ماہِ اگست کے آغاز سے ہی مقبوضہ کشمیر سمیت سارے پاکستان میں یومِ آزادی کے حوالے سے ایک خاص فضا طاری ہے۔ گھروں پر سبز ہلالی پرچم لہرا رہے ہیں، تو بچوں نے محلوں کو جھنڈیوں سے سجایا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے اس ملک کے حکمرانوں اور مقتدرہ نے نئی نسل کو جان بوجھ کر تاریخ اور نظریۂ پاکستان سے لاعلم رکھا ہے۔ بیکن ہائوس اور سٹی اسکول میں پڑھنے والے بہت سے بچوں کو تو شاید یہ معلوم بھی نہ ہو کہ بنگلہ دیش نہ صرف پاکستان کا حصہ تھا بلکہ تقسیمِ ہند اور تحریکِ پاکستان کا آغاز ڈھاکا، چاٹگام، جیسور، نواکھالی اور کھلنا سے ہی ہوا تھا۔ یہ بات ممکن ہے کہ بہت سے ’’محبِ وطن‘‘ پاکستانیوں کو بری لگے لیکن یہ بہرحال ایک حقیقت ہے کہ آج بھی نظریۂ پاکستان کے لیے جو وارفتگی بنگالی مسلمانوں میں پائی جاتی ہے اس کی مثال کراچی، لاہور و اسلام آباد میں نہیں ملتی۔ کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے کے خلاف پاکستان میں عوامی سطح پر خاموشی رہی لیکن بنگلہ دیش کے طول وعرض میں بھارت کے خلاف جلوس نکالے گئے۔ اسلامی چھاترو شبر نے جامعہ ڈھاکا میں زبردست مظاہرہ کیا جہاں ہزاروں طلبہ نے ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگائے۔
قیامِ بنگلہ دیش کے بعد پاکستان کے حامیوں کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا گیا، اور سیاسی رہنما پھانسی چڑھائے گئے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ پاکستان سے محبت کی پاداش میں جن رہنمائوں کو تختۂ دار پر کھینچا گیا ان سب کا تعلق جماعت اسلامی سے نہیں تھا، بلکہ بہت سے مسلم لیگی، مولوی فرید کی نظام اسلام پارٹی، حتیٰ کہ عوامی لیگ سے وابستہ افراد بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے پھندے پر جھول گئے۔
مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زیادہ افراد پر پاکستان سے محبت کے مقدمات قائم ہوئے، جن میں 17 سال کے نوخیز سے لے کر 95 برس کے بزرگ شامل ہیں، لیکن کسی ایک نے بھی پاکستان سے وفاداری پر نہ تو شرمساری کا اظہار کیا اور نہ جان اور قیدو بند کے خوف سے معافی طلب کی۔ متحدہ پاکستان کے اسپیکر فضل القادر چودھری کے صاحب زادے اور خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے رہنما صلاح الدین چودھری کو جماعت اسلامی کے رہنما علی احسن مجاہد کے ساتھ موت کی سزا سنائی گئی۔ عدالت سے باہر نکلتے ہوئے جب کسی صحافی نے اُن سے ردعمل پوچھا تو چودھری صاحب نے کہا کہ ’’مجھے پاکستان سے اتنی محبت پہلے نہیں تھی لیکن مقدمے کی کارروائی کے بعد مجھے پاکستان سے عشق ہوگیا ہے‘‘۔ جب انھیں مجاہد صاحب کے ہمراہ لٹکانے کے لیے پھانسی گھاٹ لے جایا جارہا تھا تو انھوں نے ایک بار پھر یہی بات دہرائی اور کہا کہ میں زندگی میں پاکستان سے اپنی محبت کا حق ادا نہ کرسکا لیکن قدرت نے مجھے اپنے عشق کے اظہار کا موقع فراہم کردیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ کے کئی اہم سنگِ میل اور مقدس نشانیاں مشرقی پاکستان میں ہیں۔ جامعہ ڈھاکا اور اس سے متصل عظیم الشان میدان ہماری تاریخ کا امین ہے، اور تاریخی اہمیت کے اعتبار سے یہ لاہور کے مینارِ پاکستان کا ہم پلہ ہے۔ دورِ غلامی میں یہ میدان گورے سپاہیوں کا عشرت کدہ تھا۔ قریب ہی ہندو دیوی رمنا کالی بائی کا مندر ہے جس کی مناسبت سے اسے رمنا ریس کورس اور رمنا جم خانہ کہا جاتا تھا۔ جب اسلام آباد کی تعمیر کا آغاز ہوا تو مکمل ہونے والے پہلے سیکٹر کا نام رمنا ہی رکھا گیا جو اب G سیکٹر کہلاتا ہے۔ آزادی کے بعد اسلامی جمہوریہ نے جوئے کو ایک کھیل کے طور پر تسلیم کرلیا اور اس میدان کو گھوڑے دوڑانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا، تب اس کا نام ڈھاکا ریس کورس پڑگیا۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد اسے سہروردی میدان کا نام دے دیا گیا۔ قراردادِ پاکستان پیش کرنے والے شیرِ بنگال ابوالقاسم فضل حق، پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل اور وزیراعظم خواجہ ناظم الدین، اور سابق وزیراعظم و بانی عوامی لیگ حسین شہید سہروردی یہیں آسودۂ خاک ہیں۔
1969ء میں یہاں شیخ مجیب الرحمان نے اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کا آغاز کیا جس میں انھیں بنگلہ بندھو کا خطاب عطا ہوا، اور مارچ 1971ء میں اسی میدان سے آزادی کا اعلان کیا گیا۔ اور پھر اسی مقام سے پاکستانی فوج نے مکتی باہنی کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا۔ یہ لکھتے ہوئے قلم کانپتا ہے کہ یہیں 16دسمبر 1971ء کوکالی مائی مندر کے سامنے اس ذلت آمیز دستاویز پر دستخط کیے گئے جسے سقوطِ ڈھاکا کہا جاتا ہے۔ مارچ 1972ء میں اسی میدان میں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اندراگاندھی نے دعویٰ کیا تھاکہ دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہوگیا ہے۔ کاش شیخی بگھارنے والی برہمن زادی آج زندہ ہوتی تو 6 اگست 2019ء کو جامعہ ڈھاکا سے بلند ہوتے ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے سن کر اُسے یقین آجاتا کہ سقوطِ ڈھاکا کے اڑتالیس سال بعد بھی دوقومی نظریہ نہ صرف زندہ ہے بلکہ بنگالی و کشمیری شہدا کے تازہ لہو نے اسے اور بھی تاب دار کردیا ہے۔
اس میدان کی مٹی سے جہاں ہمارے بزرگوں نے اپنی مٹی ملائی، وہیں 15 اگست 1969ء کو ایک سجیلے اور کڑیل نوجوان نے اسے اپنے پاکیزہ لہو سے سیراب کیا۔ سونار بنگلہ کے اس شہزادے کا نام عبدالمالک شہید ہے جس نے پاکستان میں سب سے پہلے اسلامی و نظریاتی نظامِ تعلیم کا نعرہ بلند کیا۔ 22 سال کے اس سجیلے نوجوان کا گرم لہو اس خونریز بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا جو نصف صدی سے جاری ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے اس میں مزید شدت آگئی ہے۔ عجیب بات کہ نہ تو دستِ قاتل میں تھکن کے آثار ہیں اور نہ ہی سینہ و سر کی فراہمی میں کوئی کمی۔ سہروردی میدان سے بلند ہونے والے اس علَم کو بنگالی عشاق کسی طور سرنگوں کرنے کو تیار نہیں۔ آج بنگلہ دیش کی ہر گلی اور ڈھاکا جیل کی ہر کوٹھری شہدا کے لہو سے جگمگا رہی ہے۔ یہ اور بات کہ پاکستان اور اہلِ پاکستان کو اپنے ان عاشقوں کی نہ کوئی پروا ہے اور نہ خبر۔
بوگرہ کے ایک غریب لیکن خوددار عالمِ دین کے گھر پیدا ہونے والے عبدالمالک پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹے اور اپنی اکلوتی بہن کے چہیتے تھے، اورگھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی بنا پر عائشہ عبدالمالک کی لاڈلی تھی۔ ذہین، محنتی اور گفتگو و تقریر کے ماہر عبدالمالک جامعہ ڈھاکا میں بائیوکیمسٹری کے تیسرے سال کے طالب علم تھے اور تینوں سال انھوں نے ٹاپ کیا تھا۔ سلیم الطبع اور بذلہ سنج عبدالمالک اسکول کے زمانے ہی سے اسلامی چھاترو شنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ) سے وابستہ ہوگئے اور شہادت کے وقت وہ ڈھاکا شہر کے ناظم اور جمعیت کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن تھے۔ یحییٰ حکومت نے نظام تعلیم میں اصلاح اور نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے ماہرینِ تعلیم کا ایک بورڈ تشکیل دیا جس کے سربراہ مغربی پاکستان کے گورنر ائرمارشل نورخان تھے، اور اسی مناسبت سے یہ ادارہ بعد میں نورخان کمیشن کہلایا۔
نورخان کمیشن نے پاکستانی نظام تعلیم کے نام سے کچھ سفارشات مرتب کیں جن پر ملک بھر کی جامعات میں بحث کی گئی۔ اسی سلسلے میں ایک مباحثہ جامعہ ڈھاکا میں منعقد ہوا۔ 12 اگست 1969ء کو اساتذہ، طلبہ مرکز میں ہونے والے اس مباحثے کا اہتمام جامعہ کی انتظامیہ نے کیا تھا، لیکن سارے کا سارا انتظام عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ کو سونپ دیا گیا جس نے چن چن کر سیکولر اور دین بیزار دانشوروں کو مدعو کیا، جن کی بڑی تعداد ہندو دانشوروں کی تھی۔ تاہم غیر جانب داری کا بھرم رکھنے کے لیے اسلامی چھاترو شنگھو کے عبدالمالک کا نام بھی مقررین کی فہرست میں شامل تھا۔ تقریب کے آغاز سے ہی چھاترو لیگ کے کارکنوں نے امار دیش تمار دیش بنگلہ دیش بنگلہ دیش، ملا ازم مُردہ باد، اسلام کے نام پر اسلام آباد کی غلامی نامنظور کے فلک شگاف نعرے لگاکر سماں باندھ دیا۔ افتتاحی خطاب ہی سے دین بیزاری کا پہلو نمایاں تھا۔ ہر مقرر سیکولر نظامِ تعلیم کے حق میں دلائل دے رہا تھا اور ہال میں موجود اسلام پسند اساتذہ اور طلبہ سہمے ہوئے تھے۔
سب سے آخر میں جب عبدالمالک کا نام پکارا گیا تو ہال میں مُردہ باد، نامنظور، ملّاگیری نہیں چلے گی کے نعروں سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ سیٹیاں اور فرش پر جوتے گھسنے کی آوازیں اس کے علاوہ تھیں۔ اس طوفانِ بدتمیزی میں عبدالمالک اسٹیج پر آئے اور بلند آواز میں اللہ کی تسبیح سے گفتگو کا آغاز کیا۔ شہید نے اپنے رب کی عظمت کچھ ایسے جلالی لہجے میں بیان کی کہ حاضرین پر سکوت طاری ہوگیا۔ آقاؐکے حضور درود کا نذرانہ پیش کرکے عبدالمالک نے کہا کہ جنابِ صدر! پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور اس کا نظامِ تعلیم اسی نظریے کا ترجمان ہونا چاہیے۔ عبدالمالک نے دھیمے مگر پُروقار لہجے میں کہا کہ ’’نصابی کتب محض تحریروں کے مجموعے کا نام نہیں، اور نہ ہی بے جان عمارتوں کو جامعات کہا جاسکتا ہے۔ تعلیمی نظام دراصل مستقبل کی صورت گری کا دوسرا نام ہے، یہ اس عزم کا مظہر ہے کہ ہم اپنا مستقبل کس انداز میں تراشنا چاہتے ہیں۔ اسی بے سمت اور بے مقصد نظام تعلیم کا نتیجہ ہے کہ آج ڈاکٹروں کے ہاتھ اپنے مریض کی نبض سے پہلے اس کی جیب ٹٹولتے ہیں۔ ہماری جامعات سے فارغ التحصیل ہونے والے منیجر قومی اثاثوں کی نشوونما سے زیادہ اپنی تنخواہوں اور مراعات کے پیکیج تشکیل دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہمارے وکلا معاشرے کے مظلوموں کی پشتی بانی کے بجائے ظالم کے حق میں جھوٹی شہادتیں جمع کرنے پر اپنا وقت صرف کرتے ہیں‘‘۔ عبدالمالک نے کہا کہ ’’اسکول آغوشِ مادر کا تسلسل ہے، جامعات کا بنیادی کام کردار سازی ہے، اور اقدار و نظریے کے بغیر کردار سازی ممکن نہیں۔ سیکولرازم ایک خلا ہے جس میں نہ عمارت بن سکتی ہے اور نہ خلا میں کردار کی تعمیر ممکن ہے‘‘۔ عبدالمالک کی دلائل سے مزین تقریر نے ہال پر سحر طاری کردیا۔ اسی دوران کسی نوجوان نے نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ جواب میں اللہ اکبر اور اسلامی انقلاب کے نعروں سے سارا ہال گونج اٹھا۔ عبدالمالک کی تقریر کے بعد مجمع نے زوردار تالیاں بجاکر انھیں خراجِ تحسین پیش کیا اور ایک بار پھر اسلامی انقلاب کے نعرے بلند ہوئے۔
منتظمین کو صورتِ حال کا اندازہ ہوگیا تھا، چنانچہ قرارداد پر رائے شماری کے بغیر ہی تقریب کے اختتام کا اعلان کردیا گیا۔ عبدالمالک واپس جانے کے لیے جیسے ہی یونیورسٹی سے باہر نکلے، پہلے سے موجود چھاترو لیگ کے غنڈوں نے انھیں گھیر لیا اور دھکیلتے ہوئے انھیں سہروردی میدان لے گئے۔ ہاکیوں، سریوں اور ڈنڈوں سے لہولہان کرنے کے بعد اینٹوں سے ان کا سرکچل دیا گیا۔ بے دم عبدالمالک کو جب اسپتال پہنچایا گیا اُس وقت ہی ڈاکٹر ان کی زندگی سے مایوس ہوچکے تھے اور اکھڑتی سانسوں کے سوا زندگی کے کوئی آثار نہ تھے۔
15 اگست کی صبح اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر بسوال چند عرف چنوں میاں نے عبدالمالک کی شہادت کا اعلان کیا۔ جب اُن سے موت کی وجہ پوچھی گئی تو چنوں میاں نے عبدالمالک کی کروشیا سے بنی ٹوپی فضا میں لہراتے ہوئے کہا کہ بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ اسپتال آنے سے پہلے ہی عملاً فوت ہوچکے تھے۔ عبدالمالک کی ٹوپی سے خون ٹپک رہا تھا اور بعض عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ شہید کے بھیجے کے کچھ ریشے ٹوپی سے چپکے نظر آرہے تھے۔ یہ اعلان کرتے ہوئے ڈاکٹر چنوں میاں کے چہرے سے خوشی پھوٹی پڑتی تھی۔ عجیب اتفاق کہ جس اسپتال میں عبدالمالک نے دم توڑا، وہیں اکتوبر 2014ء میں سابق امیر جماعت اسلامی مشرقی پاکستان پروفیسر غلام اعظم اپنے رب سے جاملے۔ 1969ء میں اس ادارے کا نام انسٹی ٹیوٹ آف پوسٹ گریجویٹ میڈیسن اینڈ ریسرچ (ڈھاکا میڈیکل کالج) تھا، قیامِ بنگلہ دیش کے بعد انسٹی ٹیوٹ کو جامعہ کا درجہ دے کر اسے بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمان میڈیکل یونیورسٹی بنادیا گیا۔ اس بار جب جامعہ کے وائس چانسلر ڈاکٹر پران گوپال دتہ نے اعلان کیا کہ ’’قومی مجرم پروفیسر غلام اعظم کو دل کا شدید دورہ پڑا ہے اور انھیں مصنوعی تنفس فراہم کیا جارہا ہے‘‘ تو ان کے ہونٹوں پر بھی وہی مسکراہٹ تھی جو 45 سال قبل ڈاکٹر چنوں میاں کے مکروہ چہرے پر کھیل رہی تھی۔
اس قتل کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ شہر کی انتظامیہ تو ایک طرف، صوبے کے فوجی گورنر بھی اگر ملوث نہیں تو بے اختیار ضرور محسوس ہوئے۔ پروفیسر غلام اعظم مرحوم نے میجر جنرل مظفرالدین سے خود ملاقات کی۔ یہ قتل دن دہاڑے ہوا تھا اور تصویروں میں حملہ آور صاف پہچانے جاتے تھے، لیکن بات چیت کے دوران گورنر صاحب اپنے اختیارات کا رونا روتے رہے، انھوں نے پروفیسر صاحب سے اس خدشے کا اظہار کیا کہ انھیں بہت جلد برطرف کیا جانے والا ہے۔ اور حقیقتاً ہوا بھی ایسا ہی کہ ایک ہفتے بعد موصوف سبک دوش کردیے گئے، اور صاحبزادہ یعقوب علی خان نے گورنری سنبھال لی۔ صاحبزادہ صاحب نے تحقیقات کا وعدہ کیا لیکن کوئی مؤثر FIR تک نہ کٹی۔ تھانے کے روزنامچے میں پورا واقعہ کچھ اس طرح درج تھا کہ ’’جھگڑے کے دوران جامعہ ڈھاکا کا ایک طالب علم عبدالمالک ہلاک ہوگیا‘‘۔ صرف ایک ماہ بعد صاحبزادہ صاحب کی جگہ وائس ایڈمرل سید محمد احسن نے گورنری سنبھال لی۔ ایڈمرل صاحب عوامی لیگ سے مرعوب اور انتہائی کمزور گورنر تھے، جن کے دور میں علیحدگی پسندوں اور قوم پرستوں کو کھلی آزادی نصیب ہوئی۔ جنوری 1970ء میں پلٹن میدان میں جماعت اسلامی کے پہلے انتخابی جلسے کو مسلح غنڈوں نے کھلے عام نشانہ بنایا۔ اس جلسے سے خطاب کرنے مولانا مودودی ڈھاکا آئے تھے، لیکن ان کے جلسہ گاہ میں پہنچنے سے پہلے ہی اسٹیج کو آگ لگادی گئی۔ پتھرائو اور ڈنڈوں سے جماعت کے درجنوں کارکن شہید اور کئی سو شدید زخمی ہوئے۔ پروفیسر غلام اعظم کی قیادت میں احتجاجی جلوس اسی وقت گورنر احسن کے گھر پہنچا لیکن کوئی کارروائی نہ ہوئی۔
عبدالمالک کے بہیمانہ قتل اور جماعت اسلامی کے جلسے کو کامیابی سے سبوتاژ کرکے عوامی لیگ اور سیکولر عناصر نے اپنی قوت کا لوہا منوالیا۔ جماعت اسلامی نے ریاستی جبر کے باوجود بہت کامیابی کے ساتھ انتخابی مہم چلائی اور اس جرأتِ رندانہ کی جماعت کے کارکنوں کو بھاری قیمت اداکرنی پڑی۔ ایک سال طویل انتخابی مہم کے دوران کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ، جلسے جلوسوں پر حملوں، بینر اتارنے اور پوسٹر پھاڑنے کے واقعات عام رہے اور درجنوں کارکن اپنی جان سے گئے۔ عبدالمالک کی شہادت کو نصف صدی گزرجانے کے باوجود ان کے بنگالی ساتھیوں نے فراموش نہیں کیا، اور اسلامی چھاترو شبر اب بھی پندرہ اگست کو یوم اسلامی نظام تعلیم کے طور پر مناتی ہے۔
………٭٭٭………
اب آپ مسعود ابدلی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم
masoodabdali.blogspot.com
پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔