ماہنامہ سیارہ کے مدیر جناب حفیظ الرحمن احسن کا خط بنام محترم غازی علم الدین پڑھنے کا موقع ملا۔ گو کہ دوسروں کے خط پڑھنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا، لیکن یہ خطوط افادۂ عام کے لیے شائع ہوچکے ہیں۔ جناب احسن نے لکھا کہ جب وہ ماہنامہ سیارہ میں کام کررہے تھے تو رسالے کے مدیر نے انہیں نصیحت کی کہ ’’کبھی ’بسم اللہ ہی غلط ہوگئی‘ کا جملہ کسی تحریر میں نہ جانے دینا کہ یہ (محاورہ) اللہ کی توہین کے مترادف ہے‘‘۔ اس بات کا اعادہ ضروری ہے کہ ہم لوگ بلا سوچے سمجھے یہ کہہ ڈالتے ہیں، حالانکہ اللہ کے نام سے شروع کیا جانے والا کوئی بھی کام غلط نہیں ہوسکتا۔ حفیظ الرحمن احسن نے ایسے ہی چند اور الفاظ کی نشاندہی کی ہے، مثلاً ’’صلواتیں سنانا‘‘۔ اردو لغات تک میں صلواتیں سنانا کا مطلب برا بھلا کہنا، گالیاں دینا لکھا گیا ہے اور یہ بہت عام ہوچکا ہے، اس سے بچنا چاہیے۔ صلوٰت (صلوات) کا مطلب ہے برکتیں، رحمتیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ہوں۔ لیکن یہ ہجو، گالی اور دشنام کے معنوں میں لیا جانے لگا ہے۔ اس کا مصدر صلّ (صل۔ ل) ہے، اور مطلب ہے: برکت دے، درود بھیج، رحمت اتار۔ اسی لیے مسلمان رسولِ اکرمؐ کے لیے صلِ علیٰ کا کلمۂ تحسین استعمال کرتے ہیں۔ اب سوچ لیجیے کہ صلواتیں سنانا کتنا غلط ہے۔ ابن صفی مرحوم گو کہ جاسوسی ناول نگار تھے لیکن انہوں نے تاکید کی ہے کہ اس لفظ کو سین سے یعنی ’سلواتیں سنانا‘ لکھا جائے۔ مگر سننے والا تو ’س‘ اور ’ص‘ میں تمیز نہیں کرسکے گا، تو اسے استعمال ہی کیوں کیا جائے! ایک اور غلط العام لفظ ’’لوطی‘‘ یا ’’لواطت‘‘ ہے۔ یہ حضرت لوطؑ سے نسبت ہے جو ایک جلیل القدر نبی تھے۔ یہ ان کی شان میں صریح گستاخی ہے۔ ان کی قوم اس علت میں مبتلا تھی اور وہ اس کے خلاف تھے۔ چناں چہ یا تو قوم لوطؑ کا فعلِ بد لکھا جائے یا اس بستی کے حوالے سے ’سدومیت‘ لکھا جائے۔ انگریزی میں اسی نسبت سے sodomy کہا جاتا ہے۔ ہم جب نئے نئے نیوز ڈیسک پر آئے تھے تو ہم نے بھی اس طرف توجہ دلائی تھی اور نیوز ایڈیٹر محترم کشش صدیقی (مرحوم) نے اس سے اتفاق کیا تھا۔ ایک اور قرآنی اصطلاح ہے ’لن ترانی‘۔ جب حضرت موسیٰؑ نے خدا کو دیکھنے کی فرمائش کی تو جواب ملا ’’تُو مجھے نہیں دیکھ سکتا‘‘۔ یہ اللہ کے کلمات ہیں، مگر انہیں شیخی، خودستائی، تعلی، انانیت اور ڈینگ مارنے کے معنوں میں استعمال کیا جارہا ہے۔ اردو لغات میں بھی یہی معانی درج ہیں۔ جمع اس کی ’لن ترانیاں‘ بنالی گئی۔ عربی میں ’’لن‘‘ حرفِ نفی ہے۔ ناسخؔ کا شعر اس حوالے سے بہت مناسب ہے:
منزلت اپنی تُو اے آتش کے پرکالے نہ بھول
بندہ عاجز ہے خدا کو لن ترانی چاہیے
یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا یہ کلمہ دوسرے کو شایان نہیں۔ داغؔ کا شعر ہے:
لیجیے موسیٰ سے لن ترانی کی
اب تو ہم سے کلام ہوتا ہے
ایسا لگتا ہے کہ سید مودودیؒ کی جماعت کے ارکان نے بھی سید کو پڑھنا چھوڑ دیا ہے، ورنہ ’پروا‘ کو ’’پرواہ‘‘ نہ لکھتے۔ مولانا کی اردو سند سمجھی جاتی ہے، مگر اب ان سے منسوب اردو زبان بگاڑی جارہی ہے۔ راولپنڈی سے شائع ہونے والا ماہنامہ ’’کشمیر الیوم‘‘ تحریکی جریدہ ہے۔ اگست کے شمارے میں سرورق کے اندرونی صفحہ پر کتاب ’’تحریک اسلامی، ایک تاریخ ایک داستان‘‘ سے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریر کا ایک اقتباس ’’فکرِ مودودی‘‘ کے عنوان سے بڑے اہتمام سے شائع کیا گیا ہے جس میں ایک جملہ ہے ’’کامیابی اور ناکامی کی اس (سچے مسلمان) کو قطعاً پرواہ نہ ہوگی‘‘۔ اب ایک عام قاری تو یہی سمجھے گا کہ مولانا نے ’پروا‘ کو ’’پرواہ‘‘ لکھا ہے تو یہی صحیح ہوگا۔ اسی لیے جسارت میں جماعت کی طرف سے شائع ہونے والے ایک اشتہار میں بھی یہ ’’لاپرواہی‘‘ در آئی ہے۔ مولانا کی تحریروں کو غلط املا کے ساتھ شائع کرنا جماعت کی خدمت ہے نہ مولانا سے عقیدت کا ثبوت۔ ’غیظ و غضب‘ کی جگہ ’’غیض و غضب‘‘ تو اتنا عام ہوگیا ہے کہ ترجمان القرآن جیسے اعلیٰ معیار کے جریدے میں بھی جگہ بنا چکا ہے۔ کئی بار لکھا ہے کہ ’غیظ‘ اور ’غیض‘ کے مطلب میں بڑا فرق ہے۔
اب ایک دلچسپ لفظ۔ ’غنچہ‘ اردو میں عام ہے۔ شاعروں نے خوب استعمال کیا ہے۔ لیکن لغات کے مطابق یہ لفظ ’گنجہ‘ ہے۔ فارسی میں گنجیدن یعنی سمانا سے ماخوذ ہے۔ کلی میں سب پنکھڑیاں باہم مجتمع اور گنجان ہوتی ہیں اس وجہ سے یہ نام ہوا ’گنجہ‘۔ لیکن غنچہ کیسا بھدا ہوگیا۔ غنچہ کہتے ہی دل کی کلی کھلنے لگتی ہے۔ غنچہ دہن شاعروں کی پسندیدہ تشبیہ ہے۔ اب کسی کو ’گنجہ دہن‘ کہہ کر دیکھیں تو ممکن ہے خود گنجے ہوجائیں۔ البتہ جو پہلے سے گنجے ہیں وہ یہ خطرہ مول لے سکتے ہیں۔ اردو صفت گنجان بھی اسی گنجہ سے نکلی ہے۔ جیسے یہ شہر غنچہ ہے، یعنی خوب گنجان۔ امیر مینائی کا شعر ہے:
وہ غنچہ اس چمن میں مرا دل ہے اے امیرؔ
بادِ بہار سے بھی کھلایا نہ جائے گا
غنچہ کا مطلب جھرمٹ بھی ہے، چند لوگ جو ایک جگہ بیٹھے ہوں، ہجوم۔
امیرؔ ہی کا شعر ہے:
سنا ہے جب سے ان کو شوق ہے پھولوں کے زیور کا
گلی میں یار کے رہتا ہے غنچہ پھول والوں کا
غنچہ مجازاً معشوق کے دہن کو کہتے ہیں۔ غنچہ پیشانی اردو میں مستعمل تو نہیں ہے تاہم یہ شگفتہ پیشانی کا مقابل ہے، یعنی بددماغی۔ غصے کی حالت جب پیشانی سے ظاہر ہو تو یہ سکڑ جاتی ہے۔ غنچہ پیکاں یا غنچہ تیر یعنی تیر کا پھل۔ غنچہ لب بھی ہوتا ہے۔ معروف شاعر مرزا سوداؔ ہجو لکھنے میں بڑے طاق تھے۔ ان کے نوکر کا نام تھا غنچہ۔ جہاں کسی سے بگڑی، انہوں نے آواز لگائی ’’غنچہ، لانا تو مرا قلم دان‘‘۔ اور قلم برداشتہ ہجو لکھنا شروع کردی۔ آج کل یہ غنچے حکمرانوں کے پاس گل کھلا رہے ہوتے ہیں۔ ان کو آواز لگانے کی ضرورت بھی نہیں، خود ہی شروع ہوجاتے ہیں۔ بہرحال سوداؔ کی ہجویات ادب میں خاصے کی چیز ہیں۔ ایک شعر اور سن لیجیے:
سن کر خوش اِلحانیاں کسی غنچہ دہن کی
سٹّی ہے جو بھولی ہوئی مرغانِ چمن کی
لڑکپن میں ہم سمجھتے رہے کہ یہ سیٹی ہے جو پرندوں کو پرچانے کے لیے بجائی جاتی ہوگی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سٹّی (تشدید کے ساتھ) ہندی کا لفظ ہے اور مطلب ہے اوسان، حواس وغیرہ۔ بغیر تشدید کے یہ انگریزی کی سٹی یعنی شہر بن جائے گی۔
سننے میں آرہا ہے کہ پاکستان میں بھی سرکاری سطح پر اردو رائج ہونے جارہی ہے، تاہم ہمارا مقتدر طبقہ اب تک اپنا مفہوم سمجھانے کے لیے انگریزی کا سہارا لیتا ہے جو قوم کی اکثریت کی سمجھ میں نہیں آتی۔ بھارت کے ایک اردو اخبار نے اپنے ملک کے حوالے سے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ جب فروغِ اردو کے ادارے نہیں تھے تو زندگیوں میں اردو تھی۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی کچھ حال ہے کہ فروغِ اردو کے متعدد ادارے موجود ہیں، بس اردو نہیں ہے۔ گورڈن کالج راولپنڈی کی اردو کی ایک ریٹائرڈ پروفیسر ٹی وی پروگرام میں انکشاف کررہی تھیں کہ اردو مغلوں کے دور کی پیداوار ہے۔ لیکن مغلوں سے سیکڑوں سال پہلے اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر ولی دکنی کہاں سے آگئے تھے؟ سلاطینِ ہند کے دور کے امیر خسرو کیسی صاف اردو میں شاعری کررہے تھے کہ ’’نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں نہ بھیجے پتیاں‘‘۔ اس غزل کا کمال یہ ہے کہ ایک مصرع فارسی میں اور دوسرا ریختہ یا اردو میں ہے جو آج بھی سمجھی جاتی ہے۔
اردو بھارت ہی میں پلی بڑھی لیکن اب وہاں کسمپرسی میں ہے۔