تحریکِ پاکستان : پس منظر اور اساس

اقبال اور قائداعظم نے قوم کو جس منزل کی طرف دعوت دی، اس کو آج دھندلا کرنے بلکہ بالکل مخالف سمت میں ڈالنے کی شرانگیز کوششیں ہو رہی ہیں

پروفیسر خورشید احمد
برعظیم میں ایک نہیں متعدد نسلیں آباد تھیں۔ دراوڑ، آریائی، سامی، عرب، مغل اور ان کے ارتباط سے رُونما ہونے والی بے شمار نسلیں، اس سرزمین کا انسانی سرمایہ تھیں۔ بدھ مذہب، ہندومت، جین مت، اسلام اور پھر سکھ مت، عیسائیت اپنے اپنے دور اور اپنے اپنے انداز میں کارفرما قوت بنتے رہے۔ ہندو مذہب اور سماج کی بنیاد ذات پات پر ہے۔ اس معاشرے کی بنیاد تخلیقِ انسان کے بارے میں ان کے مذہبی تصورات پر ہے، اور ذات پات کی یہ تقسیم ہی ان کی اصل تہذیبی اور مذہبی شناخت ہے۔ اسلام نے ان تصورات کو چیلنج کیا اور عقیدے اور دین کی بنیاد پر انسانوں کے اجتماع کو قائم کرکے ایک حقیقی انسانی اور عالمی سماج اور ریاست کی بنیاد رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ برعظیم کے مسلمانوں کا تعلق بھی انھی نسلوں سے تھا، جو برعظیم میں پائی جاتی ہیں، لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی شناخت نسل، رنگ، زبان، قبیلے یا طبقے پر نہیں، ایمان کی بنیاد پر ایک اُمت کی صورت اختیار کرگئی، اور یہی ان کی قومیت کی بنیاد بنی۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے تحریکِ پاکستان کی بنیاد، یعنی دو قومی نظریے کو بڑے سادہ مگر تاریخی حقائق پر مبنی انداز میں علی گڑھ کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے یوں بیان کیا کہ ’’پاکستان کی بنیاد اُس دن پڑگئی جس دن برعظیم کی سرزمین پر پہلا ہندو، مسلمان ہوا تھا‘‘۔
برعظیم میں مسلمانوں نے آٹھ نو سو سال تک حکمرانی کی، لیکن اس پورے دور میں تمام نشیب و فراز کے باوجود ان کی کوشش یہی رہی کہ اپنی شناخت پر کوئی سمجھوتا نہ کریں، دوسروں کو ان کی اپنی شناخت کے مطابق زندگی گزارنے کے پورے پورے مواقع دیں اور ان کے حقوق کا مکمل تحفظ کریں، لیکن ان کی اور اپنی شناخت کو گڈمڈ کرکے کوئی مشترکہ دین اور تہذیب نہ بنائیں۔ اس سلسلے میں جو کوششیں بھی مختلف حلقوں کی جانب سے ہوئیں وہ ناکام و نامراد ہوئیں، خواہ وہ اکبر بادشاہ کے سرکاری قوت کے استعمال کے ذریعے ہوں، یا انگریز سامراج کے ترغیب و ترہیب کے ہتھکنڈوں سے، یا انڈین نیشنل کانگریس کے سیکولر اور جمعیت العلماء ہند کے ایک دھڑے کے مذہبی حربوں سے ہوں۔
اس جدوجہد کا بڑا ہی اہم اور چشم کشا منظر برعظیم کی بیسویں صدی کی سیاسی جدوجہد میں دیکھا جاسکتا ہے۔ سیّد احمد شہید کی قیادت میں تحریک مجاہدین، دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء، سرسیّد احمد خان کی علی گڑھ تعلیمی تحریک، 1906ء میں مسلم لیگ کا قیام، تحریک ِ خلافت کا ظہور اور ہندوستان بھر میں پھیلاؤ اور پھر تحریک ِ پاکستان اپنے اپنے انداز میں مسلم شناخت کی یافت اور حفاظت کی کوششیں تھیں۔ بلاشبہ ایک مدت تک یہ کوشش ہوتی رہی کہ برعظیم کی تمام اقوام متحد ہوکر سیاسی اہداف حاصل کریں، جن میں مسلمانوں کی شناخت کی حفاظت اور ترقی کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہو۔ جداگانہ انتخابات اور تہذیب، تعلیم، زبان اور مذہبی حقوق کی حفاظت 1905ء سے لے کر 1940ء تک کی جدوجہد کے ہر مرحلے میں بحث و گفتگو کا مرکز اور محور رہے۔ جب کانگریس کے مسلم کُش اور جارحانہ کردار، اور برطانوی حکمرانوں کے دوغلے پن سے یہ واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کی قومی شناخت، ان کی اقدار اور ان کی تہذیبی روایات کی حفاظت و ترقی کسی بھی مشترک سیاسی انتظام میں ممکن نہیں، اور اس پر تاجِ برطانیہ کے ’1935ء کے قانون‘ کے نفاذ اور 1937ء کے صوبائی انتخابات کے بعد نیشنل کانگریس کی حکومتوں کے برہمنی جارحانہ اقدامات نے مہر تصدیق ثبت کردی، تو پھر علامہ محمد اقبال کے 1930ء کے خطبے کی روشنی میں مارچ 1940ء میں مسلم لیگ نے تقسیمِ ملک کی منزل کو اپنا ہدف مقرر کیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے صرف سات سال کے اندر قائداعظم کی روح پرور قیادت اور برعظیم کے مسلمانوں کی پوری یکسوئی کے ساتھ ایمان پرور اور قربانیوں سے بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں مسلمانوں کا ایک آزاد ملک وجود میں آگیا اور ہمیں اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی کے طور پر یہ نعمت 27رمضان المبارک کے دن حاصل ہوئی۔ اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
تحریکِ پاکستان کا مقصد جہاں انگریز اور ہندو سامراج دونوں سے نجات حاصل کرکے ایک آزاد اسلامی ملک کا قیام تھا، وہیں اس کا اصل ہدف پاکستان کو ایک آئینی اسلامی فلاحی ریاست کی حیثیت سے ترقی دینا تھا، تاکہ دین اور تہذیب کی بنیاد پر استوار ہونے والی قوم کو جب آزاد ملک کی نعمت میسر آجائے، تو پھر وہ اس ملک کو اپنے نظریے کی بنیاد پر ایک مثالی ریاست بناسکے۔ جو ایک طرف اپنے نظریے کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی صورت گری کرے، تو دوسری طرف دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے لیے نہ صرف تمام شہری اور انسانی حقوق کی ضمانت دے، بلکہ ان کے مذہبی اور سماجی تشخص کی حفاظت اور اس کو پروان چڑھائے جانے کے تمام مواقع بھی فراہم کرے۔
علامہ اقبال، قائداعظم اور ملتِ اسلامیہ پاک و ہند کا وژن اور تحریکِ پاکستان کی قیادت اور برعظیم کے مسلمانوں کے درمیان جو عمرانی میثاق ہوا، وہ بالکل واضح ہے۔ 14اگست 1947ء کی 72ویں سالگرہ کے موقع پر سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ اس وژن اور اس میثاق کو ذہنوں میں تازہ کیا جائے اور خصوصیت سے اپنی نئی نسلوں اور زندگی کے ہر شعبے کے ذمہ دار حضرات کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ یہ ملک لاکھوں افراد کی جانوں، ہزاروں معصوم بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں، کھربوں روپے کی مالی قربانیوں، اور لاکھوں انسانوں کی ہجرت کی قیمت پر قائم ہوا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا قیام، تحفظ اور ترقی صرف ان مقاصد سے وفاداری ہی کے ذریعے ممکن ہے، جو اس کی اساس ہیں۔ یہی وہ بات ہے جو قائداعظم نے قیامِ پاکستان کے بعد قوم سے صاف لفظوں میں کہی تھی:۔
”اسلام ہمارا بنیادی اصول اور حقیقی سہارا ہے۔ ہم ایک ہیں اور ہمیں ایک قوم کے طور پر آگے بڑھنا ہے۔ تب ہی ہم پاکستان کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔“

تحریک ِ پاکستان کا حقیقی تصور

اقبال اور قائداعظم نے قوم کو جس منزل کی طرف دعوت دی، اس کو آج دھندلا کرنے بلکہ بالکل مخالف سمت میں ڈالنے کی شرانگیز کوششیں ہو رہی ہیں۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے سے پہلے اس وژن کو بالکل دوٹوک الفاظ میں ایک بار پھر قوم، اس کے دانش وروں، پالیسی ساز اداروں، افراد، اور سب سے بڑھ کر نئی نسل اور اس کے نوجوانوں کے ذہنوں میں تازہ اور راسخ کردیا جائے۔ اس لیے کہ پاکستان کی بقا اور ترقی صرف اس وژن اور منزل کے صحیح اِدراک اور ان کو حرزِجان بنانے پر منحصر ہے۔
علامہ محمد اقبال نے اس تحریک کی فکری اور نظریاتی بنیادیں رکھیں تو قائداعظم محمدعلی جناح نے ان بنیادوں پر سیاسی اور نظریاتی تحریک برپا کی، اور اس کی قیادت اس طرح انجام دی کہ پوری قوم یکسو ہوکر ان کی تائید میں میدانِ عمل میں نکل آئی۔ ان کا اصل محرک آزادی کا حصول اور اپنی تہذیبی شناخت کی حفاظت اور ترقی تھا، اور یہ دونوں ایک ہی جدوجہد کے دو رُخ ہیں، جن کو ایک دوسرے سے کسی صورت میں بھی جدا نہیں کیا جاسکتا۔
علامہ اقبال نے The Reconstruction of Religious Thought in Islamمیں اسلام کے تصورِ توحید اور ریاست کے تعلق کو اس طرح بیان کیا ہے کہ:
”گویا بہ حیثیت ایک اصول، عملِ توحید اساس ہے حریت، مساوات اور حفظِ نوعِ انسانی کی۔ اب اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ازروئے اسلام ریاست کا مطلب ہوگا ہماری یہ کوشش کہ یہ عظیم اور مثالی اصول زمان و مکان کی دنیا میں ایک قوت بن کر ظاہر ہوں۔ وہ گویا ایک آرزو ہے ان اصولوں کو ایک مخصوص جمعیتِ بشری میں مشہود دیکھنے کی۔ لہٰذا اسلامی ریاست کو حکومتِ الٰہیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے تو انھی معنوں میں۔ ان معنوں میں نہیں کہ ہم اس کی زمامِ اقتدار کسی ایسے خلیفۃ اللہ فی الارض کے ہاتھ میں دے دیں، جو اپنی مفروضہ معصومیت کے عذر میں اپنے جور و استبداد پر ہمیشہ ایک پردہ سا ڈال رکھے۔“ (Reconstruction،ص 122۔123، ترجمہ: سید نذیر نیازی، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ،ص 238)
علامہ محمد اقبال نے 30،31دسمبر 1930ء کے کُل ہند مسلم لیگ کے اجتماع الٰہ آباد میں اپنے خطبۂ صدارت میں نظریاتی اور دینی بنیادوں پر تقسیمِ ہند کا تصور پیش کرتے ہوئے اس کی جس بنیاد پر روشنی ڈالی وہ بہت اہم ہے۔ انھوں نے اپنی بات کا آغاز ہی اس دعوے سے کیا کہ:
”آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کے لیے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا ہے، جو اس امر سے مایوس نہیں ہوگیا ہے کہ اسلام اب بھی ایک زندہ قوت ہے، جو ذہنِ انسانی کو نسل اور وطن کی قیود سے آزاد کرسکتی ہے۔ جس کا عقیدہ ہے کہ مذہب کو فرد اور ریاست دونوں کی زندگی میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور جسے یقین ہے کہ اسلام کی تقدیر خود اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ بحیثیت ایک اخلاقی نصب العین اور نظامِ سیاست کے، اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزو ترکیبی تھا، جس سے مسلمانانِ ہند کی تاریخِ حیات متاثر ہوتی ہے۔ اسلام ہی کی بدولت ان کے سینے ان جذبات اور عواطف سے معمور ہوئے، جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہے، جن سے متفرق اور منتشر اجزا بتدریج متحد ہوکر ایک متمیز و معین قوم کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ مسلمانوں کے اندر اتحاد اور ان کی نمایاں یکسانیت، ان قوانین اور روایات کی شرمندۂ احسان ہے جو تہذیب اسلامی سے وابستہ ہیں۔
اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے، جو خود اس کا پیدا کردہ ہے، الگ نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ نے ایک کو ترک کردیا تو بالآخر دوسرے کو بھی ترک کرنا لازم آئے گا۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان ایک لمحے کے لیے بھی کسی ایسے نظامِ سیاست پر غور کرنے کے لیے آمادہ ہوگا، جو کسی ایسے وطنی یا قومی اصول پر مبنی ہو، جو اسلام کے اصولِ اتحاد کے منافی ہو۔ یہ مسئلہ ہے جو آج ہندوستان کے مسلمانوں کے سامنے ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے۔ پھر اسلام کو اس امر کا موقع ملے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہوکر، جو عربی شہنشاہیت کی وجہ سے اب تک اس پر قائم ہیں، اس جمود کو توڑ ڈالے گا جو اس کے تہذیب و تمدن، شریعت و تعلیم پر صدیوں سے طاری ہے۔ اس سے نہ صرف اس کے صحیح معانی کی تجدید ہوسکے گی، بلکہ وہ زمانۂ حال کی رُوح سے بھی قریب ہوجائے گا۔“
اسی طرح قائداعظم نے صاف الفاظ میں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
”آپ نے غور کیا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبۂ محرکہ کیا تھا؟ مسلمانوں کے لیے ایک جداگانہ مملکت کی وجۂ جواز کیا تھی؟ اس کی وجہ نہ ہندوؤں کی تنگ نظری ہے، نہ انگریزوں کی چال۔۔۔ بلکہ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔
مسلمانو! ہمارا پروگرام قرآنِ پاک میں موجود ہے۔ ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآنِ پاک کو غور سے پڑھیں، اور قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کرسکتی۔“۔
قائداعظم نے پھر یہ بھی فرمایا:
۔”اُن لوگوں کو چھوڑ کر جو بالکل ہی ناواقف ہیں، ہر شخص جانتا ہے کہ قرآن مسلمانوں کا ہمہ گیر ضابطۂ حیات ہے۔ مذہبی، معاشرتی، دیوانی، معاشی، عدالتی، غرض یہ کہ ان مذہبی رسومات سے لے کر روزمرہ کے معاملات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، اجتماعی حقوق سے لے کر انفرادی حقوق تک، اخلاقیات سے لے کر جرائم تک، دنیاوی سزاؤں سے لے کر آنے والی [اُخروی] زندگی کی جزا و سزا کے تمام معاملات پر اس کی عمل داری ہے۔ اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت کی ہے کہ ہر شخص اپنے پاس قرآن رکھے اور خود رہنمائی حاصل کرے۔ اس لیے کہ اسلام صرف روحانی احکام اور تعلیمات تک ہی محدود نہیں ہے، یہ ایک مکمل ضابطہ ہے جو مسلم معاشرے کو مرتب کرتا ہے۔“
اسی طرح اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے 13؍اپریل 1944ء کو آپ نے فرمایا:
۔”ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا ہے، ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزمائیں۔“
اللہ تعالیٰ کے فضل اور عنایتِ خاص کے ساتھ جس چیز نے پاکستان کے قیام کو ممکن بنایا اور یہ تاریخی کرشمہ وجود میں آیا، اسے چار نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:
1۔ آزادی کا جذبہ اور اس کے حصول اور حفاظت کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہ کرنا۔
2۔ دین، نظریۂ حیات، تہذیب و تمدن کی حفاظت اور ترقی کو انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ترجیح بنانا۔
3۔ عوام کی جمہوری قوت، ا ن کا اتحاد اور ان کا یہ جذبہ کہ اپنی آزادی اور اپنے دین اور نظریے کے باب میں کوئی سمجھوتا قبول نہیں کریں گے اور ان کی خاطر جان کی بازی لگادیں گے۔
4۔ مخلص، باصلاحیت اور ایمان دار قیادت۔
قائداعظم نے ہر ذاتی مفاد سے بالا ہوکر صرف قوم کی خاطر اور اللہ کی خوشنودی کے لیے، عوامی قوت کے ذریعے اور پوری یکسوئی کے ساتھ اصل ہدف پر ساری توجہ مرکوز کردی۔ اس مسلم قیادت نے قوم پر اعتماد کیا اور قوم نے اس پر اعتماد کیا، اور دونوں نے اپنے اپنے اعتماد کو سچ کر دکھایا۔ ایک طبقہ آج قائداعظم کو مسلم قوم کا صرف ایک ’وکیل‘ بناکر پیش کررہا ہے، جب کہ قائداعظم نے یہ پوری جدوجہد ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے کی تھی، یہ محض وکالت نہیں تھی۔ اس سے بڑا بہتان اُن پر اور کیا ہوسکتا ہے؟ قائد کے جذبات اور محرکات کیا تھے، انھی کے الفاظ میں سننے اور ذہن میں نقش کرنے کی ضرورت ہے:
۔”مسلمانو! میں نے دنیا کو بہت دیکھا۔ دولت، شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اُٹھائے۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی۔ میں آپ کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے مدافعتِ اسلام کا حق ادا کردیا۔ جناح تم مسلمانوں کی حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں علَمِ اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے۔“ (روزنامہ انقلاب، 22؍اکتوبر 1939ء)۔
یہی وہ جذبہ تھا جس نے تحریکِ پاکستان کو ملت ِ اسلامیہ ہند کے دلوں کی آواز بنادیا، اور وہ ایک آزاد اسلامی ملک کے قیام کے لیے سرگرمِ عمل ہوگئی۔ قوم کی یکسوئی اور تائید، اور قائد کا عزم اور بے لاگ خدمت۔۔۔ جب یہ دونوں قوتیں یک جا ہوجاتی ہیں تو تاریخ کی کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ آج ہمارے مسائل اور مشکلات کی اصل وجہ یہ ہے کہ منزل اور مقصد کا شعور دھندلا دیا گیا ہے۔ قوم اور اس کی فلاح و بہبود کو یکسر بھلا دیا گیا ہے۔ مخصوص مفادات کے پرستار زمامِ اقتدار پر قابض ہیں، جو عوام کے اعتماد سے محروم ہیں اور جن کی دیانت اور صلاحیت دونوں مشتبہ ہیں۔ وژن اور مقصد سے محرومی، عوام کی تائید اور ان کے مرکزی کردار کا عدم وجود اور صحیح قیادت کا فقدان ہمیں پستی کی انتہاؤں کی طرف دھکیلے جا رہا ہے۔
14اگست کے تاریخی لمحے کی یاد میں ان تمام حقائق، جذبات اور عزائم کو ذہنوں میں تازہ کرنا ضروری ہے، تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ ہماری قوت کا اصل سرچشمہ یہی عزائم، جذبات اور داعیات ہیں۔ سات سال میں تحریکِ پاکستان کی کامیابی کا راز مندرجہ بالا چاروں عوامل پر ہے۔ انھی کے سہارے ہم ان بلندیوں پر پہنچے، جن کا نقطۂ فراز 14اگست 1947ء تھا اور گزشتہ سات عشروں میں جس پستی کی طرف ہم لڑھکتے جارہے ہیں، اس کا تعلق بھی انھی چاروں کے بارے میں کمزوری یا فقدان سے ہے۔
پاکستان کا محلِ وقوع تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی اور مادی دونوں وسائل سے ہمیں مالا مال کیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی قوم نے جس درجے میں ان چاروں عناصر کا اہتمام کیا ہے، وہ بلندیوں کی طرف بڑھنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ مایوسی کفر ہے اور حالات کی خرابی کے باوجود کسی درجے میں بھی مایوسی مسلمان کا شعار نہیں ہوسکتی۔ اگر صحیح مقاصد کے لیے، صحیح قیادت کی رہنمائی میں مؤثر اجتماعی اور عوامی جدوجہد کی جائے تو بڑی سے بڑی مشکل دُور ہوسکتی ہے اور دُور دراز واقع منزل بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جس جس درجے میں یہ چیزیں حاصل ہوں، اسی حد تک محدود دائروں میں بھی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جس طرح پاکستان کا قیام ایک تاریخی کامیابی تھی، اسی طرح اوّلین دور میں پاکستان کی بقا اور ترقی بھی ایک کرشماتی نعمت سے کم نہیں۔ بھارتی قیادت کو یقین تھا اور انگریز سامراج بھی اسی وہم میں مبتلا تھا کہ پاکستان باقی نہیں رہ سکے گا۔
تقسیمِ ملک کے لیے اصل تاریخ اپریل 1948ء تھی لیکن انگریز اور کانگریسی قیادت دونوں نے انتقالِ اقتدار کے لیے مناسب وقت اور نقشۂ کار سے پاکستان کو محروم رکھنے اور اوّلین برسوں ہی میں شکست وریخت (collapse) کے خطرات سے دوچار کرنے کے لیے 11مہینے کی مدت کو کم کرکے یک طرفہ طور پر ڈھائی مہینے کردیا، یعنی 3جون کو اسکیم کا اعلان ہوا اور 14اگست تک اس پر عمل مکمل کرنے کا نوٹس دے دیا۔ پھر سرکاری وسائل اور مالیات کی تقسیم کے پورے انتظام کو درہم برہم کردیا اور پاکستان کو اس کے حقوق سے محروم رکھا۔ ریڈکلف نے ایوارڈ میں تبدیلیاں کرکے پاکستان کو کشمیر اور دوسرے اہم علاقوں سے محروم کردیا۔ پورے ملک میں فسادات کی آگ بھڑکا دی گئی اور اتنے بڑے پیمانے پر آبادی کی نقل مکانی واقع ہوئی کہ پورا انتظامی ڈھانچہ درہم برہم ہو گیا۔
یہ سب ایک منظم منصوبے کے مطابق ہوا، جس میں برطانوی حکومت، اس کا مقرر کردہ گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن، اور کانگریس کی حکومت اور ہندو عوام سبھی برابر کے شریک تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک طرف تقسیمِ ہند کی اسکیم پر دستخط کیے تو دوسری طرف اپنی قوم سے کہا:
۔”ہماری اسکیم یہ ہے کہ ہم اس وقت جناح کو پاکستان بنالینے دیں اور اس کے بعد معاشی طور پر یا دیگر انداز سے ایسے حالات پیدا کردیے جائیں، جن سے مجبور ہوکر مسلمان گھٹنوں کے بل جھک کر ہم سے درخواست کریں کہ ہمیں پھر سے ہندوستان میں مدغم کرلیجیے۔“۔
برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی نے ایک طرف آزادیِ ہند کے منصوبے کی منظوری دی اور برطانوی پارلیمنٹ میں بل منظور کروایا، تو دوسری طرف یہ بھی کہہ دیا کہ:
”ہندوستان تقسیم ہورہا ہے لیکن مجھے اُمید واثق ہے کہ یہ تقسیم زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکے گی، اور یہ دونوں مملکتیں جنھیں ہم اس وقت الگ کررہے ہیں، ایک دن پھر آپس میں مل کر رہیں گی۔“ (تاریخ نظریۂ پاکستان، پروفیسر محمد سلیم، لاہور، 1975ء، ص 275)۔

اُمید کی کرن

ان حالات میں پاکستان کا باقی رہ جانا اور جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجانا، اسی طرح کا ایک دوسرا تاریخی کرشمۂ قدرت تھا جیسا سات سال میں اس کا قیام۔ پاکستان کے لیے ایٹمی صلاحیت کا حصول بھی اسی طرح کا ایک ناقابلِ تصور کرشمہ ہے۔ بلاشبہ اس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی پوری ٹیم کی مہارت اور کوشش، سیاسی اور عسکری سطح پر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر صدر محمد ضیاء الحق، بے نظیر بھٹو، میاں محمد نوازشریف اور غلام اسحاق خان کی قیادت اور قوم کی تائید اور دُعائیں سب کا کردار ہے۔ دنیا کی مخالفت، امریکہ اور مغربی اقوام کی جان لیوا پابندیاں اور وسائل کی قلت کے باوجود جب وژن، محنت اور صلاحیت، تنظیم اور کوشش، عوامی تائید اور دعائیں مل جاتی ہیں، تو بڑی سے بڑی مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ پاکستان نے ساری پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود ایک ترقی پذیر ملک ہوتے ہوئے بھی یورینیم کی افزودگی ( Uranuim Enrichment) اور اسلحہ سازی (weaponization) کے اس مشکل عمل کو، جو امریکہ میں 18سال میں مکمل ہوا تھا، صرف سات آٹھ سال میں مکمل کرلیا۔ صدر محمد ضیاء الحق نے راجیو گاندھی کو 1987ء میں یہ پیغام دیا کہ کسی غلط فہمی میں نہ رہنا، ہمارے پاس وہ چیز ہے جو تمھیں منٹوں میں تباہ کرسکتی ہے۔ مئی 1998ء میں ہندوستانی ایٹمی دھماکے کے نتیجے میں امتحان کا لمحہ آیا تو الحمدللہ 15دن کے اندر پاکستان نے چھے ٹیسٹ کرکے ہندوستانی جنگ جُو قیادت کے ہوش اُڑا دیے اور دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا، اور دنیا کے چپے چپے میں مسلمانوں کا سر بلند کردیا۔ اس سے پہلے 1965ء میں بھارت کے حملے کے موقع پر بھی فوج اور قوم نے جس کردار کا مظاہرہ کیا وہ لاجواب تھا۔
اکتوبر 2005ء میں ہولناک زلزلے نے ایک بار پھر قوم کی خوابیدہ صلاحیتوں کے خزانے کو بے نقاب کیا۔ آزمائش کی اس گھڑی کے موقع پر خیبر سے کراچی تک عوام جس طرح متحرک ہوئے اور اس قومی تباہی کا مقابلہ کرنے کے لیے سینہ سپر ہوگئے، وہ ایمان افروز اور اُمیدافزا تھا۔ اس موقع پر اپنی مدد آپ کی ایک روشن مثال قائم ہوئی اور ایک بار پھر یہ یقین تازہ ہوگیا کہ

ذرا نم ہو تو یہ مٹی، بہت زرخیز ہے ساقی!۔

۔(مضمون” 14اگست کا پیغام : وہ بلندی اور یہ پستی!“ کی تلخیص)۔