ہانگ کانگ، تحویل مجرمان قانون پر رائے شماری معطل

شہری حقوق کے منافی بل کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے

امریکی سراغ رساں ایجنسی CIA نے ہانگ کانگ سے ملحقہ چینی علاقے شینزن (Shenzhen) میں غیر معمولی عسکری نقل و حرکت کا انکشاف کیا ہے۔ ہانگ کانگ گزشتہ 10ہفتوں سے سیاسی بدامنی کا شکار ہے۔ صورتِ حال کے تجزیے سے پہلے ہانگ کانگ کی تاریخ اور اس کا مختصر تعارف:
ہانگ کانگ ہے تو چین کا حصہ، لیکن اسے خاص خودمختار حیثیت دی گئی ہے، جس کی بنا پر ہانگ کانگ کوSpecial Administrative Region کہا جاتا ہے۔ ہانگ کانگ بحر جنوبی چین (South China Sea)کے مشرقی حصے میں دریائے پرل کے کنارے واقع ہے۔ اس کا کل رقبہ 428 مربع میل اور آبادی 75 لاکھ کے قریب ہے۔ یعنی اوسطاً ہر ایک مربع میل پر ساڑھے سترہ ہزار افراد بستے ہیں۔ ہانگ کانگ دنیا کا چوتھا گنجان ترین علاقہ ہے۔ اس کے مغرب میں Macau ہے جو ہانگ کانگ ہی کی طرح چین کا Special Administrative Region ہے۔ دلچسپ بات کہ مکاؤ دنیا کا گنجان ترین علاقہ ہے یعنی دنیا کے چار گنجان ترین علاقوں میں سے دو چین میں ہیں۔ اس اعتبار سے فرانسیسی نوآبادی مناکو Monaco)) دوسرے اور سنگاپور تیسرے درجے پر فائز ہے۔ ہانگ کانگ فی کس آمدنی کے اعتبار سے دنیا میں نویں نمبر پر ہے لیکن یہاں کے 90 فیصد لوگ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ بلندوبالا عمارتوں کے اعتبار سے ہانگ کانگ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے
ہانگ کانگ 1842ء میں برطانیہ کی نوآبادی بنا جب گوروں نے اسے چینی شہنشاہ سے چھین لیا۔ انگریز گرم مسالے کی تلاش میں ہندوستان آئے تھے جبکہ ہانگ کانگ کا رخ انھوں نے افیون کے لیے کیا۔ اسی بنا پر قبضے کی یہ جنگ جنگِ افیون کہلائی۔1898ء میں برطانیہ نے ہانگ کانگ کو 99 سالہ لیز پر سلطنتِ برطانیہ کا حصہ بنالیا۔لیز ختم ہونے پر 1997ءمیں ہانگ کانگ کو اس ضمانت کے بعد چین کے حوالے کیا گیاکہ اس کی آزاد حیثیت برقرار رکھی جائے گی۔اسی بنا پر یہ اسپیشل ایڈمنسٹریٹو ریجن قرار پایا اور اس کے لیے one country two systemکی اصطلاح وضع کی گئی۔ یعنی چین کا حصہ ہونے کے باوجود ہانگ کانگ میں جمہوریت، شہری آزادی اور عدلیہ برقرار رہے گی۔
چین کی اس ضمانت پر ہانگ کانگ کے لوگوں کو اعتماد نہیں۔ انھیں یہ شکایت ہے کہ چیف ایگزیکٹو (CE)کو بہت زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔ CE دراصل سلطنتِ برطانیہ کے گورنر جنرل یا وائسرائے کا تسلسل ہے۔ CEکے انتخاب کا طریقہ اتنا گنجلک ہے کہ اس پر سلیکشن کا گمان ہوتا ہے۔ قانون ساز اسمبلی یا LegCoکے انتخابات میں بھی چینی حکومت مداخلت کرتی ہے۔ اس کے 70 میں سے 35 ارکان تو براہِ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں لیکن 35 ارکان کا انتخاب کمیونسٹ پارٹی کے انداز میں مختلف طبقات سے کیا جاتا ہے۔
ناقص انتخابی نظام کے خلاف 2014ء میں 26 ستمبر سے دسمبر کے وسط تک شدید ہنگامے ہوئے۔ LegCoکے کاغذات نامزدگی کی بیجنگ میں جانچ پڑتال اور نصف ارکان کے طبقاتی بنیادوں پر انتخاب کے خلاف عوام سڑکوں پر آگئے۔ CEکے آمرانہ اختیارات کا خاتمہ بھی اس تحریک کا ہدف تھا، تاہم گیارہ ہفتے سے زیادہ عرصہ جاری رہنے والی جدوجہد جسے چھتری تحریک یا Umbrella Movement کے نام دیا گیا، اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ ہانگ کانگ میں بارش بہت زیادہ ہوتی ہے اس لیے جلوسوں میں لوگ چھتریاں لے کر آتے تھے اور تصویروں سے ایسا لگتا تھا کہ جیسے گلیوں میں چھتریوں ایک سیلاب رواں ہے۔
ہانگ کانگ کے نظامِ حکمرانی کو اس اعتبار سے تو جمہوری کہا جاسکتا ہے کہ اس کے سربراہ اور پالیمان کو عوام منتخب کرتے ہیں، جبکہ عدلیہ بھی آزاد ہے، لیکن یہاں بیورو کریسی ظالمانہ حد تک مضبوط ہے۔ برطانوی افسر شاہی کی حشر سامانیوں کو پاکستانی بہت اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرز پر ہانگ کانگ میں برطانوی آقاؤں کے تربیت یافتہ افسران نے انتظام و اختیار پر پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی طرح ہانگ کانگ کی افسر شاہی بھی منتخب نمائندوں کے قابو سے باہر ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ ان بابو لوگوں نے اپنے چینی ہم منصبوں کے ساتھ مل کر ایک متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے اور چینی حکومت ان افسران کے ذریعے ہانگ کانگ پر اپنی گرفت روز بروز مضبوط کرتی جارہی ہے۔
ہانگ کانگ کا ویزا حاصل کرنا بہت آسان ہے، اس لیے یہاں دنیا کی ہر قومیت آباد ہے۔ چین کو شکایت ہے کہ ویزے اور آمد و رفت کی آزادی کی بنا پر ہانگ کانگ دنیا بھر کے مفرور مجرموں کی آماج گاہ بن چکا ہے، اور لوگ جرائم کے بعد بھاگ کر یہاں آجاتے ہیں۔ بیجنگ کی اصل پریشانی یہ ہے کہ چین سے کمیونسٹ پارٹی کے باغی اور مخالفین ملک سے فرار ہوکر ہانگ کانگ آرہے ہیں۔ ادھر کچھ عرصے سے سنکیانگ کے اویغور مسلمانوں کے بھی ہانگ کانگ آنے کی خبریں ہیں۔ چینی حکومت الزام لگارہی ہے کہ باغی اویغور ہانگ کانگ میں تیزرفتار انٹرنیٹ، ذرائع ابلاغ کی فراوانی اور اظہارِ رائے کی آزادی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چین کے خلاف منفی پروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔
حالیہ تنازعے کا آغاز اِس سال فروری میں ہوا جب تائیوان سے ایک آدمی اپنی حاملہ محبوبہ کو قتل کرکے ہانگ کانگ آگیا۔ تائیوان نے اس شخص کی حوالگی کی درخواست کی تو معلوم ہوا کہ حوالگیِ مجرمان کا قانون صرف 20 ملکوں کے لیے ہے جن میں تائیوان، چین اور دوسرے پڑوسی ممالک شامل نہیں۔ چنانچہ ملک کی چیف ایگزیکٹو محترمہ کیری لام (Carrie Lam) نے اس قانون میں ترمیم کرکے چین سمیت دوسرے کئی ملکوں کو شامل کرنے کی درخواست کی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر شدید اعتراض کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بیجنگ اس قانون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان تمام افراد کو چین منتقل کرنے کی درخواست کرے گا جو سوشل میڈیا پر حکومتِ چین کی آمرانہ پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ بحث مباحثے کے بعد ترمیم کے مسودے کو سب کے لیے قابلِ قبول بنانے تک معاملہ مؤخر کردیا گیا۔
جون کے آغاز میں چیف ایگزیکٹو نے ترمیم شدہ مسودہ منظوری کے لیے پارلیمنٹ کو بھیج دیا۔ نئے بل میں انسانی حقوق کو تحفظ دیتے ہوئے اسے بڑے جرائم میں ملوث افراد تک محدود کردیا گیا ہے۔ نئے مسودے کے مطابق صرف اُن ملزمان کو دوسرے ملکوں کی تحویل میں دیا جائے گا جو ایسی کسی واردات میں ملوث ہوں جس کی کم ازکم سزا 7 سال قید ہے۔ لیکن ہانگ کانگ کے لوگوں کو یہ بھی قبول نہیں، اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ڈر ہے کہ اگر قانون منظور ہوگیا تو چین ہانگ کانگ میں موجود تمام سیاسی مخالفین، مسلمانوں، مسیحیوں اور دوسری زیر عتاب اقلیتوں پر سنگین نوعیت کے جھوٹے مقدمات قائم کرکے اپنے یہاں بلالے گا جہاں انھیں تشدد کے بعد سزائے موت دے دی جائے گی۔ چین منتقل ہونے کے خوف سے اظہارِ رائے اور شہری آزادیاں بھی متاثر ہوں گی۔
چین کا عدالتی نظام حکومتی مداخلت، بند کمرے میں یک طرفہ سماعت اور سرکاری ججوں کے متعصبانہ رویوں کی بنا پر حد درجہ بدنام ہے۔ مہذب دنیا میں چینی عدلیہ کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اعتراف کے لیے انسانیت سوز تشدد عام ہے اور غیر شفاف عدالتی کارروائی کے بعد حکومتی منشا کے مطابق سخت سزائیں سنا دی جاتی ہیں۔
اس مسودے پر 12 جون کو رائے شماری ہونی تھی۔ 4 جون سے ہنگاموں کا اغاز ہوا۔ اتفاق سے مظاہروں کا سلسلہ اُس وقت شروع ہوا جب ہانک گانگ اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں تیانن من (Tinanmen) مظاہرے کی 30 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔ 15 اپریل 1989ء کو جمہوری و شہری حقوق کے لیے بیجنگ کے تیانن من اسکوائر سمیت سارے چین میں طلبہ نے دھرنوں کا آغاز کیا تھا۔ 4 جون کو چینی فوج نے زبردست کارروائی کی جس میں ہزاروں طلبہ مارے گئے۔ اس دن کی تیسویں برسی پر ہانگ کانگ، تائیوان، جنونی کوریا اور جاپان میں زبردست مظاہرے ہوئے۔
ہانگ کانگ میں ہونے والے ہنگاموں کو سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے تیانن من دوم کا خطاب دیا جس سے ہانگ کانگ کی انتظامیہ سراسیمہ ہوگئی اور بل پر رائے شماری غیر معینہ مدت کے لیے مؤخر کردی گئی۔ لیکن مظاہرین اس سے مطمئن نہیں، وہ رائے شماری کی معطلی کافی نہیں سمجھتے بلکہ چاہتے ہیں کہ شہری حقوق کے منافی یہ بل ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے جو چین کے لیے قابلِ قبول نہیں، اور بل منظور کروانے کے لیے بیجنگ CEپر دباؤ ڈال رہا ہے۔
دس دن پہلے مظاہرین نے ائرپورٹ پر قبضہ کرلیا جس کی وجہ سے دنیا کا یہ مصروف ترین ائرپورٹ پانچ دن مفلوج رہا۔ ہانگ کانگ کی سرکاری فضائی کمپنی کیتھے پیسیفک (Cathay Pacifi)کو اس کے نتیجے میں شدید نقصان ہوا اور کمپنی کے CEOنے استعفیٰ دے دیا۔
چین نے ائرپورٹ پر قبضے کو دہشت گردی کی ایک شکل قرار دیا ہے۔ چینی حکومت کے اس سخت بیان کے ساتھ ہی کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں نے مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوجی کارروائی کا مطالبہ شروع کردیا ۔ اسی دوران سی آئی اے سمیت مغربی سراغ رساں اداروں نے ہانگ کانگ کے شمال میں واقع چینی شہر شینزن سے غیر معمولی عسکری نقل و حرکت کی خبر دی۔ صدرٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ میں اسی حوالے سے ہانگ کانگ میں چین کی فوجی مداخلت کا خدشہ ظاہر کیاہے۔انھوں نے ہانگ کانگ کی صورت حال کو چین کا اندرونی معاملہ تو تسلیم کیا لیکن دوسری ہی سانس میں انھوں نے بیجنگ کو تحمل اختیار کرنے کا مشورہ بھی دے ڈالا۔
مظاہرین نے پُرامن انداز میں ائرپورٹ خالی کردیا ہے۔ دھرنے کے دوران تنصیبات کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا گیا، بلکہ جانے سے پہلے مظاہرین نے ائرپورٹ کو رگڑ پونچھ کر چمکا بھی دیا، لیکن ملک کے مختلف مقامات پر دھرنے جاری ہیں۔ گزشتہ دو دنوں سے مظاہرین کے ہاتھوں میں امریکی پرچم بھی نظر آرہے ہیں۔ جمعرات 5 اگست کو لاکھوں لوگوں نے ایک پارک میں چند گھنٹوں کا علامتی دھرنا دیا۔ اس دوران امریکی پرچم لہراتے مظاہرین نے تحویلِ مجرمان قانون نامنظور، جمہوریت زندہ باد، ہم غلام نہیں رہیں گے کے ساتھ امریکہ زندہ باد کے نعرے لگائے اور دھرنے کے اختتام پر امریکہ کا قومی ترانہ گایا گیا۔
مطالبات کے حوالے سے مظاہرین کے عزم کا یہ عالم ہے کہ ہانگ کانگ کی مشہور اور ہردلعزیز فنکارہ کرسٹل لیو یفی (Crystal Liu Yifei) نے ایک ٹاک شو میں ائرپورٹ دھرنے سے مسافروں کی پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے اس پر ہلکی سی تنقید کی تو ان کے خلاف سارے ملک میں بائیکاٹ کی مہم شروع کردی گئی۔ مزے کی بات کہ یہ خاتون ہانگ کانگ کے ساتھ امریکہ کی شہری بھی ہیں، لیکن ان کے خلاف مہم اس قدر شدید ہے کہ کرسٹل نے وقتی طور پر تائیوان چلے جانے میں ہی عافیت سمجھی۔
18 اگست کو شدید بارش کے باوجود جلوس میں 17 لاکھ افراد نے شرکت کی۔ اخباری نمائندوں کے مطابق گلیوں اور چوراہوں پر چھتریوں کا سونامی آیا ہوا تھا اور ہانگ کانگ کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی اتنے لوگ سڑکوں پر نہیں آئے۔ ان مظاہروں میں قومی جھنڈوں کے بجائے برطانوی دور کے نوآبادیاتی پرچم لہرائے گئے، جبکہ ہزاروں کی تعداد میں امریکی جھنڈے بھی موجود تھے۔ بہت سے مظاہرین اپنے ہاتھوں میں صدر ٹرمپ، برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی تصویریں اٹھائے ہوئے تھے۔ کچھ سرکاری عمارتؤں پر سے قومی پرچم اتارکر وہاں نوآبادیاتی جھنڈے لگا دیئے گئے ہیں، شہری حقوق کی تنظیموں نے جلسے جلوس کا سلسلہ غیر معینہ مدت تک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ چین اس صورت حال کو کب اور کس حد تک برداشت کرسکتا ہے۔ اس تحریک میں مسلسل شدت آتی جارہی ہے۔ ہانگ کانگ بحرالکاہل اور بحر جنوبی چین کا اقتصادی مرکز ہے۔ SEHKکے نام سے مشہور ہانگ کانگ اسٹاک ایکسچینج ٹوکیو اور شنگھائی کے بعد ایشیا کا سب سے بڑا بازارِ حصص ہے۔ ہانگ کانگ چینی مصنوعات خاص طور سے جدید ٹیکنالوجی کی ایک بڑی منڈی ہے۔ یہاں بدامنی و عدم استحکام چین کے لیے قابلِ قبول نہیں تو دوسری طرف فوجی کارروائی سے معاملہ مزید خراب ہوسکتا ہے۔ صورت حال نے جو رخ اختیار کرلیا ہے اس سے تو لگتا ہے کہ اگر چین نے فوجی کارروائی نہ کی تو اسے ہانگ کانگ کو آزادی کی حد تک خودمختاری دینی ہوگی۔ اس صورت میں ڈر یہ ہے کہ کہیں ہانگ کانگ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بحرالکاہل کا سیاحتی مرکز مکاؤ (Macau)بھی ایسی ہی آزادی کا مطالبہ نہ کربیٹھے۔ اس نظیر سے چینی صوبے سنکیانگ کے اویغور مسلمانوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور خود چین کے اندر تیانن من انداز کی نئی شورش کے مواقع اور امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔

****
اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم
masoodabdali.blogspot.com
پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔