مردِ درویش(1957ء-2019ء)۔

بہار خزاں میں بدل گئی:۔

منصورہ مسجد کے سامنےگرمی ہو یا سردی، بارش ہو یا جھکڑ… ایک مردِ درویش کھڑا اعلان کررہا ہوتا تھا ’’اسلام سے اپنا رشتہ جوڑو، اسلامی رسائل وکتب سستے داموں خریدو اور اپنی تربیت کا اہتمام کرو‘‘۔ معمولی کپڑوں میں ملبوس انتہائی سادہ شکل وصورت کا حامل یہ داعیِ حق اپنی مثال آپ تھا۔ اس کی ایمان افروز صدائیں اب بھی کانوں میں گونجتی ہیں۔ جب بھی پنج وقتہ نمازوں کے لیے مسجد جائیں تو خیال آتا ہے کہ طارق صاحب وہاں کھڑے صدا لگا رہے ہوں گے۔ مگر مسافر اپنی منزل پہ جاچکا اور مسجد کے سامنے کا باغیچہ گویا زبانِ حال سے کہہ رہا ہے:

ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

پاکستان سے لیبیا:۔

یہ مردِ درویش کون تھا؟ اسے دیکھا تو ہزاروں لوگوں نے، مگر اس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس کی شخصیت کن منزلوں سے گزر کر اس مقام پر پہنچی۔ طارق محمود تحصیل مری کے ایک گاؤں سانج میں 1957ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد جناب غلام مرتضیٰ چیئرمین CDA کے ساتھ بطور اسٹینوگرافر کام کرتے تھے۔ طارق محمود نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ پھر اپنے ذوق کے مطابق ٹیکنیکل آٹو موبائل کے شعبے میں تین سالہ ڈپلومہ حاصل کیا۔ آپ حیران ہوں گے کہ مرحوم کے بیٹے عثمان طارق کے مطابق: پاکستان میں رہتے ہوئے موصوف نے یوکے کی ایک اوپن یونی ورسٹی سے یہ ڈپلومہ حاصل کیا تھا۔ ابھی سترہ سال کے تھے جب حصولِ روزگار کے لیے لیبیا چلے گئے۔ لیبیا میں ڈرائیور کے طور پر انھیں جاب ملی اور چار پانچ سال کے قریب لیبیا میں وقت گزارا۔

سفرِ نصیب:۔

طارق صاحب لیبیا سے اپنے خاندان کو پیسے توخوب بھیجتے رہے، تاہم لیبیا میں وہاں کے ماحول کی وجہ سے زیادہ خوش نہیں تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ سعودی عرب چلا جاؤں۔ چنانچہ اللہ نے یہ خواہش پوری کردی۔ سعودی عرب میں انھیں بطور ٹرک ڈرائیور ملازمت مل گئی۔ یہاں پر انھوں نے دس سال گزارے۔ دس سال کے بعد متحدہ عرب امارات کی آرمی میں ایک سویلین اسامی نکلی، جہاں سویلین مکینک کے طور پر آٹھ، نو سال گزارے۔ سیلانی طبیعت تھی اسی لیے سفر نصیب کے طور پر زندگی گزاری۔ یہاں سے بھی جی بھر گیا تو قطر میں گلف کمپنی میں بطور مکینک آٹھ، نو سال گزارے۔ طارق صاحب محنتی اور اپنے کام سے کام رکھنے والے آدمی تھے۔ وفات سے تقریباً بارہ سال قبل نوکری چھوڑ کر پچاس سال کی عمر میں مستقل طور پر پاکستان آگئے۔

اہل وعیال:۔

طارق صاحب کی شادی چوبیس سال کی عمر میں 1981ء میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے تین بیٹے اور دو بیٹیاں عطا فرمائیں۔ سب سے بڑے بیٹے حسن طارق نے جامعہ پنجاب سے سافٹ ویئر انجینئرنگ میں ایم ایس کیا۔ آج کل دبئی میں ملازمت کررہے ہیں۔ دوسرے بیٹے ڈاکٹر عثمان طارق نے بھی جامعہ پنجاب سے مکینکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اسلام آباد میں ملازمت کررہے ہیں اور اپنی فیملی کے ساتھ وہیں مقیم ہیں۔ تیسرے بیٹے ابان طارق بھی سافٹ وئیر انجینئر ہیں۔ پرائیویٹ ملازمت کررہے ہیں۔ طارق صاحب کی دو بیٹیاں ہیں جن میں سے بڑی بیٹی نے کیمسٹری میں ایم ایس سی کیا ہے اور راولپنڈی میں اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر ہیں۔ دوسری بیٹی زولوجی میں ایم فل ہیں اور راولپنڈی ہی میں اسکول ٹیچر کے طور پر کام کررہی ہیں۔ طارق صاحب نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم بھی دلوائی اور بروقت شادیاں بھی کرائیں۔ اپنی زندگی میں نواسے اور پوتے دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرتے رہے۔

زیارتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز:۔

طارق صاحب کو ایک لگن اور جنون تھا کہ ہرشخص تک اسلامی لٹریچر بالخصوص مولانا مودودیؒ کی تحریریں پہنچیں۔ بچپن ہی سے مذہبی رجحان تھا۔ عرب ملکوں میں ملازمت کے دوران بھی بہت زیادہ مذہب کی طرف مائل رہے۔ کئی دینی جماعتوں کو قریب سے دیکھا اور تبلیغی جماعت میں کچھ عرصہ کام بھی کیا۔ جماعت اسلامی کی دعوت سے متعارف ہوئے تو اس مخمصے میں پڑ گئے کہ کون سی جماعت کے ساتھ مستقل طور پر کام کروں۔ مرحوم کے بیٹے عثمان نے بتایا کہ ابا جی نے ایک مرتبہ کہا کہ اس کیفیت میں مَیں نے استخارہ کیا تو رات کے وقت خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔ یہ کیفیت اس طرح تھی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش تھے اور اپنا دایاں ہاتھ سید مودودیؒ کے کندھے پر رکھا ہوا تھا، جبکہ سید مودودیؒ انتہائی عقیدت مندی کے ساتھ سرجھکائے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات غور سے سن رہے تھے۔ جب آنکھ کھلی تو بالکل یکسوئی ہوگئی کہ اب مولانا مودودیؒ کے قافلے میں زندگی گزارنی ہے۔

اللہ کے فیصلے:۔

جماعت اسلامی سے پہلا تعارف 1985ء میں ہوا۔ اُس وقت وہ تبلیغی جماعت میں ہوتے تھے۔ چھٹی پر پاکستان آئے ہوئے تھے کہ مری کے احبابِ جماعت اسلامی نے انھیں آمادہ کیا کہ وہ پانچ روزہ تربیت گاہ کے لیے منصورہ چلیں۔ اس تربیت گاہ کے بعد ہی ان کی وہ کیفیت ہوئی جس کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لیے اُس کی قسمت اور مقدر طے کررکھا ہے۔ کچھ خوش نصیب ایسے ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں تک دعوتِ خیر پہنچاتے ہیں اور ان کے مخاطب اس سے متاثر ہوکر ایسے کارنامے سرانجام دیتے ہیں جو تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جس نے کسی کو خیر کی طرف مائل کیا اُسے اس کے اعمالِ نیک میں سے ثواب ملتا رہتا ہے جبکہ عمل کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آتی۔ مرکزی تربیت گاہ منصورہ میں ایسے بہت سے واقعات ہوئے ہیں کہ انسانوں کی زندگیاں بدل گئی ہیں۔ حدیث میں فرمایا گیا ہے: مَنْ دَلَّ علٰی خیر فلہ مثل اجر فاعلہ۔ (مسلم، عن ابی مسعود انصاری) ۔

شریف النفس خاندان:۔

بچوں کی تعلیم مکمل ہوتے ہی نوکری سے فراغت حاصل کرلی۔ منصورہ کے قریب وارث کالونی میں ایک پلاٹ لے رکھا تھا، وہاں اپنا مکان بنا لیا۔ اس دور میں طارق صاحب ابھی بیرون ملک تھے اور ان کے بیوی بچے اس مکان میں مقیم تھے۔ ہمارے گھر کے سامنے باؤنڈری وال ابھی تک نہیں بنی تھی اور سامنے کافی خالی پلاٹ تھے، جو گہرے تھے۔ ایک مرتبہ شدید بارشیں ہوئیں تو ان خالی پلاٹوں میں اتنا پانی بھر گیا کہ وہ طارق صاحب کے گھر سمیت ان کے قرب وجوار میں موجود گھروں کے اندر بھی گھس گیا۔ چونکہ ہمارے گھر سے یہ گھر بہت قریب تھا، اس لیے ہم نے طارق صاحب کی اہلیہ کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنے بچوں کو لے کر ہمارے گھر میں آجائیں اور چھت کے اوپر بنے ہوئے کمرے میں رہائش اختیار کرلیں۔ اس کے ساتھ کچن اور باتھ روم بھی موجود تھا۔ یوں چند دن طارق صاحب کا خاندان ہمارے ہاں مقیم رہا۔ بچے بہت چھوٹے چھوٹے تھے، مگر انتہائی سلجھے ہوئے۔ طارق صاحب کی اہلیہ بھی انتہائی شریف النفس اور خوش اخلاق خاتون ہیں۔ طارق صاحب کی وفات کے بعد ان کے بیٹے عثمان سے ملاقات ہوئی تو اسے بھی یہ واقعہ یاد تھا۔

تجارت مع اللہ:۔

طارق صاحب نے زندگی میں جہاں بھی ملازمت کی، اچھا معاوضہ ملتا رہا۔ اس پیسے کو انھوں نے کبھی ضائع نہیں کیا۔ اپنی بنیادی ضروریات پوری کرتے رہے اور پس انداز ایک ایسے کام کے لیے صرف کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا جو بہت کم لوگوں کو سوجھتا ہے۔ پس انداز کو اللہ کے ساتھ تجارت میں لگا دیا۔ جو پیسہ جیب میں ہوتا اسے کتابوں کی خرید اور فروخت میں لگا دیتے۔ کتاب جتنے میں خریدتے اس سے کافی کم قیمت پر شائقینِ علم کو دے دیتے۔ اگر کسی کے پاس استطاعت نہ ہوتی، مگر اسے کتاب پڑھنے کا شوق ہوتا تو اسے مفت بھی دے دیتے۔ گویا اپنا سرمایہ اسی کام میں لگا دیا۔ مسجد کے باہر ان کی آواز سن کر لوگ بڑی تعداد میں ان کے گرد جمع ہوجاتے تھے۔ ان کا یہ مستقل معمول تھا۔

گھریلو ماحول:۔

عزیزم عثمان طارق نے بتایا کہ ابا جی گھر کے اندر کم وبیش ہر روز درس کا سلسلہ جاری رکھتے۔ ’’تفہیم القرآن‘‘ یا کوئی دوسری اسلامی کتاب لے لیتے اور اس کا کچھ حصہ پڑھ کر سب کو سناتے۔ ان کی اسی تعلیم کا اثر ہے کہ ان کے سب بچے انتہائی خوش اخلاق اور اسلامی سوچ کے حامل ہیں۔ طارق صاحب میں بڑی خوبیاں تھیں، مگر کبھی کبھار طبیعت میں سختی بھی آجاتی تھی۔ یہ بھی اپنے کسی اصول کی وجہ سے ہوتی تھی۔ عثمان اپنے والد مرحوم کی بہت سی یادیں اپنے سینے میں محفوظ رکھتا ہے۔ اگر وہ لکھے تو مرحوم کی شخصیت کے کئی پہلو لوگوں کے سامنے آجائیں، جنھوں نے محض انھیں رسائل وکتب بیچتے اور تقسیم کرتے دیکھا ہے۔ طارق صاحب کی یہ بھی خوبی تھی کہ اپنی گلی محلے میں کہیں کوئی کچرا دیکھتے تو اسے ٹھکانے لگانے کی فکر کرتے۔ حق مغفرت فرمائے یہ سادہ لوح انسان بڑی خوبیوں کا مالک تھا۔

سفرِ آخرت:۔

اللہ نے اپنے ہر بندے کے لیے اس کا مقدر پہلے سے طے کررکھا ہے۔ سانج (مری) کے گاؤں میں 1957ء میں آنکھ کھولنے والا بچہ دنیا بھر میں گھومتے پھرتے بالآخر منصورہ کی زینت بن گیا۔ ملک بھر سے آنے والے کارکنان اور شرکائے تربیت گاہ مرحوم سے اتنے مانوس تھے کہ ان کی وفات کے بعد جو بھی آتا ہے ان کے بارے میں ضرور پوچھتا ہے۔ اللہ کے اس بندے نے آخرت کا سودا کیا اور اسے خوب نبھایا۔ 8اپریل 2019ء کو اچانک اسٹروک ہوا، جس کے نتیجے میں برین ہیمرج ہوگیا۔ جنرل اسپتال میں داخل کرا دیے گئے۔ 8 اپریل ہی کی شام کو منصورہ مسجد میں اعلان ہوا کہ طارق صاحب اسپتال میں ہیں۔ سب لوگ ہر روز ان کی خیر خبر معلوم کرتے رہے، مگر یہی اطلاع ملتی کہ وہ ہوش میں نہیںآئے۔ منصورہ مسجد میں ہر روز ان کے لیے دعائے صحت کی جاتی، مگر اللہ کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔ آخر بارہ دن موت وحیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد 20 اپریل 2019ء کو یہ سفر ختم ہوگیا۔ صبح کے وقت اطلاع ملی کہ دینِ حق کا سپاہی اور اللہ کا مخلص وبے لوث بندہ اپنی منزل پر پہنچ گیا ہے۔ ہر نمازی نے اس خبر کا غم دل میں محسوس کیا اور ہر ایک دوسرے سے تعزیت کرنے لگا۔ وہ کسی کے خونیں رشتہ دار نہیں تھے، نہ ہی وہ مجلس سجانے کے قائل تھے، البتہ ان کی لگن اور جذبے کو ہر شخص نے اپنی آنکھوں سے سالہاسال تک دیکھا تھا۔ ایسے بندے دنیا میں خال خال ہوتے ہیں۔ نہ نمودونمائش کی تمنا، نہ دولتِ دنیا کی ہوس۔

نمازِ جنازہ:۔

۔20اپریل، بروز ہفتہ منصورہ گراؤنڈ میں بعد نمازِ مغرب مرحوم کی نمازِ جنازہ کا اہتمام ہوا۔ مرحوم کے بچوں نے مجھ سے فرمائش کی کہ میں ان کے والد مرحوم کی نمازِ جنازہ پڑھاؤں۔ اس موقع پر میں نے مرحوم کی خوبیوں کا تذکرہ کیا اور احباب سے کہا کہ آج یوں محسوس ہوتا ہے کہ درختوں پہ بولنے والے پرندے بھی اس مردِ درویش کے غم میں مبتلا ہیں۔ یہ پرندے ہر صبح شام اپنی تسبیحات کے دوران اللہ کے اس بندے کی پکار سنتے تھے جو اللہ کے دین کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے بے تاب رہتا تھا۔ آج ہر دل غم زدہ ہے اور مرحوم کے اہل وعیال کو ہم یقین دلاتے ہیں کہ جس طرح آپ اس صدمے کو محسوس کررہے ہیں، صفوں میں کھڑا ہر نمازی اسی طرح صدمے سے دوچار ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ جانے والے نے آخرت کے لیے بہت کچھ آگے بھیج رکھا ہے۔ یہی اصل دولت ہے اور یہی حقیقی کامیابی۔ اللہ تعالیٰ پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور مرحوم کو اپنے مقرب بندوں میں شامل فرمائے۔ آمین