بچوں کی تذلیل و توہین نہ کریں

نفسیاتی ماہرین نے ایک مشترکہ تحقیق میں 13 سے 15 سال عمر کے 1,400 سے زائد بچوں کا جائزہ لے کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جن بچوں کے والدین اور بڑے ان کے ساتھ اکثر توہین آمیز رویہ رکھتے ہیں، انہیں طنز کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کی تذلیل کرتے رہتے ہیں، وہ بچے گھر سے باہر کی دنیا میں انتہائی جھگڑالو بن جاتے ہیں اور بدتمیزی، بدکلامی، گالم گلوچ اور مار پیٹ تک ان کے روزمرہ معمولات کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ دوسروں کے ساتھ مارپیٹ کرتے ہیں تو خود بھی دوسروں سے مار کھاتے ہیں۔ یہی چیز آگے چل کر ان کی شخصیت میں عدم اعتدال کو جنم دیتی ہے، اور بڑے ہونے پر وہ تشدد پسند اور مجرمانہ ذہنیت کے حامل بھی بن سکتے ہیں۔
13 سے 19 سال کی عمر کو ’’نوبلوغت‘‘ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس دوران ایک بچہ اپنے بچپن کو خیرباد کہہ کر جوانی میں قدم رکھ رہا ہوتا ہے۔ ذہنی و جسمانی نشوونما کے اعتبار سے یہ عمر کسی بچے کے لیے خاص طور پر اہم ترین ہوتی ہے، کیونکہ اس عمر میں جو اثرات بھی شخصیت پر مرتب ہوتے ہیں، وہ بالعموم مرتے دم تک کسی نہ کسی صورت برقرار رہتے ہیں۔ اگر بچوں کو ڈسپلن سکھانے کے لیے ان پر اس طرح سے سختی کی جائے کہ انہیں اپنے بڑوں سے کوئی خوف نہ ہو اور نہ ہی وہ اپنی توہین محسوس کریں، تو اس عمل کے اثرات مثبت نکلتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر بچوں کو گالیاں دے کر، ان پر طنز کرکے، ان کی توہین کرکے یا انہیں طعنے دے کر ’’تمیز‘‘ سکھائی جائے تو اس کے اثرات الٹ نکلتے ہیں جو بچوں کے اندر غصہ پیدا کرتے ہیں، جس کا اظہار وہ اپنے گھر کے بڑوں کے سامنے نہیں کرسکتے۔ اسی لیے گھر میں تذلیل و توہین کا نشانہ بننے والے بچے اپنی ساری بھڑاس باہر نکالتے ہیں جو اکثر اوقات اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ گالم گلوچ اور مار پیٹ کی صورت میں ہوتی ہے۔ یہی چیزآگے چل کر انہیں جرائم پیشہ اور تشدد پسند مزاج کا حامل بنا دیتی ہیں۔
اس تحقیق کی روشنی میں ماہرین کا مشورہ بھی بہت آسان اور قابلِ فہم ہے: بچے کی تربیت کیجیے لیکن اس کی عزتِ نفس مجروح نہ کیجیے، ورنہ آپ بچے کی شخصیت بنانے کے بجائے اسے تباہ کردیں گے۔

فیس بک کا اعتراف

کاروباری و تجارتی خبر رساں ادارے ’’بلومبرگ‘‘ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ فیس بُک نے اپنے میسنجر پر صارفین کے درمیان ہونے والی گفتگو نہ صرف ریکارڈ کی ہے بلکہ اسے دوسرے اداروں کو فراہم کرکے تحریر میں تبدیل بھی کروایا ہے۔ بلومبرگ نے یہ انکشاف اُن اداروں سے رابطہ کرنے کے بعد کیا ہے جو فیس بُک کو ٹرانسکرپشن سروس (گفتگو کو تحریر میں بدلنے کی خدمات) فراہم کرتے رہے ہیں۔ فیس بُک کے ذمہ داران نے بھی اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ وہ میسنجر پر صارفین کے درمیان ہونے والی بات چیت ریکارڈ کرتے رہے ہیں، لیکن اس کا مقصد ان کے خودکار ’’ٹیکسٹ ٹو اسپیچ سسٹم‘‘ (آواز کو متن میں بدلنے والے نظام) کی کارکردگی جانچنا اور اسے بہتر بنانا رہا ہے۔ البتہ، یہ خفیہ پروجیکٹ ایک ہفتہ پہلے ختم کردیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ فیس بُک ماضی میں بھی میسنجر پر صارفین کے مابین تحریری تبادلہ خیال کو جمع کرکے مختلف سرکاری اداروں کو فراہم کرتا رہا ہے، لیکن اس کے جواز کے لیے وہ دہشت گردی کے خلاف امریکی قوانین کا سہارا لیتا رہا ہے۔ صارفین کی آواز ریکارڈ کرنا اور اسے ٹرانسکرپشن کے لیے کسی تیسرے ادارے کے سپرد کرنا، صارف کے ساتھ فیس بُک کے اُس معاہدے میں شامل نہیں جسے بالعموم ’’اینڈ یوزر لائسنس‘‘ (ایولا) کہا جاتا ہے۔ صارفین کو اعتماد میں لیے بغیر ان کی گفتگو ریکارڈ کرنے اور اسے تحریر میں تبدیل کروانے پر فیس بُک کو ایک اور مقدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جبکہ اس خبر کے نتیجے میں فیس بُک پر صارفین کے اعتماد میں بھی کمی آسکتی ہے۔

واٹس ایپ کا نیا فیچر

واٹس ایپ میں صارفین کے پیغامات کو محفوظ رکھنے کے لیے بہت جلد فنگر پرنٹ سنسر سے ایپ ان لاک کرنے کا فیچر متعارف کرایا جارہا ہے۔
یعنی اس فیچر کے بعد صارفین اپنی ڈیوائسز پر واٹس ایپ ایپلی کیشن فنگر پرنٹ سنسر سے اوپن کرسکیں گے، جبکہ ان کے سوا کوئی اور اسے اوپن کرکے پیغامات نہیں دیکھ سکے گا۔ یہ فیچر آئی او ایس صارفین کے لیے تو پہلے سے دستیاب ہے مگر اب بہت جلد اینڈرائیڈ ڈیوائسز کے لیے بھی متعارف کرایا جارہا ہے، اور اس وقت بیٹا ورژن میں دستیاب ہے۔ ڈبلیو اے بیٹا انفو کی رپورٹ کے مطابق فنگر پرنٹ کے بغیر واٹس ایپ اوپن نہیں ہوسکے گی، مگر لاک ایپ ہونے پر کال ریسیو یا ریجیکٹ کی جاسکے گی، جبکہ نوٹیفکیشن ٹرے سے میسجز پر رپلائی بھی کرسکیں گے، کیونکہ فنگرپرنٹ سے تصدیق صرف ایپ اوپن کرنے کے لیے ضروری ہوگی۔
واٹس ایپ کی جانب سے صارفین کو وقت کا آپشن بھی دیا جائے گا جس کے بعد ایپلی کیشن خودکار طور پر لاک ہوجائے گی، یہ بالکل فونز کے اسکرین لاک جیسا ہوگا جو کہ ایک منٹ یا 30 منٹ کا ہوگا۔ آئی فون میں تو واٹس ایپ میں فنگرپرنٹ کے ساتھ ساتھ فیس آئی ڈی سپورٹ بھی دی گئی ہے، یعنی لوگ چہرے سے بھی ایپلی کیشن کو اوپن کرسکتے ہیں، تاہم اینڈرائیڈ میں یہ سپورٹ دیئے جانے کا امکان نہیں۔
یہ فیچر فنگرپرنٹ سنسر سے لیس ممکنہ طور پر ایسے اسمارٹ فونز میں استعمال ہوسکے گا جن میں اینڈرائیڈ 6 مارش میلو یا اس کے بعد کے ورژن ہوں گے۔ تاہم یہ فیچر کب تک دستیاب ہوگا، فی الحال اس پر کچھ کہنا مشکل ہے۔

دنیا بھر میں خسرہ کی وبا بڑھنے کا انتباہ

عالمی ادارۂ صحت(WHO) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال کے پہلے 7 ماہ میں دنیا بھر میں خسرہ کے واقعات میں گزشتہ سال کے اِسی دورانیے کے مقابلے میں تقریباً 3 گنا اضافہ ہوا ہے۔ ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جنوری اور جولائی کے درمیان 182 ممالک میں 3 لاکھ 64 ہزار 800 سے زائد افراد کو یہ بیماری لگی۔ یہ اضافہ اُن ممالک میں نمایاں ہے جہاں بہت سے لوگوں کو کبھی ویکسین نہیں دی گئی۔ جغرافیائی لحاظ سے افریقہ میں متاثرہ لوگوں کی تعداد میں 900فیصد اضافہ ہوا، جس کی زیادہ تر وجہ اِس خطے میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام کی بدحالی ہے۔