سوہانجنا ایک کرشماتی پودا

مریم مجید
کائنات میں موجود ہر جاندار و بے جان شے کی پیدائش کا مقصد صرف اور صرف بنی نوع انسان کی خدمت بجا لانا ہے۔ دیوہیکل پہاڑ ہوں یا معدنیات، یا نظر نہ آنے والے جرثومے، چرند پرند، حیوانات و نباتات— الغرض اس کائنات کی ہر شے حضرتِ انسان کے تصرف میں دی گئی ہے۔
ہمارا کام محض اتنا ہے کہ اس خزانہ بے بہا کو کھوجیں، علم حاصل کریں اور تحقیق کرکے اشیا کے فوائد کو اس عقل کے برتے پر پائیں جس نے ہمیں اشرف المخلوقات ہونے کا اعزاز دلایا ہے۔
جدید سائنسی تحقیقات نے ایسے بہت سے درختوں، سبزیوں اور پھلوں کے بارے میں ہمیں بیش بہا معلومات کے حصول تک رسائی دی ہے جنہیں بجا طور پر ”کرشماتی پودے“ کہا جا سکتا ہے۔ جدید سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں اہمیت حاصل کرنے والا ایک پودا ”مورنگا“ بھی ہے جسے عرف عام میں سوہانجنا بھی کہا جاتا ہے۔
سوہانجنا ایک ایسا پودا ہے جسے بجا طور پر غذائی، طبی اور صعنتی فوائد و اہمیت کا حامل پودا کہا جا سکتا ہے۔ اس پودے کی بہت سی اقسام ہیں، تاہم ”مورنگا اولیفیرا“(Moringa olifera) اس کی وہ قسم ہے جس کی غذائی اہمیت انسانوں اور جانوروں دونوں کے لیے تسلیم شدہ ہے۔
سوہانجنا پر حالیہ و گزشتہ سائنسی تحقیقات اور تجربات سے ثابت ہے کہ اس کے پتوں میں دودھ سے دوگنا زیادہ پروٹین اور چار گنا زیادہ کیلشیم، گاجر سے چار گنا زیادہ وٹامن A، ترشاوہ پھلوں سے سات گنا زیادہ وٹامن C، کیلے سے تین گنا زیادہ پوٹاشیم اور دہی سے دوگنا زیادہ پروٹین پائی جاتی ہے۔
نہ صرف پتے، بلکہ اس کرشماتی پودے کے ہر حصے میں اہم غذائی اور طبی فوائد کے حامل اجزا وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں جن میں وٹامنز، کیلشیم، میگنیشیم، فاسفورس اور زنک وغیرہ شامل ہیں جو کہ بہت سی بیماریوں پر قابو پانے کے لیے اہمیت کے حامل ہیں۔ جدید طب کے علاوہ سوہانجنا کے مختلف حصوں کا بطور دوا استعمال قدیم حکما اور اطبا سے بھی ثابت شدہ ہے۔ سوہانجنا کی خاص بات یہ ہے کہ اس پودے کا ہر حصہ، بیج، پتّے، جڑ وغیرہ قابلِ استعمال ہے۔
سوہانجنا تیز رفتاری سے بڑھنے والا پودا ہے اور اس کا قدرتی مسکن شمالی ہندوستان اور جنوبی پاکستان ہے۔ یہ پاکستان میں سندھ اور جنوبی پنجاب کے علاقے میں بہت برسوں سے اپنی پہچان رکھتا ہے۔
کاشت کے لحاظ سے یہ نیم پہاڑی علاقوں، ندی نالوں کے بیٹ، ریتیلی اور کنکری زمینوں کو مسکن بناتا ہے۔
پودے کی چھال بھوری، نرم، موٹی اور دراڑوں والی ہوتی ہے۔ پتے اور پھول فروری اور مارچ میں آتے ہیں اور اس کی پھلیاں اپریل سے جون تک کے عرصے میں پختہ ہوجاتی ہیں۔
سوہانجنا کے تمام حصوں کو بے شک و شبہ غذا کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پودے کا پھل پھلیوں کی صورت میں لگتا ہے جنہیں پکا کر سبزی ترکاری کے طور پر استعمال میں لانے کے علاوہ اچار کی صورت میں لمبے عرصے تک استعمال کے لیے محفوظ کیا جاتا ہے۔
اسی طرح اس کے پھول اور کونپلیں بھی پکانے کے کام آتی ہیں، مگر انہیں زیادہ دیر تک پکانے سے ان کی غذائی افادیت میں کمی آجاتی ہے۔
اس کے علاوہ سوہانجنا کی سب سے زیادہ استعمال میں آنے والی نوعمر پودوں کی وہ جڑیں ہوتی ہیں جنہیں ”سوہانجنے کی مولیاں“ کہا جاتا ہے۔ یہ بھی پکانے اور اچار بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور اس سے بننے والا اچار لذیذ ہونے کے ساتھ ساتھ صحت بخش اجزا سے بھرپور بھی ہوتا ہے۔
اس کے نیم پختہ بیجوں کو توے پر بھون کر بھی کھایا جا سکتا ہے، اور ان کا ذائقہ مونگ پھلی یا کاجو سے مشابہت رکھتا ہے۔
تحقیقات کے مطابق سوہانجنا کی سب سے زیادہ غذائی اہمیت اس کے تازہ پتوں اور پھولوں میں ہوتی ہے، اور دنیا میں سب سے زیادہ اس کے پتوں کا استعمال خشک سفوف کی صورت میں کیا جاتا ہے۔
پتوں کو چھاؤں میں سُکھانے کے بعد پیس کر ہوا بند مرتبانوں میں محفوظ کرلیا جاتا ہے اور اطبا کے مطابق بچوں اور بڑوں میں اس سفوف کا استعمال قوتِ مدافعت بڑھانے کے علاوہ ذہانت میں اضافے کا سبب بھی بنتا ہے۔
پتوں کا رس نکال کر جراثیم کُش محلول کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے، اور زمین کی زرخیزی بڑھانے کے لیے اس کے کچلے ہوئے پتوں کو مٹی میں ملانے سے بہتر نتائج سامنے آتے ہیں۔
مورنگا انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے لیے بھی بہترین خوراک یعنی چارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ دیگر سبز چارہ جات کے ساتھ ایک حصہ سوہانجنا کے پتے شامل کرنے سے جانوروں کی بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت میں اضافے کے علاوہ دودھ دینے والے جانوروں کے دودھ اور گوشت کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
اس کے خشک پتوں کو مرغیوں کی غذا میں شامل کرنے سے پروٹین کی ضرورت کو کامیابی سے پورا کیا جاتا ہے۔
تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس کے پتوں کو بطور چارہ استعمال کرانے سے جانوروں کی عمومی صحت میں آتی ہے۔ سوہانجنا کے پتوں اور بیجوں میں ایسے اجزا بھی موجود پائے گئے ہیں جو فصلوں میں جڑی بوٹیوں اور کیڑے مکوڑوں کو قابو میں رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
یہ درخت تیزی سے بڑھتا ہے اور ایک سال بعد ہی بیج دینے لگ جاتا ہے، جن سے عمدہ قسم کا تیل حاصل ہوتا ہے جو کہ گدلےپن کے بجائے شفاف خصوصیات کا حامل ہوتا ہے، تاہم اس کے حصول کے لیے وسیع سطح پر سوہانجنا کی کاشت کی ضرورت ہے۔ غذائی ماہرین کے مطابق یہ تیل خوردنی طور پر قابلِ استعمال ہونے کے علاوہ غذائی خوبیوں میں زیتون کے تیل کے برابر ہوتا ہے۔ اس کے دیگر استعمالات میں میک اپ کے سامان کی تیاری اور قیمتی گھڑیوں کے پرزوں میں چکنائی کے لیے استعمال ہونا ہے۔
اس کے بیج میں تیس سے چالیس فیصد تیل ہوتا ہے اور اسے کولہو میں بآسانی نکالا جا سکتا ہے۔ مورنگا کا تیل دنیا کا مہنگا ترین تیل ہے لہٰذا کثیر رقبے پر مورنگا کی کاشت سے بہترین زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔
بیج کے بقیہ حصے اور پھوک کو آئل سیڈ کیک کی صورت میں مرغیوں کی خوراک اور چارے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مورنگا کا ایک دو سالہ درخت تقریباً تین سے چار کلو گرام بیج دیتا ہے، جبکہ ایک کلو گرام بیج سے پاؤ بھر تیل کا حصول ممکن ہوتا ہے۔
کیونکہ مورنگا کا تیل شفاف ہوتا ہے اس لیے اسے دیگر تیلوں کی نسبت کم اور آسان پراسس کی ضرورت ہوتی ہے۔ مورنگا کے تیل کی سب سے اہم خصوصیت اس کا زیادہ دیر تک قابلِ استعمال رہنا ہے۔
یہ کرشماتی درخت بے حد کسان دوست بھی ہے کیونکہ یہ زمین کی زرخیزی میں کمی کا سبب نہیں بنتا، اور گہری جڑیں ہونے کے باعث زمینی اجزا کی مقدار نہیں گھٹاتا، بلکہ اس کے گرنے والے پتوں کی بدولت زمین کی زرخیزی میں اضافہ ہوتا ہے۔ کسان اسے اپنے کھیتوں کے وٹوں پر لگا کر اضافی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بھی بنا سکتے ہیں۔
کیونکہ یہ ایک کسان دوست پودا ہے لہٰذا کھیتوں کے کنارے، چراگاہوں، نہروں، سڑکوں اور گزرگاہوں میں لگانے سے ماحول میں درختوں کے اضافے سے ہونے والی مثبت ماحولیاتی تبدیلیوں کے حصول کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے۔
مورنگا کو اگر پتوں کے حصول کے لیے بطور فصل کاشت کرنا ہو تو اسے شٹالے یا برسیم کی طرح بار بار برداشت کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے دو دو فٹ کے فاصلے پر مکئی کی طرح کاشت کرنا بے حد کامیاب رہے گا۔
جڑوں یا مولیوں کے لیے سوہانجنا کے اچھے اور معیاری بیجوں کو زمین کی تیاری کے بعد قطاروں میں کم از کم تین فٹ کے فاصلے پر لگائیں تاکہ اچھی کوالٹی کی مولیوں کا حصول ممکن ہو۔
آبپاشی اور کھاد کا استعمال زمین کی زرخیزی کے مطابق کیا جائے۔
سوہانجنا کو کاشت کرنا بے حد آسان ہے اور کاشت تین طریقوں سے کی جاتی ہے جن میں براہ راست زمین میں کاشت، پلاسٹک کی تھیلیوں (پولی تھین ٹیوبز) میں کاشت اور بذریعہ قلم کاشت شامل ہے۔
براہِ راست کاشت کے لیے بیج کو زمین میں دو انچ تک دبایا جاتا ہے اور درمیانی فاصلہ نو سے پندرہ فٹ بہترین تصور کیا جاتا ہے۔
اگر کھیت میں براہ راست نہ لگانا ہو تو پھر پہلے پلاسٹک کی تھیلیوں میں پنیری تیار کی جاتی ہے اور پودے نکل آنے کے تقریباً ایک ماہ بعد کھیت میں منتقل کیے جاتے ہیں۔ منتقلی کے لیے بعد از دوپہر وقت بہترین رہتا ہے۔ کھیت میں 15X15 کے گہرے گڑھے بنا کر احتیاط سے پودا تھیلی سے باہر نکالیں تاکہ جڑ کو نقصان نہ پہنچے اور گڑھے میں کھڑا کرکے برابر مقدار میں ریت، مٹی اور گوبر وغیرہ سے بھرنے کے بعد احتیاط سے پانی لگائیں۔
تیسرا طریقہ جو کہ کاشت بذریعہ قلم ہے، اس کے لیے کم از کم ایک سالہ صحت مند پودا جس کے تنے کی موٹائی ایک پینسل کے برابر ہو، منتخب کیا جائے، اور تین سے چار فٹ لمبی شاخوں سے قلمیں تیار کی جائیں ۔ اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ سبز شاخوں کا استعمال قلموں کے لیے ہرگز نہیں کیا جاتا۔
نرم بھربھری زمین میں پندرہ فٹ کے فاصلے پر قلموں کو اس طرح لگائیں کہ قلم کا ایک تہائی حصہ زمین کے اندر ہو۔
سوہانجنا کو یوں تو بڑھنے اور افزائش کے لیے صرف زرخیز زمین کی ضرورت ہوتی ہے، تاہم جلد اور بہتر نشوونما کے لیے تین سو گرام نائٹروجن فی پودا کا استعمال بہترین نتائج دیتا ہے۔
پودے کی لمبائی کو چھ سے آٹھ فٹ کے درمیان برقرار رکھیں، کیونکہ زیادہ لمبائی پکڑنے کی صورت میں پودا پتلا اور کمزور ہو کر جھک جاتا ہے اور ہوا کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرنے کی اس کی اہلیت کم ہوجاتی ہے۔
یہ کرشماتی پودا کیڑے مکوڑوں کے خلاف قدرتی قوتِ مدافعت رکھتا ہے، تاہم دیمک کے جڑوں پر حملہ کرنے سے بچانے کے لیے سفارش کردہ زہر کا استعمال اچھا رہتا ہے۔
کسانوں کو اس کرشماتی پودے سے فائدہ اٹھانے کے لیے اسے زیادہ سے زیادہ کاشت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ذاتی آمدن اور معاشی بہتری کے علاوہ ملکی معشیت میں زرمبادلہ سے ایک اچھا اضافہ ممکن ہو۔