لطیف جمال/ ترجمہ: اسامہ تنولی
معروف تجزیہ نگار لطیف جمال نے ہفتہ 10 اگست کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ کے ادارتی صفحے پر محولہ بالا عنوان سے تحریر کردہ اپنے کالم میں صوبہ سندھ کے موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشرتی حالات کے تناظر میں اہلِ سندھ کے مسائل و مصائب کی مؤثر منظرکشی کی ہے۔ اس تحریر کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
۔’’موجودہ سندھ ہمہ پہلو سماجی، سیاسی، معاشی اور طبقاتی مسائل میں گرفتار ایک ایسا دیس بنا ہوا ہے جو کسی نہ کسی طرح سے نت نئے مسائل اور معاملات میں الجھ کر اپنے مذہبی، سیاسی، سماجی اور معاشی و فکری وجود کی بقا کے لیے مسلسل ایک تپتے ہوئے لق ودق صحرا میں محوِ سفر ہے، جس کا اختتام اداسیوں کے اُس آنگن میں ہوتا ہے جہاں خوشیوں کی بارش کی بوندیں تو محض ایک خواب ہی ہیں۔ سندھ مسلسل ایک ایسے سیاسی سورج کی حدت کے تلے ہے، جو موسموں کی تبدیلی کا محتاج بالکل بھی نہیں ہے۔ سندھ کا سیاسی مستقبل نیم شب کے ان بااثر حلقوں کے ہاں اسیر ہے، جو اتنے چالاک ہیں کہ جن کے رات کو کیے گئے شکار کے نشانات کو صبح کے سورج کی تیز روشنی بھی ظاہر نہیں کرسکتی۔ اہلِ سندھ بیزاری اور تنفر کے باوجود بھی ایسی سیاسی پارٹیوں کی پیروی کررہے ہیں جہاں سے انہیں بہتر سماج کی تعمیر کی کوئی امید ہی دکھائی نہیں دیتی۔ بنیادی طور پر ہم جاگیردارانہ سیاسی سماج کے اندر سانس لے رہے ہیں۔ سندھ میں ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ جوں جوں تعلیمی عمل میں تیزی آئے گی، جاگیردارانہ سماج کمزور پڑ جائے گا۔ دراصل اس وقت تک یہ تھیوری یا نظریہ سندھی سماج کو تبدیل کرنے میں کامیاب ثابت نہیں ہوسکا ہے، کیوں کہ سندھی سماج کے اہم آئی کونز جنہوں نے اپنی عقل و دانش کے حوالے سے سندھ کی تاریخ کو نئی جہت عطا کی، وہ کسی اعلیٰ تعلیمی ادارے کے شاگرد نہیں رہے تھے۔ پیر حسام الدین راشدی یا پیر علی محمد راشدی سے لے کر سائیں جی ایم سید اور عبدالواحد آریسر کے نام بطور حوالہ پیش کیے جا سکتے ہیں۔ تقسیم سے پہلے یا بعد میں جو بڑے نام رہے ہیں وہ کراچی کے سندھ مدرسۃ الاسلام یا بمبئی سے اعلیٰ تعلیم کے مراحل طے کرچکے تھے، اور ان کے ہاں تعلیم کا تصور تجارت نہیں بلکہ سماج میں شعور کے نئے چراغ روشن کرنا تھے۔ شہید اللہ بخش سومرو سے لے کر حیدربخش جتوئی اور رسول بخش پلیجو تک ایسے نام تھے جو اپنے علمی اور تدریسی عمل کو سماجی اور سیاسی تبدیلی اور عوامی شعور کا ذریعہ گردانتے تھے۔ ایک عرصے تک سندھی سماج کے اندر یہ تاثر موجود تھا کہ تعلیم تجارتی مقاصد کے لیے نہیں بلکہ سماجی اور سیاسی تبدیلی کے مقاصد کے حصول کے لیے ضروری ہے۔
آج جب کہ سندھ کا سیاسی منظرنامہ مکمل تاریک ہوچکا ہے، اور تعلیم صرف اور صرف تجارتی اور معاشی مقاصد کے حصول کا ایک ذریعہ بن چکی ہے، ایسے میں جاگیردارانہ نظام کمزور بننے کے بجائے ازسرِنو انتہائی قوت کے ساتھ سامنے آیا ہے، اور اس کی صورتیں بھی اس سماج کے اندر تبدیل ہوئی ہیں۔ دہائیوں سے سندھ میں تعلیمی رجحان میں زبردست اضافہ ہوا ہے، لیکن عام افراد کا مزاج نفسیاتی دیوالیہ پن کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔ تعلیمی عمل میں جتنی تیزی آئی ہے، اتنا ہی سماج میں انفرادی اور گروہی مفادات کے حصول کے تصورات میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ وہ تعلیم یافتہ، تجارتی اور معاشی طور پر مستحکم طبقہ اپنے معاشی مقاصد کے حصول کے لیے وڈیرانہ اور بھوتارکی کلچر کو تقویت دینے اور اپنے مزاج میں خود بھوتار (جاگیردار، وڈیرہ) بننے میں کوئی کسر بھی روا نہیں رکھتا۔ ایسے موقع پرست طبقے میں گزشتہ چند عشروں سے زیادہ تیزی اور شدت آئی ہے۔ خاص طور پر پیپلزپارٹی کے دور میں سندھی سماج ایسی بدترین سوچ کا شکار ہوا ہے۔ اگر ہم گزشتہ محض ایک دہائی کا جائزہ لیں تو سندھ کے اندر دیگر تباہیوں کے ساتھ جو بڑی تباہی ساری برائیاں اپنے ساتھ لے کر آئی ہے، ان میں بڑی برائی یہ بھی ہے کہ سندھ کے فہم اور دانش کی بڑی کھیپ بھوتاروں کی اوطاقوں کی زرخرید غلام بن چکی ہے جو سندھی سماج اور بھوتارانہ نظام کو مزید مضبوط اور طاقتور بنانے کے براہِ راست ذمے دار ہیں، جس کے نتیجے میں عام فرد بھوتارکی نظام کی طاقت اور قوت سے سہم سا گیا ہے، اور ایک ایسے نفسیاتی خوف میں مبتلا ہوچکا ہے کہ اب اس کے پاس بھوتاروں کے انتخاب کے سوا کوئی آپشن ہی باقی نہیں رہا ہے۔ وہ بھوتار جو سیاست کو کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے اِس وقت مہا کاریگر بن چکے ہیں، اور جو ایسی سیاسی صنعت کو چلانے کے مکمل طو پر ماہر ہوچکے ہیں۔ ایسی حالت میں سندھی سماج سیاسی زوال کا شکار ہوچکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گزشتہ لگ بھگ ایک دہائی سے سندھ کے اندر سیاسی مافیائوں نے سندھ کے مجموعی سیاسی کلچر کی ہیئت ہی تبدیل کرکے رکھ دی ہے، تاہم پنجاب اس کلچر سے تاحال ایک حد تک آزاد ہے۔ اس کے اہم اسباب خود وفاقی حکومتوں کی سندھ سے اپنائی گئی وہ روش بھی ہے، جنہوں نے یہ طے کرلیا ہے کہ اگر وفاقی طاقت کی سونے کی چڑیا ہاتھ لگ سکتی ہے تو وہ صرف اہلِ پنجاب کے ہاتھ میں ہی ہے۔ باقی صوبے بدترین صورت حال میں رہ رہے ہیں تو اس سے ان کا واسطہ ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز لیگ نے اپنے سارے عرصۂ اقتدار میں پنجاب کے سوا دیگر تمام صوبوں کے عوام کو یکسر نظرانداز کردیا تھا، اور یہی روش موجودہ ’’تبدیلی سرکار‘‘ کی بھی ہے، جو سارے سندھ میں ترقیاتی طوفان لانا تو دور کی بات، اگر وہ پرویزمشرف والا ماڈل ہی متعارف کروا دیتی تب بھی وفاقی سرکار سے کسی اچھائی کی امید قائم کی جاسکتی تھی۔
وفاقی حکومتیں چھوٹے صوبوں کو نظرانداز کیوں کرتی ہیں؟
اس وقت تک وفاقی حکومتوں کے پسِ پردہ خود طاقتور حلقوں نے بھی یہ کبھی نہیں چاہا کہ فیڈریشن کا حصہ ہونے کے ناتے صوبوں کے اندر کوئی سیاسی اصلاحات آسکیں۔ انہوں نے کبھی بھی یہ نہیں چاہا ہے کہ وہ مخلوق جو بھوتاروں کے جبر تلے دبی ہوئی ہے اُسے بھوتارکی کلچر سے کسی نوع کی آزادی بھی میسر آسکے۔ بلکہ ان طاقتوں نے تو خود بھوتارکی کلچر کو سندھ کے اندر بڑھاوا دینے میں اپنی طرف سے کوئی کمی باقی رہنے نہیں دی۔ کرسٹینا لیمب اپنی کتاب “Waiting For Allah” میں سندھ کی بھوتارکی سیاست اور 1980ء کی دہائی میں ابھرنے والے ڈاکو کلچر (فیکٹر) کو سندھی سماج کی کسی مجبوری کا ردعمل نہیں بلکہ اپنے ہاتھوں سے کھڑا کیا گیا شاخسانہ (معاملہ) قرار دیتی ہیں، جس کا تمام تر کنٹرول سندھ کے بھوتاروں کے پاس تھا۔ جب سندھ کے بھوتاروں کو حکم ملا کہ ان طاقتور حلقوں کے کہنے پر ابھارا گیا ڈاکو کلچر اب ختم کرایا جائے تو انہوں نے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس کا سندھ سے صفایا کروا دیا۔ اس طرح سے مقتدر قوتوں نے کبھی بھی سندھی سماج کی بہتر شکل اور صورت کو دیکھنا گوارا نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومتیں یہ طے کرچکی ہیں کہ سندھ کے معاملات میں ہمیں کسی نوع کی کوئی بھی مداخلت نہیں کرنی۔ سندھ میں ترقی کا کوئی ماڈل متعارف ہوتا ہے یا نہیں… اس میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہے، اور وہ شعوری طور پر اس سے لاتعلق بنی رہی ہیں، اس حد تک کہ جب وفاقی محکموں کی کارکردگی کا سوال آئے تب بھی ان کی یہ لاتعلقی نظر آتی ہے۔ وفاقی حکومتوں نے آج تک صوبے کے اندر کام کرنے والے وفاقی کھاتوں (محکموں) کے لیے کوئی مضبوط مانیٹرنگ میکنزم تشکیل نہیں دیا ہے، جس کے ذریعے سندھ میں کام کرنے والے وفاقی اداروں کی شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے۔ اور وفاقی سرکار نے سندھ میں شعوری طور پر یہ کبھی نہیں چاہا ہے کہ یہاں پر کسی بہتر حکمرانی کا تصور قائم ہوسکے۔ معاملات سیاسی مفادات اور سیٹوں کی اکثریت کے ہیں۔ پنجاب اکثریتی آبادی کے حساب سے زیادہ قومی اور صوبائی نشستیں رکھتا ہے تو وفاق میں حکومت کی خواہش رکھنے والی پارٹیاں بھی اپنی ترجیح اول پنجاب کو بنا لیتی ہیں، جس کی وجہ سے پنجاب کو مرکزی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ بڑی سیاسی جماعتیں پنجاب سے اکثریت کے ساتھ جیتنے کے بعد مطلوبہ سیٹوں کو دیگر صوبوں سے پورا کرتی رہی ہیں۔ 2008ء کے الیکشن تو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی قربانی کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کے حق میں گئے، لیکن جب پانچ برس کی بدترین کارکردگی کے نتیجے میں سندھ کے بیشتر تجزیہ نگار پیپلزپارٹی کو ناکام پارٹی تصور کرتے ہوئے یہ تجزیہ کررہے تھے کہ اب پیپلزپارٹی کا وجود سندھ سے بھی مکمل طور پر ختم ہوجائے گا، تب اس خوش فہمی میں مبتلا میاں نوازشریف 2013ء کے الیکشن کی تیاری کے لیے سندھ سے پیپلزپارٹی کا کلی طور پر بوریا بستر گول کرنے کی خاطر سندھ کے کچھ قوم پرست سیاست دانوں اور دیگر جاگیرداروں اور وڈیروں سے ملاقاتیں کرنے میں مصروف تھے، اور ان میں سے بعض سے تو انہوں نے ایسے وعدے وعید بھی کیے کہ انہوں نے اپنی پارٹیاں مسلم لیگ نواز میں ضم بھی کرڈالیں، لیکن جب نتائج سامنے آئے تو وہ نتائج سندھ کے سیاسی منظرنامے میں حد درجہ مایوس کردینے والے تھے، اور پھر مسلم لیگ نواز کے رہنمائوں نے بھی سندھ کے بھوتاروں کو بے حد مایوس کیا، اور بالآخر سندھ کے بھوتاروں کو اپنی سیاسی کشتیاں تبدیل کرنی پڑگئیں۔ مسلم لیگ نواز نے اس سارے عرصۂ اقتدار میں سندھ کے اندر کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں کی۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیپلزپارٹی نے سندھ کے اداروں کے اندر شفافیت کی جو پامالی کی، اس کا ذکر اب اِس موقع پر کارِ عبث ہے (کیوں کہ اس بارے میں سب بہ خوبی جانتے ہیں، مترجم)۔ دوسری اہم کوشش پاکستان تحریک انصاف نے 2018ء کے انتخاب سے پہلے کی۔ اِس مرتبہ بھی سندھ کے زیادہ تر تجزیہ نگار غلط ثابت ہوئے، اور سندھ کے اندر پیپلزپارٹی بڑی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوکر سامنے آئی، یہ الگ بات ہے کہ پنجاب سے اس کا مکمل طور پر خاتمہ بالخیر ہوگیا۔ لیکن اِس بار سندھ میں نئی ابھرنے والی سیاسی قیادت کے سوا تبدیلیٔ سرکار کے پیچھے کوئی بھی نہیں تھا۔ بھوتار تو پہلے ہی مسلم لیگ نواز کے ڈسے ہوئے تھے اور وہ کپتان کی کشتی میں سوار ہونے کا مطلب خود کو سیاسی طور پر غرقِ آب ہونے کے برابر سمجھ رہے تھے۔ انہوں نے پی پی پی کے ساتھ رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ اگر مسلم لیگ نواز سندھی سماج سے مکمل طور پر لاتعلقی کا مظاہرہ نہ کرتی تو گزشتہ الیکشن کے نتائج کچھ اور ہی ہوتے، اور مسلم لیگ نواز سندھ کے اندر سے سندھی عوام کو نئی قیادت فراہم کرنے کے لیے محنت کرتی تو لامحالہ اس کے مثبت نتائج ہی برآمد ہوتے، اور آج وہی غلطی پی ٹی آئی سرکار بھی دہرانے میں مصروف ہے۔ سندھ کے اندر پی ٹی آئی اپنی نشستیں نہ ہونے کی وجہ سے سندھ کو بھوتاروں اور وڈیروں کے حوالے کرچکی ہے۔ اس وقت ملکی معاملات دیگر بین الاقوامی معاملات سے وابستہ ہیں۔ پی پی، سرکار کو منانے کے لیے وہ پتے کھیل رہی ہے جن کے توسط سے بلاول بھٹو اور زرداری کے بیانات باقی سیاست دانوں کے مؤقف سے مختلف ہوں۔ اور سب نے دیکھا کہ ان کا مؤقف براہِ راست اس طرح کا تھا جو طاقتور حلقوں کے لیے ایک طرح سے یہ پیغام بھی تھا کہ وہ پی پی کے ساتھ اب مفاہمت کا راستہ اختیار کریں۔ لیکن جب طاقتور حلقوں نے سمجھا کہ زرداری اس اہم قومی معاملے پر ملک کے لیے کارگر ثابت ہوسکتے ہیں تو پھر وہ کوئی بھی راستہ اپنا سکتے ہیں، جو بہ ظاہر تو ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن اگر پی ٹی آئی سرکار نے سندھ سے اسی طرح لاتعلقی کا وتیرہ اختیار کیے رکھا تو مستقبل کے الیکشن میں بھوتار تو پہلے ہی سندھ کے متھے لگے ہوئے ہیں (دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔ مترجم) اور یہ بھوتار اسی طرح وبالِ جان بنے رہیں گے، وہ بھوتار جو آکسفورڈ سے پڑھ کر آئیں یا ہارورڈ یونیورسٹی سے، لیکن سندھ کے عوام کو اب ان سے کوئی توقع باقی نہیں رہی ہے۔ اگر وفاقی سرکار صوبوں کے عوام کو برابر کی بنیاد پر اہمیت نہیں دے گی تو عوامی مزاحمت کے راستے میں رکاوٹ ڈالنا کسی بھی سیاسی پارٹی کے بس کی بات نہیں ہوگی۔‘‘