نصف صدی کے بعد سلامتی کونسل کے بند کمرے کے مشاورتی اجلاس میں مسئلہ کشمیر زیر بحث آنا ہی ایسی مثبت پیش رفت ہے جس کی توقع ہمارے وزیر خارجہ تک کو نہیں تھی، جس کا وہ اظہار کر چکے ہیں۔ اسے اب ہمیں حکمت و دانائی سے آگے بڑھانا ہوگا۔ حکومت ہو یا حزبِ اختلاف، دونوں کو اسے داخلی سیاست سے بالاتر ہوکر آگے بڑھانا ہوگا، تبھی یہ ممکن ہوگا کہ ہم دنیا کی توجہ عالمی سطح پر مظلوم کشمیریوں کی تحریک مزاحمت پر مرکوز کرا پائیں۔ وطن کو درپیش بھارتی جارحیت کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے حو الے سے پاک فوج کے سالار نے آخری گولی، آخری سپاہی تک لڑنے کا اعلان کرکے دشمن کو دوٹوک پیغام دے دیا ہے، اسی طرح کا پیغام وزیراعظم عمران خان اور حزب اختلاف کو مشترکہ طور پر مظلوم کشمیریوں کی ہر حال میں پشتی بانی کے حوالے سے دینا ضروری ہے۔ ’’مسئلہ کشمیر‘‘ پر کوئی بڑی پیش رفت اجتماعی دانش کو بروئے کار لائے بغیر ممکن نہیں ہوگی۔ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ (مسئلہ کشمیر تقسیم ہند کے منصوبے کا نامکمل ایجنڈا ہے) اس شہ رگ کی حفاظت ہر پاکستانی کا قومی فریضہ ہے۔ کشمیری مسلمان 88 برس سے جبر و استبداد سے نجات کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ کشمیریوں نے 1931ء میں ڈوگرہ راج سے آزادی کے لیے اپنی تحریک کا آغاز کیا تھا۔ کشمیری مسلمانوں کی بہت بھاری اکثریت نے مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے قائدِ حریت چودھری غلام عباس (مرحوم و مغفور) کی قیادت میں (آج کشمیریوں کی جنگ ِ آزادی کے سرخیل حریت رہنما سید علی گیلانی ہیں جو پیرانہ سالی اور شدید علالت کے باوجود بھارت کے جبر و استبداد کے مقابلے میں چٹان کی طرح کھڑے ہیں اور چودھری غلام عباس کے بعد بھارت کے خلاف نبرد آزما تمام کشمیری رہنمائوں کے غیر متنازع قائد ہیں) جو تاریخ ساز جدوجہد کی، اس کی مثال تاریخ میں کم کم ہی ملے گی۔ کشمیریوں نے پہلے ’’ڈوگرہ راج‘‘، بعدازاں بھارتی جبر و استبداد سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ایک لاکھ سے زائد اپنے جوانوں، بچوں اور بزرگوں کی جانوں کی قربانیاں پیش کیں اور ہزاروں مائوں، بہنوں، بیٹیوں کی عزت و آبرو کی چادر تار تار ہوتے دیکھنے کے اندوہناک سانحات کے صدمات کو جھیلا ہے۔
آج پورا مقبوضہ کشمیر جیل خانے میں تبدیل کردیا گیا ہے، جس پر فیض احمد فیضؔ کا یہ شعر حرف بہ حرف صادق آرہا ہے:
یہاںسے شہر کو دیکھو تو حلقہ در حلقہ
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر اک سمت فصیل
کشمیری مسلمانوں کو جامع مساجد میں نمازِ عید کے لیے جمع ہونے نہیں دیا گیا، اور نہ ہی سنتِ ابراہیمیؑ کی ادائیگی کے لیے قربانی کرنے دی گئی۔ اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق کشمیری مسلمانوں کی مرکزی قیادت کے علاوہ بھارتی مؤقف کے ہمنوا مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی، ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ سمیت چار ہزار سے زائد سیاسی کارکن اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے سول سوسائٹی کے ایکٹوسٹ اور جرأت مند صحافی گرفتار ہیں۔ محبوبہ مفتی نے تو برملا یہ اعلان بھی کردیا ہے کہ ان کے بڑوں نے بھارت کے مؤقف کی حمایت کرکے اور اُن سے خیر کی توقع باندھ کر غلطی کی تھی۔ دوقومی نظریے کے درست ہونے کا ان کی طرف سے اعتراف اُن لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جو آج بھی دو قومی نظریے کو غلط ثابت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ 15 دن سے زائد کرفیو میں محبوس کشمیریوں نے تنگ آکر کرفیو کی پابندیوں کو خاطرمیں نہ لاکر، سڑکوں پر آکر بھارت سے نجات حاصل کرنے کے لیے شو آف پاور کرکے دنیا کو بتادیا ہے کہ ہمیں غلامی منظور نہیں ہے۔ وہاں جو کچھ ہورہا ہے اس کی جو تھوڑی بہت خبر دنیا کو مل رہی ہے، اس کا سہرا اُن جرأت مند صحافیوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سول سوسائٹی کے مرد و خواتین کے سر جاتا ہے جنہوں نے بے پناہ مشکلات کے باوجود اپنی جانوں کو خطرات میں ڈال کر وہاں کا دورہ کیا اور جو کچھ دیکھا اس پر جامع رپورٹ مرتب کرکے دنیا کے سامنے پیش کی۔
مودی سرکار اس رپورٹ سے اتنی خائف ہوئی کہ اس نے اس رپورٹ میں شامل تصاویر تک دکھانے کی اجازت دہلی پریس کلب میں نہیں دی۔ وہاں کا دورہ کرنے والوں کی رپورٹ کے مطابق پورے مقبوضہ کشمیر میں صرف ایک مسلمان شخص ایسا ملا جس نے مودی سرکار کی طرف سے بھارتی آئین کی شق 370 کی تنسیخ کی تائید کی، اور یہ شخص بھی مودی سرکار کی جماعت کا مقامی عہدیدار تھا۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے پایۂ استقامت میں مودی سرکار کا بدترین جبر بھی کوئی لغزش پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ مظلوم کشمیری بچے تک گھروں سے باہر نکل کر پاکستانی پرچم ہاتھوں میں اٹھائے بھارت سے اپنی نفرت کا اظہار اور آزادی کے حق میں نعرے لگاکر دنیا کے ’’ضمیر‘‘ کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ دنیا کا ’’ضمیر‘‘ جاگے یا نہ جاگے، کشمیریوں کے جذبۂ حریت کو سرد کرنا مودی سرکار کے بس کی بات نہیں ہے۔ دنیا کے سامنے مودی سرکار کے روپ میں ’’انتہا پسند ہندو مذہبی جنونی برہمن سامراج‘‘ کا اصل چہرہ طشت اَز بام ہوچکا ہے۔ اگر ’’عالمی طاقت ور فیصلہ سازوں‘‘ نے اب بھی جنگی جنون میں مبتلا بھارت کی سرکار کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر میں تسلیم شدہ بنیادی حق، حق ِ خود ارادیت (رائے شماری) دینے پر مجبور نہ کیا تو اس سے صرف جنوبی ایشیا کا امن خطرے میں نہیں پڑے گا بلکہ اس کے منفی اثرات پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ اس سلسلے میں اہم اور قابلِ اطمینان بات یہ ہے کہ آج آزاد دنیا کی رائے عامہ مظلوم کشمیریوں کے حق و سچ پر مبنی مؤقف کی حمایت و تائید کررہی ہے، جس کا مظہر دنیا بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے ہیں۔ اور دنیا کے آزاد میڈیا کے مؤقر اخبارات و جرائد نے اپنے اداریوں، تبصروں اور تجزیوں کے ذریعے اس کا اظہار کردیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان سفارت کاری کے محاذ پر جامع لائحہ عمل تیار کرے، جسے داخلی سیاست کی محاذ آرائی کے زہر سے آلودہ نہیں ہونے دیا جانا چاہیے۔ ملک میں ایسے سفارت کاروں اور اہلِ قلم و دانش وروں کی کوئی کمی نہیں ہے جو جماعتی سیاست، گروہی مفادات اور ذاتی پسند و ناپسند سے بالاتر ہوکر (موجودہ حکومت کے اندازِ سیاست اور طرزِ حکمرانی سے شدید اختلاف رکھنے کے باوجود بھی) اس مشکل گھڑی میں دنیا کے سامنے پاکستان کا مؤقف مؤثر انداز میں پیش کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ ان کی خدمات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ماضی میں جب قوم پر اس طرح کی مشکل گھڑی آئی تو اُس وقت کی حکومتوں نے اپنے شدید ترین سیاسی حریفوں اور ذاتی مخالفوںکا تعاون حاصل کرنے میں ذرہ برابر تاخیر نہیں کی تھی جن سے عام حالات میں وہ بات کرنا تو درکنار، اُن نام سننا تک گوارا نہیں کرتے تھے۔ 6 ستمبر 1965ء کو بھارت نے بین الاقوامی سرحد عبور کرکے پاکستان پر حملہ کیا تو اُس وقت کے صدر
جنرل ایوب خان نے اُن سیاسی قوتوں کو ذاتی طور پر ملاقات کی دعوت دینے میں پہل کی تھی جو انہیں سرے سے جائز حکمران ہی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ جواب میں تمام سیاسی قوتوں نے بھی قومی جذبے کے ساتھ اپنی خدمات پیش کرنے میں کوئی تامل نہیں کیا تھا، اور جب تک جنگ مسلط رہی ایوب خان کے جائز و ناجائز حکمران ہونے پر کوئی سوال اٹھانے کے بجائے بھارتی جارحیت کا یک جان دو قالب کے مصداق مقابلہ کیا تھا۔
1965ء میں 17 دنوں کی جنگِ ستمبر کے دوران جنرل ایوب کی حکومت نے حزبِ اختلاف کے خلاف سرکاری ذرائع ابلاغ سے ہونے والی دشنام طرازی بند رکھی اور حزبِ اختلاف کے تمام رہنمائوں کے لیے سرکاری ذرائع ابلاغ کے دروازے کھول دیے تھے، سیاسی جماعتوں کے کارکن ریلیف کے کام میں حکومت کے شانہ بشانہ مصروف ہوگئے تھے۔ جماعت اسلامی نے ریلیف کے حوالے سے شاندار خدمات انجام دی تھی جس کا اعتراف ہر ایک نے کیا تھا۔ جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب میں کشمیر پر پاکستانی مؤقف کو وہاں کے اہلِ علم اور دانش وروں تک پہنچانے میںکلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس کا اعتراف اُس وقت ان ممالک میں متعین پاکستان کے سفیروں نے کیا جو آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔
اب بھی اس کے سوا کوئی چارہ حکومت کے پاس ہے اور نہ ہی جناب عمران خان کے مخالفوں کے پاس ہے۔
پہل وزیراعظم عمران خان کو کرنا پڑے گی۔ قومی یک جہتی کے بغیر ہم کشمیریوں کی مدد کے بجائے ان قوتوں کو مضبوط کریں گے جو پاکستان کی طرف سے انہیں مایوس کرنے کے مشن پر رہتی ہیں۔ بھارتی وزیر داخلہ کی طرف سے ملفوف الفاظ میں ایٹمی ہتھیار کے استعمال میں پہل کرنے کی دھمکی کے بعد قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت دوچند ہوگئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اب تک دنیا بھر میں ہمارے مشترکہ وفود سفارتی اور عوامی سطح پر یک جان دو قالب کے مصداق سرگرم عمل نظر آتے اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف مؤثر لابنگ کرتے، جس سے کشمیری مسلمانوں کی نسل کُشی کے منصوبوں کے آگے بندھ باندھا جاسکتا۔