صفر4 ہجری میں نجد کے سرداروں میں سے ایک سردار ابوبراء عامر بن مالک آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ یہ شخص بنو عامر کے معزز لوگوں میں سے تھا۔ مگر قبیلے کی حقیقی قیادت اس کے بھتیجے عامر بن طفیل بن مالک کے ہاتھ میں تھی۔ آپؐ سے بڑے ادب و احترام سے پیش آیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی تو اس نے اسلام قبول کرنے کے بجائے کہا ’’آپ اپنے منتخب ساتھیوں کا ایک وفد میرے ساتھ بھیج دیں، تاکہ یہ اہلِ نجد کو اسلام کی دعوت پیش کریں اور لوگ اسلام میں داخل ہوجائیں‘‘۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں اہلِ نجد کے بارے میں مطمئن نہیں ہوں۔ میرے ساتھیوں کو وہاں خطرہ پیش آسکتا ہے‘‘۔ اس پر ابوبراء نے کہا ’’آپ اس کی فکر نہ کریں، یہ تمام لوگ میری امان میں ہوں گے‘‘۔ چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چیدہ چیدہ ساتھیوں کا ایک وفد ترتیب دیا، جو سب صاحب ِعلم اور نوجوان تھے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خدشہ تھا کہ ان کے ساتھیوں کے ساتھ کوئی حادثہ نہ ہوجائے، مگر بعد میں انہوں نے ابوبراء کی یقین دہانی پر یہ وفد بھیج دیا۔ موت ان لوگوں کے انتظار میں تھی۔ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کو رخصت فرما رہے تھے۔ قضا و قدر کے اٹل فیصلے نافذ ہوکر رہتے ہیں، ان سے کوئی مفر نہیں، اس لیے بندۂ مومن کا قضا و قدر کے بارے میں ایمان اسے ہر مصیبت اور حادثے پر صبر و تسکین کی دولت عطا کرتا ہے۔ مدینہ سے اپنے پیارے ساتھیوں کو رخصت کرتے ہوئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا منذر بن عمروؓ کو امیر مقرر فرمایا۔ وفد کے تمام لوگ قرآن کے حافظ اور عالم تھے۔ جب یہ لوگ بنو سلیم اور بنو عامر قبائل کے درمیان واقع بیئر معونہ کے چشمے پر پہنچے تو وہاں انہوں نے قیام کیا۔
عامر بن طفیل کی منافقت اور صحابہ کی المناک شہادت
مشہور صحابی حضرت حرام بن ملحانؓ کو عامر بن طفیل کے پاس آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کے ساتھ بھیجا گیا۔ اس بدبخت نے خط پڑھے بغیر ان کو دیکھتے ہی حملہ کرکے شہید کردیا، پھر اس نے اپنے قبیلے بنو عامر میں منادی کرائی کہ بیئر معونہ پر مقیم ایک کارواں کو تہِ تیغ کردیا جائے۔ بنو عامر نے یہ سننے کے بعد کہ یہ لوگ ابوبراء کی امان میں ہیں، حملہ کرنے سے انکار کردیا۔ بنو سلیم کے قبائل عصبیہ، رعل اور ذکوان کے لوگوں نے عامر بن طفیل کا ساتھ دیا اور ایک بڑی جمعیت کے ساتھ بیئر معونہ کی طرف بڑھے۔
صحابہ کرامؓ اپنے ساتھی حضرت حرام بن ملحانؓ کے انتظار میں تھے کہ وہ کیا جواب لے کر آتے ہیں، اچانک انہوں نے اپنے آپ کو دشمنوں کے گھیرے میں پایا۔ اس صورتِ حال میں بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ دھوکا اور غدر کرنے والوں کو اسلام کا پیغام تلواروں کی چھائوں میں پہنچایا۔ ابوبراء نے ان کو بچانے کی کوشش کی، مگر اس کی کوئی نہ سنی گئی۔ صحابہ کرامؓ ایک ایک کرکے شہید ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی کئی ایسے واقعات ملتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کو دھوکے سے شہید کیا گیا۔ صفر 4 ہجری میں بیئرمعونہ بھی ایسا ہی ایک سانحہ تھا جب ستّر صحابیوںؓ اور شیردل مجاہدوں کو موت کا سامنا کرنا پڑا۔ 68 صحابہؓ شہید ہوگئے جبکہ دو بچ گئے۔ حضرت عمروؓ بن امیہ کو جو زخمی ہوچکے تھے، عامر بن طفیل نے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ میری ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی تھی۔ زخمیوں کے درمیان حضرت کعب بن زیدؓ بچ رہے اور دشمنوں کے چلے جانے کے بعد وہ بھی زندہ سلامت مدینہ واپس پہنچ گئے۔
حضرت منذر بن عمروؓ اپنے ساتھیوں کے شہید ہوجانے کے بعد ابھی زندہ تھے۔ انہیں عامر بن طفیل نے پیشکش کی کہ اگر وہ چاہیں تو انہیں امان دے دی جائے۔ انہوں نے فرمایا ’’جہاں میرے ساتھی جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں، وہیں میں بھی اپنی جان قربان کردوں گا‘‘۔ جس جگہ حضرت حرام بن ملحانؓ کو شہید کیا گیا تھا، منذر بن عمروؓ بھی دشمن سے لڑتے بھڑتے اسی مقام پر شہید ہوئے۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپؐ نے فرمایا کہ منذرؓ نے موت کے سامنے بزدلی نہیں دکھائی۔ موت آنکھوں کے سامنے تھی، مگر وہ جوانمرد اپنی بات پر ڈٹا رہا۔
مؤرخین نے اس واقعے کی تفصیلات لکھتے ہوئے حضرت عامر بن فہیرہؓ کی شہادت کا واقعہ بھی نقل کیا ہے۔ انہیں بنی کلاب کے ایک شخص جبار بن سلمیٰ نے شہید کیا۔ جب نیزہ ان کے جسم کے پار ہوا تو انہوں نے جوشِ ایمانی سے نعرہ لگایا ’’خدا کی قسم میں کامیاب ہوگیا‘‘۔ شہیدِ وفا کے انہی الفاظ نے ان کے قاتل کو ہلا کر رکھ دیا۔ مؤرخ ابن سعد کے مطابق: عامر بن فہیرہؓ کی شہادت کے بعد اللہ کے فرشتوں نے ان کا جسم آسمان کی طرف اٹھا لیا۔ عامر بن فہیرہ کے قاتل جبار بن سلمیٰ نے ان کے آخری الفاظ کو سن کر اسلام قبول کرلیا۔ سچ ہے کہ مبلغ تبلیغ کرنے کے لیے گیا تھا اور اس نے تبلیغ کا حق ادا کردیا۔ تاریخی روایات کے مطابق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی اطلاع اللہ کے حکم سے جبریلؑ نے پہنچا دی تھی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر اس واقعے کا اتنا شدید اثر ہوا کہ آپؐ نے پورا ایک مہینہ قاتلوں کے خلاف صبح کی نماز میں مسلسل قنوتِ نازلہ پڑھی۔ اس کا تذکرہ صحیحین میں بھی ملتا ہے۔ انس بن مالکؓ کے بقول بیئر معونہ کے واقعے سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جس قدر غمزدہ ہوئے، اس کی کوئی دوسری مثال آپؐ کی زندگی میں نہیں ملتی۔
اسلامی پرچم اتنی سنگین آزمائشوں کے باوجود سرنگوں نہ ہوا
بیئر معونہ کے مقام پر امتِ مسلمہ کے بہت سے روشن ستارے فلکِ دنیا سے محو ہوکر افقِ جنت پر طلوع ہوگئے۔ انہی میں حارث بن صمہؓ جیسا جری مجاہد تھا، جس کی بہادری کے واقعات کا تذکرہ غزوہ احد کے باب میں تمام سیرت نگاروں نے کیا ہے۔ مدینہ منورہ میں اس حادثے کے بعد غم کے بادل چھا گئے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ سخت دل گیر تھے۔ احد کے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے تھے کہ یہ نئے زخم لگ گئے۔ ستّر صحابہ احد میں شہید ہوئے تھے اور ستّر کے قریب ہی یہاں قربان ہوگئے۔ یہ اتنی بڑی آزمائش تھی کہ اس کے سامنے استقامت کا مظاہرہ وہی لوگ کرسکے، جو اللہ کے ہاتھ اپنا سب کچھ فروخت کرچکے تھے۔ اس واقعے کی اطلاعات دور و نزدیک پھیلیں اور اسلام دشمنوں نے خوب بغلیں بجائیں۔ ان کا خیال تھا کہ اسلام کا چراغ گل ہوجائے گا، مگر ان کے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا حوصلہ اس صدمے کے باوجود پست نہیں ہوا، اور آپؐ نے مسلسل اسلام کا پرچم بلند کرنے کے لیے اس کے متصلاً بعد کئی جرأت مندانہ اقدام کیے۔
امان دینے کے بعد قتل کرنا منافقانہ اور غیرمنصفانہ فعل ہے
حضرت عمروؓ بن امیہ ضمری واقعہ بیئر معونہ کے بعد واپس مدینہ آ رہے تھے۔ مدینہ سے کچھ فاصلے پر انھیں دو آدمی ملے جو عامر بن طفیل کے قبیلے بنو کلاب میں سے تھے۔ حضرت عمرو بن امیہؓ عامر اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر نازل ہونے والی ناگہانی مصیبت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے اور انتقامی جذبات سے مغلوب تھے۔ موقع پاکر انھوں نے ان دونوں کو قتل کردیا۔ مدینہ پہنچ کر انہوں نے جہاں بیئر معونہ کا واقعہ بیان کیا وہیں اپنے ہاتھوں قتل ہونے والے بنو کلاب کے دو افراد کا بھی تذکرہ کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیئر معونہ کے شہدا کی خبر جبریلؑ کی زبانی پہلے ہی سن لی تھی۔ اب مزید حالات معلوم ہوئے تو آپؐ کو بہت صدمہ پہنچا۔ اس کے ساتھ ہی آپؐ نے حضرت عمروؓ بن امیہ سے کہا کہ تم نے بہت برا کیا کہ ان دو آدمیوں کو قتل کر دیا، حالانکہ میں انہیں امان دے چکا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں مقتولین کا خون بہا اسلامی حکومت کی طرف سے ادا فرمایا اور یہ رقم ان کے ورثاء کو بھجوا دی۔ اس اسوۂ نبویؐ سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ کسی سے دوستی ہو یا دشمنی، اپنے وعدے کا پاس بندۂ مومن کی بنیادی صفت ہے۔ سخت ترین غم اور غصے کی حالت میں بھی عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا اسلام ہی کی امتیازی شان ہے۔
عامر بن طفیل کی مذموم حرکت اور اس کے ظلم کا بدلہ
عامر بن طفیل نے جو مذموم حرکت کی تھی اس کا ابوبراء کو بھی بڑا افسوس تھا، اور سیرت الحلبیہ کے مصنف نورالدین علی بن ابراہیم کے بقول وہ اس واقعے کے بعد شرم اور ندامت کے مارے اپنے گھر میں گوشہ نشین ہوگیا اور تھوڑے ہی عرصے بعد مر گیا۔ ابوبراء کے بیٹے ربیعہ بن عامر بن مالک نے اپنے چچا زاد عامر بن طفیل کے ظلم کے خلاف احتجاج کیا اور قبیلے کی مجلس میں اس پر نیزے سے حملہ آور ہوا، اگرچہ یہ حملہ ناکام رہا کیونکہ لوگوں کی مداخلت کی وجہ سے نیزے کا وار ٹھیک ہدف پر لگنے کے بجائے عامر بن طفیل کی ران میں لگا۔ عامر بن طفیل کو بھی اپنی حرکتِ شنیعہ کا احساس ہوگیا تھا۔ اس نے کہا کہ اگر میں مر بھی گیا تو اس سے میرا قصاص نہ لینا۔ میرا خون میرے چچا زاد کی نذر سمجھنا۔ ربیعہ بن مالک کے بارے میں قریباً تمام مؤرخین نے یہ واقعہ لکھا ہے کہ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے تھے اور اس دردناک واقعے پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تعزیت بھی کی تھی اور اپنی اور اپنے والد کی طرف سے معذرت بھی پیش کی۔ دونوں باپ بیٹا اسلام میں داخل ہوگئے تھے۔
(حافظ محمد ادریس کی تحریر سے ماخوذ)