سلیکٹڈ حکومت کے الزامات اور سلیکٹڈ وزیراعظم کی تہمت سے شروع ہونے والی تحریک انصاف کی حکومت کا ایک سال آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کے ساتھ مکمل ہوگیا۔ اگرچہ جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ میں ابھی تین ماہ باقی تھے، لیکن منتخب حکومت نے شاید ایک پیج پر ہونے کے تاثر کو مضبوط کرنے کے لیے یہ کام تین ماہ قبل ہی کرلیا۔ اگرچہ یہ تاثر صرف حکومت کا پیدا کردہ ہے، جبکہ اپوزیشن کا خیال ہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہرگز نہیں۔ ایک حکم دینے والے ہیں اور دوسرے بے چوں وچرا حکم ماننے والے۔ پیر کے روز جب حکومت نے اچانک یہ اعلان کیا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کردی گئی ہے، وزیراعظم عمران خان کا ایک ٹی وی کلپ تسلسل کے ساتھ فیس بک پر چل رہا ہے جس میں معروف اینکر جاوید چودھری جناب عمران خان سے پوچھ رہے ہیں کہ سیاسی و عسکری حلقوں کا خیال ہے کہ موجودہ (اُس وقت کے) حالات میں جنرل کیانی کو ایک سال کی توسیع دینے کی بات کی جارہی ہے، اس پر آپ کا کیا کہنا ہے؟ اس پر عمران خان دوٹوک انداز میں کہہ رہے ہیں کہ فوج کا ایک قانون ہے، کسی ایک شخص کے لیے قانون بدلنے سے ادارے کمزور ہوتے ہیں اور وہ (تحریک انصاف) اداروں کی مضبوطی کی قائل ہے اور سمجھتی ہے کہ کسی فرد کے لیے قانون کو بدلنے سے ادارے کمزور ہوں گے۔ لیکن اب وہ اور اُن کی حکومت جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کو ایک دانش مندانہ اور وقت کی ضرورت قسم کا فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کی ایک سال کی کارکردگی کے جو جائزے حکومت اور اپوزیشن نے پیش کیے ہیں وہ کم از کم کسی کامیاب حکومت کی چغلی تو نہیں کھا رہے۔ حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے جو وعدے کیے تھے اُن پر عمل درآمد کی رفتار انتہائی سست بلکہ اکثر معاملات میں یوٹرن کا انداز ہے۔ پاناما کے کرداروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے عمران خان کے دعوے ہوا میں ہیں،کہ پاناما کیس کے نوازشریف کے سوا (جن کا اپنا نام پاناما کیس میں نہیں ہے اور انہیں سزا بھی اس کیس میں نہیں ہوئی) 436 کرداروں کے بارے میں ابھی تک صورتِ حال یہ ہے کہ انہیں تاحال نوٹس تک جاری نہیں کیے گئے۔ حکومت نے 50 لاکھ گھر تعمیر کرنے اور ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں دینے کا اعلان کیا تھا۔ ابھی تک ایک گھر تعمیر ہوسکا ہے اور نہ ایک نوکری کسی کو ملی ہے۔ عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس اٹھایا تھا اور انہیں واپس لانے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ اب تک امریکی جیل میں سڑ رہی ہیں۔ تحریک انصاف کئی سال تک پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور قاف لیگ کو کرپٹ اور بدعنوان کہہ کر گالیاں دیتی رہی تھی، آج ان ہی پارٹیوں سے آنے والے افراد وفاقی اور صوبائی وزارتوں میں نظر آرہے ہیں۔ پارٹی کے وفادار کارکن اور نوجوان کسی عہدے کے اہل نہیں سمجھے گئے۔ ملکی معیشت کا حال یہ ہے کہ ڈالر 103 روپے سے 162 روپے تک آگیا ہے، اسٹاک ایکسچینج کئی ہزار پوائنٹ نیچے گرگیا ہے، آئی ایم ایف سے بدترین شرائط پر معاہدے ہورہے ہیں، سی پیک پر کام رکا ہوا ہے اور اس سے پاک چین تعلقات میں بھی دراڑ کا خدشہ ہے۔ ریکوڈک پر خوفناک جرمانہ ہوچکا۔ لاہور میں اورنج ٹرین پر کام رک گیا ہے، حالانکہ اس پر قومی خزانے سے اربوں روپے خرچ ہوگئے ہیں۔ پشاور میں میٹرو بس منصوبہ خدشات کا شکار ہے۔ نیب کی کارروائیوں کو اپوزیشن انتقامی کارروائی قرار دے رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف حکومتی ریفرنس نے قانون کی حکمرانی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے، ہر روز اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے، حکومت نے اب تک تین چار بار بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بار بار بڑھائی جارہی ہیں۔ دفاتر میں کام رکے ہوئے ہیں، بیوروکریسی خوف کا شکار ہے کہ حکومت ایک سال میں صرف پنجاب میں چار آئی جی اپنی اَنا کی خاطر تبدیل کرچکی ہے۔ البتہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر حکومت نے جرأت مندانہ مؤقف اختیار کیا ہے۔ بھارتی سفیر کو واپس بھیجنے کے علاوہ سمجھوتا ایکسپریس بند کردی ہے، جس پر بھارتی پریشانی بھی سامنے آئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت آئندہ برسوں میں مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر کتنا اُٹھاتی ہے، اس کے حل کے لیے کیا سفارتی کوششیں کرتی ہے، اور ملک میں مہنگائی کے طوفان کا زور توڑنے، عام آدمی کو ریلیف دینے، دفتری نظام کو عام آدمی کے لیے آسان اور کرپشن فری بنانے کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران تو اِن میدانوں کے علاوہ معیشت، سفارت، میڈیا، سیاست، کاروبار اور دوسرے شعبوں میں بھی اس کی کارکردگی پریشان کن ہے۔