بھارت کی ریاستی دہشت گردی… عالمی ضمیر کب جاگے گا؟

بھارت کے زیر تسلط کشمیر کی وادیٔ جنت نظیر، جہنم زار میں تبدیل ہوچکی ہے، جہاں فوجی محاصرے کا تیسرا ہفتہ جاری ہے۔ 5 اگست کے آئینی ترمیم کے اقدام سے قبل جو سخت کرفیو علاقے میں نافذ کیا گیا تھا، اب تک مسلسل مسلط ہے۔ پوری حریت قیادت جیلوں میں بند ہے، بے بس کشمیری مسلمانوں کو عید کی نماز ادا کرنے دی گئی ہے نہ سنتِ ابراہیمی پر عمل پیرا ہونے دیا گیا۔ عام نمازوں کی باجماعت ادائیگی تو ایک جانب، نمازِ جمعہ تک کی ادائیگی کے لیے گھروں سے نکلنے نہیں دیا جارہا۔ پوری وادی حراستی مرکز میں بدل دی گئی ہے۔ گھروں میں نظربند شہری سنگین غذائی بحران سے دوچار ہیں، اشیائے ضروریہ کی شدید قلت ہے۔ ہزاروں بیمار ہیں جن کے لیے ادویہ دستیاب ہیں، نہ طبیب و معالج تک رسائی ممکن ہے۔ ذرائع ابلاغ، مواصلات کا نظام، انٹرنیٹ، ٹیلی فون اور بجلی و گیس تک کے کنکشن منقطع کیے جا چکے ہیں۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ہر دس نہتے کشمیری باشندوں پر ایک مسلح سنگین بردار فوجی مسلط ہے۔ چھ ہزار سے زائد کشمیریوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ چھ ہزار سے زائد نامعلوم اور اجتماعی قبریں دریافت ہوچکی ہیں، جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان میں وہ بدنصیب دفن ہیں جنہیں بھارتی فوج نے گھروں سے اٹھا کر غائب کردیا تھا۔ ان کے علاوہ اسّی ہزار سے زائد بچے یتیم ہوچکے ہیں۔ مسلسل ظلم و ستم، کشیدگی اور تنائو کے سبب 49 فیصد بالغ کشمیری شہری دماغی امراض کے شکار ہوچکے ہیں۔ بے گناہ کشمیریوں پر مظالم کی فہرست بہت طویل ہے۔ عزت مآب مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی آبروریزی اور بے حرمتی، اور نوجوانوں کو پیلٹ گنوں کے ذریعے بینائی سے محروم کرنا اور حراستی مراکز میں اذیت کوشی روزمرہ کے معمولات میں شامل ہیں۔ ظلم کی سیاہ رات طویل سے طویل تر ہوتی جارہی ہے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کمیشن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے عالمی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق انسانی حقوق کے مسلمہ چارٹر کی ایک ایک شق کی صریحاً خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ مگر بھارت کسی بھی قسم کی مذمت و ملامت کی پروا کیے بغیر پوری ڈھٹائی سے انسانی حقوق کے اداروں کو وادی میں جانے کی اجازت دینے سے انکاری ہے، پھر بھی پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور عالمی ضمیر گہری نیند سویا ہوا ہے۔
ہماری حکومت اپنی اس کارکردگی پر پھولے نہیں سما رہی کہ ہم نے چین کی مہربانی سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرے میں اجلاس منعقد کروا لیا ہے جس میں نصف صدی سے زائد عرصے بعد مسئلہ کشمیر زیر بحث لایا گیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس اجلاس سے حاصل کیا ہوا…؟ کیا سلامتی کونسل نے بھارت کو کشمیر کے متنازع علاقے سے متعلق یک طرفہ طور پر کی گئی آئینی ترامیم واپس لینے، اور خطے کی سابقہ حیثیت بحال کرنے کا حکم دیا…؟ کیا بھارت کو نہتے شہریوں پر ظلم و ستم بند کرنے، کرفیو اٹھانے، فوج واپس بلانے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرنے، انسانی حقوق کی تنظیموں کو علاقوں میں رسائی دینے، یا کم از کم ذرائع ابلاغ اور ذرائع مواصلات کے رابطے بحال کرنے ہی کی کوئی ہدایت جاری کی گئی؟ ہم خوش ہورہے ہیں کہ اقوام متحدہ نے حقِ خودارادیت سے متعلق اپنی ستّر برس پرانی قراردادوں کو مؤثر قرار دیا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہ قراردادیں مؤثر ہیں تو اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل ان پر عمل درآمد کرانے کے لیے متفکر کیوں نہیں؟ ان کے متعلق بے اعتنائی کا رویہ کیوں ہے؟ سوڈان، انڈونیشیا، عراق اور افغانستان کے بارے میں قراردادوں کی طرح کشمیر میں حقِ خودارادیت کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کی تاریخ کا اعلان کرکے مسئلہ حل کیوں نہیں کروا دیا جاتا…؟ سوڈان اور انڈونیشیا کے برعکس کشمیر میں رائے شماری سے گریز کا راستہ کیوں اختیار کیا جا رہا ہے…؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی جو خود کو یک قطبی دنیا کے بلاشرکت غیرے مالک تصور کرتے ہیں، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے خطے کی صورتِ حال پر ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے، مگر مجال ہے جو مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی داد رسی یا بھارت کے ظالمانہ اقدامات کی اشارتاً ہی مذمت کی ہو… انسانی حقوق کی بحالی تو بعد کی بات ہے، کہیں پامالی تک کا ذکر نہیں… ہاں البتہ بھارت اور پاکستان کو برابر کی سطح پر رکھ کر دونوں وزرائے اعظم کو خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے ضرور کہا ہے۔ پیغام تو یہی ہے کہ بھارت جو چاہے خطے میں کرتا رہے… جیسے چاہے عالمی قوانین اور اصولوں کی دھجیاں اڑاتا رہے… پاکستان خاموشی سے سب کچھ برداشت کرے، تاکہ کہیں کشیدگی میں اضافہ نہ ہوجائے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر سنگھ مودی کے انتہا پسندانہ نظریات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، وہ وزیراعظم بننے سے پہلے دنیا بھر میں ’’گجرات کا قصاب‘‘ کے طور پر شناخت رکھتے تھے، اور اسی سبب خود امریکہ نے انہیں ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر اُن کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کررکھی تھی جو وزیراعظم بننے کے بعد ختم کر دی گئی، حالانکہ وزیراعظم بننے کے بعد بھی اُن کی انتہا پسندانہ سوچ تبدیل ہوئی ہے نہ عملی کردار میں کوئی فرق آیا ہے۔ اُن کے دور میں بھارت کا سیکولر کردار ختم کرکے اسے خالصتاً ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے تشدد پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ۔ ایس۔ ایس) کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے، جس نے بھارت کو اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے لیے عقوبت خانے میں تبدیل کردیا ہے، اور اب بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ نے کھلم کھلا ایٹم بم کے استعمال میں پہل کرنے کا اعلان کردیا ہے، جو بھارتی حکومت کی انتہا پسندانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ مگر پاکستان کے ایٹمی پروگرام، جو ہمیشہ سے محفوظ ہاتھوں میں اور مربوط نظام کے تابع ہے، کے بارے میں بلاجواز خدشات کا اظہار کرنے والی عالمی طاقتیں اس بھارتی سوچ پر خاموشی کا روزہ توڑنے پر تیار نہیں۔ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں میں جکڑنے کی دھمکیاں دینے والے عالمی ادارے بھارت میں سرکاری سرپرستی میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے فروغ پر ’’ٹک ٹک دیدم۔ دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر کیوں بنے ہوئے ہیں…؟
(حامد ریاض ڈوگر)