بیداریٔ عرب عرب قومی تحریک کی داستان

ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
کتاب : بیداریٔ عرب
عرب قومی تحریک کی داستان
مؤلف : جارج اینٹونیس
مترجم : ریحان عمر
قیمت : 1000 روپے
ملنے کا پتا : A-15، گلشن امین ٹاور، گلستان جوہر، کراچی
رابطہ نمبر : 0321-3899909
برقی پتا : nigarszaheer@yahoo.com
خلافتِ عثمانیہ کا سقوط بیسویں صدی عیسوی میں عالمِ اسلام میں رونما ہونے والا سب سے بڑا حادثہ تھا۔ لیکن ’’وقت کرتا ہے پرورش برسوں… حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘‘ کے مصداق عربوں کی بغاوت اچانک وقوع پذیر ہونے والا کوئی واقعہ نہ تھا۔ خلافتِ عثمانیہ عالم ِ اسلام کے اتحاد کی ایک علامت تھی، استعمار کے تحت رہنے والے بھی اسی مرکز کی طرف دیکھتے تھے۔
مصر وہ پہلا ملک تھا جس میں سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف اوّلین باغیانہ خیالات نے جنم لیا۔ انقلابِ فرانس کی عقل پرستانہ روشن خیالی کی لہر مصر بھی پہنچی۔ نپولین کے ساتھ (1798ء) فری میسنری بھی بڑی تعداد میں مصر میں وارد ہوئے تھے۔ نپولین کے جانے کے بعد قاہرہ اور اسکندریہ میں فری میسن لاجز قائم کی گئیں۔ آزادی، بھائی چارہ اور مساوات جیسے افکار ان سوسائٹیوں کے نعرے تھے۔ میسونی افکار کے نتیجے میں مصر میں قحبہ گری، بے پردگی اور دیگر غیر اسلامی افکار کی ترویج کی کوششیں کی گئیں۔
یورپی طاقتوں کے ساتھ ساتھ مغربی علماء اور مستشرقین بھی اپنی تصانیف کے ذریعے قوم پرستی و ترقی کے غبارے میں ہوا بھرتے رہتے تھے، اور عربوں کو ترکوں کے خلاف یہ باور کراتے رہتے تھے کہ وہ ہر لحاظ سے ان پر فوقیت رکھتے ہیں، بلکہ اپنے شاندار ماضی کی وجہ سے ان کا حق ہے کہ وہ آزادی اور خودمختاری حاصل کریں۔ اس سلسلے میں یورپی سیاح اپنی معلومات، آثارِ قدیمہ کے ماہرین اپنے اکتشافات اور عربی و اسلامی فنون کے علماء اپنی علمی موشگافیوں سے عرب قوم کی ہمدردی کے بہانے ترکوں کے خلاف انہیں اکسانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے۔
1916ء میں عرب بغاوت سے ساٹھ برس قبل عثمانی سلطنت سے علیحدگی اور ایک عرب خلافت کی حمایت میں انگریز عالم، سیاح اور شاعر ولفریڈ اسکیون بلنٹ (Wilfrid Scawan Blunt) نے عرب آزادی اور خودمختاری کے کاز کو اپنایا۔ اسی طرح دیگر غیر ملکی علماء اور سیاح ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عربیت کے پرچارک بن گئے۔ عرب قومی پروگرام جنگِ عظیم اوّل سے ایک دہائی قبل ہی تیار ہوچکا تھا۔ جنگِ عظیم اوّل نے بس ان خوابوں کو شرمندۂ تعبیر ہونے میں مدد بہم پہنچائی، اور دورانِ جنگ عرب قوم پرستی کی تحریک کے نتیجے میں ہونے والی بغاوت نے مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کی واحد علامت خلافتِ عثمانیہ کو فیصلہ کن شکست سے دوچار کیا۔ وہ کیا اسباب تھے کہ عربوں نے امت کے مرکزی دھارے سے الگ ہوکر قوم پرستی (Nationalism) کو ترجیح دی؟ قوم پرستی کے بیج کب اور کیسے بوئے گئے؟ کون کون سے داخلی اور خارجی عناصر اس پر کب کب اثرانداز ہوئے؟ عثمانیوں کی بدانتظامی اور عربوں کے باغیانہ رویّے کا کیا تناسب تھا؟ خفیہ معاہدے کن طاقتوں نے اور کن مقاصد و مفادات کے تحت کیے؟ پیش نظر کتاب ’’بیداریٔ عرب… عرب قومی تحریک کی داستان ‘‘ انہی سوالات کا جواب فراہم کرتی ہے۔
’’بیداریٔ عرب… عرب قومی تحریک کی داستان‘‘ لبنانی، مصری مصنف اور سیاسی تجزیہ کار جارج حبیب اینٹونیس(George Habib Antonius) (1891ء۔ 1942ء) کی مشہور کتاب The Arab Awakening کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ کتاب جنگِ عظیم اوّل میں عربوں کی عثمانیوں کے خلاف بغاوت کے پس منظر میں لکھی گئی۔ اس حوالے سے مغرب میں کئی مطالعات سامنے آئے، انہی میں ایک قابلِ قدر مطالعہ اس کتاب کی صورت میں سامنے آیا۔ عربوں میں قوم پرستی کی تحریک کے آغاز و ارتقاء پر اسے پہلا انتہائی مستند، معیاری اور علمی کام گردانا جاتا ہے۔
جارج اینٹونیس عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھتا تھا، اس نے جنگِ عظیم اوّل کے دوران مصر میں موجود برطانوی فوج کے لیے عسکری نامہ نگار کے طور پر کام کیا۔ جنگ کے بعد جب فلسطین پر برطانیہ کا انتداب قائم ہوگیا تو وہ برطانوی انتدابی انتظامیہ کے شعبۂ تعلیم میں سول سرونٹ کے طور پرکام کرنے لگا۔ 1925ء تا1927ء برطانوی فوج کے بریگیڈیئر جنرل سر گلبرٹ کلیٹن جو مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں خدمات انجام دے چکے تھے، کے ساتھ بطور مشیر اور مترجم وابستہ رہا۔ اینٹونیس اُس گفتگو میں بھی شریک تھا جو نوزائیدہ ملک سعودی عرب کی سرحدوں کے عراق، شرقِ اردن اور یمن سے معاملات طے کرنے کے لیے منعقد ہوئی تھی۔ بعد ازاں وہ انسٹی ٹیوٹ آف کرنٹ ورلڈ افیئرز (امریکہ) سے وابستہ ہوگیا۔
پیش نظر کتاب اینٹونیس کی سات آٹھ سال (1931ء۔1938ء) کی تحقیق کا نتیجہ ہے۔ اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت مؤلف کی علمی دیانت داری اور اس کے ماخذ ہیں، جن میں سرکاری دستاویزات تک براہِ راست رسائی، مختلف اہم ترین سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتیں بشمول شاہ عبدالعزیز ابن سعود اور شریف حسین، مؤخر الذکر کی ڈائری کو بھی مؤلف نے ماخذ کے طور پر استعمال کیا۔ نیز معاہدات کے اصلی متن تک رسائی حاصل کی۔ یہی وجہ ہے کہ اینٹونیس کی اس کتاب کو امریکہ اور برطانیہ میں عرب ازم کی بائبل اور نصابی کتاب کی حیثیت حاصل ہے۔
درجِ ذیل سولہ ابواب پر مشتمل یہ کتاب اپنے موضوع کا مکمل احاطہ کرتی ہے: (1) پس منظر، (2) غلط آغاز، (3) آغاز 1847ء۔ 1868ء ، (4) حمیدی مطلق العنانیت 1876ء۔ 1908ء ، (5) نوزائیدہ تحریک1868ء۔ 1908ء، (6)نوجوانانِ عرب اور نوجوانانِ ترک 1908ء۔ 1914ء، (7) جنگ عظیم اور مقدس جنگ (جہاد) 1914ء،( 8) لائحہ عمل 1915ء، (9) برطانیہ عظمیٰ کے قول و قرار1915ء، (10) بغاوت جون 1916ء، (11)فوری اثرات، (12) عرب جنگ میں 1916۔ 1918ء،( 13) عہد و پیمان اور جوابی عہد و پیمان، (14) ما بعد جنگ بندوبست، (15) جنگ کے بعد جزیرہ نمائے عرب، (16) عراق، شام اور فلسطین مابعد جنگ۔ آٹھ ضمیمہ جات اس کے علاوہ ہیں۔
عرب قوم پرستی کے منابع اور دورانِ جنگ عربوں سے برطانوی وعدوں کی تفصیل اور بیان پر مشتمل اس دستاویزی اہمیت کی حامل کتاب کا عربی زبان میں پہلا ترجمہ 1946ء میں یقظۃ العرب کے نام سے عمان سے شائع ہوا۔ عربی کے علاوہ بھی دیگر کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ لیکن اردو کا دامن اس سے خالی رہا۔80 سال بعد اپنے موضوع پر اس اہم ترین کتاب کا اردو ترجمہ کروانا اور اس کا شائع کرنا یقیناً ادارہ قرطاس کی ایک بڑی علمی خدمت ہے۔ زیرنظرترجمے میں ضمیمہ جات، نقشوں اور اشاریے کی موجودگی اسے ایک اعلیٰ علمی و تحقیقی کاوش بناتی ہے۔ محنت و دیانت سے کیے جانے والے اس اعلیٰ و معیاری ترجمے اور اس کی اشاعت پر فاضل مترجم و ناشر ہر دو لائقِ صد تحسین و قابل ِ مبارک باد ہیں۔
کتاب کے مترجم نوجوان دانشور ریحان عمر ہیں جو درس و تدریس سے وابستہ اور ادارۂ قرطاس سے بحیثیت ریسرچ ایسوسی ایٹ منسلک ہیں۔ وہ اس سے قبل بھی چار علمی کتابوں کو اردو کے قالب میں ڈھال چکے ہیں، جن میں گولڈ زیہر کی دو کتابیں ’’الظاہریہ‘‘ اور’’اسلامی عقائد و قانون کا تاریخی ارتقاء‘‘، اور جے۔ ولہائوزن کی کتاب ’’عرب سلطنت اور اس کا سقوط‘‘ شامل ہیں۔
فاضل مترجم نے اپنے فکر انگیز اور سیر حاصل مقدمے میں اُن گوشوں پر بھی روشنی ڈالی ہے جو اس کتاب میں تشنہ کام رہ گئے تھے۔ فاضل مترجم کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ: ’’خلافتِ عثمانیہ کے سقوط سے لے کر عالمِ اسلام و دنیائے عرب میں جو انقلابات رونما ہوچکے ان پر زیادہ سے زیادہ مقدار میں ٹھوس مواد کو اردو میں منتقل کرنا چاہیے۔ امتِ مسلمہ کو درپیش گمبھیر صورت حال، قومیت، جدیدیت، سیکولرازم اور جمہوریت جیسے فکری، عملی، سیاسی مسائل موت و حیات کا مسئلہ بن کر امت کو لاحق ہیں۔ موجودہ مغربی، علمی و سیاسی یلغار کے آگے بند باندھنے کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم ماضی میں جھانکیں اور دیکھیں کہ ان مسائل کی جڑیں کس مضبوطی سے ماضی میں پیوست ہیں۔ ان جڑوں کا شعور حاصل کیے بنا مستقبل کی تعمیر کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونا شاید مشکل ہوگا۔‘‘