کتے کا کاٹناموت کا سبب بن سکتا ہے

پاگل کتے کے کاٹنے کے فوری بعد اگرعلاج شروع کردیا جائے توبچا جا سکتا ہے
کتے کے کاٹنے پرگھریلو ٹوٹکے استعمال نہ کریں، بلکہ زخم کو پانی اور صابن سے اچھی طرح رگڑ کر دھو لیں۔ انفیکشیس ڈیزیز کنسلٹنٹ اور ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ آف انفیکشن ڈیزیز انڈس اسپتال ڈاکٹر نسیم صلاح الدین سے تبادلہ خیال

ہمارے یہاں ہر روز بڑی تعداد میں کتے کے کاٹنے کے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں، اور یہ خطرناک حد تک پھیلتے جارہے ہیں۔ کتے کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری ریبیز (Rabies) دنیا کی دسویں بڑی بیماری ہے، جس میں اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں تقریباً ساٹھ ہزار افراد ہر سال ’’ریبیز‘‘ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ہمارے یہاں خاص طور پر کتے، بلی، لومڑی،گیدڑ جیسے جانوروں کے کاٹنے سے ہر سال ایک اندازے کے مطابق 8 ہزار افراد ہلاک ہوتے ہیں، جس کے تدارک کے لیے سالانہ 8 لاکھ حفاظتی ویکسین کی ضرورت ہے۔ انڈس اسپتال کی ڈاکٹر نسیم صلاح الدین ہمارے معاشرے کے اُن لوگوں میں شامل ہیں جو ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر خدمتِ خلق پر مامور ہیں۔ ڈاکٹر نسیم صلاح الدین امریکی ریاست مشی گن میں گیارہ سال تک اپنا کلینک کامیابی سے چلانے کے بعد اپنے ملک پاکستان واپس آئی ہیں۔ آپ سٹیزنز ایجوکیشن اینڈ ڈویلپمنٹ کے تحت کراچی کی غریب آبادیوں کے بچوں کو ایک بہتر مستقبل دینے کے مشن سے بھی وابستہ ہیں۔ اسی طرح ریبیز پر بھی آپ نے ایک مشن کی طرح کام کرنا شروع کیا، اور اس بارے میں انتہائی حساس ہیں کہ کسی کو ریبیز نہیں ہونی چاہیے۔ آپ انڈس اسپتال میں انفیکشن ڈیزیز کی کنسلٹنٹ اور ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ آف انفیکشن ڈیزیز ہیں۔ اس وقت ڈبلیو ایچ او کے ایکسپرٹ پینل آف ریبیز کی ممبر ہیں۔ 2001ء سے آج تک ان کی سب کمیٹیز میں بھی ممبرشپ رہی ہے۔ ریبیز کے موضوع پر لگ بھگ پچیس برس سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ آپ سے کتے کے کاٹنے اور ریبیزکے حوالے سے مختلف پہلوئوں پر تفصیلی گفتگو ہوئی جو یقیناً قارئین کے لیے مفید اور ریبیز سے بچائو کے لیے معاون ثابت ہوگی۔ اس موقع پر ہم ڈاکٹر آفتاب گوہرکے بھی ممنون ہیں جو انڈس اسپتال میں ریبیز پروگرام کے اہم فیکلٹی ممبر ہیں جنہوں نے بنیادی معلومات اور کام سے آگاہی دی۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ انفیکشن ڈیزیز کی کنسلٹنٹ ہیں۔ ریبیز کی طرف دلچسپی کس طرح پیدا ہوئی؟
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین : دلچسپی اس طرح ہوئی کہ لیاقت نیشنل اسپتال میں ایک چھ سالہ بچہ ریبیز کیس میں آیا۔ نہ وہ بچہ کھا سکتا تھا نہ پی سکتا تھا، پھر جیسی ریبیز کی علامات ہوتی ہیں وہ اس میں موجود تھیں۔ جب میں نے اُس کے والد سے اس کی ہسٹری پوچھی کہ کتے نے کب کاٹا، کیسے کاٹا، کب کی بات ہے؟ تو انہوں نیمجھے تمام تفصیلات بتائیں۔ میں نے پوچھا کہ اُس وقت اس کا علاج کیا گیا یا نہیں؟ ٹیکے لگوائے یا نہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیوں نہیں لگوائے ٹیکے؟ تو کہنے لگے کہ مجھے نہیں پتا تھا۔ میں نے کہا کہ دیکھو اگر اس کا علاج بروقت ہوجاتا، یعنی زخم کی صفائی اُسی وقت بہتر طریقے سے ہوجاتی اور ویکسین وغیرہ لگ جاتی، بروقت درست طبی امداد دے دی جاتی تو بچے کو یہ بیماری نہ لگتی۔ یہ سن کر بچے کے والد کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگے کہ کاش! مجھے اُس وقت اس بات کا پتا ہوتا، مجھے نہیں پتا تھا کہ کتے کے کاٹنے سے ایسی بیماری ہوتی ہے، اور اگر مجھے پتا بھی ہوتا تو میں اسے کہاں لے کر جاتا؟ اس کے بعد کئی مریض میرے پاس آئے جن میں ریبیز کی علامات ظاہر ہوچکی تھیں۔ وہ جب بھی آتے ہمیشہ یہی جواب ہوتا کہ ہمیں پتا نہیں تھا کہ یہ بیماری اتنی آگے بڑھ سکتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی کو کوئی آگاہی نہیں تھی اس حوالے سے کہ ریبیز کیوں ہوتی ہے؟ کیسے ہوتی ہے؟ اس کی کیا علامات ہوتی ہیں؟ فوری علاج کیا ہے؟ ریبیز کے مریضوں کو اگر آپ دیکھیں کہ کس طرح تڑپ تڑپ کر مرجاتے ہیں، توآپ کا دل دہل جائے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔کتے کے دماغ میں ایسا کیا خلل پیدا ہوتا ہے کہ وہ انسان کو کاٹنے کے لیے بھاگتا ہے؟
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین: ریبیز ایک وائرس کے ذریعے پیدا ہوتا ہے، بہت ہی باریک جرثومہ جو صرف الیکٹران مائیکرو اسکوپ سے نظر آتا ہے۔ باؤلاپن کہلانے والا یہ مرض باؤلے (پاگل) کتے کے کاٹنے سے انسان میں پھیلنے والی ایک وائرل بیماری ہے جو دماغ کی سوجن کا سبب بنتی ہے۔ جب کوئی متاثرہ جانور کسی دوسرے جانور یا انسان کو کھرونچتا یا کاٹتا ہے تب بھی ریبیز منتقل ہوسکتا ہے۔ متاثرہ جانور کے لعاب سے بھی ریبیز منتقل ہوسکتا ہے۔ اور باؤلے کتے کے لعاب کے اندر یہ خطرناک جراثیم بھرے ہوتے ہیں۔ نارمل کتا اگر کاٹ لے توکچھ بھی نہیں ہوتا، ہاں کوئی اور انفیکشن ہوسکتا ہے جلد میں، یا جہاں کتے نے کاٹا ہے۔ اگر یہ کتا واقعی پاگل یا بائولا ہو اور اس کے لعاب کے اندر یہ جراثیم بھرے ہوئے ہوں، اور وہ انسان کے اندر اگر منتقل ہوجائیں تو یہ جراثیم وہیں زخم کے مقام پر دوگنے ہونا شروع ہوجاتے ہیں، لگ بھگ چار سے چھ ہفتے کے اندر یہ دماغ کی طرف چلتے ہیں، اور پھر وہاں سے علامات شروع ہوتی ہیں جس میں سر درد، بخار، جلن، بے چینی، ذہنی انتشار، ہوش کھونا شامل ہیں، اور مریض بعض اوقات بہکی بہکی باتیں کرتا ہے اور کبھی نہیں بھی کرتا۔ اس وائرس کی وجہ سے کھانے پینے کو نگلنے کی نالی اکڑ جاتی ہے اور مریض پانی سے گھبرانے لگتا ہے۔ اس علامت کو ہائیڈرو فوبیا کہتے ہیں۔ یعنی پانی سے اسے خوف آتا ہے، اور کتے میں بھی یہی علامات ہوتی ہیں۔ کتا، انسان یا جو بھی جانور ہو جس میں ریبیز کے جراثیم ہوں، اس کی علامات اور عادات یکساں ہوتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ مریض کھانا پینا ختم کردیتا ہے۔ جب یہ علامات پوری طرح ظاہر ہوجائیں تو مریض بچ نہیں سکتا، چار سے سات دن کے اندر مرجاتا ہے۔کتے کو اگر ریبیز ہے تو وہ بھی آٹھ سے دس دن کے اندر مر جاتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ہمیں یہ کیسے پتا چلے گا کہ یہ بائولا (پاگل) کتا ہے یا عام کتا کہ جس کا کاٹنا خطرناک ہے ؟
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین :۔یہ بات آپ سو فیصد نہیں کہہ سکتے۔ جب تک آپ نہ چھیڑیں نارمل کتا عام طور پر آپ کو کاٹے گا نہیں۔اور عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ بچے کتے کو چھیڑتے ہیں، اس کی دُم کھینچ لی، پتھر مار دیا، اس کو ڈرا دیا تو وہ پریشان ہوکر کاٹتا ہے۔ کتیا عام طور پر اپنے بچے کو بچانے کے لیے ڈر کر کاٹ لیتی ہے۔ لیکن بائولا کتا بغیر وجہ کاٹنے لگتا ہے۔ اور اس میں بھی دو صورت حال ہوسکتی ہیں کہ ایک بالکل نڈھال، بے حال پڑا ہوا ہے اور خوامخوا کاٹنے لگتا ہے۔ یا پھر وہ کتا بھاگ دوڑ کرنے لگتا ہے، ہر چیز پر لپک جاتا ہے، لکڑی کو چبانے لگے گا، لوہے کو چبانے لگے گا، پتھر کو چبانے لگے گا، وہ کوشش کرتا ہے کہ ہر چیز کو کاٹے۔ اسی طرح اگر کوئی انسان یا جانور سامنے آگیا تو اس کے پیچھے بھی دوڑتا ہے اور کاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ بائولا کتا ایک بندہ جو اُس کے سامنے ہے اُسے بھی کاٹے گا، کوئی اور نظر آگیا تو اُسے بھی کاٹے گا اور دوڑ لگا کر اِدھر اُدھر سب کو کاٹے گا۔ تو یہ ایک ظاہری علامت ہوتی ہے، لیکن ہمیں اتنی دور سے پتا نہیں چلتا کہ یہ نارمل کتا ہے یا بائولا کتا۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ کتے کا کاٹا فرد جب اسپتال پہنچتا ہے تو اس کی ٹریٹمنٹ کیا ہوتی ہے؟
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین: جو بھی مریض کتے کے کاٹنے کے بعد ہمارے پاس کلینک میں آتا ہے سب سے پہلے تو ہم اُس کا زخم صاف کرتے ہیں۔ پھر اسے بٹھا کر سوالات پوچھتے ہیں کہ وہ کتا کس کا تھا؟ گھر کا پالتو کتا تھا؟ نارمل کتا تھا؟ کھاتا پیتا تھا؟ گھر سے باہر تو نہیں نکلا؟ اس کو کسی اور کتے نے تو نہیں کاٹا؟ کتے کو پہلے بھی ویکسین لگی ہے یا نہیں لگی؟ اگر نارمل کتا تھا اور کسی غیر کے گھر آنے پر اسے پریشانی میں کاٹ لیا تو ہمیں پتا ہے کہ وہ کتا پاگل نہیں تھا، اور ہم مریض کا صرف زخم صاف کرکے اسے کہیں گے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، فکر نہ کریں، یہ کتا نارمل ہے اور آپ کو ویکسین کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ایک بچے کو کتے نے کاٹ لیا اس کے چھیڑنے پر، پتھر مارنے پر، اور اس کے والدین کہتے ہیں کہ کتا وہیں بیٹھا ہے تو ہم کہیں گے کہ کتا نارمل ہے۔ لیکن اگر بچہ گھبراہٹ میں یا ویسے ہی ٹھیک طرح سے نہیں بتاتا تو ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ کتا نارمل ہے، اور ہم مریض کی ٹریٹمنٹ کریں گے اور ویکسینیشن ہوگی۔ لیکن جو کتا بلاوجہ لوگوں کو کاٹ رہا ہے اور بہت لوگوں کو کاٹ رہا ہے تو وہ یقیناً پاگل ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ اگر کتا کاٹ لے تو فوری طور پر، اسپتال پہنچنے سے پہلے گھر والے کیا کریں؟
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین: عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ گھر والے گھر کے ٹوٹکے استعمال کرلیتے ہیں، زخم میں نمک ڈال دیتے ہیں، مرچ ڈال دیتے ہیں، ہلدی ڈال دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ، عجیب عجیب چیزیں کرتے ہیں۔ حالانکہ کرنا یہ چاہیے، اور ہر جگہ ہم اس حوالے سے آگاہی بھی دے رہے ہیں، سکھا رہے ہیں محلوں میں، گلی گلی جاکر بتارہے ہیں کہ یہ حرکت نہ کریں۔کتے کے کاٹنے پرگھریلو ٹوٹکے نہ استعمال کریں، بلکہ زخم کو پانی اور صابن سے اچھی طرح رگڑ کر دھو لیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح جراثیم ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ دوسرا سڑک کی گندگی اور دیگر جراثیم لگے ہوں تو وہ بھی دھل جاتے ہیں، اور پھر اس کو جراثیم کش دوا (antiseptic) سے اچھی طرح دھوکر ہلکا سا کپڑا رکھ کر قریبی اُس اسپتال میں لے جائیں جہاں پر اس کا علاج دستیاب ہے۔ ہر اسپتال میں اس کا علاج نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ وقت کی کتنی اہمیت ہے کتے کے کاٹنے کے بعد؟
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین: اگرآپ مریض کے زخم کو اچھی طرح سے صاف کرلیں، پھر بھی چوبیس گھنٹوں کے اندر اسپتال لے جائیں تو اچھا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے کہا کہ ریبیز لا علاج ہے، اس کے لاعلاج ہونے سے کیا مراد ہے اور کب ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے؟
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین: اگر آپ نے کتے کے کاٹنے کے چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر صحیح معنوں میں علاج شروع کیا تو مریض کو ریبیز نہیں ہوگا۔ لیکن اگر صحیح طریقے سے علاج نہیں کیا اور علامات شروع ہوگئیں جیسے بخار، سر کا درد، گھبراہٹ، بے چینی، پانی نگلنے میں تکلیف وغیرہ… تو یہ سو فیصد علامات ہیں ریبیز کی، اور ریبیز موت ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ریبیز انسانی دماغ کو متاثر کرتا ہے؟
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین : جی، ریبیز سے دماغ کے اندر انفیکشن ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے مریض الماری کھول کر اُس کے اندر بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے، بہکی بہکی باتیں کرتا ہے، پھر تھوڑی دیر میں ٹھیک بھی ہوجاتا ہے، لیکن سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ مریض پانی نہیں نگل سکتا۔
فرائیڈے اسپیشل: کتے کے علاوہ دیگر جانوروں سے بھی ریبیز پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے؟
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین : اگر ایک پاگل کتا کسی گائے، بھینس، بلّی، بکرے وغیرہ کو کاٹ لے تو وہ بھی پاگل ہوسکتے ہیں۔ دیہات میں یہ عام بات ہے کہ اگر کوئی پاگل کتا گھوم رہا ہے، اس نے انسانوں کو بھی کاٹا،گائے کو بھی کاٹا تو یقیناً ان کو بھی ریبیز ہوسکتا ہے۔ ہمارے پاس زیادہ تر کتے کے کاٹنے سے ہی ریبیز کے کیس آتے ہیں اور دنیا بھر میں بھی کتے کے کاٹنے سے ہی ریبیز کے کیس ہوتے ہیں، لیکن دوسرے جانور بھی ہیں جن کے کاٹنے سے ریبیز ہوتا ہے۔ ہمارے پاس جو کیس آتے ہیں ان میں بھی اچانک کہیں سے ایک بیمار کتا نمودار ہوتا ہے اور محلے میں، گلی میں بچوں کو، بڑوں کو، جانوروں کوکاٹ لیتا ہے، اور کچھ عرصے بات لوگ ہمارے پاس آتے ہیں کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ پاگل کتے نے ہمارے جانور کو کاٹ لیا ہے اور اب وہ بھی بیمار ہوگیا ہے اور ہمیں فکر ہے کہ ہم نے اس کا دودھ پی لیا ہے۔ دودھ پینے سے تو نہیں خطرہ نہیں، اگر وہ جانور اس بیماری کی حالت میں کسی اور کو کاٹے تو اس کے متاثر ہونے کا امکان زیادہ ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ریبیز کا مریض دوسروں کے لیے کتنا خطرناک ہے؟
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین: جی ایسے مریض سے دوسرے انسانوں کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ لیکن آج تک دنیا میں کسی انسان کو ہوا نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ ویکسینیشن کے بعد کتا تمام عمر کے لیے ریبیز فری ہوجاتا ہے یا اسے دوبارہ ویکسینیشن کی ضرورت ہوتی ہے؟ اگر ہوتی ہے تو کتنے عرصے بعد؟
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین: ڈبلیو ایچ او کے مطابق گھریلو کتے کو سال میں ایک بار ویکسین لگوانی چاہیے، لیکن گلی کے آوارہ کتوں کے لیے یہ ممکن نہیں، اس لیے ایک بار بھی کردیا جائے تو کافی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ریبیز سے بچائو کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین: ہونا یہ چاہیے کہ اگر کتا کاٹ لے تو پہلے صابن اور پانی سے زخم کو رگڑ کر اچھی طرح صاف کرلیں اور ایسے اسپتال سے رجوع کریں جہاں اس طرح کا مؤثر علاج دستیاب ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ڈاکٹروں کی ٹریننگ ہونی چاہیے، اس کے لیے بنیادی معلومات ہونی چاہئیں۔ مگر افسوس کہ وہ بھی نہیں ہیں۔ اور یہ سہولیات فری ہونی چاہئیں۔
فرائیڈے اسپیشل: جیسا کہ آپ نے بتایا اس بیماری کے لیے صرف بنیادی ٹریننگ کی ضرورت ہے، تو کیا ہمارے یہاں میڈیکل کے طالب علم کو اس طرز پر ٹریننگ نہیں دی جاتی؟
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین: جی بالکل نہیںدی جاتی، ہمارے عام ڈاکٹر کو اس کے علاج یا فوری ٹریٹمنٹ کا عمومی طور پر نہیں معلوم ہوتا۔
فرائیڈے اسپیشل:۔ پہلے کتے کے کاٹنے کے چودہ انجکشن لگتے تھے، آج بھی چودہ انجکشن ہی لگ رہے ہیں؟
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین : نہیں۔ یہ این آئی ایچ اسلام آباد میں مینوفیکچر ہوتا تھا، اس کے بڑے نقصانات ہوتے تھے۔ اول تو آپ کو روزانہ اس سینٹر میں پیٹ میں انجکشن لگوانے کے لیے جانا پڑتا تھا۔ ظاہر ہے ایک آدمی نہیں جاتا، اُس کے ساتھ دو اور بھی جاتے تو کبھی ناغہ بھی ہوجاتا۔ دوسرا اس کے سائیڈ افیکٹس بہت ہیں۔ یہ پہلے پوری دنیا میں چل رہا تھا، اب ختم ہوگیا ہے۔ اب صرف تین ٹیکوں کا کورس ہوتا ہے۔ یہ ٹیکہ پہلے، تیسرے اور ساتویں دن لگتا ہے۔ اور گہرے زخم کی صورت میں امیونو گلوبیلین جوکہ زخم کے اندر ایک مرتبہ لگایا جاتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ریبیز ویکسین کی پاکستان میں دستیابی بھی بہت بڑا مسئلہ ہے؟
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین: صورتِ حال یہ ہے کہ پچھلے پانچ سال سے جب سے یہ Shebrain ختم ہوگئی ہے، سیل کلچر ویکسین استعمال کرتے ہیں جو فارماسیوٹیکل کمپنیز بناتی ہیں، اور یہ بہترین ویکسین بنانے والی کمپنی تو فرانس،جرمنی یا چائنا اور انڈیا میں ہے۔ بہت پہلے یہ ہوتا تھا کہ ہم فرانس اور جرمنی سے درآمد کرتے تھے جو کہ ڈبلیو ایچ او سے بھی منظور شدہ ہے، لیکن اس کمپنی نے پرائسنگ کی وجہ سے پاکستان میں دوا بھیجنا چھوڑ دی۔ اس کی متبادل بہترین ویکسین جو کم قیمت ہے اور قریب سے بھی دستیاب ہے ایک چائنا اور ایک انڈیا سے، اور انڈیا میں سب سے اچھی ان کی پانچ کمپنیاں ہیں جو اچھی ویکسین بناتی ہیں۔ ان میں دو کمپنیاں ایسی ہیں جو ڈبلیو ایچ او سے بھی منظور شدہ ویکسین فروخت کرتی ہیں۔ اس وقت ہمارے پاس جو ویکسین آتی تھیں وہ انڈیا سے آتی تھیں، پری کوالیفائیڈ والی نہیں دوسری والی۔ اس وقت این آئی ایچ کے پاس ویکسین آرہی ہے وہ چائنا سے آرہی ہے، لیکن اس کے معیار کے بارے میں کوئی سند موجود نہیں ہے کہ وہ اچھی ویکسین ہے یا نہیں، لیکن اس کا بھی اسٹاک کم ہوتا جارہا ہے اور ایک خبر یہ بھی ملی ہے کہ انڈیا سے جو ویکسین آتی تھی وہ بھی آب نہیں آرہی، کیونکہ وہاں تو ہم سے بھی دس گنا زیادہ آوارہ کتے ہیں تو ان کی ویکسین وہیں پوری ہوجاتی ہے، ان کے پاس اتنی مقدار میں نہیں بنتی کہ وہ ایکسپورٹ کریں۔ انڈونیشیا، تھائی لینڈ وغیرہ میں وہ بھیج بھی رہے ہیں۔ پاکستان میں نہیں بھیجتے کیونکہ یہاں انتظامی امور میں خلل ہے جس کے باعث چھ ماہ سے درخواست دینے کے باوجود کوئی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
فرائیڈے اسپیشل:کتوں کی نسل روکنے کا ریبیز فری پروگرام شروع کیا گیا، اس کے کیا نتائج برآمد ہوئے؟
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین: دو چیزیں ہوسکتی ہیں۔ یہ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ابھی آپ توجہ کریں ون ہیلتھ اپروچ پر، جس میں آپ انسان کا تو علاج کررہے ہیں لیکن اس کی جو بنیادی وجہ ہے اس کی طرف توجہ نہیں ہے، اس کو کہتے ہیں ون ہیلتھ اپروچ۔بہت ساری بیماریوں میں بھی اس اصطلاح پر عمل ہوتا ہے۔ ریبیز کے حوالے سے ون ہیلتھ یہ ہوگا کہ ایک تو انسان دوسرا کتا۔ کتے کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟ کتے میں ریبیز کے پھیلائو سے بچائو کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ویکسینیٹ کرسکتے ہیں کہ کتے کو پکڑ کر ہم ٹیکہ لگائیں۔ اس طرح اس کتے کو ریبیز نہیں ہوگی، لیکن یہ جو آوارہ کتے گھوم رہے ہیں، ان کے بارے میں کیا کریں! تو اس کے لیے ہم نے کتوں کی نس بندی شروع کی۔ اسے کہتے ہیں Animal Birth Control، یعنی بہت سارے کتوں کو ویکسینیٹ کریں اور آپریشن کے ذریعے ان کی نس بندی کی جائے، تو اس پروگرام پر پچھلے دو سال سے ہم لگے ہوئے ہیں۔ اس پر ہم نے بہت ریسرچ کی ہے۔ اس حوالے سے انڈس اسپتال کی ایک مستند ٹیم اس پروجیکٹ (Rabies Free Karachi) پر کام کررہی ہے جس میں ڈاکٹر آفتاب (ساتھ بیٹھے تھے) اور دیگر ماہرین اور ڈاکٹر شامل ہیں۔ ہم نے ڈبلیو ایچ او کے نمائندوں سے بات کی، انہوں نے پچاس ہزار ڈوز ویکسین کے فری دیے، کتے پکڑنے کے لیے سائوتھ افریقہ سے تجربہ کار ٹرینر بھیجے۔ ہم نے ابراہیم حیدری کو منتخب کیا، کیونکہ کتے کے کاٹے کے سب سے زیادہ مریض وہیں سے آتے ہیں۔ وہاں کے لوگوں کو ٹریننگ دی۔ سائوتھ افریقہ سے آئے ٹرینر نے پندرہ دن کی انہیںٹریننگ دی کہ یوں کتا پکڑتے ہیں۔ ہمیں جالیاں بنانی پڑیں، کیچنگ نیٹ اور وہ اوزار جن کے ذریعے کتوں کو پکڑا جاسکے، اور کیسے کتے کو ویکسین لگائی جائے اور کیسے پتا چلے گا کہ کتے کو ویکسین لگی ہے، کیونکہ کتے کو تو ہم چھوڑ دیں گے۔ تو اس کو پینٹ لگا لیتے کہ دور سے پہچانا جائے کہ ہاں اس کتے کی ویکسینیشن ہوگئی ہے۔ پھر محلہ محلہ تقسیم کرکے اچھی طرح سے کام کیا۔ یہ تو صرف ویکسینیشن کا کام ہے، اس کے علاوہ نس بندی کا کام تو روڈ پر نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے وہاں کے لوگوں سے بات کی تو علاقے کے لوگوں نے ایک جگہ کا تعین کیا کہ یہاں پر آپ کام شروع کریں۔ ہم نے ایک کنٹینر میں آپریشن تھیٹر بناکر جانوروں کے ڈاکٹروں اور ماہرین کو لے کر ڈاکٹروں کی ٹریننگ کروائی اور اندرون سندھ سے آئے ہوئے ڈاکٹرز بھی اس میں شامل تھے۔ ٹنڈو جام ویٹنری یونیورسٹی کے فریش بیج کو ٹریننگ دی، اور ایک سال کے اندر پندرہ ہزار کتوں کو ویکسینیٹ کیا، جبکہ 1500کتوں کی نس بندی کی، اور آج اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ابراہیم حیدری میں پاگل کتوں کے کاٹنے کے واقعات ایک سال میں نہیں ہوئے اور دوسرا کتوں کی افزائشِ نسل میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک سال کا یہ پائلٹ پروجیکٹ تھا جو جنوری 2017ء سے دسمبر 2018ء تک تھا۔ میئر نے اس حوالے سے کچھ فنڈ دیا، باقی کے پیسے اور تعاون وعدے کے مطابق نہیں ملا، جب کہ یہ اُن کا کام ہے۔ باقی کا کام ہم اپنی مدد آپ کے تحت اور لوگوں کے تعاون سے کرتے رہے۔ ہم چاہتے ہیں دیگر شہروں، قصبوں اور علاقوں میں بھی اس طرح کے پروگرام کریں، لیکن کیسے کریں؟ اس حوالے سے جہاں لوگوں کا تعاون درکار ہے وہیں فنڈز کی کمی بھی درپیش ہے۔