مارک مینسن/ترجمہ:ناصر فاروق
دنیا ایک ہی شے پر چلتی ہے: لوگوں کے احساسات پر۔ یہ انسانی جذبات ہیں جو دنیا پر حکمرانی کرتے ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ لوگ سب سے زیادہ پیسہ اُن چیزوں پر خرچ کرتے ہیں جو خوشگوار احساسات پیدا کریں۔ جہاں پیسہ جاتا ہے، طاقت بھی وہیں کا رخ کرتی ہے۔ اس لیے تکنیکی اعتبار سے جتنا تم جذبات اور احساسات پر اثرانداز ہوگے، اتنا ہی مال اور طاقت حاصل کرسکو گے۔
ٹیکنالوجی یہی کام کررہی ہے، اور اس کام میں سب سے آگے بھی ہے۔ ٹیکنالوجیز لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ایجاد کی جاتی ہیں۔ ایک بال پوائنٹ پین، ایک آرام دہ سیٹ ہیٹر وغیرہ وغیرہ۔ قسمتیں ان ہی اشیاء کے آگے پیچھے بنتی اور بگڑتی ہیں۔ کیونکہ یہ لوگوں میں خوشگوار احساس پیدا کرتی ہیں، ان کی زندگیوں کو آرام دہ بناتی ہیں۔ معیشتیں عموماً عوام کی خواہشات اور خوابوں کی تکمیل کی خاطر ہی گردش کرتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا لوگوں کے احساسات پر چلنا کوئی ایسی بُری بات بھی نہیں رہی ہے۔ صنعتی عہد میں یہ بے شک اچھی شے تھی۔ انسانوں کی اکثریت سردی، بھوک، اور تھکادینے والی مشقت میں جکڑی ہوئی تھی۔ مشینوں کی ایجادات، شہروں کی ترقی اور نمائندہ حکومتوں نے عام لوگوں کے معیارِ زندگی میں بہتری پیدا کی۔
جوں جوں ٹیکنالوجی اور معاشرہ آگے بڑھے، لوگ مشقت اور جسمانی مشکلات سے آزاد ہوتے گئے۔ ویکسین اور ادویہ نے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بچائیں۔ سادہ سی مشینوں نے کمر توڑ دینے والے کام کے بوجھ ختم کردیے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کی خواہشات کہیں رکتی نہیں۔ اس لیے بیسویں صدی کے اواخر میں ترقی یافتہ ملکوں نے نت نئی ٹیکنالوجی کی ایجادات جاری رکھیں، وہ زیادہ سے زیادہ پُرتعیش زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ ایک نیا کمرشل دور شروع ہوا۔ اس نئی خواہش نے ٹیکنالوجی کی پیداوار دھماکا خیز کردی۔ ٹوسٹر اوون، واشنگ مشین، آٹوموبائل، فاسٹ فوڈ، ٹیلی وژن، اور بہت کچھ آگے پیچھے سامنے آتا چلا گیا۔
زندگی بہت آسان ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ صدیوں کا فاصلہ کچھ ہی عرصے میں طے ہوگیا۔ لوگ فون اٹھاکر منٹوں میں وہ گفتگو کرنے لگے، جسے پہلے مہینوں لگ جاتے تھے۔ کمرشل عہد اگرچہ پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہوچکا تھا، مگر لوگوں کی زندگی پھر بھی تھوڑے بہت فرق سے ایک جیسی تھی اور ایک ساتھ تھی۔ ہم ایک جیسے ٹی وی چینل دیکھا کرتے تھے۔ ایک جیسی موسیقی سنا کرتے تھے۔ ایک جیسے کھانے کھاتے تھے۔ ایک جیسے صوفے استعمال کرتے تھے۔ ایک جیسے اخبار پڑھا کرتے تھے۔ ایک یقینی تسلسل اور ربط تھا۔ ایک یگانگت اور تحفظ کا احساس موجود تھا۔ یہی وہ معاشرتی یک جائی تھی جسے آج اکثر لوگ یاد کرکے آہیں بھرا کرتے ہیں۔
پھر انٹرنیٹ آگیا!۔
انٹرنیٹ کے ارادے اچھے تھے۔ سلیکون وادی کے موجدین اور ٹیکنالوجسٹ بڑی امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ کمپیوٹر کے جال میں جکڑی دنیا ایک ہوگی اور باہم مربوط ہوگی۔ وہ دہائیوں تک دنیا کو عالمگیر رابطے میں پرونے کی تگ و دو کرتے رہے۔ وہ معلومات کی عالمی وحدت کے لیے دن رات کام کرتے رہے۔ ایک یوٹوپیا وہ بنانے جارہے تھے۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ دنیا وہ تخلیق کرنے جارہے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ انگلیوں کے اشاروں پر دنیا بھر کی دانش تمہارے سامنے آموجود ہوگی۔ انہوں نے اقوام کے درمیان عظیم تفہیم کے امکانات دیکھے، نسلوں اور طرزِ زندگی کے فرق مٹتے محسوس کیے۔ وہ ایک ایسی عالمگیر دنیا کا خواب دیکھ رہے تھے جہاں مشترکہ مفادات اور امنِ عالم کا امکان روشن نظر آرہا تھا۔
مگر وہ بھول گئے تھے!
وہ اپنے خوابوں میں اتنے کھو گئے تھے کہ بھول گئے… وہ بھول گئے تھے کہ دنیا معلومات پر نہیں چلتی۔ لوگ حقائق کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتے۔ وہ ڈیٹا کی بنیاد پرپیسہ خرچ نہیں کرتے۔
دنیا احساسات پر چلتی ہے!
جب تم ایک عام آدمی کو معلومات کی دہلیز پر لاکھڑا کرتے ہو، تب بھی وہ گوگل پر سچ کی تحقیق نہیں کرتا، بلکہ اپنے احساسات کی پروا کرتا ہے۔ اسے ایسی حقیقت گوگل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں جو اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے، بلکہ وہ ایسی چیز گوگل کرے گا جو اس کے احساسات کی تسکین کرے خواہ وہ جھوٹ ہی کیوں نہ ہو۔ مثال کے طور پر تم کٹّر نسل پرست ہو، تو بس دو کلکس کے فاصلے پر ہی تمہیں نسل پرستوں کا پورا فورم مل جائے گا۔ وہ اپنی نسل پرستی میں اتنی دلیلیں گھڑ لائے گا کہ تم اپنی نسل پرستی پر شرمندگی کے بجائے فخر محسوس کرنے لگو گے۔
غرض انٹرنیٹ اس طرح ڈیزائن نہیں کیا گیا، یا کیا جارہا کہ لوگوں کو ضروری معلومات پہنچائے، بلکہ یہ لوگوں کو وہی معلومات پہنچا رہا ہے جو وہ چاہتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دونوں باتوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ مثال کے طور پر میری شدید خواہش ہے کہ امریکہ کی موجودہ حکومت جلد ختم ہوجائے، تو فیس بُک مجھے مسلسل ایسی چیزیں دکھائے گا جو اس آرزو کو تقویت پہنچانے والی ہوں گی۔ مثال کے طور پر میں قدامت پرستوں کی ویب سائٹ کا وزٹ کرتا ہوں، اُن کا پولنگ ڈیٹا چیک کرتا ہوں، اُن کی تاریخ اور ذرائع معلومات تلاش کرتا ہوں، تو میں دیکھتا ہوں کہ یہ غالباً سچائی نہیں ہے۔ مگر ہم سب ہی احساسات کی منطق پر سوار سفر پر ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مجھے وہ معلومات بہت آسانی سے مہیا کی جارہی ہے، جو میرے خدشات کو درست اور خواہشات کو خوشنما بناکر پیش کرتی ہے۔ یہ انٹرنیٹ ہے جو ہمیں ہماری حقیقتوں سے دور کرتا چلا جارہا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ہم علمی وکائناتی حقائق سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں۔ معیشت سکھاتی ہے کہ جب کسی شے کی ترسیل ضرورت سے بہت زیادہ ہوجائے تو اس کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ معلومات کی بے ہنگم فراوانی سے ہورہا ہے۔ معلومات کی درجہ بندی اور معیار کے تعین میں دشواری بڑھتی چلی جارہی ہے۔
اگر میں آج ایک مضمون پڑھتا ہوں جو مجھے بتاتا ہے کہ خاص عمل (processed) سے گزارا گیا گندم نقصان دہ ہے، تو اگلے روز تین ایسے مضامین میرے سامنے آجائیں گے جو processedگندم کی تیاری کے حق میں دلائل گھڑ لائیں گے، اور پھر ایک اور مضمون مجھے یہ سمجھائے گا کہ گزشتہ سارے مضامین کیوں غلط تھے۔ اب صورت حال یہ بنی کہ مجھے کسی بھی مضمون پر اعتبار نہ رہا۔ متضاد معلومات کی بھرمار نے میرے دماغ کی چولیں ہلادیں۔ آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے؟ لگتا ہے سب پیسے بنانے کے چکر میں صارفین کو چکر دے رہے ہیں۔
یہ بے اعتباری جب سیاسی نظام میں داخل ہوجاتی ہے تو تباہی آتی ہے۔ جبکہ جمہوریت نام ہی بھروسے کا ہے۔ قانون کی حکمرانی کا سارا کھیل ہی بھروسے کا ہے۔ اگر ہم اپنے سیاسی اور قانونی نظام پر ہی بھروسا کرنا چھوڑدیں گے تو پھر کیا بچے گا؟ یا تو یہ ادارے ڈھے جائیں گے یا سرطان زدہ ہوجائیں گے۔
مگر انٹرنیٹ ایسے ایسے فائدے اور خواب دکھاتا ہے کہ ’بے اعتباری‘ کا کاروبار منافع بخش نظر آتا ہے۔
یوں سمجھیے ہمارا بیڑہ غرق ہوگیا!
یہ کوئی امریکی یا مغربی شے نہیں۔ یہ ہر جگہ ہورہی ہے۔ فلپائن، ترکی، برازیل، روس، فرانس اور برطانیہ… یہ سب انٹرنیٹ کی ’بے اعتباری‘ کی زد میں ہیں۔ ایک سیاسی کشمکش ہرطرف ہے۔ لوگ اکثر معلومات پر بھروسا نہیں کررہے۔ لوگ اپنے ہی معاشروں میں گردش کرتی اکثر معلومات پر بے یقینی کا شکار ہیں۔ یہ لامحدود معلومات لوگوں کو دانشور نہیں بناتی، بلکہ الجھا دیتی ہے۔
جب لوگ الجھتے ہیں، تو واپس اپنے احساسات اور جذبات کا رخ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے اپنے احساسات کی فکر کرو، باقی سب کو بھاڑمیں جھونکو۔ کچھ ٹیک ماہرین کہتے ہیں کہ موجودہ سیاست خود ہی انتشار کا شکار ہے۔ ایک آملیٹ بنانے کے لیے کئی انڈے توڑنے پڑتے ہیں، اور نئے مؤثر نظام کی آمد پر پرانے بوسیدہ ڈھانچے ڈھے جاتے ہیں۔ یہ محض ٹیکنالوجی کے دفاع میں گھڑی گئی باتیں اور اصطلاحیں ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ سیاست میں ہورہا ہے وہ انتشار نہیں ہے۔ انتشار کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ کوئی بہتر نظام جمہوریت کی جگہ لینے کے لیے موجود ہو یا امکان رکھتا ہو۔ مگر یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم اپنی فطرت کے کم تر اور رذیل پہلوؤں کی لپیٹ میں ہیں۔
تہذیب کی تعمیر کا مقصد لوگوں کی فطرت کے بہترین حصوں کی نشوونما تھا۔ اُن کے بہترین رجحانات کا فروغ تھا۔ سیکڑوں سال اس تعلیم اور آگہی میں صرف ہوئے کہ سائنس، عوامی مباحثے، معقول دلیل، اور ایسے طاقت ور ادارے مستحکم کیے جاسکیںجو معاشرے اور ریاست کو ترقی کی منزل تک پہنچاسکیں۔
جہاں تک میں کہہ سکتا ہوں، انٹرنیٹ ہمیں وہ کچھ مہیا نہیں کرسکا جس کی توقع کی گئی تھی، بلکہ صورت حال یکسر الٹی ہوچکی ہے۔ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہورہا ہے، وہ اسی انٹرنیٹ کی بدولت ہے۔
ہر ایک مایوسی میں گھرا ہے۔ ہر ایک خوف زدہ ہے۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ تم کس ریاست میں رہتے ہو۔ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس سیاسی نظام سے تم جُڑے ہو۔ اس کے باوجود کہ جنگیں اور پُرتشدد واقعات اپنی کم ترین شرح پر ہیں۔ جبکہ تعلیم، صحت اور روزگار اپنی بہترین شرح پر ہیں۔ ہر ایک ہر جگہ واضح طور پر دیکھ رہا ہے کہ دنیا ایک دوزخ کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس سب کی بنیادی وجہ معلومات (علم، مترجم) پر سے اٹھتا ہمارا بھروسا ہے۔