قافلہ کیوں لٹا؟۔

افغان نژاد امریکی مؤرخ تمیم انصاری کی شہرۂ آفاق تصنیف
Destiny Disrupted کا اردو قالب
کتاب : قافلہ کیوں لٹا؟
عالم ِاسلام کی تاریخ پر ایک مجتہدانہ نظر
مصنف : تمیم انصاری
ترجمہ مقدمہ و حواشی : ڈاکٹر محمد ذکی کرمانی
صفحات : 400 قیمت 1400روپے
ناشر : عکس پبلی کیشنز، بک اسٹریٹ داتادربار مارکیٹ لاہور
فون : 042-3730054,300
0348-4078844
ای میل : publications.aks@gmail.com
کراچی
میں پتا : فرید پبلی کیشنز کراچی
، فضلی سنز اردو بازار کراچی
راول پنڈی : شمع بک ایجنسی کمیٹی چوک راول پنڈی

زیر نظر کتاب کا شہرہ بہت سنا تھا، جب کتاب دستیاب ہوئی تو زیرمطالعہ آئی۔ ڈاکٹر محمد ذکی کرمانی نے دل کھول کر اس کی تعریف کی ہے، وہ ہم یہاں درج کرتے ہیں:
’’اس کتاب سے میرا پہلا تعارف عزیز دوست پروفیسر احمد اللہ صدیقی کے ذریعے جس ماحول میں ہوا تھا اسے پڑھنے کی خواہش افزودنی ہونا فطری تھا۔ اور کیونکہ اب بیرونی اداروں کی کتابیں آسانی سے حاصل ہونے لگی ہیں، بہت جلد اس کتاب تک میری رسائی ہوگئی۔
بعض کتابیں مطالعے کے دوران ہی قاری کا نقطہ نظر تبدیل کرتی جاتی ہیں۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے میں اُس کیفیت سے دوچار ہوا تھا جو آج سے 40 سال قبل مشہور اردو نقاد حسن عسکری کو پڑھتے ہوئے مجھ پر طاری ہوئی تھی، یعنی مغرب سے ہٹ کر ایک ایسے بیانیہ کا وجود اور اس کی فعالیت کا احساس جسے ہم اپنا کہہ سکیں۔ ارتقاء شخصی ہو یا قومی، ملّی بیانیوں کا ادراک وہ پہلا قدم ہے جسے اٹھائے بغیر ارتقاء کا یہ سفر طے نہیں ہوسکتا۔
بیسویں صدی دراصل بیانیوں کی نقشہ گری کی کوششوں سے عبارت ہے۔ سیاست اور معاشرت کے میدان میں تو مسلمان activism کا شکار ہوئے، لیکن معیشت اور سائنس کے میدان میں علمی سطح پر اس سمت میں کوششیں ہوئیں۔ زیرنظر کتاب تاریخ کے میدان میں انہی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔
تحقیقی کتابیں کسی واضح نتیجے پر تو نہیں پہنچاتیں، البتہ بعض اہم سوالات اٹھا دیتی ہیں، اور یہ توقع پیدا کردیتی ہیں کہ قاری کسی نتیجے پر خود پہنچ جائے گا۔ یہ کتاب اس اعتبار سے ایک مختلف کتاب ہے۔ یہ ایک واضح بیانیہ کے گرد گھومتی، اس پس منظر میں واقعات کا تجزیہ کرتی اور پھر اسی بیانیہ پر ختم ہوجاتی ہے۔
چودہ سو سالہ تاریخ کو ایک ایسے بیانیہ کی کڑی میں پرونا جو اپنا ہو، اور ایک واضح وابستگی کے ساتھ اس طرح تجزیہ کرنا کہ معروضیت کہیں قربان نہ ہوپائے، اس کا وہ وصف ہے جس نے اس کتاب اور مصنف کو ایک ممتاز مقام عطا کر دیا ہے۔ یہ ایک عظیم کتاب ہے اور تمیم انصاری ایک عظیم مصنف۔ افغانستان کا تعارف ماضیِ قریب کے واقعات میں جس طرح ہوا ہے اس سرزمین سے ادریس شاہ، خالد حسینی اور تمیم انصاری جیسے مصنفین کا نکلنا معجزاتی سہی لیکن بڑا ہی دل خوش کن ہے۔ امریکہ کے تحقیقی اداروں کی علمی فضا جس میں رہتے ہوئے یہ کتاب تکمیل کو پہنچی اور شائع ہوئی میرے خیال میں کُل انسانیت کا سرمایہ ہے جس کی ہر ممکن طریقے سے حفاظت ہونی چاہیے۔ میں دعا گو ہوں۔
میں نے اس کتاب کو پڑھا، سوچا اور متاثر ہوا۔ لیکن ضخامت کے پیش نظر یہ خیال بھی آیا تھا کہ میں اس کا ترجمہ کرسکوں گا۔ میرے بعض دوست جن میں طارق اکرام اللہ صاحب ابتداً ذرا تکلف سے اس طرف توجہ دلاتے رہے، اور پھر ان کی آواز میں شیخ رفیق (حیدرآباد دکن) شامل ہوگئے تو نہ صرف جوش بلکہ اصرار بھی بڑھتا گیا، اور یوں ان دوستوں کے اصرار اور اعتماد نے بالآخر اس ترجمہ پر مجھے آمادہ کردیا۔ 10 مئی 2016ء کو میں نے اس کا آغاز کیا تو وقت کا احساس بھی نہ ہوسکا، اورمحض 10 ستمبر 2016ء تک میں اس کا ترجمہ کرچکا تھا۔ اور اس دوران ’آیات‘ کی تیاری اور دوسرے مضامین بھی پیش نظر رہتے تھے۔
اس کتاب کا اہم ترین پہلو شاید مختلف ادوار پر مشتمل مضامین کا ایسا بامعنی نظم ہے جو بیانیہ کو ہر وقوعہ اور ہر تبدیلی کے بیان میں مستحضر رکھتا اور قاری کو بیانیہ سے باندھے رکھتا ہے۔ لیکن کتاب کا سب سے چونکا دینے والا خیال وہ ہے جب تمیم انصاری کہتے ہیں کہ سترہویں و اٹھارہویں صدی کے دوران جغرافیائی اعتبار سے منسلک دنیا کی تین عظیم سلطنتیں جو مغلیہ برصغیر، صفوی ایران اور سلطنتِ عثمانیہ پر مشتمل تھیں بغیر کسی فوج کشی کے بتدریج یورپیوں کے ہاتھوں میں چلی گئی تھیں۔ تمیم انصاری نے ان حالات کا تجزیہ کیا ہے اور مترجم نے بھی اسی فکر کو آگے بڑھایا ہے، جس کا اظہار مقدمہ اور ’نظرے خوش گزرے‘ سے ہوتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر ذکی کرمانی نے مبسوط مقدمے میں اپنے خیالات رقم کیے ہیں۔ کتاب پر اور ان کے مقدمے پر تنقید ہوسکتی ہے، لیکن یہ مختصر تعارف اس کا متحمل نہیں، جو صاحبِ علم اس کا بغور مطالعہ کرے گا وہ اپنا فیصلہ خود کرلے گا۔ مناسب ہوگا ڈاکٹر ذکی کے مقدمے سے ایک اقتباس یہاں درج کردیں:
’’قرآن کریم اپنے پیروکاروں کو دو طرح کی نعمتیں عطا کرتا ہے، جن کا اعتراف و ادراک بقدرِ استطاعت ہی ہوتا رہا ہے۔ ایک ہے روحانی تجربہ، اور دوسرا ہے زندگی کے لیے اعلیٰ ترین مقاصد کا ادراک اور متعلقہ اہداف کا شعور۔ تجربے سے مراد خالقِ کائنات سے راست تعلق اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کیفیات اور روحانی توانائی ہے۔ لیکن عمومیت کے اعتبار سے بنیادی طور پر قرآن کریم اس زمین پر بسنے والے انسانوں کے لیے ہے اور انہیں بتاتا ہے کہ وہ خود کیا ہیں؟ ان کے رویّے خود اپنی ذات اور اپنے جیسے دوسرے افراد کے ساتھ کیسے ہونے چاہئیں؟ یہ کائنات کیا ہے اور اس سے انسان کا تعلق کیسا ہونا چاہیے؟ انسان اور اس کائنات کا انجام کیا ہونے والا ہے؟ قرآن بتاتا ہے کہ اس انجام کو بہتر کرنے کے لیے انسان کے رویّے کیسے ہونے چاہئیں؟ اس سلسلے میں قرآن کی تعلیمات بنیادی طور پر ہر فرد سے متعلق ہیں لیکن وہ ساتھ ساتھ اس کی معاشرتی زندگی سے متعلق بھی ہدایات دیتا ہے، اور اس زندگی کی معاشی، سیاسی اور کائنات میں موجود وسائل کے بارے میں بھی بعض وضاحتیں کرتا ہے۔ کیونکہ مختلف النوع ہدایات انسان سے خدا کے ذریعے مربوط ہوتی ہیں، وہ ان ہدایات پر عمل درآمد کے اعتبار سے خدا کے سامنے جوابدہ ہے۔
قرآن کریم کا یہ منشا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً پورا کرکے دکھایا اور انسانوں کی تربیت اس نہج پر کی، یعنی جن بنیادوں پر انسان کو خدائے واحد سے مربوط کرنا تھا وہ رشتہ قائم کردیا، اور انسان کے بعض انفرادی و اجتماعی معاملات کو قرآن کریم کی ہدایت سے منسلک کرکے اس کی ذات اور معاشرے کو الٰہی ہدایات پر قائم کردیا۔ اس پورے عمل میں انسانوں کی روحانی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ان کے اخلاق کی بھی اس طرح تعمیر کردی کہ انسان اپنے انفرادی اور اجتماعی معاملات میں اعلیٰ ترین معیار پر فائز ہوگیا۔ معاشی اور سیاسی معاملات میں یہی اخلاقی تربیت کام آئی، اور قرآن کریم نے جو ہدایات دی تھیں انہیں عمل میں لاکر یہ بتادیا کہ معیشت، معاشرت اور سیاست میں ان ہدایات کو کس طرح بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ اس کامیابی کی بڑی دلیل یہ ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پورے سولہ سال تک ان کے جانشینوں نے نہ صرف اس معاشرے کو اسی طرح قائم رکھا، بلکہ وہ مسائل جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں درپیش نہیں تھے اس طرح حل کیے کہ معاشرہ ظلم سے محفوظ رہا اور عدل پر قائم رہا۔ انسان کی فکری اور عملی آزادی اور انسانی جان و مال کی عزت مکمل طور پر محفوظ رہی۔‘‘
کتاب سترہ ابواب پر مشتمل ہے۔ مستشرقین کے اسلوب پر لکھی کتاب ہے۔ ان کی بے شمار آرا قابلِ بحث ہیں۔ تمیم انصاری سان فرانسسکو میں رہتے ہیں اور امریکی سیکنڈری اسکولوں کے لیے تاریخی نصاب کی متعدد کتابوں کے لیے لکھتے رہتے ہیں، مغربی معاشرے کا حصہ ہیں اور انہی کے لیے کام کرتے ہیں، کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے اس امر کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ ایک مثال دینا ضروری ہے، صفحہ 297 پر جمال الدین افغانی کے سلسلے میں لکھتے ہیں: ’’مصر پہنچ کر افغانی نے مشہور الاظہر یونیورسٹی (صحیح ’الازہر‘) میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا، یہاں وہ اپنے مشن یعنی اسلام کے ذریعے جدیدیت کی تلاش میں پھر لگ گئے، اسی دوران انہوں نے افغانستان کی تاریخ پر ایک کتاب بھی لکھی (غالباً اس بنا پر بھی لوگ انہیں افغانی کہتے ہیں) … صورتِ حال یہ ہے کہ عالم اسلام میں ان کو جمال الدین افغانی کہتے ہیں اور وہ ہیں بھی، لیکن ایرانی انہیں جمال الدین اسد آبادی کہتے ہیں۔ ایک اسد آباد ایران میں ہے، دوسرا کابل کے پاس… اس لیے ایرانی ان کو ایرانی کہتے ہیں۔ اہلِ سنت و الجماعت ان کو سنی کہتے ہیں۔ ایران میں ان کو شیعہ کتاب لکھنے کی وجہ سے افغانی نہیں کہا گیا ان کے دستخط میں بھی افغانی موجود ہے۔ جمال الدین افغانی ۔ دستخط میں افغانی ہے یا الافغانی، دستخط کی فوٹو سامنے نہیں۔ تحقیق کو حقائق پر مبنی ہونا چاہیے۔ بلاشبہ بہت سی کام کی باتیں بھی کتاب میں موجود ہیں۔ کتاب جو پڑھے گا اپنے علم پر اس کا فیصلہ کرے گا۔
کتاب مجلّد ہے، اغلاط سے بھرپور ہے۔ عروۃ الوثقیٰ کو عروۃ الوسقیٰ لکھا ہے۔ نام انگریزی میں The Firmest Bond لکھا ہے۔ اسم ذات کا ترجمہ نہیں ہوتا۔