اسمارٹ ڈیوائسز اور انٹرنیٹ کے طوفان نے ٹمبکٹو سے ٹوکیو تک زندگیوں میں بھونچال پیدا کردیا ہے۔ اس آلودگی نے ہماری روزمرہ زندگی پر شب خون مارا ہے، اور مزے کی بات یہ کہ ہمیں اس کا احساس بھی نہیں
مارک مینسن/ترجمہ:ناصر فاروق
میں کبھی کبھی اپنے گھر کے قریب جم میں کلاس لینے جاتا ہوں۔ یہاں ایک کوچ کھڑا چیختا رہتا ہے کہ ’’مزید پش اپس لگاؤ… مزید ڈنڈ لگاؤ… اور جب تک تھک نہ جاؤ… لگے رہو‘‘۔ اس کے بعد جب تم گھر جاتے ہو تو تین چار دن تک اٹھنا بیٹھنا دشوار ہوجاتا ہے۔ یہ بہت اچھا ہے۔ مجھے پسند ہے۔ میں ہفتے میںکم از کم ایک بارضرور جاتا ہوں۔
اکثر صبح یہی ہوتا ہے، ورزش کے دوران کوئی نہ کوئی اسمارٹ فون کی جانب لپکتا ہے… اور چیک کرتا ہے کہ آیا کیا اسٹیٹس چل رہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم وہ کیا دیکھتا ہے! شاید ای میل؟ انسٹاگرام؟ یا سوئٹ ہارٹ سے اسنیپ چیٹنگ وغیرہ… مجھے نہیں معلوم۔
کہنے کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے فون پرلگ جاتا ہے اور کوچ تلملا کر رہ جاتا ہے، اور ایک بار پھر چیختا ہے ’’فون اُدھر رکھ دو اور ورزش پر توجہ دو‘‘۔ اس دوران ہم سب بے وقوفوں کی طرح اُس کے پلٹنے کا انتظارکرتے رہتے ہیں۔
یہ ہرکلاس میں دو سے تین بار ہونے لگا۔ وجہ جو بھی ہو، ایک دن میں نے فیصلہ کیا کہ اُس خاتون سے بات کروں جو اسمارٹ فون سے گلو کی طرح چپکی ہوئی تھی، جبکہ باقی لوگ ورزش میں لگے تھے۔
’’کیا واقعی تمہاری زندگی میں کوئی چیز ایسی نہیں جس کے لیے تیس منٹ انتظار کیا جاسکے؟ یا تم کینسر جیسے کسی موذی مرض میں مبتلا ہو؟‘‘ میں بے تکان بولتا چلا گیا… کمرے میں موجود ہرشخص خاموشی سے سن رہا تھا۔
اس شام، جب ہم سب اپنے اپنے گھر جاچکے تھے، میرے دماغ میں صبح والا واقعہ گھوم رہا تھا۔ میں نے خود سے سوال کیا’’آخر مجھے اس اسمارٹ فون سے مسئلہ کیا ہے؟‘‘ جب کبھی لمبی چہل قدمی کے لیے نکلتے ہیں، اور میری بیوی اسمارٹ فون نکالتی ہے، تو مجھے بے چینی سی ہونے لگتی ہے۔ کیا میرے ہی ساتھ کوئی مسئلہ ہے؟
میں جانتا ہوں کہ اس معاملے میں میرے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم سب کا ہی اپنے اسمارٹ فون کے ساتھ محبت نفرت کا یہ رشتہ قائم ہے۔ چند سال سے ہم مسلسل فون سے قریب تر ہوتے جارہے ہیں۔ ہرسال ہم اس بات پر کڑھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟
توجہ منتشر کرنے والی آلودگی
اگر تم اس بارے میں سوچو تو ہماری توجہ واحد شے ہے جو صحیح معنوں میں ہماری اپنی ہے۔ ہماری زندگی کا سارا مال و زر جانے والا ہے۔ ہمارے اجسام بھی سمجھوتوں کی نذر ہوتے ہیں۔ ہمارے رشتے بھی ٹوٹتے بنتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہماری یادداشتیں اور علمی قابلیت بھی جاتی رہتی ہے۔ مگر انتخاب کی سادہ سی اہلیت ہمیشہ ہمارے پاس رہتی ہے۔
بدقسمتی سے آج ٹیکنالوجی نے ہماری توجہ ہم سے چھین لی ہے۔ ہمارے لیے اپنی توجہ پر توجہ دینے کا وقت ہی نہیں بچا ہے۔ ایسا انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔
اپنی کتاب Deep Work میں Cal Newport دلیل دیتا ہے کہ کسی بھی ایک منصوبے پر توجہ اور یکسوئی انفارمیشن عہد میں کامیابی کے لیے ازحد ضروری ہے۔ مگر یہی اہلیت خطرے میں پڑتی نظر آرہی ہے۔
میں اس سے بھی آگے جاکر یہ کہوں گا کہ ہماری توجہ کی اہلیت خوشگوار اور صحت مند زندگی کا اہم جز ہے۔ ہم کئی ایسے دن اور ہفتے گزارتے ہیں جب ذہنی انتشار عروج پر ہوتا ہے۔ بے مصرف بیٹھے بے شمار کلکس اور نوٹیفیکیشنز میں الجھے رہتے ہیں۔
خوش اور صحت مند رہنے کے لیے ہمیں خود پرقابو پانے کی ضرورت ہے، اور اپنی صلاحیتوں کو درست سمت میں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی توجہ پرمضبوط گرفت کی ضرورت ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہی وجہ ہے مجھے جم میں سیل فون دیکھ کر غصہ آتا ہے۔ کیونکہ کلب میں مجھ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ نہ صرف جسمانی بلکہ دماغی طور پر بھی میری توجہ ورزش پر مرکوز رہے۔ اور ہر دس منٹ بعد کسی کا اچانک رک جانا، کہ وہ اپنے باس کو ای میل کرسکے، یا اپنے دوست کو لطیفہ سناسکے، یہ سب انتہائی زچ کرنے والا ہے۔
یہ دراصل توجہ منتشر کرنے والی آلودگی ہے۔ جب کوئی شخص اپنی توجہ کی یکسوئی میں ناکام ہوتا ہے، تو وہ آس پاس کے لوگوں کی توجہ منتشر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اُس پر اسمارٹ ڈیوائسز اور انٹرنیٹ کے طوفان نے ٹمبکٹو سے ٹوکیو تک زندگیوں میں بھونچال پیدا کردیا ہے۔ اس آلودگی نے ہماری روزمرہ زندگی پر شب خون مارا ہے، اور مزے کی بات یہ کہ ہمیں اس کا احساس بھی نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہم کھانے کی میز پر اُس وقت جزبز ہوتے ہیں جب کوئی اسمارٹ فون نکال کر لکھنا شروع کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اُس وقت تلملا جاتے ہیں جب کوئی مووی تھیٹر میں فون نکالتا ہے، اور اُس وقت زیادہ غصہ آتا ہے جب وہ محض ای میل چیک کررہا ہوتا ہے۔
یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جب ایک شخص سگریٹ نکال کر دھواں اڑانا شروع کردیتا ہے، اور آس پاس کے لوگوں کے پھیپھڑے متاثر ہونے لگتے ہیں۔ اسمارٹ فون والا بھی اپنے ماحول کی یکسوئی میں انتشار کی آلودگی پھیلاتا ہے۔ یہ ہمارے احساسات ہائی جیک کرلیتا ہے۔ یہ غیر ضروری طور پر ہماری گفتگو یا خیالات میں مداخلت کرتا ہے۔ یہ ہمارے خیالات کا سلسلہ توڑ دیتا ہے، اور اُس اہم نکتے کوگُم کردیتا ہے جو بڑی مشکل سے حاصل ہوا تھا۔ یہ یکسوئی کا سارا عمل برباد کردیتا ہے۔
مگر محض تمباکو نوشی سے موازنہ کافی نہیں۔ اس بات کا کافی شافی ثبوت موجود ہے کہ ہم ان ڈیوائسز سے اپنی صحت بھی تباہ کررہے ہیں۔ ہماری یادداشت اور توجہ کا دائرہ سمٹتا چلا جاتا ہے۔ یہ dopamine کا سبب بنتا ہے۔ اس سے مراد ہمارا نروس سسٹم ہے، جو مسلسل اسمارٹ فون کے استعمال سے خراب ہوتا ہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ میں کچھ زیادہ ہی ردعمل دے رہا ہوں۔ نہیں بالکل نہیں۔ میں بالکل سنجیدہ ہوں، اور یہ مسئلہ مجھ سے بھی زیادہ سنجیدہ ہے۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، میرے لیے سکون سے بیٹھ کر یکسوئی سے لکھنا اور سوچنا دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ خارجی مداخلتوں کی آلودگی بڑھتی چلی جارہی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ یہ معاملہ صرف میرا نہیں!
میں حالیہ برسوں میں بہت سے ایسے لوگوں سے ملا ہوں جو اگر تھوڑی دیر تک اپنا فون چیک نہ کریں تو ناقابلِ یقین حد تک بے چین ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنا سماجی تعلق ٹوٹتا محسوس کرتے ہیں۔ وہ اپنا فون یوں ساتھ لیے پھرتے ہیں، جیسے لوگ اپنے کتے ہوائی جہازوں میں لیے پھرتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ لوگ جو ہر وقت ای میل اور پیغامات دیکھتے رہتے ہیں خود کو بہت اچھا اور کامیاب employee سمجھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں ہر وقت ہر معلومات کی فوری خبر ہوجائے، یوں وہ سب سے آگے نکل جائیں گے، ورنہ ناکام تصور کیے جائیں گے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بہت سے دوست پوری مووی سیدھی طرح بیٹھ کرنہیں دیکھ سکتے، وہ بے چین رہتے ہیں، بار بار اسمارٹ فون نکالتے ہیں۔ ایسے بھی لوگ ہیں جو کھانے کے دوران پلیٹ کے برابر میں اسمارٹ فون رکھتے ہیں، اس کے بغیرکھانا ختم نہیں ہوتا۔
یہ ہرجگہ ہورہا ہے، ہروقت ہورہا ہے۔ یوں یہ معاشرے کا رواج بن گیا ہے۔ توجہ کا انتشار معمول بن رہا ہے، قابلِ قبول ہورہا ہے۔ یوں ہم سب اس کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔
مستقبل؟
میرا ایک خواب ہے دوستو! ایک ایسی دنیا کا خواب، جہاں لوگ دیر تک بیٹھ کر باہم طویل گفتگو کرسکیں۔ جہاں پلاسٹک اسکرین پر نگاہ ڈالے بغیر زندگی پر دیر تک بھرپور نظر ڈالی جاسکے۔ ایک ایسی دنیا ہو جہاں ہماری ٹیکنالوجی ہمارے اختیار میں ہو۔ اسمارٹ فون اور دیگر آلات ہماری روزمرہ مصروفیات کا ضمنی حصہ ہوں۔ ایک ایسی دنیا جہاں لوگ اپنی توجہ کے مالک ہوں، اسے ایک ایسی نعمت سمجھیں جس سے بہتر سے بہتر انداز میں استفادہ کیا جاسکے۔ توجہ پر بھی جسمانی صحت اور تعلیم جیسی توجہ دی جاسکے۔ ایک ایسی دنیا جو اسکرین کی قید سے آزاد ہو!