کیا عالمی طاقتیں مجرمانہ خاموشی توڑیں گی؟۔
مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کا مقدمہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی ریاست اور بالخصوص مودی حکومت کے تناظر میں اس وقت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر دنیا بھر میں سخت مزاحمت ہورہی ہے۔ 15اگست کو بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر دنیا بھر میں مقبوضہ کشمیر کے حق میں اور بھارتی حکومت سمیت بی جے پی کی انتہا پسند پالیسیوں کے خلاف بڑا یوم سیاہ منایا گیا۔ یہ یوم ِسیاہ محض پاکستان اور کشمیریوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ دنیا کے تمام چھوٹے بڑے ممالک اور تمام مذاہب کے لوگوں میں بھارت کی جانب سے حالیہ دنوں میں مقبوضہ کشمیر کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات اور بالخصوص انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کے خلاف بڑی مزاحمت دیکھنے کو ملی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی حکومت کے خلاف جو آوازیں اٹھیں ان میں خود بھارت کے لوگوں کی آوازیں بھی شامل تھیں جنہوں نے مودی حکومت کے اقدامات پر شدید تنقید کی۔
یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد نے ایک عالمی سیاسی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ یہ کریڈٹ کشمیریوں کی پُرامن جدوجہد اورنوجوانوں کو دینا ہوگا جنہوں نے سوشل میڈیا کی مدد سے دنیا کی توجہ بھارت کے مظالم کی طرف مبذول کرائی ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ سمیت کئی عالمی اداروں کی 2017-19ء کی جاری کردہ رپورٹوں میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی کی مرتکب ہورہی ہے۔ ان رپورٹوں نے عالمی برادری میں انسانی حقوق سے جڑے اداروں، پارلیمنٹ میں موجود ارکان، میڈیا، اور عوامی رائے عامہ بیدار کرنے والے عناصر کو مجبور کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر خاموش رہنے کے بجائے اپنی آواز اٹھائیں۔
مودی حکومت کی سب سے بڑی پسپائی یہی ہے کہ اس کا مقدمہ بالخصوص انسانی حقوق کی پامالی کے تناظر میں اب عالمی برادری سننے کو تیار نہیں۔ دنیا کے چاروں اطراف سے بھارتی مظالم کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں، اور عالمی رائے عامہ کی بیداری کے بعد اب لڑائی عالمی طاقتوں اور عالمی حکمران طبقے کے دلوں پر دستک دے رہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی ایک ایسا بنیادی نکتہ ہے جس پر عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے، کیونکہ عالمی برادری اور اس سے جڑے ادارے اپنے آپ کو انسانی حقوق کے محافظ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی رائے عامہ کا دبائو عالمی طاقتوں پر بڑھ رہا ہے کہ وہ مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے کے بجائے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انسانیت سوز مظالم کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔
پاکستان سیاسی اور سفارتی محاذ پر ڈپلومیسی کی جو بڑی جنگ مقبوضہ کشمیر کے تناظر میں لڑنے کی کوشش کررہا ہے اس میں بھی ایک بنیادی نکتہ انسانی حقوق کی پامالی کا ہے۔ وہاں کے لوگوں کے ساتھ جو کچھ بھارت کی ریاست کررہی ہے وہ عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ اس وقت بھی مقبوضہ کشمیر میں نہ صرف کرفیو نافذ ہے بلکہ خوراک کی ترسیل، مواصلاتی رابطہ، نمازکی ادائیگی، تعلیمی، سماجی اور معاشی نظام مکمل طور پر بند ہے۔ عملی طور پر بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں سخت مارشل لا نافذ کردیا ہے اور وہ کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں۔ سید علی گیلانی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ بھارت کشمیریوں کی نسل کُشی کا منصوبہ رکھتا ہے، اور وزیراعظم عمران خان کے بقول کیادنیا اس اہم اورنازک مرحلے پر اپنا کردار ادا نہیں کرے گی اورمقبوضہ کشمیر میں انسانی نسل کُشی دیکھتی رہے گی؟ یا کچھ ایسا کرے گی جو کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق دلاسکے۔
مسئلہ محض پاکستان کے مؤقف کا نہیں، بلکہ دنیا بھر کے میڈیا اور انسانی حقوق سے وابستہ اداروں کی رپورٹیں بتا رہی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کا معاملہ کتنا سنگین ہے۔ اس موقع پر کشمیریوں میں مزید شدت پیدا کرنے یا اُن میں نفرت یا بغاوت کو پیدا کرنے کے بجائے اُن کا ہاتھ تھامنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر مقبوضہ کشمیر میں جاری یہ ظلم و ستم ختم نہ ہوا تو وہاں سے جو آگ بھڑکے گی اس کو روکنا بھارت سمیت کسی کے لیے ممکن نہیں ہوگا، اور اس صورتِ حال کی ذمہ داری بھی عالمی برادری کی خاموشی پر عائد ہوگی۔
انسانی حقوق کی پامالی کا عمل اُس وقت سامنے آتا ہے جب آپ لوگوں کے بنیادی سیاسی اور سماجی حقوق دینے سے انکار کردیں، اور حقوق کا مطالبہ کرنے پر سیاسی انداز اختیار کرنے کے بجائے طاقت اور بندوق کا استعمال کرکے اس آواز کو دبانے کی کوشش کریں۔ یہی کچھ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں ہورہا ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہوتا اور بھارتی اقدامات کو کشمیریوں کی حمایت حاصل ہوتی تو وہاں عملاً مارشل لا نہ ہوتا۔
بھارت کی انسانی حقوق کی معروف عالمی راہنما ارون دھتی رائے نے اپنے ایک مضمون میں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر چار اہم نکات اٹھائے ہیں جو قابلِ غور ہیں: (اوّل) وادی کشمیر کو بھارت کے ریاستی اقدامات نے جیل بنادیا ہے، اوراگر وادی سے تشدد پھوٹا، تو تشدد کی یہ لہر ملک کے چاروں اطراف پھیلے گی۔ (دوئم) مودی حکومت کے حالیہ اقدامات نے بارود کے ڈھیر میں ایک ایسی چنگاری بھڑکادی ہے جو وہاں کے پُرامن سیاسی حل کے خلاف ہے۔ (سوئم) بی جے پی اور آر ایس ایس ہر گزرتے دن کے ساتھ اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کریں گی اور جلد ہی یہ اس مقام پر پہنچ جائیں گی جہاں یہ خود ریاست بن جائیں گی۔ (چہارم) بڑی تیزی سے بھارت میں ہندوتوا کی سیاست اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے نتیجے میں بھارتی ریاست پر گمبھیر اثرات پڑیں گے، اور بھارتی ریاستی پالیسیوں میں ہندو انتہا پسندی سیکولر ریاست کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ (پنجم) مودی حکومت کی کوشش ہوگی کہ وہ اپنی انتہا پسند پالیسیوں کو بنیاد بناکر معاشرے کے لبرل، سیکولر اور دانشور طبقے کو بے دخل کرکے دیوار سے لگائے۔
عالمی میڈیا میں بھی مودی کے اقدامات کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔ دنیا بھر کے میڈیا نے نریندر مودی کو بھارت کا ہٹلر قرار دیا ہے، اور ان کے بقول مودی کے اقدامات بھارت کو تقسیم کرنے کا سبب بن سکتے ہیں، اورمودی کو بھارت کے انتہا پسندوں کا سرغنہ بھی کہا گیا ہے۔ اگرچہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے سلسلے میں حالیہ اقدامات کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے، لیکن انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں پر کوئی اسے اندرونی مسئلہ ماننے کے لیے تیار نہیں، اور سب بھارت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے اور لوگوں کو وہ بنیادی حقوق فراہم کرے جو بھارتی آئین اور عالمی انسانی حقوق کی پاسداری کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہاں ہمیں بھارت کے اندر موجود اُن لوگوں کو بھی داد دینی ہوگی جو مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال کے مدنظر خاموش رہنے کے بجائے سڑکوں پر نکلے ہیں اور مختلف انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ اور بی بی سی نے بھی اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی گلیاں خاموش ہیں اور لوگوں کا غصہ بول رہا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کشمیر ایک غیر فعال آتش فشاں ہے اور اسے صرف ایک چنگاری کی ضرورت ہے، اور حالیہ مزاحمت ماضی کی تمام مزاحمتوں سے بڑی مزاحمت ہوگی۔
جس انداز سے برطانیہ، اٹلی، امریکہ، نیوزی لینڈ، ڈنمارک، بیلجیم، جاپان، اسپین اور جرمنی میں بھارت مخالف مظاہرے ہورہے ہیں اور دنیا بھر کی پارلیمنٹس کے ارکان اقوام متحدہ کو خطوط لکھ رہے ہیں، اور جو انداز انسانی حقوق سے جڑی تنظیموں نے اختیار کیا ہے اس نے واقعی اِس وقت بھارتی حکومت کو عالمی برادری میں سیاسی طور پر تنہا کیا ہے۔ یہ جو حکمرانوں کی سطح پر خاموشی ہے یہ زیادہ دیر نہیں رہے گی، کیونکہ عالمی بیداری کی جو لہر مقبوضہ کشمیر کے حق میں اٹھ رہی ہے اسے روکنا اب کسی کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ اس وقت زبردست ماحول ہے اور ہم مسئلہ کشمیر کو دنیا میں انسانی حقوق کی ایک بڑی پامالی کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ کام سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا، اس کے لیے پاکستان سمیت دیگر ممالک کو رائے عامہ کو بیدار کرنے اور ریاستوں پر دبائو بڑھانے کے لیے ڈپلومیسی کی جنگ کو طاقت دینی ہوگی، تاکہ اس کارڈ کی مدد سے بھارت کو سیاسی طور پر مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر تنہا کیا جائے اور دبائو بڑھایا جائے کہ وہ انتہا پسندی اورانسانی حقوق کی پامالی کے کھیل کو بند کرے۔