حکومت کا نیب قانون میں ترمیم کا فیصلہ

مقدمات کو میگا کرپشن تک محدود کردیا جائے گا

حکومت نے نیب قانون میں ترمیم لانے کا فیصلہ کیا ہے، نئی ترمیم کے بعد بیوروکریسی اور کاروباری طبقے کو نیب کی گرفت سے باہر کردیا جائے گا اور سیاست دانوں کی گردن پر اس کا پائوں رہے گا۔ ملک میں احتساب کے عمل کو ہمیشہ سے ہی شک کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ ایوب خان کے ’ایبڈو‘ قانون سے لے کر آج تک احتساب ہمیشہ متنازع رہا۔ نوازشریف نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں ’احتساب کمیشن‘ قائم کیا تو پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس کی کارروائیوں کو سیاسی انتقام قرار دیا۔ جنرل پرویزمشرف نے قومی احتساب بیورو (نیب) بنایا تو اسے سیاست دانوں کی وفاداریاں تبدیل کرانے کا آلۂ کار ادارہ کہا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے انتخابات کے دوران اپنی انتخابی مہم اور منشور میں بھی ’’احتساب سب کا‘‘ کا نعرہ لگایا، اقتدار میں آنے کے بعد بھی وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے وزراء بارہا یہ اعلان کرتے نظر آئے کہ سب کا احتساب ہوگا اور حکومت کسی سے بھی بلیک میل نہیں ہوگی۔ اپوزیشن کے الزامات کے باوجود حکومتی مؤقف کو پذیرائی حاصل ہوئی۔ کم و بیش اسی طرح کا نعرہ پرویزمشرف نے بھی اقتدار سنبھالنے کے بعد لگایا تھا، لیکن جب ان کے بنائے ہوئے نیب نے ملک کے بڑے تاجروں، کاروباری شخصیات اور فیکٹری مالکان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا آغاز کیا تو ملک میں معاشی صورتِ حال جو پہلے ہی ابتر تھی، بالکل ہی جمود کا شکار ہوگئی۔ ملکی معاشی صورتِ حال کے تناظر میں فوجی حکومت نے نیب زدوں کو ’’نیب زادہ‘‘ بنانے کا فیصلہ کیا جس سے چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد نے اختلاف کیا اور اسی اختلاف کے باعث انھیں اپنے عہدے سے ہٹنا پڑا۔ ان کے بعد جنرل(ر) خالد مقبول نیب کے سربراہ بنائے گئے، انہوں نے حکمت عملی بنائی کہ جیلیں نہیں حکومت کی جیب بھرو، لہٰذا پلی بارگین قانون لایا گیا۔ اس کے بعد بہت سی حکومتیں آئیں اور نیب ہمیشہ زبان زد عام رہا۔ نیب قوانین میں اصلاحات کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات بھی ہوتے رہے۔
اگر موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بالکل ویسی ہی نظر آرہی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ’’احتساب سب کا‘‘ نعرہ لگایا اور نیب نے پہلے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔ مسلم لیگ (ن) حکومت میں کام کرنے والے بیوروکریٹس فواد حسن فواد اور احد چیمہ کو گرفتار کیا گیا۔ دوسرے مرحلے میں ملک کے بڑے تاجروں کے خلاف کارروائیاں شروع کی گئیں، اور اب پیپلز پارٹی کی قیادت بھی نیب مقدمات میں جیل پہنچ چکی ہے۔
جب تاجروں نے تحفظات کا اظہار کیا تو چیئرمین نیب کو تاجر نمائندوں سے خطاب کرکے یہ کہنا پڑا کہ آئندہ تاجروں کو نیب نہیں بلایا جائے گا تاہم جس کے خلاف شکایت ہوگی اسے سوال نامہ بھیجا جائے گا۔ چیئرمین نیب کی وضاحت بھی کام نہ آئی اور ملک کی معاشی صورتِ حال بھی دن بدن گمبھیر ہوتی چلی گئی، اور تاجر برادری کے نیب سے متعلق تحفظات زور پکڑنے لگے، اور ردعمل آیا ہے تو حکومت نے نیب قوانین میں ازخود ترمیم کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے قبل نیب قوانین میں اصلاحات کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری تھا اور حکومت اور اپوزیشن نے مجوزہ ترامیم کا مسودہ ایک دوسرے کے حوالے کررکھا تھا۔ اس سے قبل بھی نیب نے ڈبل شاہ کیس، مضاربہ اسکینڈل اور لینڈ مافیا کی ہاؤسنگ اسکیموں کے مقدمات میں ہزاروں لوگوں کو ریلیف دیا، جبکہ فراڈ کے سیکڑوں ملزمان کے خلاف کارروائی مختلف مراحل سے گزر رہی ہے۔ کابینہ کے حالیہ اجلاس میں نیب قوانین میں ترمیم کا فیصلہ کیا گیا اور طے پایا کہ نیب کا دائرۂ کار محدود کرتے ہوئے اسے صرف میگا کرپشن مقدمات تک محدود کردیا جائے گا، اور عوامی نوعیت کے مقدمات، نجی افراد، کاروباری شخصیات اور کمپنیوں کو نیب کے دائرۂ کار سے باہر کردیا جائے گا۔ وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم نے کہا کہ نیب کے قیام کا مقصد ہی میگا کرپشن مقدمات اور عوامی اور سرکاری عہدوں کے اختیارات کے غلط استعمال کو روکنا تھا، اس لیے اسے میگا مقدمات تک ہی محدود کررہے ہیں۔ ان کے مطابق ’’ہمیشہ سے ہی کچھ لوگ نیب زدہ ہوتے ہیں اور کچھ کو نیب زادہ بنایا جاتا ہے تاکہ معیشت کا پہیہ بھی چلتا رہے‘‘۔ ’چیٹنگ ود پبلک ایٹ لارج‘ کی شق کے تحت نیب نے اپنی کارروائیوں کو اتنی وسعت دی کہ قریباً ملک کی تمام ہاؤسنگ اسکیموں کے مقدمات نیب کے پاس آ گئے، اگر نیب سے یہ اختیار واپس لے لیا گیا تو تمام پراپرٹی ٹائیکون آزاد ہوجائیں گے۔ نیب کو ان کے خلاف تمام مقدمات سے دست بردار ہونا پڑے گا جس سے علیم خان سمیت وزیراعظم کے کئی ساتھیوں کو فائدہ ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ مقدمات کسی دوسرے فورم پر منتقل ہوجائیں لیکن فی الوقت حکومت کی بدنیتی نظر آرہی ہے۔ حکومت اوّل روز سے سب کے یکساں احتساب کا دعویٰ کررہی تھی تو اچانک یہ فیصلہ کیوں کیا گیا ہے کہ نیب کا دائرۂ کار میگا کرپشن مقدمات تک محدود کیا جائے؟ یہ درست ہے کہ نیب کو میگا کرپشن کے لیے ہی بنایا گیا تھا، لیکن نیب نے تھانیدار کا کردار ادا کرتے ہوئے پٹواریوں تک کو گرفتار کیا اور اپنا کام پھیلا لیا جسے محدود ہی کرنا چاہیے۔ ’سلیکٹڈ احتساب‘ کا تاثر نہیں جانا چاہیے کیونکہ یہ ناانصافی ہے، تاہم نیب کو چھوٹے چھوٹے مقدمات میں الجھانا احمقانہ عمل ہے۔ نیب کو پبلک آفس ہولڈرز اور ان کے رشتے داروں تک محدود کرنا چاہیے تاکہ کوئی بھی اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہ کرے۔ نیب کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق کہتے ہیں کہ کاروباری حضرات کے نام پر قریبی ساتھیوں کو بچایا جارہا ہے، امید تو تھی کہ نیب سب کا احتساب کرے گا لیکن ایسا نہیں ہوا، اب صرف سیاست دان ہی احتساب کے دائرے میں آئیں گے، یوں حکومت نے ایک اور یوٹرن لے لیا ہے، احتساب کے عمل کو وسعت دینے کے بجائے سکیڑ دیا ہے بلکہ ریورس گیئر لگا دیا ہے، اس کے حامیوں سے اس فیصلے کو پسند نہیں کیا، ان کا کہنا ہے کہ اب تک تحریک انصاف کی حکومت نے صرف پرانے مقدمات کی معلومات ہی فراہم کی ہیں جو کہ حکومت کا کام نہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت وائٹ کالر کرائم کو پکڑنے کے لیے نیب کی صلاحیتوں میں اضافہ کرتی، نیب کو مزید وسائل فراہم کیے جاتے، پنجاب کے بعد دیگر جگہوں پر بھی فرانزک لیبارٹریز قائم کی جاتیں۔ لیکن ایک سال کے عرصے میں تحریک انصاف کی حکومت نے احتساب کے زمرے میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جس پر وہ فخر کرسکے۔ دنیا کے کسی بھی قانون میں کاروباری شخصیات یا ادارے احتساب سے مبرا نہیں ہوتے، مقدمات میں کلاس نہیں دیکھی جاتی بلکہ رقم کا حساب لگایا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین کے لیے تو اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے جیسے ادارے موجود ہیں۔ تبدیلی کی حکومت میں تو یہ بات ختم ہوجانا چاہیے تھی کہ اگر کسی کو پکڑ کر جیل میں ڈالا تو اسٹاک ایکس چینج گرجائے گا۔ اب نئے قانون کے تحت یہ کیسے ممکن ہے کہ آصف زرداری کا تو احتساب ہو مگر ان کے شریک کاروباریوں کو اس لیے چھوڑ دیں کہ وہ عوامی عہدہ نہیں رکھتے! سیکریٹری قانون ارشد فہیم فاروق کہتے ہیں کہ ابھی مسودہ تیار نہیں ہوا، اس لیے اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ نیب ترمیم لانے کے لیے حکومت معاشی مجبوریوں کے باعث بڑی کاروباری شخصیات سے بلیک میل تو نہیں ہوئی، اس سوال کا جواب وزارت خزانہ یا وزارت تجارت ہی دے سکتی ہے۔ وزارت قانون کا کام حکومتی ہدایات کی روشنی میں قانونی مسودہ تیار کرنا ہے۔ چیئرمین نیب جاوید اقبال نے تاجروں کے وفد سے ملاقات کی اور انکم ٹیکس سے متعلق تمام مقدمات واپس ایف بی آر کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ چیئرمین نیب نے ملتان، بہاولپور اور ڈی آئی خان ڈویژنز کی فلور ملز مالکان کو بھیجے گئے نوٹس بھی معطل کردیے ہیں۔