امریکی انخلا کے بعد افغانستان کا مستقبل کیا ہوگا؟۔

ڈونلڈ ٹرمپ افغان مسئلے کا صدارتی انتخابات سے قبل کوئی قابل قبول حل چاہتے ہیں

دوحہ میں افغانستان کے مستقبل سے متعلق جاری امریکہ طالبان مذاکرات کے آٹھویں دور کے تناظر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک حالیہ بیان میںکہنا ہے کہ وہ افغانستان سے جتنی جلد ہوسکے نکلنا چاہتے ہیں اور امریکہ کو اس جیسی احمقانہ جنگ کا آئندہ کبھی بھی حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم افغانستان سے فوجی انخلا کررہے ہیں، ہم دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جس قدر جلد ہوسکے یہ انخلا مکمل ہوجائے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اس احمقانہ جنگ سے نکلنا چاہتا ہوں جس میں ہمیں کبھی شامل ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ میرے قریبی ساتھی طالبان سے مذاکرات میں مشغول ہیں اور امید ہے کہ ایسا معاہدہ سامنے آئے گا جس سے جنگ زدہ ملک (افغانستان) سے امریکی فوجیوں کا انخلا ممکن ہوسکے گا۔
امریکی صدر ٹرمپ کے مندرجہ بالا بیان کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ اس دوران طالبان کے دوحہ میں واقع سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا یہ بیان سامنے آچکا ہے کہ امریکہ اور طالبان 8 ماہ کے مذاکرات کے بعد امن معاہدے کو حتمی شکل دینے کے قریب ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ معاہدے سے افغانستان میں بیرونی افواج کی موجودگی کا خاتمہ ہوگا۔ تاہم انہوں نے جنگ بندی کے فوری امکان کو مسترد کردیا۔
دوسری جانب واشنگٹن میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اعلان کیا ہے کہ سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے افغان صدر اشرف غنی کو ٹیلی فون کرکے حالیہ امریکہ طالبان گفت وشنید پر اعتماد میں لیا ہے، دونوں رہنماؤں نے مذاکرات کے ذریعے جنگ کے خاتمے پر تیز تر اقدامات پر رضامندی کا اظہار کیا۔ مائیک پومپیو نے افغان صدر سے ایسے حالات میں رابطہ کیا ہے جب امریکی صدر نے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے گزشتہ دنوں ہونے والی ملاقات میں افغانستان میں قیام امن سے متعلق تمام تر انسانی اور سفارتی آداب کو ایک طرف رکھتے ہوئے افغان بحران کا حل دس دنوں کے اندر اندر ایک کروڑ افغانیوں کو ہلاک کرکے افغانستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی صورت میں پیش کیا تھا، جس پر افغان حکومت کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر زبردست احتجاج دیکھنے کو ملا تھا۔
مائیک پومپیو اپنے ایک تازہ انٹرویو میں یہ دعویٰ بھی کرچکے ہیں کہ طالبان کے ساتھ ستمبر تک معاہدہ ہونے کی امید ہے، جس پر حقیقی کارکردگی تنازعے کے مکمل خاتمے کی صورت میں سامنے آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے انٹرا افغان مذاکرات کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھا لیے گئے ہیں جن میں افغان حکومت بھی شریک ہوگی، اور اگلا قدم امریکہ اور اتحادی فورسز کا افغانستان سے انخلا ہوگا۔ واشنگٹن میں اکنامک کلب میں ریمارکس دیتے ہوئے مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ افغان مسئلے کا 2020ء کے صدارتی انتخابات سے قبل کوئی مناسب اور سب کے لیے قابل قبول حل چاہتے ہیں۔
دوسری جانب امریکی نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ہم طالبان کے ساتھ بہترین معاہدے کے لیے تیار ہیں، لیکن امریکہ کا افغانستان سے انخلا شرائط کی بنیاد پر ہوگا۔ زلمے خلیل زاد نے مزید کہا کہ طالبان اشارہ دے رہے ہیں کہ وہ بھی معاہدہ چاہتے ہیں لیکن اس حوالے سے فی الحال حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ واضح رہے کہ امریکی نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد نے گزشتہ روز جی ایچ کیو راولپنڈی میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی تھی جس میں افغان امن عمل اور باہمی متفقہ مقاصدکے حصول پر اتفاق کیا گیا۔ زلمے خلیل زاد نے افغان امن عمل کے لیے پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ توقع ہے کہ دوسرے بھی افغان امن عمل سے متعلق پاکستان کی تقلید کریں گے۔ ملاقات میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان امن کے لیے اپنی تمام کوششوں کو تیز کرنے کے لیے کردار ادا کرے گا۔ اپنے اس تازہ دورۂ اسلام آباد میں زلمے خلیل زاد نے وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی اور افغان امن عمل میں مثبت پیش رفت اور آئندہ کے اقدامات پر روشنی ڈالی۔ اس کے علاوہ انہوں نے عمل کی حمایت میں پاکستان کے ادا کیے گئے کردار اور مستقبل میں پاکستان کی جانب سے ممکنہ طور پر اضافی مثبت اقدام پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
ان ملاقاتوں میں امریکی نمائندۂ خصوصی نے مؤقف اختیار کیا کہ افغانستان میں استحکام کے لیے دونوں ممالک (پاکستان اور افغانستان) کو قابلِ اعتماد یقین دہانیوں کی ضرورت ہوگی کہ ان کی حدود ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ انٹرا افغان جامع امن مذاکرات کے معاہدے پر اس طرح کی یقین دہانیوں سے علاقائی اقتصادی روابط اور ترقی میں اضافہ ہوگا۔
یاد رہے کہ افغانستان میں سترہ سال سے جاری طویل جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ پچھلے ڈیڑھ دو سال سے کوششوں میں مصروف ہے، اور اس سلسلے میں اُس کے طالبان سے کئی مرتبہ مذاکرات ہوچکے ہیں۔ ان مذاکرات میں افغان حکومت کو اُس کے مطالبے کے باوجود تاحال شامل نہیں کیا گیا، کیونکہ طالبان اسے کٹھ پتلی حکومت کہتے ہیں اور وہ براہِ راست امریکہ سے مذاکرات کا مطالبہ کرتے آئے تھے۔ تاہم اس تمام صورت حال میں پاکستان کا کردار بہت اہم رہا ہے، اور وہ افغانستان میں پائیدار اور مستقل امن اور افغان تنازعے کے حل کے لیے اپنی کوششیں کررہا ہے۔ اس ضمن میں حال ہی میں امریکہ کے دورے کے دوران وزیراعظم عمران خان نے واشنگٹن میں کہا تھا کہ وہ وطن واپس پہنچ کر افغان طالبان سے ملاقات کرکے انہیں امن مذاکرات کے لیے قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔
اسی اثناء افغان طالبان نے کہا ہے کہ امریکہ سے 80 فیصد مذاکرات مکمل ہوچکے ہیں، تاہم اس میں امریکی فوج کے انخلا کے ٹائم فریم پر اب بھی بحث ہونا باقی ہے۔ دوحہ میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک نجی ٹی وی کوبتایا کہ ہم 80 فیصد امور پر معاہدہ کرچکے ہیں اور باقی 20 فیصد میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا اور ایک اور مسئلہ شامل ہے۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ دوسرا مسئلہ کیا ہے، تاہم اُن کا کہنا تھا کہ وہ ایک چھوٹا مسئلہ ہے اور بڑا مسئلہ امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی کا ہے۔ طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم پُرامید ہیں کہ مذاکرات کے اس مرحلے میں معاہدہ کرلیں گے، کیونکہ امریکہ نے اس سے قبل بھی اس جانب اشارے دیے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں سامنے آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کی 2020ء کے صدارتی انتخابات سے قبل فوجی انخلا کے حوالے سے رپورٹس کا حوالہ دیا، جن میں کہا گیا تھا کہ فوجی انخلا کا آغاز 14 ہزار فوج میں سے 50 فیصد کو واپس بلانے کے ساتھ کیا جائے گا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ اس طرح کے اشارے دے رہا ہے، تاہم انہیں اب تک مذاکرات کی میز پر یا تحریری صورت میں نہیں لایا گیا، فوجی انخلا کا وقت نہایت ضروری ہے اور ہم پُرامید ہیں کہ مذاکرات کے اس مرحلے میں فیصلہ ہوجائے گا۔ اشرف غنی کی انتظامیہ کے ساتھ انٹرا افغان مذاکرات کے امریکی مطالبے کے حوالے سے سوال کے جواب میں سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ اس طرح کے تمام معاملات امریکہ سے امن معاہدے کے بعد زیربحث آئیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ انٹرا افغان ڈائیلاگ اور افغانستان میں جنگ بندی کی اہمیت ہم جانتے ہیں، تاہم یہ امریکہ سے امن معاہدہ ہونے کے بعد زیربحث آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ سے معاہدہ پہلا حصہ ہے اور دوسرے حصے کا آغاز اُس وقت ہوگا جب افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا پر معاہدہ کرلیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ افغان طالبان کابل کی حکومت کو نہیں مانتے مگر ہم اسے دیگر افغان تحاریک کی طرح تنازعے کا حصہ سمجھتے ہیں، وہ بھی انٹرا افغان ڈائیلاگ میں شامل ہوں گے، تاہم یہ صرف اُس وقت ہوگا جب امریکہ کے معاملات اختتام کو پہنچیں گے۔ سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ہم اس کے بعد جنگ بندی اور دیگر امور کے لیے انٹرا افغان ڈائیلاگ کا آغاز کرسکتے ہیں۔ اسلام آباد سے دعوت نامہ موصول ہونے کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی کوئی بات ابھی نہیں ہوئی اور اب تک ہمیں اسلام آباد سے کوئی دعوت موصول نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم دیگر دارالحکومتوں میں اپنے وفد بھیجتے ہیں اور ہم دعوت ملنے پر اسلام آباد بھی اپنی ٹیم بھیج سکتے ہیں۔ عمران خان کی جانب سے کابل سے مذاکرات کرنے کی درخواست کیے جانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہماری پالیسی تبدیل نہیں ہوسکتی، ایک چیز دوسرے کے بغیر نہیں ہوسکتی، یہ ہماری واضح پالیسی ہے، انٹرا افغان ڈائیلاگ کا افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے معاہدے کے بعد فوری آغاز ہوجائے گا۔
افغان بحران کا دوسرا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اب تک متحارب فریقین میں سے کسی نے بھی جنگ بندی پر آمادگی ظاہر نہیں کی ہے، جس کے باعث شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہے جب افغان سرزمین کا کوئی چپہ خون آلود نہ ہوتا ہو۔ دونوں جانب امن مذاکرات کی حمایت اور اس جانب مسلسل پیش رفت کے باوجود تازہ اطلاعات کے مطابق افغانستان کے مختلف صوبوں میں سیکورٹی فورسز اور فضائیہ کی جانب سے آپریشن کلین اَپ میں 51 طالبان ہلاک اور14 زخمی ہوگئے ہیں۔ ایک اور واقعے میں افغان صوبے غزنی میں سیکورٹی فورسز نے چیک پوسٹ پر طالبان کے حملے کو ناکام بنادیا، دو طرفہ فائرنگ کے تبادلے میں 7 طالبان ہلاک اور2 زخمی ہو نے کی مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ دوسری جانب افغان صوبے فریاب میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے آپریشن کلین اَپ میں20 طالبان کی ہلاکت جبکہ12 کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اسی طرح افغانستان کے سرکاری ذرائع کے مطابق افغان صوبے ننگرہار اور ہلمند میں سیکورٹی فورسز کے آپریشن میں 24 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا ہے۔ بین الاقوامی خبر رساں اداروں کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کے خلاف حالیہ سیکورٹی آپریشنز میں51 طالبان ہلاک جبکہ14 زخمی ہوئے ہیں۔
دوسری جانب یہ اطلاعات بھی تسلسل کے ساتھ سامنے آرہی ہیں کہ ہرگزرتے دن کے ساتھ طالبان کی عسکری اور سیاسی قوت میں اضافہ ہورہا ہے، جس کی ایک تازہ مثال جنوبی صوبے قندھار میں ایک پولیس اہلکارکا اپنے ہی سات ساتھیوں کو فائرنگ کرکے ہلاک کرنا ہے۔ اس داخلی حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کرنے کا اعلان کیا ہے اور حملے کے بعد متذکرہ پولیس اہلکار طالبان کے ساتھ جاملا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق قندھار کے ضلع شاہ ولی کوٹ کی انتظامیہ کے ترجمان نے بتایا کہ مشتبہ ملزم اپنے ساتھی پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے بعد فرار ہوگیا ہے۔ ترجمان نے تصدیق کی کہ اس داخلی حملے کی تفتیش کی جارہی ہے۔ یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ایک جانب دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات جاری ہیں اور دوسری جانب امریکی انتظامیہ پہلے مرحلے میں افغانستان سے کم از کم آٹھ ہزار فوجیوں کے انخلا کا عندیہ دے چکی ہے، جس کے بعد افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد پچھلے 18 سال کے دوران کم ترین سطح سات ہزار تک رہ جائے گی۔ یہاں اس امر کی نشاندہی خالی از دلچسپی نہ ہوگی کہ اس وقت جب افغان حکومت اپنی عمل داری اور گرفت کے بلند بانگ دعوے کررہی ہے اور قریباً پندرہ ہزار امریکی فوجی تمام تر جدید جنگی ساز وسامان سے لیس ہیں، پھر بھی طالبان جب اور جہاں چاہتے ہیں امریکی افواج سمیت ہر جگہ کو ہدف بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جب کہ غیر جانب دار ذرائع بھی اس بات کی تصدیق کرچکے ہیں کہ طالبان آج بھی نصف افغانستان پر عملی کنٹرول رکھتے ہیں، اور اگر ایسے میں امریکی افواج کسی بھی معاہدے کے تحت افغانستان سے مکمل انخلا پر آمادہ ہوجاتی ہیں تو یہ بات یقینی ہے کہ ایسے حالات میں کٹھ پتلی افغان حکومت کے لیے اپنے آپ کو برقرار رکھنا تقریباً ناممکن ہوگا۔
تیسری جانب جو لوگ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے ستمبر کے صدارتی انتخابات اور اس ضمن میں طالبان کی نیم رضامندی سے متعلق آس لگائے ہوئے تھے اُن کی اِن امیدوں پر طالبان نے صدارتی انتخابات کی ریلیوں پر حملوں کی دھمکی کی صورت میں پانی پھیردیا ہے۔ واضح رہے کہ افغانستان میں اگلے ماہ صدارتی انتخابات ہورہے ہیں جس کی انتخابی مہم دوسرے ہفتے میں داخل ہوچکی ہے، لیکن اب طالبان نے ان انتخابات کو نہ ماننے اور انہیں سبوتاژ کرنے کا جو تازہ اعلان کیا ہے اس سے یقینا اگر ایک جانب افغان حکومت میں کھلبلی مچ گئی ہے تو دوسری طرف افغان عوام بھی اس نئی صورت حال سے خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ جو اب تک طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگتا رہا ہے، اوراب جب بڑی مشکل سے خدا خدا کرکے یہ امن مذاکرات کسی حتمی کامیابی اور معاہدے کی جانب بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں امریکہ جو اب تک امن کے نام پر افغانستان میں اربوں ڈالر پھونکنے کے علاوہ اپنے ڈھائی ہزار سے زائد فوجیوں کی قربانی دے چکا ہے، وہ آخر کن شرائط پر افغانستان سے انخلا کرنے جارہا ہے؟ اگریہ شرط صرف یہ یقین دہانی ہے کہ طالبان افغان سرزمین امریکی مفادات کے خلاف استعمال نہیں کریں گے تو یہ یقین دہانی تو طالبان آج سے دس سال قبل بلکہ افغانستان پر امریکی حملے سے پہلے بھی دینے کے لیے تیار تھے۔ لہٰذا لگتا یہی ہے کہ امریکہ چونکہ یہ زخم مزید چاٹنے کے لیے تیار نہیں ہے اس لیے وہ اب ہرحال میں عالمی طاقتوں کے اس قبرستان(افغانستان) سے اپنی جان چھڑا کر نکلنا چاہتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس کا فیصلہ فی الوقت تو طالبان کو کرنا ہے، البتہ اگر بدقسمتی سے حالات نے دوبارہ پلٹا کھایا تو افغانستان میں جاری شورش کے آگے جاکر ایک بڑی خانہ جنگی میں تبدیل ہونے کے خدشات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

قبائلی اضلاع میں مخصوص نشستوں کا اعلامیہ جاری

الیکشن کمیشن نے قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے لیے خواتین اور اقلیت کی5 مخصوص نشستوں کا اعلامیہ جاری کردیا ہے، تاہم ترجیحی فہرستیں جمع نہ کرانے کی وجہ سے خواتین کی دو مخصوص نشستیں فی الحال خالی رہ گئی ہیں۔ پی ٹی آئی کے حصے میں خواتین کی دو اور اقلیت کی ایک نشست آئی ہے، جبکہ جمعیت (ف) اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے حصے میں خواتین کی ایک ایک مخصوص نشست آئی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق مخصوص نشست پر تحریک انصاف کی انیتا محسود اور اقلیتی نشست پر ولیم وزیر کی کامیابی کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے، جبکہ خواتین کی ایک مخصوص نشست پر جمعیت (ف) کی نعیمہ کشور کی کامیابی کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی اور باپ کی دو خواتین مخصوص نشستیں فہرست جمع نہ ہونے کی وجہ سے خالی ہیں جس کا اعلامیہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ خواتین کی ایک مخصوص نشست پر اختلافات کے باعث حکمران جماعت تحریک انصاف الیکشن کمیشن کے پاس ترجیحی فہرست جمع نہیں کرا سکی تھی، حالانکہ 8 جولائی کو پختون خوا ہائوس اسلام آباد میں قبائلی اضلاع سے خواتین کی مخصوص نشستوںکے لیے 11خواتین کے انٹرویو بھی ہوئے تھے، تاہم ان انٹرویوز سے قبل تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے پاس صرف ایک خاتون کا نام جمع کرایا تھا، جس کی وجہ سے قبائلی اضلاع سے تحریک انصاف کو خواتین کی ملنے والی دو مخصوص نشستوں میں سے ایک نشست تاحال خالی پڑی ہے، تاہم امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ آئندہ چند روز میں تیسرا نام جمع کرا دیا جائے گا، جس سے قبائل کے لیے مخصوص خواتین کی چار نشستوں پر پی ٹی آئی ارکان کی تعداد دو ہوجائے گی۔