وزیراعظم کا قوم سے خطاب… عملی اقدامات ناگزیر ہیں

وزیراعظم عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب کے دوران اعلان کیا ہے کہ دنیا ساتھ دے یا نہ دے، پاکستان کی حکومت اور عوام آخری سانس تک کشمیر کے ساتھ رہیں گے، ہم ہر سطح اور ہر حد تک جائیں گے، فوج تیار ہے، اگر بات جنگ کی طرف جاتی ہے تو صرف ہم ہی اس سے متاثر نہیں ہوں گے بلکہ اس کے اثرات پوری دنیا پر ہوں گے کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، ایٹمی جنگ ہوئی تو کوئی نہیں جیتے گا مگر تباہی پوری دنیا میں جائے گی، اب عالمی برادری اور بڑی طاقتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں۔ بھارت نے اپنا آخری پتا پھینک دیا ہے، اب ان کے پاس کچھ نہیں، اب جو کرنا ہے وہ ہم کریں گے۔ بھارت کی پالیسی آر۔ ایس۔ ایس کے نظریے پر استوار ہے جس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت ہے، اسی نظریے نے گاندھی کو قتل کیا، بابری مسجد کو شہید اور گجرات میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا۔ یہی نسل پرستی کا نظریہ آج بھارت پر حکومت کررہا ہے۔
کشمیر کے اندر انتہائی تکلیف دہ اور نازک صورتِ حال پر مسلم دنیا کی مجموعی خاموشی اور بعض مسلم ممالک کے کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کے طرزِعمل کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے امید ظاہر کی کہ آج مسلمان ممالک ہمارے ساتھ نہیں تو کل ہمارے ساتھ ہوں گے… بوسنیا قتلِ عام پر بھی مسلمان ممالک خاموش تھے، ذرائع ابلاغ نے بوسنیا میں ظلم کے خلاف آواز اٹھائی تو مسلمان ممالک بھی آ گے آگئے۔ وزیراعظم نے خود کو کشمیر کا سفیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی پر فیصلہ کن وقت آگیا ہے اور مودی کی غلطی سے کشمیر کے لوگوں کو آزاد ہونے کا تاریخی موقع مل گیا ہے۔ میں 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں مسئلہ کشمیر کو بھرپور طریقے سے اٹھائوں گا۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس تک ہر جمعہ کو پاکستانی قوم دوپہر بارہ سے ساڑھے بارہ بجے تک گھروںسے باہر نکل کر کشمیریوں سے اظہارِ یک جہتی اور ہفتے میں ایک دن کشمیریوں پر بھارت کے ظلم و ستم کے خلاف یک زبان ہوکر آواز بلند کرے گی۔
اِدھر پاکستانی وزیراعظم قوم سے خطاب کررہے تھے اور اُدھر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی فرانس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کررہے تھے، جس کے دوران بھارتی وزیراعظم نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں مسئلہ کشمیر پر کسی بھی قسم کی ثالثی کی پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور کشمیر کا نام تک لیے بغیر مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے تیسرے ثالث کی ضرورت نہیں، دونوں ممالک دو طرفہ معاملات حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ گویا نریندر مودی کی طرف سے خطے میں من مانی کرنے کا واضح اعلان ہے، کیونکہ دو طرفہ معاملات کو دونوں ممالک کے خود بیٹھ کر حل کرنے کا جہاں تک سوال ہے تو یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بھارت برس ہا برس سے کشمیر پر پاکستان سے مذاکرات کرنے سے انکاری چلا آرہا ہے، اور اب پانچ اگست کو یک طرفہ طور پر کشمیر کے متنازع خطے کی آئینی و قانونی حیثیت تبدیل کرنے کا اعلان کرکے اس نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ اس ضمن میں اسے اپنے بین الاقوامی سطح پر کیے ہوئے وعدوں کی کوئی پروا ہے اور نہ ہی اس پر عالمی ردعمل کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت ہے۔ چنانچہ پانچ اگست کے اقدام کے بعد یہ چوتھا ہفتہ ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر ایک بڑی جیل بنا ہوا ہے، پورے علاقے میں مسلسل سخت کرفیو کی پابندیاں نافذ ہیں، جن کے باعث کشمیر کے مسلمانوں کا جینا محال ہوچکا ہے… دوسری جانب عملی حقیقت یہ ہے کہ عالمی برادری ہر طرح کے بھارتی ظلم و ستم کے باوجود خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ حتیٰ کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر انسانی ظالمانہ طرزعمل کا ذکر تک کرنا مناسب نہیں سمجھا، گویا بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اس صورتِ حال میں تمام تر ذمہ داری پاکستان کے عوام اور حکومت کو خود ہی اٹھانا ہوگی۔ ان حالات میں جیسا کہ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے بھی کہا ہے کہ وزیراعظم کا قوم سے خطاب مثبت اور اقوام متحدہ میں خطاب کا عزم درست ہے۔ ہر بین الاقوامی فورم پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے، اور کشمیریوں کے جان و مال اور آبرو کے تحفظ کے لیے اب عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کشمیر کی صورتِ حال، عالمی برادری کے طرزِعمل اور پاکستان کی ذمہ داریوں سے متعلق بڑی حد تک درست تجزیہ کیا ہے، ان کے عزائم پاکستانی عوام کے جذبات و احساسات کے ترجمان اور حوصلہ افزا ہیں، تاہم اب ایسے عملی اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں جن سے دوستوں اور دشمنوں کو پاکستانی وزیراعظم کے اعلانات کی سنجیدگی کا اندازہ ہوسکے۔
(حامد ریاض ڈوگر)