تھی۔ انھوں نے یہاں ایک ریسٹورنٹ کھول لیا اور یہ کاروبار خوب چلا۔ فریڈرک 1901ء میں واپس جرمنی آئے اور بیوہ پڑوسن کی بیٹی ایلزبتھ پر ان کا دل آگیا۔ دونوں شادی پر رضامند ہوگئے، لیکن سماج کی دیوار آڑے آئی۔ فریڈرک کی والدہ جنھوں نے ساری زندگی غربت میں گزاری تھی، نیویارک میں اپنے بیٹے کی کامیابی پر بہت مسرور تھیں اور وہ چاہتی تھیں کہ ان کا کماؤ پوت یتیم و نادار لڑکی کے بجائے کسی امیر کبیر خاندان سے ان کے لیے چاند سی بہو لائے۔ فریڈرک بھی اپنی ضد کے پکے تھے۔ عقل مند والدہ نے ہتھیار ڈال دیئے اور فریڈرک ایلزبتھ سے شادی کرکے اپنی دلہن کے ساتھ دوبارہ نیویارک آگئے۔ لیکن ایلزبتھ کا یہاں دل نہ لگا، انھیں اپنی والدہ بہت یاد آرہی تھیں۔ محبوب بیوی کی خوشی کے لیے صدر ٹرمپ کے دادا نے اپنا چلتا ہوا کاروبار بند کردیا اور تمام اثاثے فروخت کرکے بیوی اور نومولود بیٹی کے ساتھ واپس جرمنی آگئے۔ یہاں فریڈرک کو ایک نئی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمن حکومت نے الزام لگایا کہ وہ لازمی فوجی تربیت سے بچنے کے لیے امریکہ گئے تھے، لہٰذا انھیں کاروبار اور ملازمت کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔ ہر طرف سے مایوس ہوکر فریڈرک ٹرمپ اپنے خاندان کے ساتھ واپس نیویارک آگئے اور ریسٹونٹ و ہوٹل کا کام دوبارہ شروع ہوا۔ کچھ عرصے بعد صدر ٹرمپ کے والد فریڈرک ٹرمپ جونیئر پیدا ہوئے۔
اسی دوران فریڈرک نے ریسٹورنٹ کے ساتھ جائداد کی خرید و فروخت کا کاروبار شروع کیا جو بڑا کامیاب رہا، چنانچہ انھوں نے ریسٹورنٹ بند کردیا اور یہی کام وہ ہمہ وقت کرنے لگے۔ صدر ٹرمپ کی دادی تھیں تو خاتونِ خانہ، یعنی House Wife، لیکن ان کے دادا کوئی بھی کام اپنی بیوی کے مشورے کے بغیر نہ کرتے۔ اہلیہ کا مشورہ بلکہ ہلکا سا اشارہ بھی ان کے لیے حکم کا درجہ رکھتا تھا، تاہم یہ زن مریدی نہیں بلکہ بیوی کی صلاحیتوں پر حد درجہ اعتماد اور بے پناہ محبت کا مظہر تھا۔ شوہر کے مہر و وفا، اعتماد اور مثالی پیار و محبت نے ان کی دادی جان کو انگریزی اصطلاح میں خاندان کی Matriarch کا درجہ عطا کردیا۔
1918ء میں نیویارک نزلے کی وبا کا شکار ہوا اور ٹرمپ کے دادا معمولی سے زکام میں مبتلا ہوکر انتقال کرگئے۔ اُس وقت ان کی دادی کی عمر صرف 37 سال تھی۔ عجیب اتفاق کہ ایلزبتھ کی والدہ بھی بہت کم عمری میں بیوہ ہوئی تھیں۔ 3 ننھے بچوں کے ساتھ پردیس میں شوہر کی جدائی کا غم تھا تو بہت شدید، لیکن صدر ٹرمپ کے دادا رئیل اسٹیٹ کا چلتا ہوا کاروبار اور ایک خطیر رقم چھوڑ کر فوت ہوئے تھے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا، خاتونِ خانہ ہونے کے باوجود ان کے شوہر نے ایلزبتھ کو کاروبار کے ایک ایک مرحلے، اثاثہ جات کی تفصیل اور ہر سودے کے بارے میں مطلع رکھا تھا جس کی بنا پر دادی جان نے اپنے شوہر کا کاروبار نہ صرف سنبھال لیا بلکہ اسے وسعت دیتے ہوئے خرید وفروخت کے ساتھ تعمیر کا کام بھی شروع کردیا۔ انھوں نے کاروبار کو E-Trump & Sons کے نام سے رجسٹر بھی کرالیا یعنی رئیل اسٹیٹ ایجنسی اب ایک کارپوریشن بن گئی۔
صدر ٹرمپ کے والد نے کاروبار میں والدہ کی مدد کے ساتھ اپنا ذاتی کاروبار بھی شروع کردیا، اور ابھی وہ 16 سال کے تھے کہ انھوں نے والدہ سے قرض لے کر ایک گھر تعمیر کیا، اسے بھاری منافع پر بیچا اور والدہ کے انکار کے باوجود قرض کی ایک ایک پائی انھیں واپس لوٹادی۔ کاروبار کے ساتھ فریڈرک پارٹیوں کے بڑے شوقین تھے اور والدہ کی مخالفت کے باوجود وہ دوستوں کی ضیافت پر خوب رقم اڑاتے تھے۔ ایسی ہی ایک پارٹی میں ان کی ملاقات اسکاٹ لینڈ سے آئی ایک لڑکی میری این مک لیوڈ سے ہوئی۔ اپنے باپ کی طرح فریڈرک بھی دل ہار گئے اور شادی کی ہامی بھرلی۔ فریڈرک کی والدہ نے اس رشتے کی مخالفت کی، لیکن بیٹے کی ضد غالب آگئی۔
یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہےکہ ایک غیر ملکی تارک وطن کے پوتے اور غیر ملکی خاتون کے فرزند صدر ٹرمپ اب امریکہ میں غیر ملکی تارکین وطن کے نہ صرف سخت مخالف ہیں بلکہ ان بیچاروں کے بارے میں انتہائی غیر مہذب اور متعصبانہ زبان استعمال کرتے ہیں۔
صدر ٹرمپ ہائی اسکول کے بعد اپنی دادی کی کمپنی ٹرمپ اینڈ سنز سے وابستہ ہوگئے۔ ان کی دونوں بہنوں کو کاروبار سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور چھوٹے بھائی ہر وقت ”آج پینے کا مزہ پی کر بہک جانے میں ہے“ کا راگ الاپتے مے نوشی میں مصروف رہتے۔ اللہ کا دیا بہت تھا، چنانچہ وہ دنیا ومافیہا سے بے نیاز پینے پلانے میں مصروف رہے اور جگر کے سرطان میں مبتلا ہوکر دوسری دنیا سدھار گئے۔ صدر ٹرمپ کو اللہ نے دیدہ عبرت سے نوازا ہے، چنانچہ اپنے بھائی کا حال دیکھ کر انھوں نے دخترِ انگور کو کبھی منہ نہیں لگایا اور یہ زاہدِ خشک بس سنگ و خشت یعنی تعمیرات کے شوق میں مبتلا رہے۔ باپ کے انتقال کے بعد ٹرمپ کارپوریشن صدرٹرمپ کی ملکیت ہوگئی۔
صدر ٹرمپ بچپن سے زمینیں خریدنے اور ان پر گھر، اپارٹمنٹ، آسمانوں سے باتیں کرتے پلازے، ہوٹل اور گالف کورس بنانے کے شوقین ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ڈنمارک کی وزیراعظم محترمہ میت فریڈرکسن (Mette Frederiksen) جب گرین لینڈ کے دورے پر گئیں تو انھوں نے سیاحت و ماہی گیری کے فروغ کے لیے دنیا کے سرمایہ کاروں کو وہاں آنے کی دعوت دی۔ اس خبر سے بے آباد لاکھوں مربع میل کا صاف و شفاف رقبہ سوچ کر ہی صدر ٹرمپ کے منہ میں پانی آگیا۔ بلند وبالا ٹرمپ ٹاورز، ہوٹل اور گالف کورس کے تصور ہی سے وہ جھوم اٹھے۔
گرین لینڈ سلطنتِ ڈنمارک کی زیرنگیں ایک خود مختار ریاست ہے۔ 21 لاکھ 66 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل یہ دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ کچھ جغرافیہ دان یہ ماننے کو تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا اور انٹارکٹیکا رقبے کے اعتبار سے گرین لینڈ سے بڑے ہیں، لیکن علومِ جغرافیہ کے دوسرے علما کا خیال ہے کہ آسٹریلیا اور انٹارکٹیکا دونوں کی حیثیت براعظم کی ہے، لہٰذا ان کا گرین لینڈ سے مقابلہ درست نہیں۔ ؓبہرحال یہ ایک علمی بحث ہے جس کا ذکر ہم نے قارئین کی دلچسپی کے لیے یہاں کردیا۔
بحر منجمد شمالی (Arctic)اور بحر اوقیانوس کے درمیان واقع اس وسیع و عریض جزیرے پر صرف 56 ہزار نفوس آباد ہیں۔ اس کا تین چوتھائی سے زیادہ حصہ برف کی کئی کلومیٹر موٹی چادر تانے رہتا ہے۔ یہاں کے باشندوں کی گزربسر ماہی گیری، آبی حیات کی پرورش اور سیاحت پر ہے۔ گرین لینڈ کے روزمرہ اخراجات ڈنمارک کی حکومت کی اعانت سے پورے ہوتے ہیں۔
ماہرینِ ارضیات کا خیال ہے کہ ڈنمارک کی منجمد و ٹھٹھرتی زمین کی تہوں میں تیل و گیس کے خزانے موجزن ہیں اور ایک اندازے کے مطابق دنیا میں تیل کے غیر دریافت شدہ ذخائرکا 13 فیصد یہاں موجود ہے، جبکہ ساری دنیا کی ایک تہائی گیس گرین لینڈ کے نیچے مدفون ہے۔ اسی کے ساتھ یہاں کوئلہ، تانبا، جست اور لوہے کے بڑے ذخائر بھی ہیں۔ یعنی گرین لینڈ سے جہاں صدر ٹرمپ کا رئیل اسٹیٹ کا شوق پورا ہوسکتا ہے، وہیں زیر زمین موجزن سیاہ سونے سے ایکسون موبل (Exxon Mobil)، شیورون ٹیکساکو(Chevron Texaco)، کونوکو (Conoco)اور دوسری امریکی تیل کمپنیوں کے وارے نیارے ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے گرین لینڈ خریدنے کی خواہش ظاہر کردی۔
دنیا میں ملکی اراضی کی خرید و فروخت کوئی نیا واقعہ نہیں، امریکہ نے ریاست الاسکا (Alaska) روس سے خریدی تھا، جبکہ فرانس سے لوزیانہ سمیت بہت بڑی اراضی خریدی گئی۔ خود پاکستان نے گوادر اومان سے خریدا ہے۔ امریکی گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے وقتاً فوقتاً گرین لینڈ خریدنے کی خواہش ظاہر کررہے ہیں۔ گرین لینڈ ہے تو یورپ کا حصہ، لیکن محلِ وقوع کے اعتبار سے یہ شمالی امریکہ کے قریب ہے۔ اسی بناپر 1860ء میں بھی امریکہ نے سلطنتِ ڈنمارک سے گرین لینڈ خریدنے کی دبے الفاظ میں خواہش ظاہر کی تھی، لیکن ڈنمارک نے نہ کردی۔ اس کے بعد 1946ء میں امریکی صدر ٹرومن نے گرین لینڈ خریدنے کی رسمی درخواست کے ساتھ 10 کروڑ ڈالر کی پیشکش کی۔ یہ ایک یک طرفہ بولی تھی کہ ڈنمارک نے اسے فروخت کے لیے پیش نہیں کیا تھا، چنانچہ ڈنمارک نے اس پر غور کرنے سے بھی انکار کردیا۔
۔18 اگست کو صدر ٹرمپ نے گرین لینڈ خریدنے کی خواہش ظاہر کی اور اپنے ٹویٹ میں فرمایا ”(گرین لینڈ کی فروخت) رئیل اسٹیٹ کی فروخت کا ایک بہت بڑا معاہدہ ہوگا“۔ ڈنمارک کی وزیراعظم فریڈرکسن نے اس تجویز کو لغو (absurd) قراد دیتے ہوئے یکسر مسترد کردیا۔ انھوں نے کہا کہ گرین لینڈ ہمارا ثقافتی ورثہ ہے جسے فروخت کرنے کے بارے میں سوچنا بھی ممکن نہیں۔ بات یہاں تک رہتی تب بھی ٹھیک تھا، لیکن حکمران جماعت ڈینش پیپلز پارٹی کے ترجمان نے جذباتی ہوکر فرمایا ”گرین لینڈ خریدنے کی بات کرکے امریکی صدر نے اپنے پاگل پن کا حتمی ثبوت دے دیا ہے۔“۔
دوسروں کی توہین کے عادی صدر ٹرمپ اس پر آپے سے باہر ہوگئے اور انھوں نے ٹویٹ پیغامات میں ڈینش حکمرانوں کی خوب خبر لی اور کہا کہ ٹرمپ ٹاور کے لیے دنیا میں جگہ کی کمی نہیں، میں تو گرین لینڈ میں آباد 56 ہزار لوگوں کی قسمت بدلنا چاہتا تھا جو سارا سال سردی میں ٹھٹھرتے رہتے ہیں۔ انھوں نے گرین لینڈ کے نقشے پر فوٹو شاپ کے ذریعے ٹرمپ ٹاور کی بلند و بالا تصویر لگاکر لکھا ”یہ میرا وعدہ ہے کہ میں گرین لینڈ کے لیے اب یہ نہیں کروں گا“، یعنی ڈنمارک نے پیشکش مسترد کرکے گرین لینڈ کے عوام کی خوشی، خوش حالی اور ترقی کا راستہ کھوٹا کردیا ہے۔ اسی کے ساتھ انھوں نے ڈنمارک کا سرکاری دورہ منسوخ کردیا۔ ڈنمارک کی ملکہ مارگریٹ دوم کی دعوت پر انھیں 2 ستمبر کو دارالحکومت کوپن ہیگن پہنچنا تھا۔ اپنے ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا ”ڈنمارک (امریکہ کے لیے) بہت اہم اور عظیم لوگوں کا ملک ہے، لیکن وزیراعظم میت فریڈرکسن کے اس تبصرے کے بعد کہ وہ گرین لینڈ کی فروخت کے معاملے پر بات کرنے کی بھی روادار نہیں، میں دو ہفتے بعد طے دورہ کسی اور موقع کے لیے منسوخ کررہا ہوں۔“ وزیراعظم فریڈرکسن نے کشیدگی کم کرنے کے لیے دورے کی منسوخی پر افسوس اور تعجب کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ”دوستوں“ کے درمیان تعاون جاری رہے گا۔ ڈنمارک شاہی محل کی ترجمان محترمہ لینے بیلبی (Lene Balleby)نے بھی اپنے ایک سطری بیان میں دورے کی منسوخی پر حیرت کا اظہار کیا۔
امریکہ اور ڈنمارک کے تعلقات میں رخنہ ایسے وقت میں آیا ہے جب چین کے ساتھ یورپی اتحادیوں اور کینیڈا سے امریکہ کے تجارتی تعلقات خاصے کشیدہ ہیں۔ نیٹو ممالک بھی صدر ٹرمپ کی جانب سے فوجی بجٹ میں اضافے کے مطالبے پر خوش نہیں۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ترکی اور برطانیہ کے سوا نیٹو کا کوئی بھی رکن فوجی بجٹ اور نیٹو کے اخراجات کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کررہا۔ اور وہ کئی بار ان ملکوں پر مفتے کی پھبتی بھی کس چکے ہیں۔
ڈنمارک دنیا میں سور کے گوشت، Pork مصنوعات، دودھ، مچھلی اور سویابین برآمد کرنے والا ایک بڑا ملک ہے۔ آج کل چین امریکہ تجارتی جنگ اپنے عروج پر ہے۔ چین گوشت، مچھلی اور سویابین کے لیے امریکہ کا متبادل ڈھونڈ رہا ہے۔ ڈنمارک میں مزدوروں کی تنخواہیں اور مراعات زیادہ ہونے کی بنا پر وہاں پیداواری لاگت نسبتاً زیادہ ہے، لیکن امریکہ ڈنمارک کشیدگی کا فائدہ اٹھانے کے لیے چین کی جانب سے ڈینش گوشت، زرعی اجناس اور ڈیری مصنوعات کی پُرکشش قیمتوں پر خریداری خارج ازامکان نہیں۔ اس کے نتیجے میں چین کا امریکی درآمدات پر انحصار کم ہوگا تو دوسری طرف برآمد کم ہونے سے دیہی امریکہ بھی بے چینی کا شکار ہوسکتا ہے جو ری پبلکن پارٹی اور صدر ٹرمپ کا سیاسی گڑھ ہے۔
ڈنمارک سے غیر ضروری جھگڑے پر امریکی وزارتِ خارجہ کو بھی شدید تشویش ہے، چنانچہ اپنے مشیروں کے کہنے پر صدر ٹرمپ نے23 اگست کو ڈنمارک کی وزیراعظم سے فون پر بات کی۔ جس کے بعد اپنے ایک ٹویٹ میں گفتگو کو انتہائی خوشگوار کہتے ہوئے امریکی صدر نے میت فریڈرکسن کو ونڈرفل لیڈی قرار دیا۔ صدر ٹرمپ کے اندازِ سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ انھیں معاملے کی نزاکت کا احساس ہوچکا ہے اور ڈینش وزیراعظم کے بارے میں یہ مثبت کلمات اُن سلوٹوں کو ہموار کرنے کی ایک کوشش ہے جو ان کی تلون مزاجی سے ڈنمارک و امریکہ کے صدیوں پرانے خوشگوار تعلقات کی راہ میں نمودار ہوگئی ہیں۔
***
اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم
masoodabdali.blogspot.com
پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔