یکم ستمبر کو کشمیر مارچ حقیقی معنوں میں کشمیریوں سے قومی یکجہتی کا منظرنامہ تخلیق کرے گا
۔26 اگست جماعت اسلامی کا ’’یومِ تاسیس‘‘ ہے۔ جماعت کا قیام آج سے 78 سال قبل ’’مجدّدِ عصر‘‘ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی قیادت میں عمل میں آیا تھا۔ جماعت اسلامی پاکستان آج پاکستان کی سب سے قدیم سیاسی و دینی جماعت ہے، کیوں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا وجود دسمبر 1947ء میں تحلیل ہوگیا تھا۔ اِس وقت ملک میں موجود مسلم لیگ سمیت جتنی بھی سیاسی و دینی جماعتیں سیاست میں سرگرم عمل ہیں انہوں نے موجودہ شکل میں قیامِ پاکستان کے بعد جنم لیا ہے۔
۔26 اگست کے لیے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن سے کالم نگاروں کے ساتھ تبادلہ خیال کی دعوت جناب زاہد عسکری (سیکریٹری اطلاعات و نشریات جماعت اسلامی کراچی) نے دی تو میرا تاثر تھا کہ اس کا مقصد جماعت اسلامی اور اس کے بانی سید مودودیؒ کی فکر کے اثرات کا جائزہ لینا اور جماعت کی کارکردگی سے آگاہ کرنا ہوگا۔ مگر جناب زاہد عسکری نے شرکت کی دعوت دیتے ہوئے وضاحت کی کہ یہ نشست مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کے پنجۂ استبداد میں محصور مظلوم کشمیریوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے ترتیب دیے گئے یکم ستمبر کے پروگرام کے حوالے سے ہے۔ حافظ نعیم الرحمن اور نائب امیر جماعت اسلامی کراچی جناب اسامہ بن رضی نے بتایا کہ یکم ستمبر کو کشمیریوں سے اظہارِ یک جہتی کا پروگرام اگرچہ جماعت اسلامی کے زیر انتظام ضرور ہورہا ہے، مگر ہم اسے ملک کی داخلی سیاست اور جماعتی سیاست سے بالاتر ہوکر مسئلہ کشمیر اور مظلوم کشمیریوں کے مؤقف کی تائید و حمایت کے قومی شو آف پاور کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے کررہے ہیں۔ جس کی وہاں موجود تمام ہی اخبار نویسوں اور کالم نگاروں نے تحسین کی۔ مسئلہ کشمیر کسی ایک جماعت یا کسی ایک حکومت کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک قومی مسئلہ ہے اور پوری قوم اس پر یکسو ہے۔ جماعت اسلامی کے حالیہ اندازِ سیاست سے کوئی لاکھ اختلاف کرے، مگر کوئی اس زمینی حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ جماعت اسلامی روزِ اوّل سے مظلوم کشمیریوں کی پشتی بان رہی ہے اور آج بھی ہے۔ یکم ستمبر کے پروگرام کے حوالے سے حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ اس پروگرام کے لیے ہم پارلیمنٹ میں موجود تمام قائدین اور پارلیمنٹ سے باہر تمام سیاسی و دینی جماعتوں، سماجی و صحافتی تنظیموں، پریس کلب کے ذمہ داروں، ایڈیٹرز اور مالکان اخبارات و جرائد اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں سے رابطہ کرکے ان کو پروگرام میں شرکت کی دعوت دیں گے۔ جماعت اسلامی کو توقع ہے کہ سیاسی و دینی جماعتوں کے قائدین ان کی دعوت کو قبول کریں گے اور مسئلہ کشمیر پر قومی مؤقف کو دنیا پر واضح کریں گے۔ آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر پاکستان میں ہوئے تو وہ ضرور آئیں گے۔ رابطہ تو وہ پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام سے بھی کریں گے۔ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ملاقات کے بعد ہمارے وزیراعظم جناب عمران خان کی خوش فہمی دور ہوگئی ہے جس کے سحر میں مبتلا ہوکر امریکہ سے واپسی پر اسلام آباد ائرپورٹ پر انہوں نے کہہ دیا تھا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ میں کسی ملک کا دورہ کرکے واپس نہیں آرہا بلکہ ورلڈ کپ جیت کر واپس آرہا ہوں۔‘‘ پاکستان کے پاس اب آپشن ایک ہی ہے جس کا اعلان وزیراعظم نے قوم سے اپنے خطاب میں کیا ہے کہ ’’مسئلہ کشمیر پر دنیا ساتھ دے یا نہ دے، ہم آخری حد تک جائیں گے۔‘‘
وزیراعظم کی ’’آخری حد‘‘ تک جانے کی بات بالکل درست، مگر وزیراعظم کا خطاب اس کے عملی تقاضوں اور مربوط لائحہ عمل کا ’’روڈمیپ‘‘ دینے سے یکسر خالی نظر آیا۔ اس کے لیے خودفریبی سے باہر نکل کر خوداحتسابی کے ساتھ جائزہ نہ لیا تو قدرت نے پاکستان کو جو نادر موقع عطا کیا ہے وہ ضائع ہوجائے گا۔ ہمیں دوست مسلم ممالک کے طرزِعمل پر لب کشائی سے زیادہ اپنے اندازِ فکر کا خوداحتسابی سے جائزہ لینا ہوگا۔ بابائے قوم قائداعظم نے کہا تھا کہ ’’دنیا میں کوئی تحریک اجتماعی جدوجہد اور اجتماعی دانش کو بروئے کار لائے بغیر آج تک کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوئی ہے‘‘۔ جب تک اس کا ادراک ہماری سیاسی قیادت کو نہیں ہوگا، حکومت کے میڈیا منیجرز کی طرف سے سول اور عسکری قیادت کے ایک صفحے پر ہونے کی گردان سے مظلوم کشمیریوں کی کوئی مدد ہوگی اور نہ ہی بھارت کے ’’مذہبی انتہا پسند جنونی برہمن سامراج‘‘ کے مسلم کُش لیڈر کے کان پر جوں رینگے گی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں خواہ ان کا تعلق حزبِ اقتدار سے ہے یا حزبِ اختلاف سے، مقبوضہ کشمیر میں گیارہ سال سے گھر میں نظربند بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی کی اپیل کا ایک زبان ہو کر مثبت جواب دیں۔آج دنیا کا آزاد میڈیا مظلوم کشمیریوں کے حق و سچ پر مبنی مؤقف کو سپورٹ بھی کر رہا ہے اور دنیا کے سامنے مقبوضہ کشمیر میں تین ہفتے سے زائد عرصے سے کرفیو میں محصور مظلوموں کی حالتِ زار کی حقیقی تصویر کشی بھی کررہا ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ اس شکر کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ پاکستان کے آزاد میڈیا کو جس غیر اعلان کردہ دبائو کا سامنا ہے، اس کا ادراک ’’ہمارے فیصلہ سازوں‘‘ کو کرکے اس کا تدارک کرنا ہوگا۔ آزاد میڈیا ہی دنیا کے سامنے پاکستان اور کشمیریوں کے مؤقف کو پیش کرسکتا ہے۔
وزیراعظم جناب عمران خان کی آزاد کشمیر کے دورے میں قانون ساز اسمبلی سے خطاب کے موقع پر آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے جس طرف توجہ دلائی تھی اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی حکومت کو آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کو پاکستان کی بیوروکریسی کے چنگل سے مکمل طور پر آزاد کرکے کام کرنے کا موقع دینا چاہیے، اس سے بھارت کے پنجۂ استبداد میں محصور کشمیریوں کو مثبت پیغام جائے گا۔ اگر پاکستان کی سول اور عسکری قیادت آزاد جموں و کشمیر کی منتخب حکومت کو تمام وسائل فراہم کرکے آزادانہ کام کرنے کا موقع دے تو وہ دنیا کے سامنے زیادہ مؤثر انداز میں اپنا کیس لڑ پائیں گے۔ پاکستان اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے پاس مظلوم کشمیریوں کی مشکلات کو کم کرنے کا واحد راستہ ایک ہی ہے کہ عالمی سطح پر آزاد میڈیا کے ذریعے مودی سرکار کے ظلم و ستم اور جبر و استبداد کو بے نقاب کرکے رائے عامہ پر دبائو بڑھائیں۔ سفارت کاری کے محاذ پر اجتماعی دانش کو بروئے کار لانا ازبس ضروری ہے۔ بھارت اس محاذ پر سرگرم ہے۔ اللہ کرے یکم ستمبر کا شو آف پاور حقیقی معنوں میں مظلوم کشمیریوں کے ساتھ قومی یک جہتی کا منظرنامہ تخلیق کر پائے۔