مارک مینسن/ترجمہ:ناصر فاروق
تصو ر کر و، ایک مشین ہے جو تمہارے ذہن کوکمپیوٹر میں ڈاؤن لوڈ کرسکے اور اسے ایک فائل کے طور پر محفوظ کرسکے۔ تمہاری امیدیں، خواب، آرزوئیں، یادداشتیں، بداعمالیاں، اور تخیلات اُس فائل میں مقید ہوں۔ یہ سب کچھ ایک ایسے پروگرام میں ڈھل سکے جو تمہاری کمپیوٹر کاپی تیار کردے۔
اُس کے بعد کمپیوٹر تمہارے وہ بنیادی کام نمٹادے جنھیں تم یکسانیت یا عدم دلچسپی کے سبب انجام دینا نہیں چاہتے۔ وہ تمہارے لیونگ روم کے لیے ایک اچھے سے قالین کا انتخاب کرے اور آن لائن آرڈر کردے۔ وہ تمہارے لیے ایک پراجیکٹ کی تحقیق کرے، تمہارے محصولات بھردے، اور اخراجات کا حساب کتاب کردے، جب کہ تم اس دوران سورہے ہو یا صوفے پر پڑے موٹے ہورہے ہو۔
ایک زاویے سے دیکھا جائے، تو یہ کمپیوٹر ’تم‘ ہی ہو۔ لیکن یہ تمہارے جسم سے باہر اور تمہارے شعور سے آزاد ہے۔
اب تصور کرو کہ یہی پروگرام اب تمہیں بدل دینا چاہتا ہے۔ تم کچھ کربناک یادیں مٹاسکو گے، اپنی خوش فہمی اور غلط فہمی کچھ کم کرسکو گے، بُری عادتیں ختم کرسکو گے، اور ان کی جگہ کچھ بہتر چیزیں ڈاؤن لوڈ کرسکو گے۔ تب تم پھر سے کمپیوٹر کا پلگ اپنے دماغ سے منسلک کروگے اور اپنا ’نیا‘ آپ چند لمحوں میں خود میں منتقل کرسکوگے۔
لیکن اگر فرض کرو کہ تم بالکل سٹھیا جاتے ہو اور اپنی ساری یادداشتیں مٹادینا چاہتے ہو، اور تخیلاتی یا جعلی یادداشتیں اُن کی جگہ لے آتے ہو، تو پھر کیا تم مزید ’تم‘ رہ پاؤگے؟ اسی طرح تم اپنی شخصیت مٹاکرکوئی نئی شخصیت اختیار کرنا چاہتے ہو؟ تب کیا ہوگا؟
چلو کچھ مزید عجیب تجربہ کرلیتے ہو۔ اپنے دوست کے ساتھ تفریحاً شخصیتوں کا تبادلہ کرلیتے ہو۔ وہ ’تم‘ بن جاتا ہے اور تم ’وہ‘ بن جاتے ہو۔ تم دونوں ایک دوسرے کو ایک دوسرے میں ڈاؤن لوڈ کرلیتے ہو۔ تصور کرو،کیسا محسوس کروگے؟ آدھے تم آدھا تمہارا دوست۔ اب کیا تم واقعی ’تم‘ باقی رہ گئے ہو؟ یا تمہارا دوست ’وہ‘ باقی رہ گیا ہے؟ یا تم دونوں ہی ایک نئی عجیب شے میں ڈھل چکے ہو؟
لیکن رکو، ہم کچھ اور عجیب کرتے ہیں
ہم کہتے ہیں کہ اس مفروضاتی مستقبل میں مریخ ہماری کالونی بن چکا ہے۔ ہمارے حکمران ایسی ٹیلی پورٹیشن ڈیوائس بنا چکے ہیں، جو ہمیں فوراً مریخ تک پہنچا دیتی ہے۔ یہ ٹیلی پورٹیشن ڈیوائس انسانی جسم کو لے کر کروڑوں اربوں ذرات میں ڈھال دیتی ہے۔ انہیں ڈیٹا میںEncode کردیتی ہے۔ اس ڈیٹا کو روشنی کی رفتار سے مریخ پر پہنچا دیتی ہے۔ وہاں موجود ڈیوائس ڈیٹا وصول کرتی ہے اور اربوں ذرات کو پھر سے منظم جسم میں واپس لے آتی ہے۔ یوں تم مریخ پر پہنچ جاتے ہو۔ دیکھو زمین پر تمہارے جسم کے اربوں ذرات توڑ کر ایک دوسرے سے علیحدہ کردیے گئے تھے۔ اور وہ تم جو مریخ پر پھر سے ایک جسمانی حالت میں واپس آگئے ہو، ایک بالکل نئی تعمیر ہو۔
حقیقت میں سمجھا جائے تو ٹیلی پورٹیشن ڈیوائس زمین پر تمہارا بہیمانہ قتل کرتی ہے، اور دوسری جگہ کلوننگ کرکے پھر وجود میں لے آتی ہے۔ تو کیا یہ جو تم مریخ پر ہو، واقعی ’تم‘ ہو؟ یا پھر تمہاری نقل ہے؟
اگر تم سمجھتے ہو کہ ابھی خود کو پانا مشکل ہے، توپھر چند دہائیوں تک انتظار کرو۔ یہ سوالات ہوسکتا ہے احمقانہ اور غیر حقیقی لگیں، لیکن اگر اب تک تم نے نہیں سنا تو جان لو کہ ٹیکنالوجی انتہائی تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔ بہت سی ٹیکنالوجیز ممکنہ طور پر ہماری زندگیوں میں متعارف کروائی جانے والی ہیں۔ اور دیکھو ہم پہلے ہی شناخت کے بہت سے مسائل دیکھ رہے ہیں۔ ابھی پوری شخصیت کی اَپ لوڈنگ شاید بے وقوفی کی بات لگے۔ مگر سوشل میڈیا، ای میل، اور دیگر آن لائن ذرائع کیا تمہاری شخصیت کی ترجمانی نہیں کرتے؟ کیا یہ تمہاری شناخت کا حصہ نہیں ہیں؟ اگر ان کو مٹادیا جائے اور ان کی جگہ یکسر مختلف ڈیٹا اَپ لوڈ کردیا جائے توکیا تم ’بدل‘ نہیں جاؤ گے؟
بطورانسان ہماری فطرت ہے کہ خارجی حوالوں سے اپنی شناخت متعین کرتے ہیں: جون ایک اچھا ڈرمر ہے۔ کرسٹی ایک وکیل ہے۔ مگر ان شناختوں کا تعین زیادہ تر ہمارے مادی حالات پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر کوئی لکھا ہوا قانون موجود نہ ہو، یا کوئی عدالتی نظام موجود نہ ہو تو تم ایک وکیل بھی کیسے ہوسکتے ہو؟ اسی طرح اگر کوئی ڈرم ایجاد نہ کرتا تو تم ایک اچھے کیا بُرے ڈرمر بھی نہیں ہوسکتے تھے۔
یہ سادہ سی مثالیں ہیں۔ یہاں نکتۂ فکر یہ ہے کہ ہم خود کو کس طرح دیکھ رہے ہیں اور اپنی شناختوں کو کس طرح وضع کررہے ہیں۔ ہم کیا پسند کرتے ہیں۔ ہم کیسا سوچتے ہیں۔ ہم کس بات پر یقین رکھتے ہیں۔ ہماری اقدار کیا ہیں۔ یہ سب بہت حد تک ہمارے معاشی اور ٹیکنالوجی حالات پر انحصار کررہا ہے۔ اگر تم خود کو اچانک ایک جزیرے پر ایک قبیلے میں پاؤ جہاں کوئی تیرنا نہ جانتا ہو، تو تم فوراً خود کو ایک پیراک کے طور پر متعارف کرواؤ گے۔ لیکن اگر تم پیراکوں کی ایک ٹیم کا حصہ ہو اور ہر مقابلہ ہار جاؤ توتمہاری شناخت ’شکست خوردہ‘ کی کہلائے گی۔ اور اگر دس سال میں تمہاری پوری ٹیم ہی اینڈرائڈ نما روبوٹس پیراکوں کے آگے پانی بھرتی نظر آئے تو تم سب بس ’انسان‘ ہی کہلاؤ گے۔ ایک سی سرگرمی، مگر انتہائی مختلف شناختیں، یہ خود کو دیکھنے کے انتہائی مختلف طریقے ہیں۔ یہ سب خارجی معاشی اور ٹیکنالوجی حالات کے سبب سے ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تم جس وقت یہ تحریر پڑھ رہے ہو، تمہاری زندگی میں کئی بڑی ٹیکنالوجی تبدیلیاں واقع ہوچکی ہیں۔ جبکہ تمہاری پیدائش سے پہلے کے سوسال اس حوالے سے بہت پیچھے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس ڈیوائس پر تم اس وقت معلومات حاصل کررہے ہو، وہ ہمیشہ سے بہتر اور تیز رفتار ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہوا کہ تم اس وقت ایک دن میں زیادہ نئے آئیڈیاز اور تصاویر کا مشاہدہ کررہے ہو۔ جبکہ تمہارے آبا واجداد ساری زندگی میں ایسے مشاہدے نہ کرسکتے تھے۔
حالیہ دہائیوں میں معلومات کی بھرمار نے ہماری شناختوں کو تغیر پذیر اورغیر متعلق بنادیا ہے، بدلتے حالات کا ساتھ دینا دشوار ہورہا ہے۔ آج کی ٹیکنالوجیز کے ساتھ لوگ اپنی نمائندگی نہیں کرپا رہے، اور نہ خود کو واضح کرپا رہے ہیں۔ ان کی شناختوں میں ترمیم و تصحیح ہورہی ہے۔ یہاں تک کہ آف لائن دنیا میں بھی پلاسٹک سرجری اور جسمانی تبدیلیاں آسان ہورہی ہیں۔ ادویہ اور فوڈ سپلیمنٹ کی بھرمار ہے۔ ہمارے دماغ کی کیمیائی کیفیات مرضی کے مطابق ڈھالی جارہی ہیں۔ جسمانی دنیا میں انتخاب کی حدود ختم ہورہی ہیں۔ ہم نت نئی شخصیات میں ڈھلنے کے لیے آن لائن سوفٹ وئیرز اور ایپ کے سہارے لے رہے ہیں۔ یہ ہماری آف لائن زندگی پر برابر اثرانداز ہورہے ہیں۔
نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ہرطرح کی سرحد تحلیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ ہماری املاک غیر مادی ہوتی جارہی ہیں۔ موسیقی، وڈیوز، تصاویر، پیغامات، یہاں تک کہ پیسے اور شخصیت بھی ڈیجیٹل ہورہی ہیں۔ یہ سارا مواد پروڈیوسر اور صارف کے درمیان کی لکیر مٹارہا ہے۔
اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ انسانی وجود کی آن لائن اور آف لائن تفریق زائل کررہا ہے۔ ہماری یادداشتیں ڈیجیٹل صورت میں ذخیرہ ہورہی ہیں۔ لمحوں میں پسند ناپسند کے تبادلے ہورہے ہیں۔ حیاتیاتی اورٹیکنالوجیکل تفریق مٹ رہی ہے۔ مصنوعی اعضاء کی امپلانٹیشن ہورہی ہے۔ یہ سب اب عام ہورہا ہے۔
شناخت کا مستقبل
غار کا آدمی یہ سب نہ کرسکا تھا۔ وہ جانور کا شکار کرتا تھا۔ بیریاں جمع کرتا تھا۔ یہی کچھ معمول تھا۔ کچھ بھی غیر معمولی نہیں ہورہا تھا۔ ان کی خود شناسی ہونے نہ ہونے جیسی تھی۔ شناختیں گروہ بندی کی حد تک تھیں۔ کیونکہ ہر ایک فرد کو اپنے گروہ پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ یہ انفرادی بقاء کے لیے لازمی تھا۔
قدیم وقتوں میں تم ابتدائی مشقت، شہروں کی ترقی، اور چھوٹی ریاستوں کی تشکیل میں واضح تقسیم کا مشاہدہ کرتے ہو۔ جلد ہی کسان کی شناخت سپاہی سے ممیز ہوئی، فنکار اور پادری ایک دوسرے سے مختلف شخصیتوں میں تقسیم ہوئے۔
تحریک تنویر تک پہنچ کر انفرادی شناخت کی اہمیت مستحکم ہوئی۔ انسانی حقوق اور برابری کے تصورات پھلے پھولے۔ ’خوشی کی جستجو‘ کے خیال نے جڑیں پکڑیں (یہ بات صرف یورپ کی تاریخ میں درست سمجھی جاتی ہے، اسے عمومیت نہیں دی جاسکتی، مغرب کی نام نہاد روشن خیالی تک مشرق میں تہذیبیں بہت مستحکم ہوچکی تھیں۔ اعلیٰ انسانی اصول عملی زندگی میں کامل صورت اختیار کرچکے تھے۔ ہندو تہذیب، فارسی تہذیب، اسلامی تہذیب، چینی تہذیب اعلیٰ انسانوں اور دانش وروں کی تاریخ ساز شخصیات سے مالامال ہوچکی تھیں۔ مترجم)۔ یہ سب ٹیکنالوجی میں ترقی کے سبب ہورہا تھا۔ پرنٹنگ پریس، سستی کتابیں، اور دیگر علمی ذرائع غوروفکر کی دنیا کو جِلا بخش رہے تھے۔ اب لوگ محض پیشے اور معاشرتی رتبے کے سبب نہیں پہچانے جارہے تھے، بلکہ اب ان کے خیالات، احساسات، اور تمنائیں اہمیت اختیار کرچکے تھے۔ (مشرق میں صدیوں قبل تحریرو اشاعت کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا، قدیم آسمانی کتابیں اورسائنسی اکتشافات روشن خیالی سے بہت پہلے ضبطِ تحریر میں آچکے تھے۔ مترجم)
یوں تم اُس بیسویں صدی میں پہنچے جہاں صنعتی ترقی اور پیداوار ی لاگت اتنی بڑھی کہ لوگ تفریح اورتعیش کے لیے صارف بنتے چلے گئے۔ غیرضروری اشیاء کی فراوانی ہوگئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صارفیت شناخت کا تعین کرنے لگی۔ تم اپنا گھر دریا کنارے خریدتے ہو یا شہر میں؟ تم سب سے مہنگی چیز خریدتے ہو یا غریب صارف ہو؟ گاڑی کا نیا ماڈل کس کے پاس سب سے پہلے آیا ہے؟ کون نئے ماڈل کا ٹی وی خریدتا ہے؟ یہ سوال اہم ہوگئے۔
پلٹ کر تاریخ کی جانب دیکھیے، دو متوازی رویّے نظر آتے ہیں
جوں جوں ٹیکنالوجی آگے بڑھی، ہر فرد کو مادی معیارِ زندگی بہتر بنانے کے بھرپور مواقع ملتے چلے گئے۔ اس طرح ہم اپنی شناختوں کو نئی نوعیتوں میں واضح کرتے چلے گئے۔ یہ ڈھیلی ڈھالی، خیالی اور غیر حقیقی شناختیں تھیں۔ غار کے آدمی کا سو فیصد انحصار معاشرتی تعلق پر تھا۔ اُس کی شناخت گروہ سے وابستہ تھی۔ قدیم دنیا کے لوگوں کے کردار واضح شناختوں کے حامل تھے۔ جدید دنیا کے لوگ انفرادی نظر وفکر میں اپنی شناخت واضح کرتے ہیں۔ یہ قوتِ خرید اورطرزِ زندگی سے خود کو واضح کرتے ہیں۔ آج میں چاہوں تو اسکاٹش ہیجڑے سائیکلسٹ کی شناخت اختیار کرلوں اور اپنا نام ایپی فینی رکھ لوں، اور کوئی مجھے اس شناختی تبدیلی سے نہیں روک سکتا۔
اس طرح کی صورت حال میں شناخت کا بحران اور پیچیدگی پیدا ہوتی ہے۔ لوگ اسے آج ادھیڑ عمر کا بحران بھی کہتے ہیں جب آدمی چالیس پچاس سال کی عمر کے آس پاس اپنی شناخت اور مقاصد کے حوالے سے حساس ہوجاتا ہے۔
ٹیکنالوجی کی پیش رفت تین اہم شعبوں میں ہورہی ہے، جو ہمیں کہ جو کچھ ہم ہیں، شاید رہنے نہیں دے گی۔
1۔ جینیاتی انجینئرنگ اور نینو ٹیکنالوجی: یہ دونوں ٹیکنالوجیز ہمارے اجسام میں غیر معمولی تبدیلیاں اور جدت لاسکیں گی، بالکل اُسی طرح جیسے تم اپنی گاڑی کے پرزوں میں ردو بدل کرتے ہو۔ جینیاتی تھراپی ہمیں جین کے انتخاب کا اختیار دے گی، ایسا ہی کچھ ہم اپنے بچوں کی جین کے ساتھ بھی کرسکیں گے۔ جینیاتی بیماریوں کو شجرہ نسب کی جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاسکے گا۔ جسم کی غیر مطلوبہ خصوصیات کو بدلا جاسکے گا۔
نینو ٹیکنالوجی کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اپنے اجسام میں مائیکرو اسکوپک کمپیوٹرز امپلانٹ کروا سکیں گے اور کچھ معاملات میں ہم اپنے خلیات کو زیادہ فعال خلیات میں تبدیل کروا سکیں گے۔
کیا تم پانی کے اندر پندرہ منٹ تک سانس روک سکتے ہو؟ نینو بوٹس ہمارے لیے ایسا کرسکیں گے۔ وہ خون کے خلیوں کو اس قابل بناسکیں گے کہ ہم دیر تک سانس روک سکیں گے۔ وہ ہم میں میلوں تک بے تکان دوڑنے کی صلاحیت پیدا کرسکیں گے۔ وہ ہمیں بیماریوں اور وباؤں سے پیشگی محفوظ بناسکیں گے۔ اور اس سب سے بڑھ کریہ یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہ رہ جائے گی کہ پلاسٹک سرجری اور دیگر جسمانی ترمیمات کی سہولیات تک رسائی آسان اور سستی ہوگی۔ آج امریکہ میں سالانہ ڈیڑھ کروڑ ایسے طریقوں پر تجربات کیے جارہے ہیں ، اور یہ شمار بڑھتا جارہا ہے۔ ایک دو دہائیوں میں ہماری جسمانی ہیئت اور شناخت بہت حد تک من مانی ہوچکی ہوںگی، بالکل اسی طرح جیسے ہم ناشتے میں کیا کھانا پسند کرتے ہیں اورکون سا ٹی وی شو دیکھنا چاہتے ہیں۔
2۔ روبوٹکس اور آرٹی فیشل انٹیلی جنس : اپنی کتاب Race Against the Machine میں ایم آئی ٹی پروفیسر Erik Brynjolfsson اور Andrew McAfee لکھتے ہیں کہ کمپیوٹر کی طاقت میں اضافہ اور اس کی لاگت میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ اکثر تخلیقاتی اور اہم کام آرٹی فیشل انٹیلی جنس مشینوں کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے۔ ڈاکٹرز، اکاؤنٹنٹس، بینکرز، یہاں تک کہ بیوروکریسی بھی کسی نہ کسی قسم کے ایلگوریتھم کے ذریعے خودکار کردیے جائیں گے۔
اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ انسانوں کی اکثریت بے روزگار ہوجائے گی۔ اکثر انسان پیداوار کی صلاحیتوں میں کمپیوٹرز سے پیچھے چھوڑ دیے جائیں گے۔ (یہ بات قدرے مبالغہ آرائی محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے کہ کمپیوٹر کچھ بھی بن جائے، اس کا خالق اور منصوبہ ساز انسان ہی ہے اور انسان ہی رہے گا۔ اس حوالے سے سمجھنے کی اصل بات ’شعور‘ کی ہے۔ کائنات کی ساری مخلوقات میں صرف انسان ہے جسے ’شعور‘ کی نعمتِ عظمیٰ سے نوازا گیا ہے۔ مشینوں کی بے شعوری بے لگام اختیارات میں کیسی تباہی مچا سکتی ہے! اس کا مشاہدہ ہم جنگی آلات، نیوکلیئر ہتھیاروں، موسمی تباہی، اور ڈرون وغیرہ کی کارکردگی میں دیکھ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کی صورت میں آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی کئی تباہ کن صورتیں ہمارے سامنے ہیں۔ مترجم)
معاشرتی و معاشی اور سیاسی بحرانات کے علاوہ یہ کمپیوٹرز دنیا بھر میں شناخت کا بحران پیدا کردیں گے۔ ہماری شناخت کا انحصار ہمارے اعمال واقدار پر ہے، وہ انسانی اقدار جنہیں ہم سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اور اگر ٹیکنالوجی ان اقدار کو ’کچھ نہیں‘ بنانے پرتلی ہوئی ہے تو انتہائی تشویش ناک بات ہے۔یہ صورت حال ہم سب انسانوں کو عجیب مخمصہ میں ڈال سکتی ہے۔
ورچوئل رئیلٹی: ایک دہائی کے دوران مقبول ترین وڈیو گیمز ہم سے ہماری شناختیں چھین چکے ہیں۔ ہم کسی نہ کسی مصنوعی کردار کی پیروی میں اپنی توانائیاں ضائع کررہے ہیں۔ اُن کی مصنوعی صلاحیتوں میں اپنی حقیقی صلاحیتیں زائل کررہے ہیں۔ ہزاروں گھنٹے اس کارِ زیاں میں جارہے ہیں۔ ورچوئل رئیلٹی کی ترقی کے ساتھ ساتھ یہ باور نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ یہ جلد ہی زندگی کے مرکزی دھارے میں شامل ہوجائے گی! درحقیقت، یہ ورچوئل رئیلٹی ہمیں ہماری شناختیں گروہی یا اجتماعی صورت میں بدلنے پر مائل کرسکتی ہے۔
مستقبل کے متنازع پیش گو اور مؤجد Ray Kurzweil کا یقین ہے کہ ورچوئل رئیلٹی اس حد تک تفریح سے بھرپور ہوگی کہ ایک دن جب سب سوکر اٹھیں گے تو یہ ورچوئل ورلڈ ’ایک حقیقی دنیا‘ بن چکی ہوگی (غالباً خیالی جنت کا سا تصور ہے، جیسے شداد نے اپنی جنت بنائی تھی، مترجم)۔ وہ کہتا ہے کہ ضروری نہیں یہ ایک ناخوشگوار صورت حال ہو۔ ہوسکتا ہے یہ تمہاری خواہشات کے مطابق ڈھلنے والی صورت حال ہو، جو تمہیں مسرتوں سے دوچار کردے۔ ہوسکتا ہے کہ تم اپنی ہی ایک دنیا کے خدا بن جاؤ! (خاصا تشویش ناک ’دجل‘ دھوکا ہوسکتا ہے یہ۔ مترجم)
اس ساری صورت حال کے بعد انسان کی خودشناسی کہاں ہوگی؟ اور کیا تم کسی دوسرے انسان سے بات کرنے کے قابل بھی رہ سکوگے؟
مستقبل میں ہم ممکنہ طور پر اپنی جسمانی تبدیلیوں کے قابل ہوسکیں گے، ہماری یادداشتیں اَپ لوڈ ہوسکیں گی، ان میں ترمیم ہوسکے گی، انہیں ڈاؤن لوڈ کیا جاسکے گا۔ یہ سب ہم آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے نیٹ ورک سے شیئر بھی کررہے ہوں گے۔ یہ مشینی نظام دنیا کا نظام چلا رہا ہوگا۔ یوں ہمارے پاس فرصت ہی فرصت ہوگی۔ جسمانی موجودگی کی کوئی اہمیت شاید نہ ہوگی۔ فرد کی شناخت گُم ہوجائے گی۔ ماضی گُم گشتہ بن جائے گا۔ قبیلے اور ریاست کے تصورات بھی شاید یکسر ختم ہوجائیں گے۔
گوتم بودھ نے دعویٰ کیا تھا کہ انسان کی ’ذات‘ تصورکے سوا کچھ نہیں۔ اور یہ کہ ہم سب ’کچھ نہیں‘ کے لیے بہت کچھ کررہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی عجیب انداز میں اس خیال کو حقیقت کا روپ دے رہی ہے۔ ذات کا فریب بہت مضبوط ہے۔ ہم یہ ادراک نہیں کرسکتے کہ کس طرح یہ ممکن ہوسکتا ہے۔
ایک اعتبار سے دیکھا جائے توہماری شناختیں ورچوئل ہیں۔ تم شاید سوچو کہ جوتم ’جسمانی‘ دنیا میں ہو تویہ صرف اس وجہ سے ہے کہ تم ممکنہ طورپرکچھ نہ ہونے کے خوف میں مبتلا ہو۔ تم نے ایک ایسی شناخت گھڑ رکھی ہے جو تمہاری ذات کا اثبات کرتی ہے۔