اللہ تعالیٰ نے جب حضرت سلیمانؑ کو ایک عظیم بادشاہت اور چرند پرند سب پر حکومت عطا کی اور ایسے میں جب وہ ایک روز اپنے لشکر کے ہمراہ کہیں جارہے تھے تو ان کے راستے میں آنے والی چیونٹیوں نے آپس میں کہاکہ سب اپنے اپنے بلوں میں گھس جائیں ورنہ کچلے جائیں گے، تو حضرت سلیمانؑ نے یہ سن کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور دعا کی کہ اے اللہ! اس سب کے باوجود میری آرزو ہے کہ میرا انجام صالحین میں ہو۔
’’اے میرے رب! مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تُو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے، اور ایسا عملِ صالح کروں جو تجھے پسند آئے، اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر‘‘۔ (النمل:19)۔
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِىْ سَبِيْلِ اللهِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْـدَانِ الَّـذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَـآ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُـهَاۚ وَاجْعَل لَّنَا مِنْ لَّـدُنْكَ وَلِيًّا وَّاجْعَل لَّنَا مِنْ لَّـدُنْكَ نَصِيْـرًا (النساء75)۔
ترجمہ:آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔
تشریح:اشارہ ہے ان مظلوم بچوں، عورتوں اور مردوں کی طرف جو مکہ میں اور عرب کے دوسرے قبائل میں اسلام قبول کرچکے تھے مگر نہ ہجرت پر قادر تھے اور نہ اپنے آپ کو ظلم سے بچا سکتے تھے۔ یہ غریب طرح طرح سے تختہ مشقِ ستم بنائے جارہے تھے اور دعائیں مانگتے تھے کہ کوئی انہیں اس ظلم سے بچائے۔