پاک بھارت تعلقات کی سرد مہری

کیا وجہ ہے کہ بھارت مذاکرات کے کسی بھی راستے کو اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے؟۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کی بحالی ایک مشکل اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ جب بھی تعلقات کی بحالی کی بات کہیں آگے بڑھتی ہے تو کوئی نیا واقعہ صورتِ حال کو مزید خراب کردیتا ہے۔ مسئلہ کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان ایک اہم مسئلہ ہے، اور ہمارے بیشتر مسائل اسی اہم نکتے یعنی کشمیر کی سیاست سے جڑے ہیں۔ حالیہ دنوں میں مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ دونوں ملکوں میں ایک نئی بدمزگی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ حالانکہ محض مسئلہ کشمیر ہی نہیں، دیگر معاملات میں بھی بھارت اورپاکستان کے درمیان بداعتمادی بہت گہری ہے۔ کئی برس سے بھارت کا رویہ خاصا سخت ہے اور وہ تعلقات کی بحالی میں کسی بڑی پیش رفت کے لیے تیار نہیں۔ دونوں ملکوں میں مذاکرات کا جو تعطل ہے وہ بھی بھارت کا ہی پیدا کردہ ہے، اور وہی صورتِ حال کا بڑا ذمہ دار بھی ہے۔
پاکستان نے پچھلے چند برسوں میں بھارت سے تعلقات کی بحالی کی جتنی بھی سنجیدہ کوششیںکیں، اُن کا کوئی مثبت جواب نہیں مل سکا۔ نوازشریف کا دورِ حکومت ہو، یا اب عمران خان کا دورِ حکومت… بظاہر لگتا ہے کہ بھارت تعلقات کی بحالی میں سنجیدہ ہی نہیں ہے، اور وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کمزور وکٹ پر کھڑا ہے اور تعلقات کی بحالی اس کی مجبوری ہے۔ بھارت اس زعم میں مبتلا ہے کہ اگر پاکستان سے ہمارے تعلقات خراب رہتے ہیں تو اس کا سیاسی فائدہ ہمیں اور نقصان پاکستان کو ہی ہوگا۔ بھارت میں نریندرمودی کی حکومت کی دو اہم بنیادیں ہیں: (1) مسلم دشمنی، اور (2) پاکستان دشمنی۔ اسی نکتے کی بنیاد پر ہندوتوا پر مبنی سیاست بی جے پی اور نریندر مودی کی حکومت کی اہم ترجیح ہے۔
بھارت کی مجموعی سیاست پاکستان کو داخلی اور خارجی محاذ پر کمزور کرنے سے جڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی کا اہم نکتہ پاکستان کی سیاست کے گرد گھومتا ہے۔ بھارت کی خارجہ پالیسی سے جڑے تھنک ٹینک، ڈپلومیسی اور سفارت کاری کے محاذ پر ان کی اہم حکمت عملی پاکستان پر دبائو بڑھانا ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ وہ دنیا میں اس بیانیے کو آگے بڑھائے کہ پاکستان عملی طور پر دہشت گردی کے خاتمے میں سنجیدہ نہیں، اور بھارت کی داخلی سیاست میں مداخلت کرکے وہ ہمیں کمزور کرنا چاہتا ہے۔ بھارت اس نکتے پر بھی زور دیتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال میں جو بگاڑ ہے وہ بھی پاکستان کا پیدا کردہ ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے تواتر کے ساتھ نریندر مودی کی حکومت کو صاف و شفاف دوستی اور تعلقات کی بحالی کا پیغام دیا، اور اُن کے بقول بھارت ایک قدم آگے بڑھائے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھانے کے لیے تیار ہوں گے۔ وزیراعظم عمران خان کے بقول دونوں ملکوں کو خطے میں موجود غربت، پس ماندگی اور محرومی کے خاتمے پر توجہ دے کر جنگی جنون پر مبنی سیاست کو خیرباد کہنا ہوگا۔ اس تناظر میں دونوں ملکوں کے درمیان خطوط کا تبادلہ بھی ہوا، لیکن مقبوضہ کشمیر پر حالیہ بھارتی اقدامات نے آگے بڑھنے کے امکانات کو مزید محدود کردیا ہے۔ یہ صورتِ حال پاکستان کے لیے بھی خاصی مایوس کن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اب اس بدلتی ہوئی صورتِ حال میں تعلقات کی بحالی یا مذاکرات کے امکانات کو مسترد کردیا ہے، اور اُن کے بقول اس صورتِ حال میں مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ وزیراعظم کے بقول متعدد پیغام دوستی کے تناظر میں ہم نے بھارت کے دیے ہیں، مگر جب وہ بات کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تو بات کیسے آگے بڑھ سکتی ہے!
یہ بات طے شدہ ہے کہ آج کے دور میں جنگیں اور طاقت کا استعمال مسائل کا حل نہیں، اور معاملات کو دو طرفہ بات چیت کی مدد سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ جو بھی مسائل بھارت کو پاکستان سے، اور پاکستان کو بھارت سے ہیں اُن کا حل صرف اور صرف مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ کیونکہ دونوں ملکوں کے تحفظات کو اگر بات چیت کی مدد سے دور کرنا ہے تو پھر مذاکرات سے انکار کیوں کیا جارہا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ بھارت مذاکرات کے کسی بھی راستے کو اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے؟ یہ جو جنگی جنون پیدا کرنے کی بھارت کی موجودہ روش ہے، کسی بھی صورت میں دونوں ملکوں اور خطے کی سیاست کے لیے سودمند نہیں ہوگی۔
ماضی میں بھارت اور خود پاکستان کے اندر سے بھی ایسی آوازیں سننے کو ملتی تھیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحالی میں اصل رکاوٹ ہماری اسٹیبلشمنٹ ہے۔ حالیہ دنوں میں نریندر مودی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بھی کہا کہ ہم تو تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں، مگر ہم سمجھ نہیں پارہے کہ تعلقات کی بحالی کے لیے بات کس سے کی جائے۔ یعنی فوج سے یا سیاسی حکومت سے؟ کیونکہ دونوں کے ایجنڈے مختلف ہیں۔ لیکن یہ ایک پرانی کہانی ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں پاکستان کی سیاسی اورعسکری قیادت نہ صرف ایک صفحے پر ہیں بلکہ خود براہِ راست فوجی قیادت نے بھارت کو دوستی کا واضح پیغا م دے کر اس تاثر کی نفی کی ہے کہ فوج یا اسٹیبلشمنٹ بھارت سے تعلقات کی بحالی میں بڑی رکاوٹ ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ بھارت کی مجموعی سیاست ہندوتوا سے جڑ رہی ہے، اوراس میں پاکستان دشمنی بہت حد تک بڑھ گئی ہے۔ ایسے میں کیسے مذاکرات کا راستہ کھولا جائے؟ یہی وہ بنیادی نوعیت کا سوال ہے جو سنجیدہ حلقوں میں زیربحث ہے۔ حالانکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان انتہاپسندی، دہشت گردی، کشمیر، سیاچن، پانی، غربت اور محرومی کی سیاست کا واحد علاج دونوں ملکوں کا آپس میں مل بیٹھ کر مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ باہمی تجارت بھی اسی صور ت میں ممکن ہوسکتی ہے جب بنیادی نوعیت کے مسائل کے حل کی طرف پیش قدمی کی جائے۔بھارت کو سمجھنا ہوگا کہ اب وہ مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو لمبے عرصے تک جوں کا توں نہیں رکھ سکتا، اورنہ ہی وہاں پر جو مزاحمتی تحریک چل رہی ہے اُس کو دباناممکن ہوگا۔ اس لیے مقبوضہ کشمیر سے جو آوازیں اٹھ رہی ہیں انہیں طاقت سے کچلنے کے بجائے سیاسی انداز میں مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان اوربھارت جہاں کھڑے ہیں وہاں بداعتمادی بہت موجود ہے۔ اس بداعتمادی کو اعتماد میں کیسے بدلا جائے، یہی ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس وقت پاکستان کے خلاف جو سخت رویہ بھارت نے اختیار کیا ہوا ہے، عالمی برادری کو اس طرزعمل کو نظرانداز کرنے کے بجائے بھارت پر بھی تعلقات کی بحالی کے تناظر میں دبائو بڑھانا ہوگا۔ کیونکہ اگر واقعی عالمی طاقتیں خطے کی سیاست میں امن اور ترقی کو بنیاد بنانا چاہتی ہیں تو ان کو خاموشی توڑ کر ڈپلومیسی کے محاذ پر دونوں ملکوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرنا ہوگا، اور یہی اس وقت خطے کی سیاست کے تناظر میں عالمی برادری کی اہم ذمہ داری بھی بنتی ہے۔
اب وقت ہے کہ خود بھارت سے بھی وہ متبادل آوازیں جو واقعی پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کی حامی ہیں، مودی حکومت پر دبائو بڑھائیں کہ وہ جنگی جنون کے بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کرے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت بھارت ہندوتوا پر مبنی جس سیاست کو اپنی فکر بناکر آگے بڑھنا چاہتا ہے وہی خطے کے لیے بڑا خطرہ بھی ہے۔