محسنِ انسانیت حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمتِ مسلمہ کو جسدِ واحد یعنی ایک جسم قرار دیا ہے، جس کے اگر کسی ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے اور بے چین ہوجاتا ہے۔ قرآنِ حکیم میں بھی مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور باہم تفرقے کا شکار نہ ہو۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ نے بھی اسی بات کو اپنے انداز میں یوں بیان کیا ہے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر
مگر خود والیانِ حرم کی بے توفیقی کا عالم کیا ہے، اس کا رونا روتے ہوئے اقبالؒ ہی نے فرمایا تھا کہ
حرم رسوا ہوا، پیر حرم کی کم نگاہی سے
امتِ مسلمہ، بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں امتِ مرحومہ حال ہی میں حج اور عیدالاضحی سے فارغ ہوئی ہے۔ حج کے موقع پر دنیا بھر سے مسلمان اپنے رب کی رضا کے حصول کے لیے میدانِ عرفات میں جمع ہوئے۔ اس موقع پر مسجدِ نمرہ سے خطبۂ حج دیا گیا جسے دنیا بھر میں ذرائع ابلاغ سے نشر کیا گیا۔ اس خطبے میں الشیخ محمد بن حسن نے مسلمانوں کو دنیا جہاں کی نصیحتیں کیں۔ قرآن کے احکام اور رسولِ رحمتؐ کا پیغام بھی سنایا۔ ان سطور کے آغاز میں درج حدیثِ مبارکہ اور قرآنی آیت کا حوالہ بھی دیا کہ مسلم امہ ایک جسم کی مانند ہے۔ پورا خطبہ پڑھ جائیے، ایک ایک جملے میں مسلمانوں کو نیک بننے، رب کی بندگی اور رسول اکرمؐ کی اطاعت کی تلقین آپ کو ملے گی۔ اسلام میں مساوات و برابری کا درس بھی اس خطبے میں موجود ہے اور اس مقصد کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبۂ حجۃ الوداع کا حوالہ دیتے امام صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اسلام میں عزت کی بنیاد رنگ و نسل نہیں، بلکہ عزت والا وہ ہے جو متقی و پرہیزگار ہے۔ اسلام ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے کہ گورے اور کالے، اور امیر و غریب کسی کو کوئی برتری حاصل نہیں۔ تاہم امامِ محترم یہ جملہ نہ جانے کیوں فراموش کرگئے کہ دین میں عربی اور عجمی کو بھی ایک دوسرے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔
میدانِ عرفات کا یہ خطبۂ حج محض امام و خطیب کی رائے نہیں ہوتی، بلکہ اسے خادم حرمین شریفین کی ریاستی پالیسی تصور کیا جاتا ہے۔ چناں چہ یہ بات زیادہ تکلیف اور اذیت کا باعث ہے کہ اس خطبے میں پوری امت کے ایک جسم ہونے کی حدیث تو سنائی گئی، مگر اس جسم کے تکلیف میں مبتلا حصوں فلسطین، کشمیر، روہنگیا، شام وغیرہ وغیرہ کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم رکوانے کے لیے کسی لائحہ عمل کا اعلان، کسی سوچ و فکر کا اظہار، ظالموں کی مذمت، مظلوموں سے اظہارِ یکجہتی بھی نہ سہی، کم از کم ان مظلومین کے حق میں دعا کے چند جملے ہی کہہ دیے جاتے۔ مگر یہاں تو پورے خطبے میں ان مظلومین میں سے کسی کا ذکر تک نہیں کیا گیا، نام تک لینا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ گویا اِن مظلوم و مجبور مسلمانوں کا وجود و عدم وجود ہمارے شیخین کے نزدیک برابر ہے۔
ہم تو توقع لگائے بیٹھے تھے کہ ہم نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مسلح افواج کے سابق سالار کی قیادت و سربراہی میں 41 اسلامی ممالک کا جو فوجی اتحاد تشکیل دیا تھا وہ فلسطین کے بے گناہ بچوں اور کشمیر کی معصوم بہنوں کی عزت و آبرو اور جان و مال کے تحفظ کے لیے فوری حرکت میں آئے گا، اور اسرائیل اور بھارت جیسے ازلی اسلام دشمن ممالک کی فوج کو ایسا سبق سکھایا جائے گا کہ آئندہ وہ کبھی نہتے مسلمانوں پر چڑھائی کے بارے میں سوچیں گے بھی نہیں۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی اُلٹ ہوگیا۔ عین اُس روز جب پاکستان کے عوام اپنے یوم آزادی پر بھارتی فوج کے ظلم و ستم کے شکار مقبوضہ کشمیر میں محصور مسلمانوں سے محض زبانی اور جذباتی اظہارِ یکجہتی کررہے تھے تو اہلِ پاکستان کو یہ نوشتۂ دیوار پڑھنے پر مجبور کیا گیا کہ کون سی مسلم امہ اور کیسا اسلامی بھائی چارہ… اصل اہمیت تو مالی مفادات کی ہے۔ چناں چہ سعودی عرب کی بڑی کمپنی آرامکو نے بھارت میں تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کرنے کا معاہدہ کیا ہے جس کے مطابق آرامکو 24 کھرب 3 ارب روپے کے مساوی ڈالر کی سرمایہ کاری بھارت میں کرے گی۔ بھارت کے سب سے بڑے صنعت کار مکیش امبانی اس سرمایہ کاری میں بیس فی صد کے حصے دار ہوں گے۔ مکیش امبانی کے ریلائنس گروپ کی جمناگر ریفائنری روزانہ پانچ لاکھ بیرل خام تیل خریدے گی اور آرامکو اس کی بڑی حصے دار ہوگی۔ وقت کے ساتھ ساتھ بھارت ایک کروڑ بیرل تک تیل صاف کرنے کے قابل ہوجائے گا اور آرامکو کی یہ سرمایہ کاری بڑھ کر 32 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
اس صورتِ حال پر سوائے ماتم کے اور کیا کیا جاسکتا ہے! مخبرِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ارشاد ہے کہ ایک وقت آئے گا جب کافر مسلمانوں پر ایسے حملہ آور ہوں گے جیسے بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے استفسار کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اُس وقت مسلمان تعداد میں کم ہوں گے؟ ارشاد فرمایا: نہیں، بلکہ ان کی تعداد ریت کے ذروں کی طرح بہت زیادہ ہوگی۔ پھر پوچھا گیا کہ کفار کے اس قدر دلیر ہونے کا سبب تب کیا ہوگا؟ فرمایا: مسلمان وہن (کمزوری و بزدلی) کی بیماری کے شکار ہوجائیں گے۔ مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان آج کس قدر سچ ثابت ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ امتِ مسلمہ پر رحم فرمائے۔ مایوسی گناہ ہے، مگر اس وقت حالت یہ ہے کہ
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
(حامد ریاض ڈوگر)