کسی معاشرے میں اتحاد، یکجہتی اور ایک دوسرے سے وابستگی کی بنیاد کیا ہے۔ اس سلسلے میں سندھ کے دانشور اور استاد علامہ آئی آئی قاضی نے طلبہ سے یونین سازی کے موقع پر ایک تقریر میں آپس کے اتحاد کی حقیقی بنیاد پر روشنی ڈالی۔ ایک چھوٹی سی یونین یا ادارے کا اتحاد ہو یا قوم کا، اس کا دارو مدار اسی چیز پر ہے جو علامہ آئی آئی قاضی نے بتائی ہے، وہ مشہور فلسفی کارلائل کے حوالے سے کہتے ہیں کہ دوستی کی بنیاد اچھی چیزوں پر ہے، افراد اگر خوبیوں سے محروم ہیں تو ان کے درمیان دوستی نہیں ہوسکتی، برے افراد ایک دوسرے کے دوست نہیں ہوسکتے کیونکہ ان میں ہر ایک اپنی راہ پر چلتا ہے جو دراصل شیطانی راہ ہے، جھگڑے اور ناانصافی میں محبت کیسے رہے گی! بڑی سے بڑی دولت بھی لوگوں کے اندر محبت پیدا نہیں کرسکتی۔ محبت سچ، نیکی اور صداقت سے ہی پیدا ہوتی ہے، مگر جس چیز سے اتحاد پیدا ہوتا ہے اس سے ہم سب دور ہیں۔
علامہ نے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’میرے پیارے بیٹو! اب یہ بہت مشکل ہوگا کہ مسلمانوں میں اتحاد کی سبیل پیدا ہو، یہ مسئلہ ایک آدھ مسلمان ملک کا نہیں۔۔۔ سعودی عرب، ایران، عراق، پاکستان سب کی حالت یکساں ہے، کیونکہ حالت یہ ہے کہ لوگ اپنے نفس کے لیے زندہ رہنا چاہتے ہیں، خدا کے لیے نہیں۔ جو لوگ اپنے نفس سے پیار کرتے ہیں انہیں خبردار ہونا چاہیے کہ اس مدرسے میں کوئی بھی یونین یا اتحاد ممکن نہیں، اور جہاں نفس سے محبت ہوگی وہاں بقول سعدیؒ یہ صورت ہوگی کہ
ای چہ شوریست کہ در دور قمر می بینم
ہمہ آفاق پُر از فتنہ و شری بینم
دختران را ہمہ جنگ است و جدل با مادر
پسراں را ہمہ بدخواہ پدر می بینم
یا میں کسی بات کا شور دیکھتا ہوں کہ سارا جہاں فتنے سے بھرا ہوا ہے، بیٹی ماں کے خلاف اور بیٹا باپ کے خلاف ہے۔“
علامہ قاضی لوگوں کے درمیان حقیقی دوستی اور اتحاد کے لیے نفسانیت سے ماورا ہونا ضروری سمجھتے ہیں، لیکن مغربی فلسفہ اس کے برعکس ہے، وہ کہتا ہے کہ مفادات کا اشتراک اتحاد کی بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا کوئی معاشرہ مفادات کی بنیاد پر نہیں بنا ہے، اقدار کی اساس پر تعمیر ہوا ہے، اور جس معاشرے میں جنگ ِمفادات نے بنیادی اہمیت اختیار کرلی وہاں اقدار کو نظرانداز کیا گیا، اور اقدار کے خاتمے سے معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ بھی لازمی ہوجاتی ہے۔
ایک گھرانے کے افراد میں باہم پیار و محبت ہے تو اس گھر میں لوگ راحت اور سکون محسوس کریں گے، وہ غریبی میں بھی خوش رہ سکتے ہیں۔ مگر جہاں خاندان کا ہر فرد صرف اپنے مفاد کے نقطہ نظر سے سوچتا ہے، وہاں جھگڑا لازمی ہے۔ اور جیسا کہ سعدی نے کہا ہے کہ ماں بیٹی اور باپ بیٹے کے درمیان کشیدہ صورت حال ہوتی ہے کیونکہ ہر ایک اپنی نفساتی خواہشات کو اہمیت دیتا ہے، وہ اپنے لیے سب کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے اور دوسروں کو کچھ دینے کو تیار نہیں ہوتا، یا دیتا ہے تو اس پر دل میں تنگی محسوس کرتا ہے۔
گھرانے کے بعد کسی بستی یا محلے کا امن بھی وہاں نظر آتا ہے جہاں اعلیٰ اقدار کے مطابق ایک دوسرے کے حقِ ہم سائیگی اور محلے داری کا خیال ہو، لوگ صرف اپنی ذات کو ہی اہم نہ سمجھیں اور اپنی ذات سے ہی محبت نہ کریں بلکہ دوسروں سے بھی رشتہ اور تعلق رکھنے میں خوشی محسوس کریں، اور ان کے لیے ایثار سے کام لیں۔ یہی صورت ایک قومی یا وطنی معاشرے کی بھی ہے کہ اگر اس کے افراد کے درمیان صرف مفادات کا تعلق ہوگا تو مفادات کے تضادات انہیں باہم جنگ وجدل کی طرف لے جائیں گے، اور مفادات کے بجائے اقدار سے وابستگی گہری ہو تو مفادات کی کشاکش ایک خاص حد سے زیادہ نہیں ہوسکتی، اور اس کشاکش یا اختلافات کا تصفیہ کرنے کے لیے افہام و تفہیم کا جذبہ موجود ہوتا ہے۔ مگر جہاں صرف نفس پرستی ہو وہاں معاشرہ اتحاد کی حقیقی بنیاد کھو دیتا ہے اور ہر گھر کی اینٹ دوسری اینٹ سے ٹکراتی ہے۔
مغربی فلسفوں کی ذہن پر بالادستی کا نتیجہ یہ ہے کہ زبردست سائنسی ترقی، طرح طرح کی تفریحات اور آسائشات کے سامان کی بھرمار کے باوجود نہ امیر مطمئن ہے نہ غریب۔ ہر ایک احساسِ محرومی کا شکار ہے اور دوسروں کے خلاف غصے میں بھرا ہوا ہے۔ ہر ایک کو ہر ایک سے شکایت ہے۔ چھوٹے کو بڑے سے، بڑوں کو چھوٹوں سے، ایک علاقے اور زبان بولنے والوں کو دوسرے علاقے اور زبان بولنے والوں سے، ایک مذہب اور فرقے کے ماننے والوں کو دوسرے مذہب اور فرقے سے، غرض چھوٹے سے گھر سے لے کر بڑے شہر اور ملک تک ہر جگہ تفرقہ اور تصادم کا منظر ہوگا۔ جوں جوں معاشرے میں اخلاقی تہذیبی اقدار کا اثر کمزور ہوتا جائے گا اور نفسانیت میں اضافہ ہوگا، باہمی جھگڑے اور فساد بھی بڑھتے رہیں گے۔ اس لیے اس فلسفے کو مسترد کردینا ضروری ہے کہ معاشرے کی تعمیر مفادات کے اشتراک سے ہوتی ہے۔ بلاشبہ مفادات کا تصادم دور ہونا چاہیے، لیکن مفادات کا تصادم اسی وقت دور ہوسکتا ہے جب انسان کسی اعلیٰ اخلاقی و تہذیبی نصب العین اور اقدار کے تحت ہوں، ورنہ مفادات میں بھی مطابقت پیدا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔