کشمیر:درست فیصلوں کی گھڑی

بھارت کشمیر کو ہڑپ کرنے کے لیے ایک طویل المیعاد منصوبہ رکھتا ہے

قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات کے جواب میں پانچ اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ان فیصلوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کا درجہ کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے تحت اسلام آباد میں موجود بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ گھر کی راہ لیں اور پاکستان اپنے نامزد ہائی کمشنر کو بھارت نہیں بھیجے گا۔ بھارت کے ساتھ تجارت بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور لائن آف کنٹرول اور واہگہ بارڈر پر تجارت بند رہے گی۔ مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل سمیت ہر فورم پر اُٹھایا جائے گا۔ دوطرفہ معاہدوں پر نظرثانی کی جائے گی۔ چودہ اگست کو کشمیریوں کے ساتھ یومِ یکجہتی اور پندرہ اگست کو یوم سیاہ منایا جائے گا۔ سرحدوں پر فوج ہمہ وقت چوکس یعنی حالتِ جنگ میں رہے گی۔ دوسرے روز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سمجھوتا ایکسپریس بند کیے جانے کا اعلان بھی کیا۔
پاکستان نے ان فیصلوں کے ذریعے اپنا ردعمل اور لائحہ عمل واضح کردیا ہے۔ اب ان فیصلوں پر سختی سے عمل درآمد کا مرحلہ آئے گا۔ ان میں سے کوئی ایک فیصلہ بھی غیر مؤثر ثابت ہوا تو ریاست پاکستان کا مذاق بن جائے گا اور بھارت مزید ڈھٹائی کے ساتھ کشمیر میں رقصِ ابلیس جاری رکھے گا۔ ان فیصلوں پر عمل درآمد میں کمی کا تو سوچا بھی نہیں جانا چاہیے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر عملی اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ تیر بھارت کے کمان سے نکل چکا ہے اور اب بھارت کو جوابی وار کا انتظار ہے۔ پاکستان، عالمی برادری اور اداروں کے ردعمل، اور خود مقبوضہ علاقے کے عوام کے ردعمل کے نتائج کا بھارت شدت سے منتظر ہے۔ پاکستان اور کشمیریوں کا ردعمل تو شاید متوقع ہی تھا، مگر دنیا جس طرح مودی کی ہاں میں ہاں ملانے کے بجائے ذومعنی قسم کے ڈپلومیٹک جملے دہرا رہی ہے وہ مودی کے لیے حیران کن ہیں۔ وادی تو واقعی ایک جیل کا منظر پیش کررہی ہے۔ پاکستان پوری قوت سے بھارتی فیصلے کی مزاحمت اور مخالفت کررہا ہے۔ چین کا ردعمل ایک فریق جیسا ہے، اور اقصائے چن پر کنٹرول نے چین کو پاکستان اور بھارت کے ساتھ ساتھ مسئلے کا تیسرا فریق بنادیا ہے۔ اقوام متحدہ سمیت کوئی بھی اس اقدام کو بھارت کا اندرونی معاملہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں، کیونکہ اس مسئلے کی ایک طویل تاریخ سے سبھی آگاہ ہیں۔ بھارت اب کشمیر میں حالات کو نارمل ظاہر کرنے کے لیے اپنا بھرپور زور لگائے گا۔ مقامی جماعتوں کے اندر توڑ پھوڑ کرکے اس فیصلے کو عوامی حمایت دلانے کی کوشش کرے گا، تاکہ مسئلہ ایک بار پھر سرد ہو اور دنیا کا فوکس کشمیر سے ہٹ جائے، اور بھارت اپنے اصل منصوبے یعنی آبادی کے تناسب کی تبدیلی کو بلا خوف و خطر روبہ عمل لائے۔ قومی سلامتی سے متعلق بھارت کے مشیر اجیت دووال نے جس بھونڈے انداز سے بند دکانوں کے آگے اور سنسان سڑکوں کے درمیان کھڑے ہوکر کھانے کے ذریعے کشمیر میں نارملسی اور اپنے پُراعتماد ہونے کا تاثر دیا یہ پہلی مضحکہ خیز حرکت نہیں، تاریخ کے ہر دور میں اور کشمیر کی داستانِ مزاحمت کے ہر ورق پر بند بازاروں اور سائیں سائیں کرتی سڑکوں پر گھوم کر دہلی سے آنے والے حکمران کشمیر میں نارملسی اور اپنے پُراعتماد ہونے کا تاثر دیتے رہے ہیں۔ بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35-A کشمیریوں کے لیے ایک چیتھڑے سے زیادہ حیثیت کی حامل نہیں رہیں۔ کشمیر کا آئین بھی ایک منحوس دستاویز کے سوا کچھ نہیں تھا جس میں کشمیر پر بھارت کے قبضے کو جواز بخشا گیا ہے۔ بھارتی آئین کی ان شقوں میں اگر کشمیریوں کے لیے کوئی خیر کا پہلو تھا بھی، تو بھارت نے ابتدائی زمانے میں ہی اسے بے روح بنا دیا تھا۔ اب سارے معاملے میں خیر کا صرف ایک پہلو تھا، وہ تھا مہاراجا ہری سنگھ کا منظور کردہ باشندۂ ریاست جموں وکشمیر کا قانون، جس کے تحت کوئی غیر ریاستی باشندہ زمین، جائداد نہیں خرید سکتا۔مہاراجا نے یہ قانون اُس وقت کشمیری ہندوئوں کے مطالبے پر بنایا تھا، جن کو خوف تھا کہ لاہور اور امرتسر سے مسلمان ریاست میں آکر ملازمتوں اور کاروبار پر قابض ہوجائیں گے۔ آج جب اس قانون کو ختم کیا گیا تو سب سے زیادہ مسلمان اس خوف کا شکار ہیں کہ ٹاٹا اور برلا جیسے بھارتی سرمایہ کار ادارے کشمیر کی زمین پر قابض ہوجائیں گے اور بھارت کے مختلف علاقوں سے ہندو حیلوں بہانوں سے کشمیر میں آکر آبادی کا تناسب تبدیل کردیں گے۔
اب یہی ایک شق بھارتیوں کے نشانے پر تھی۔آزادی پسندوں کے لیے یہ کبھی مسئلہ نہیں رہا کہ سری نگر کے حکمران کو وزیراعظم کہا جائے،گورنر یا وزیراعلیٰ۔ اصل مسئلہ کشمیر پر بھارتی قبضہ ہے۔ بھارت کو سانس لینے کا موقع ملا تو وہ آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد کرے گا۔ یہیں سے پاکستان کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے۔ پاکستان کو تمام سفارتی ذرائع استعمال کرکے بھارت کو اپنے اصل منصوبے سے باز رکھنا ہوگا۔ حکومتِ پاکستان کے ان فیصلوں میں بھارت کے تمام تر اقدامات اور کوششوں کا مؤثر جواب موجود ہے۔
مسئلہ کشمیر کو دہائیوں تک زندہ رکھنے کے دو محرکات ہیں، جن میں پہلا محرک کشمیری عوام کا جذبہ ٔ آزادی ہے جسے کچلنے کے لیے بھارت نے طاقت کا بے محابا استعمال کیا۔ کبھی فوج کی تعداد بڑھاکر، تو کبھی سستا راشن دے کر اور پیسے کو پانی کی طرح بہاکر کشمیریوں کا یہ جذبہ سرد کرنے کی کوشش کی۔ کشمیریوں کے ذہن بدلنے کے لیے بھارت نے ہر حربہ اپنایا، مگر 71 برس بعد بھی بھارت کی کشمیر میں اور کشمیریوں کے نزدیک حیثیت قابض اور جارح کی ہے۔ حالیہ فیصلے سے بھارت نے اپنے قابض ہونے کا عملی مظاہرہ کردیا۔ جو تھوڑا بہت حجاب اور پردہ تھا بھارت اسے جھٹک کر برہنہ حالت میں دنیا کے سامنے آگیا۔ اب بھارت کشمیر پر اپنے قبضے کو قانون اور آئین کی موشگافیوں میں لپیٹ نہیں سکے گا۔
مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے کا دوسرا محرک پاکستان کا وجود اور کردار ہے۔ کشمیریوں نے پنجرے کے اندر محبوس پرندے کی مانند پھڑپھڑاہٹ جاری رکھی تو پاکستان اس پنجرے سے باہر اس پھڑپھڑاہٹ پر شورو غل مچاتا رہا، جس سے کشمیریوں کو یہ احساس رہا کہ دنیا میں ان کا ایک وکیل اور معاون ملک پاکستان کی صورت میں موجود ہے۔ پاکستان کی موجودگی کا احساس کشمیریوں کے لیے ایک نفسیاتی سہارا رہا ہے۔ اس نفسیاتی سہارے نے انہیں بھارت کے آگے کبھی سرینڈر نہیں ہونے دیا۔ مشکل کی کسی بھی گھڑی میں کشمیری عوام پاکستان کی جانب دیکھتے ہیں۔ پاکستان نے اپنی کمزوریوں، مشکلات اور مسائل کے باوجود کشمیریوں کے جذبات اور احساسات کا لحاظ کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت نے پاکستان کو دولخت کرکے کشمیریوں کو بھارت کے آگے خود سپردگی پر مجبور کرنے کی کوشش کی تھی، مگر کشمیریوں نے اس حادثے کے بعد نئی تگ وتاز کے ساتھ جدوجہد شروع کی اور رواں تحریک اسی کا نتیجہ ہے۔
بھارت نے پچھلے ماہ وسال میں ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ پاکستان کو معاشی اعتبار سے کمزور کرنے کی کوشش کی۔ دہشت گردی کو ہوا دی گئی تاکہ پاکستان تنگ آکرکنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرلے، اور یوں کشمیر کو ’’آدھا تمھارا آدھا ہمارا‘‘ کے اصول کے تحت بانٹ دیا جائے اور وادی کشمیر پر بھارت کے قبضے کو دوام بخشا جائے۔ پاکستان نے اس مشکل صورتِ حال میں بھی کشمیریوں کی حمایت جاری رکھی، اور اس دور میں کشمیر میں برہان وانی جیسے مقبول کردار اُبھرے۔
آج بھارت نے کشمیر کو ایک جیل میں بدل ڈالاہے۔ طاقت کا ٹائی ٹینک کشمیر میں عوامی جذبات کے آئس برگ سے ٹکرانے کو ہے۔ جو بات پہلے سید علی گیلانی، یاسین ملک اور میرواعظ عمر فاروق کرتے تھے، آج محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کررہے ہیں۔ آج آزادی پسندوں اور روایتی سیاست دانوں کی تخصیص ختم ہوچکی ہے اور سب لوگ نظربند اور گرفتار ہیں۔ اس عالم میں پاکستان کی عسکری قیادت کا کشمیریوں کے ساتھ کھڑے رہنے کا عزم بتا رہا ہے کہ بھارت کشمیر کو نگل تو چکا ہے مگر وہ اسے ہضم نہیں کرسکے گا۔ ایک دن وہ اُلٹی کرکے اس ناقابلِ ہضم شے کو اُگل دینے پر مجبور ہوگا۔ کشمیر پر قبضہ اس کے لیے ہمیشہ کی طرح اب بھی گراں ہی رہے گا، اور اسے یہ قیمت ادا کرتے چلے جانا ہے جب تک کہ دہلی میں عقل وخرد کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی، جس کا دوردور تک امکان نہیں۔
بھارت کشمیر کو ہڑپ کرنے کے لیے ایک طویل المیعاد منصوبہ رکھتا ہے۔ ’’ہزاروں لغرشیں حائل ہیں لب تک جام آنے میں‘‘کے مصداق ابھی اس منصوبے کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ ان رکاوٹوں کو ہٹاتے ہٹاتے نہ صرف یہ کہ خود بھارت زخم زخم ہوگا بلکہ خداجانے جنوبی ایشیا کس حال کو پہنچے؟