نواب ثنا اللہ زہری کی پریس کانفرنس، بی این پی کا جوابی ردعمل
۔18اگست کو ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب خضدار کے علاقے زہری میں ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔ مسلح افراد نے نور گامہ پلانٹ کے قریب نواب امان اللہ خان زہری پر خودکار اسلحہ سے گولیاں برسائیں، جس میں وہ اپنے نواسے میر مردان خان زہری اور دو محافظوں سمیت جاں بحق ہوگئے۔ اس واقعے سے علاقے میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ نواب امان اللہ زہری کا تعلق بلوچستان نیشنل پارٹی سے تھا۔ سینٹرل کمیٹی کے رکن بھی تھے۔ قبائلی اور سیاسی طور پر بڑے بلوچ خانوادے کے فرد تھے۔ ان کے والد نواب نوروز خان زہری نے1958ء میں ریاست کے خلاف مسلح کارروائیاں شروع کی تھیں۔ اُس وقت ملک میں ایوب خان کی فوجی حکومت تھی۔ بوڑھے نواب نوروز اپنے لوگوں کے ساتھ پہاڑوں پر چلے گئے اور 1959ء میں حکومت کے ساتھ معاہدہ کرکے گرفتاری دے دی۔ انہیں بیٹوں اور دوسرے ساتھیوں سمیت سکھر اور حیدرآباد کی جیلوں میں بند کیا گیا۔ سب کو موت کی سزائیں سنائی گئیں۔ ان کے بیٹے اور دوسرے ساتھیوں کو سکھر اور حیدرآباد کی جیلوں میں تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔ نواب نوروز کی موت کی سزا عمر قید میں تبدیل کردی گئی۔ ان کی عمر85سال سے اوپر تھی، چناں چہ وہ بھی جیل میں انتقال کرگئے۔ نواب امان اللہ زہری، سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے سگے ماموں تھے۔ یعنی نواب نوروز، ثناء اللہ زہری کے نانا تھے۔
2013ء میں نواب ثناء اللہ زہری کے بیٹے میر سکندر زہری، بھائی مہر اللہ زہری اور بھتیجے میر زید زہری جاں بحق ہوگئے تو نواب ثناء اللہ زہری نے اپنے ماموں نواب امان اللہ زہری اور ان کے چھ بیٹوں کو بھی ایف آئی آر میں نامزد کردیا۔ وہ عدالت میں پیش نہ ہوئے، جس پر عدالت نے انہیں مسلسل غیر حاضری پر پانچ سال قید کی سزا سنائی۔ غرض امان اللہ زہری کے لواحقین نے نواب ثناء اللہ زہری کو قتل کے الزام میں نامزد کیا۔ ہفتہ 24 اگست کو ثناء اللہ زہری بلوچستان ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔ جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عبدالحمید بلوچ پر مشتمل بینچ نے انہیں حفاظتی ضمانت دے دی۔ زہری فیملی آپس کی دشمنیوں میں بری طرح الجھی ہوئی ہے۔ ویسے بلوچستان کے اندر قبائلی دشمنیاں بڑے نقصانات پر منتج ہوئی ہیں۔ واقعے کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل فاتحہ پر گئے اور واقعے کی مذمت کی۔ یہاں اخبارات کے ذریعے نواب زہری اور سردار اختر مینگل کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ نواب ثناء اللہ زہری نے21 اگست کو زہری میں پریس کانفرنس کی جس کی تفصیل اگلے روز کے اخبارات میں چھپی۔ نواب ثناء اللہ زہری نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا:
’’بلبل زہری میں میر امان اللہ زہری اور ان کے چار ساتھی حملے میں مارے گئے تھے۔ وہ میرے ماموں ہونے کے ساتھ میرے بیٹے نواب زادہ سکندر علی خان زہری، بھائی نواب زادہ میر مہر اللہ خان زہری اور بھتیجے میر زیب زہری کی شہادت کے مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی عدالت سے اشتہاری تھے اورانہیں عدالتوں سے باقاعدہ سزائیں بھی سنائی گئی تھیں۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میر امان اللہ زہری اور اُن کے ساتھیوں کے قتل سے مجھ سمیت میرے خاندان کے کسی فرد کا کوئی تعلق نہیں۔ بلاتحقیق، اور سازش کے تحت اس مقدمے میں ہمیں منصوبہ ساز قرار دیا گیا ہے۔ میر امان اللہ خان زہری کے خاندان کی دیگر قبائل کے ساتھ بھی دشمنیاں چلی آرہی تھیں۔ میر امان اللہ خان کو بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ و سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اخترمینگل نے اکسایا اور عام انتخابات میں انہیں آزاد گھومنے کا مشورہ دیا جسے ہم اپنے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ خود اختر شاہی زئی نے ہمیں لڑانے کی سازش کی، بلکہ تعزیت کے لیے جاکر انہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی سازش کو دہرایا ہے، انہوں نے میرامان اللہ خان زہری کے خاندان والوں کو میرے رشتے داروں کے خلاف اکسایا اور کہا کہ میرے بازو کٹ گئے ہیں۔ میں ان کو بتانا چاہتا ہوں مقتولین میری قوم کے افراد اورمیرے رشتے دار ہیں، ان کے بازو لندن میں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بلوچ قوم کو قتل، اور ریاست پاکستان کے خلاف سازش کررہے ہیں۔ میں وضاحت کرتا چلوں کہ میں اپنے بچوں کی شہادت کے بعد بااختیار سینئر صوبائی وزیر رہا، اور بعد میں وزیراعلیٰ بلوچستان رہا، اگر مجھے میر امان اللہ زہری کو ہدف بنانا ہوتا تو اُس وقت میں زیادہ بااختیار تھا، مجھے معلوم تھا کہ وہ کہاں رہ رہے تھے۔ مگر میں نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ میرے پاس تمام فورسز کی کمان تھی۔ میں عدالت کے حکم پر فورسز کے ذریعے اُس وقت کارروائی کرتا، لیکن میں نے تمام تر اختیارات رکھنے کے باوجود بھی انہیں ہدف نہیں بنایا تو آج کیونکر انہیں نشانہ بناتا! ہاں میر امان اللہ زہری اور ان کے ساتھیوں کے قتل کے بعد اختر شاہی زئی نے جو گزشتہ پچاس سال سے زہری خاندان کو ایک دوسرے سے دست وگریباں کروانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، تعزیت پر نورگامہ جاکر تعزیتی پنڈال کے بجائے میر امان اللہ زہری کے بیٹوں کے ساتھ الگ بیٹھک کرکے مجھ سمیت میرے خاندان والوں کو میر امان اللہ زہری کے قتل میں منصوبہ ساز نامزد کروا دیا۔ میں جھالاوان کے عوام، بلوچ قوم اور تمام قبائل پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اب اختر شاہی زئی تمام حدود پار کرچکے ہیں اور قبرستان بھرنے کا ٹھیکہ صرف زہری قبیلے نے نہیں اٹھایا ہے۔ میں ایک بار پھر ان سے کہتا ہوں کہ خدا را اب بس کرو بہت ہوگیا، ایسا نہ ہوکہ کسی دن حالات اور معاملات میرے کنٹرول سے باہر ہوجائیں۔ مینگل قبیلہ میرے لیے قابلِ احترام ہے، مگر شاہی زئی شاخ نے آج سے نہیں گزشتہ پچاس سال سے زہری خاندان کے خلاف سازشیں کی ہیں۔ جب میرے والد صاحب حیات تھے اُس وقت سردار عطاء اللہ شاہی زئی اور اب سردار اختر شاہی زئی ان سازشوں میں مصروفِ عمل ہے۔ میں اختر شاہی زئی پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ جھالاوان میں قبائلی تنازعات کو ختم کرنے میں حصہ دار نہیں بنتا تو قبائل کو دست وگریباں کرنے اور قبائلی آگ پر پیٹرول چھڑکنے کا کام کرنے سے بازآئے۔ میں نے واضح کردیا ہے کہ ہم پر بلا تحقیق اس قتل کی منصوبہ بندی کا الزام لگاکر مقدمہ کیا گیا ہے، اس کے باوجود وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم پر الزام ہے اور ہم عدالتوں کا سامنا کریںگے، جب جرم ثابت ہوجائے تب وہ تیزی دکھائیں، قبل از وقت تیزی دکھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ میںجھالاوان، ساراوان، افغانستان، سندھ اور دیگر علاقوں میں آباد بلوچ قبائل کا عنقریب جرگہ بلائوں گا جس میں بلوچ قوم کو آگاہ کروں گا کہ اختر شاہی زئی کس طرح زہری قبیلے کو دست و گریباں کرنے کی منصوبہ بندی میں ملوث ہے، تاکہ پوری صورتِ حال سے بلوچ قبائل آگاہ ہوں۔‘‘
اس کے جواب میں 23 اگست کو بلوچستان نیشنل پارٹی کے بیان میں جواب دیا گیا جو مرکزی اخبارات میں شائع ہوا جس میں کہا گیا:
’’ثناء اللہ زہری کی بوکھلاہٹ کا عالم یہ ہے کہ وہ لفظوں کو صحیح معنوں میں ادا ہی نہیں کرپائے۔ من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی باتوں سے پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل کی بڑھتی ہوئی مقبولیت میں کمی نہیں لائی جاسکتی۔ بلوچستان کے غیور بلوچوں اور بلوچستانیوں کی ہمدردیاں مزید بڑھ چکی ہیں۔ عوام کو پتا ہے کہ پارٹی قائد کے اصولی مؤقف کی وجہ سے ہر دور میں ایسے سازشی عناصر پارٹی قائد کے خلاف بولتے رہے جن کی کوئی وقعت نہیں۔ بلوچ قومی جدوجہد میں سردار اختر جان مینگل کے محترم والد اور بھائیوں کی قربانیوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، جنہوں نے پوری زندگی بلوچ قومی حقوق کی خاطر جواں مردی، ثابت قدمی، ایمان داری اور اخلاص کے ساتھ نیم قبائلی فرسودہ جاگیردارانہ رشتوں کے خاتمے کے لیے عملی جدوجہد کی اور بلوچستان سرزمین، ماہی کولاچی، خان گڑھ، بحر بلوچ، ڈیرہ جات کے بلوچوں اور بلوچستانیوں کو متحد رکھنے کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا، بلکہ بلوچ قومی سوال کے حل اور سرزمین بلوچستان کے قومی تشخص، بقاء اور قومی جدوجہد کو غیر متزلزل انداز میں بڑھاتے رہے۔ آمرانہ دور ہو یا سول حکمرانی، بلوچستان کی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اس گھرانے نے مسلسل طویل جدوجہد کی اور مشکل حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا، اور ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ آج اسی لیے بلوچستان کا ہر طبقہ فکر اس بات سے آگاہ ہے کہ وزارتِ اعلیٰ، مراعات اور ذاتی گروہی مفادات کو ہر دور میں رد کرتے رہے۔ یہ خاندان شاہی زئی مینگل یا قبائلی سوچ سے نصف صدی پہلے نکل چکا ہے۔ قومی سیاسی حوالے سے اس گھرانے کا بلوچستان اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر ایک مقام ہے اور ترقی پسند رہبر کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے ہاتھ کسی بے گناہ انسان کے خون سے رنگے ہوئے نہیں۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ شہید نواب نوروز خان، ان کے فرزند، ان کے پوتے کو اس لیے قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ انہوں نے بلوچ قومی جدوجہد میں حصہ لیا، جھالاوان میں بلوچ قومی تحریک سے وابستہ رہے، اس لیے بالواسطہ یا بلاواسطہ ایسے عناصر کے ذریعے ان کی نسل کشی کرکے انہیں قومی تحریک سے وابستگی کی سزا دی گئی۔ شہید نواب امان اللہ زہری بلوچستان کے قومی رہنماؤں میں اہم مقام رکھتے تھے۔ ان کی کسی اور کے ساتھ کوئی قبائلی رنجش یا دشمنی نہیں تھی۔ یہ کہنا کہ ان کی دشمنیاں تھیں، من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی باتیں ہیں۔ دھمکی آمیز پریس کانفرنس، جھوٹ پر مبنی الزامات سے حقیقت کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ شہید نواب نوروز خان زہری، بھائی نواب زادہ بٹے خان زہری، بھتیجے نواب زادہ انور خان زہری، نواب زادہ ریاض جان زہری، نواب امان اللہ خان زہری اور پڑپوتے نواب زادہ مردان زہری کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ نواب نوروز خان، ان کے فرزندوں، پوتوں، پڑپوتوں کو خراج عقیدت پیش کرتے رہیں گے۔ مرکزی اعلامیہ میں کہا گیا کہ پارٹی اس بات کا اعادہ کرتی ہے کہ جمہوری طریقے سے ہر فورم پر شہید نواب امان اللہ زہری، شہید ریاض زہری، شہید نواب زادہ مردان زہری سمیت ان کے ساتھیوں کے قتل میں ملوث ملزمان کی گرفتاری تک جدوجہد کرتے رہیں گے، قانونی چارہ جوئی بھی کریں گے۔ شہید نواب امان اللہ زہری پارٹی کے اہم ستون اور مرکزی رہنما تھے۔ ہم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کریں۔ بی این پی کے لاکھوں کارکنوں اور ہمدردوں کی یہ خواہش ہوگی کہ خونِ ناحق کو رائیگاں جانے نہ دیا جائے۔ ان بے گناہ لوگوں کے قتل میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے بھی آواز بلند کریں گے جنہیں آج تک گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ موصوف آج تک کئی مقدمات میں ملوث ہیں،کیس درج ہونے کے باوجود سرد خانے میں رکھنے کا مقصد کیا ہے اور انہیں کن کی آشیرباد حاصل ہے؟ اہلِ بلوچستان سردار ساسولی کے گھر پر حملے، گاڑ یاں چھوڑ کر بھاگ کر خضدار پہنچنے اور لیویز کے ہاتھوں گرفتار ہونے اور جیل جانے، پھر خضدار جیل سے فرار ہونے کو نہیں بھولے۔ اُس وقت سے آج تک تمام حکومتیں بے حسی کا اظہار ہی کرتی رہیں۔ چیف آف جھالاوان سردار رسول بخش کو کوئٹہ میں قتل کرنا اور بھاگ جانا، میر انور زہری کو 6 ساتھیوں سمیت قتل کرنا اور بھاگ جانا، نواب زادہ ریاض احمد زہری کو زہری میں قتل کرنا، میر دوداخان زہری کو گھر میں بلا کر اغوا کرکے تہمت اداروں پر لگانا، لوگوں کو سڑکوں سے اٹھا کر انجیرہ کے عقوبت خانوں میں رکھنا، تاوان لے کر بھی لاش واپس نہ کرنا، لوگوں کے گردے نکال کر فروخت کروانا اور ان کی لاشوں کو سوراب انتظامیہ کے تعاون سے لاوارث بتاکر دفنانے والوں پر آج تک ہاتھ نہیں ڈالا جاسکا۔ کیونکہ درج بالا مقدمات کے درج ہونے کے باوجود مراعات، وزارت اور وزارتِ اعلیٰ سے نوازے جانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ جھالاوان میں نیم قبائلی، جاگیرداری، فرسودہ رشتوں کو دوام دے کر قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھا جا سکے۔ اہلِ بلوچستان کو یہ علم ہے کہ اتنے مقدمات ہونے کے باوجود گرفتاری کے بجائے وزارت، وزارت اعلیٰ اور آزاد گھومنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ بی این پی قائد اور پارٹی کا مؤقف ہے کہ بلوچستان میں قبائلی فرسودہ رشتوں کے خاتمے کو یقینی بنایا جائے۔ بلوچوں کو متحد رکھا جائے، قبائلی معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے، بلوچ مفادات کی ترجمانی کی جائے، لیکن یہ کسی صورت ممکن نہیں کہ شہید نواب امان اللہ زہری جیسے قد آور رہنماؤں کے قاتل آزاد گھومتے رہیں۔‘‘۔