کتابِ دل

کتاب : کتابِ دل
شاعر : ڈاکٹر احمرؔ رفاعی
صفحات : 268 قیمت:400 روپے
ملنے کا پتا : انجمن سائبانِ ادب
فلیٹ نمبرH-2۔ بارہ دری اپارٹمنٹس
بلاک 13/D گلشن اقبال 75300
فون : 021-32992344
محبی نور احمد میرٹھی مرحوم کے توسط سے ڈاکٹر احمر رفاعی سے کئی ملاقاتیں رہی ہیں۔ ان کے ایک نیازمند محمد توفیق انور وارثی سے گاہِ بگاہ خیریت ملتی رہتی ہے۔ دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے شریف النفس، دردمند دل کے مالک ڈاکٹر صاحب جگر مراد آبادی پر تحقیقی مقالے کی وجہ سے جگریات کے ماہر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ عمدہ نثرنگار ہونے کے ساتھ ایک خوش فکر اور پختہ کار شاعر بھی ہیں۔ اس سے قبل ’’طلوعِ اشک‘‘ کے نام سے آپ کا شعری مجموعہ اربابِ ادب میں پذیرائی حاصل کرچکا ہے۔ حضرتِ رئیس امروہوی نے لکھا: ’’طلوعِ اشک 73 غزلوں اور چند قطعات پر مشتمل ہے۔ انہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ وہ جوش اور جگر سے متاثر ہیں، ان کے ہاں جگر کا اثر گہرا ہے (اردو غزلوں کے ساتھ) انہوں نے ہندی لہجے میں بھی دلکش غزلیں کہی ہیں، ان کے کلام میں صفائی، ہمواری، روانی اور سادگی آمیز دل نشینی پائی جاتی ہے۔ اس عہد کی تجریدی غزلوں کے مطالعے کے بعد اس مجموعہ کو پڑھ کر جی خوش ہوتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر غلام مصطفی خاں رقم طراز ہیں: ’’عزیز موصوف ابھی اسکول ہی میں زیر تعلیم تھے کہ انہیں شعر و شاعری سے لگائو پیدا ہوا۔ حضرتِ سیماب اکبر آبادی کے مشہور شاگرد جناب انور کی خدمت میں رہ کر اس ذوق کو چار چاند لگ گئے۔ پھر غالبؔ، جوشؔ، اصغرؔ اور جگرؔ وغیرہ کے کلام سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ پاکستان آکر حضرتِ سیماب اکبر آبادی سے ان کی زندگی کے آخری ایام میں کسی قدر استفادہ کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ حضرتِ جگرؔ ہی نے ان کے قلب و جگر کو متاثر کیا ہے، ان سے اور ان کے شاگردوں سے براہِ راست تعلق کی وجہ سے جناب احمرؔ کے کلام میں ایسی پختگی اور شستگی پیدا ہوئی کہ بعض مقامات پر بالکل اصغرؔ اور جگرؔ کا پرتو نظر آتا ہے‘‘۔

یہ بھی تو نہیں ہوش، کرم کیا ہے ستم کیا
کیا سادگیِ حسنِ گماں لے کے چلے ہیں
……٭٭٭……
اللہ رے آشفتگیِ شوق کا عالم
کرتے ہیں وہ پرسش تو گزرتا ہے گماں اور

جلیل قدوائی لکھتے ہیں: ’’احمر کے ہاں ہندی پوربی کے علاوہ جہاں جہاں راجستھانی استعمال ہوئی ہے جو شاید اردو میں اب تک کسی نے استعمال نہیں کی ہوگی، ان کی شاعری کا رنگ اور بھی چوکھا ہوگیا ہے۔ اور کیوں نہ ہو، وہ پاکستانی ہونے سے پہلے اسی نواح کے باسی جو تھے‘‘۔

کیسے کیسے جھوم رہے ہیں سرو و صنوبر دیکھو تو
موسمِ گل کی دھوم ہے کیا کیا باغ میں چل کر دیکھو تو

حمایت علی شاعر (مرحوم) کہتے ہیں: ’’احمر رفاعی غزل کی اس روایت کے شاعر ہیں جو حضرتِ جگرؔ تک آتے آتے اپنا ایک سفر ختم کرتی ہے، بعدازاں اس روایت کو آگے بڑھانے میں جن اہم غزل گو شعرا نے حصہ لیا ان میں فضل احمد کریم فضلیؔ کے علاوہ قابل اجمیری اور احمرؔ رفاعی کا نام بھی لیا جاسکتا ہے۔ احمر رفاعی کی غزل کلاسیکی غزل کے اسالیب سے متاثر ہوکر اپنی انفرادیت متعین کرنے میں کوشاں نظر آتی ہے۔

اس کی نظر سے بچ کے اگر ہم دور گئے تو حاصل کیا
پلکوں پلکوں دھیرے دھیرے سپنوں میں آجائے تو

وہ اپنے سینے میں ایک دلِ بیدار رکھتے ہیں اور اس دل ِبیدار نے انہیں جو شعور عطا کیا ہے وہ ان کی شاعری میں جگہ جگہ نمایاں ہے:

ہم سے پوچھو شعورِ غم احمرؔ
ہم نے دیکھے ہیں جاگتے دل بھی‘‘

صفیہ آصف کہتی ہیں: ’’ڈاکٹر صاحب نے اردو ادب میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ شاعری میں تخیل کی ندرت و نزاکت کے ساتھ ساتھ نفسیات، محبت کے باب میں ان کی گہری واقفیت اور وجدانی گرفت لائقِ داد ہے۔ ان کا یہ مجموعۂ کلام اردو شعر و ادب کی دنیا میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔‘‘ شاعرِ حمد و نعت طاہر سلطانی نے آپ کی ایک حمد جو ہندی اور پوربی زبان میں ہے، کی جانب توجہ دلائی ہے جو آپ کے مخصوص لب و لہجے کی عکاس ہے:

سارا جگ لہلوٹ ہے جس پر اور سبھی بلہارے بھی
نام سبھی ہیں میٹھے وا کے اور ہیں پیارے بھی
گوشہ گوشہ بزمِ جہاں کا نور سے جس کے روشن ہے
سورج کے زرکار دریچے، چندا کے چوبارے بھی
احمرؔ اس کی حمد و ثنا کا کس کو ہے مقدور یہاں
جس کے گنوں کی جھور نہ پاویں عرشِ بریں کے تارے بھی

اسی رنگ میں احمرؔ رفاعی کی نعتِ مبارکہ بھی نہایت دل پذیر ہے:۔
کعبے سے اُٹھی اِٹھلا کے گھٹا اور مانگ سجی من بگین کی
ہے روح فزا کیا خوب ہوا صحرائے عرب کے دامن کی
ہے گنبدِ خضرا من میں بسا، آنکھوں میں مدینہ جلوہ نما
اپنا تو فقط اک گھر ہے وہی، اب لَوہے لگی گھر جاون کی‘‘۔
’’کتابِ دل‘‘ میں اپنا احوال یوں سناتے ہیں:
۔’’میرا پہلا مجموعہ کلام ’’طلوعِ اشک‘‘ کے عنوان سے 1983ء میں شائع ہوا جو بیشتر میری غزلیات پر مشتمل ہے۔ منظومات اور دوسری اصنافِ سخن اس میں شامل نہیں کی گئی ہیں۔ میرا کچھ مزاحیہ کلام بھی ہے۔ مختار صاحب نے مشورہ دیا کہ اس کو علیحدہ طور پر کتابی یا کتابچے کی شکل میں شائع کرایا جائے، اگر اس سنجیدہ مجموعے میں شامل کیا گیا تو پورے کلام کا مجموعی تاثر مجروح ہوجائے گا۔

تابِ دیدار رُخِ یار کہاں تھی احمرؔ
ہم نے اپنے ہی فقط ذوقِ نظر کو دیکھا‘‘

۔268 صفحات پر محیط ’’کتابِ دل‘‘ انہوں نے اپنی شریکِ حیات مرحومہ وحیدہ بیگم کے نام منسوب کی ہے۔ اپنے رفیق الحاج سید المختار کو بھی ہدیۂ سپاس پیش کیا ہے۔ ’’شمیم جاں فزا‘‘ کے عنوان سے 37 اردو غزلیات اور ’’پریم رس‘‘ میں ایک نعت اور 11 ہندی غزلیات ہیں۔ ’’کیفِ برشگال‘‘ میں ایک نعت اور10 رومانی نظمیں، ’’تلخیِ کام و دہن‘‘ میں مناجات کے علاوہ 14 موضوعاتی نظمیں، اس کے علاوہ فرمائشی نظمیں، قطعات و رباعیات، سہرے، رخصتی و دیگر تخلیقات ’’کتابِ دل‘‘ کا حصہ ہیں۔ ’’زبور‘‘ میں شامل ’’دعائے سریانی‘‘ کے ترجمے نے کتاب کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔
تدوین و ترتیب میں آصف انصاری، ناظم الدین انصاری، عائشہ اقبال کی محنت نمایاں ہے۔ آفسٹ پیپر پر عمدہ طباعت، رنگین تصاویر، خوب صورت مجلّد سرورق کے ساتھ اس کی قیمت 400/= روپے مناسب ہے۔ نوآموز شعرا کے لیے بھی یہ سال کا بہترین تحفہ ہے۔

نہ جانے کون سا عالم ہے یہ محبت کا
ہمیں خیال ہے اپنا، خیالِ یار نہیں