پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے
محمد عاصم حفیظ
۔’’کشمیر بنے گا سوئٹزرلینڈ‘‘۔ جی قارئین آپ یہ جملہ سن کر ضرور چونکے ہوں گے۔ کیونکہ ہم نے بچپن سے اس کے الٹ ہی سنا ہے۔ ہم نے ہمیشہ سے ہی کشمیر کی آزادی کے خواب دیکھے ہیں اور اس کے لیے بے پناہ قربانیاں بھی دی ہیں۔ پاکستانی عوام تو ہمیشہ سے ہی کشمیر کے لیے مرمٹنے کے عزم کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے ہمارے حکمرانوں میں ایسا کوئی جذبہ نہیں دیکھا گیا۔ ان کی کشمیر پالیسی صرف چند روایتی جملوں تک محدود رہی ہے۔ عالمی طاقتوں کو اس حقیقت کا ادراک ہے، اور اسی لیے اب عالمی سامراجی قوتیں سمجھتی ہیں کہ وہ وقت قریب آچکا ہے جب وادی کشمیر کو ایک ایسا علاقہ بنادیا جائے جہاں سے مستقبل کے ایشیا کو کنٹرول کیا جاسکے۔ ایک خوبصورت علاقہ، کہ جس کی سرحدیں ایشیا کی تمام بڑی طاقتوں سے ملتی ہیں۔ چین، بھارت، پاکستان اور روس جیسی چار ایٹمی طاقتوں کے سنگم میں سامراجی مرکز۔ ایک یہی تو علاقہ ہے جہاں پر بیٹھ کر دنیا کی آئندہ قسمت لکھنے کا ارادہ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دورۂ امریکہ میں وزیراعظم عمران خان کے ساتھ نہ صرف کشمیر کے حوالے سے ثالثی کا اعلان کیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے خود ان سے درخواست کی ہے۔ دنیا پر خفیہ حکمرانی کرنے والے شہ دماغوں کا خیال ہے کہ کشمیر مستقبل کی سپر پاور بننے کا خواب دیکھنے والے چین کو قابو میں رکھنے کی ایک کنجی ہے۔ پاکستان کو عرب ممالک کی مدد سے یک دم چین، روس کے علاقائی اتحاد سے نکال کر امریکی بلاک کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے، ملکی معیشت اور عالمی معاملات مالیاتی اداروں کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش ہے۔ افغان مسئلے پر پاکستان کی حوصلہ افزائی، کئی برسوں سے بند امداد کی بحالی، امریکی صدر کی جانب سے ثالثی کا خوشنما ’’ٹریپ‘‘، عالمی اداروں کی جانب سے امداد کے اعلانات وغیرہ اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ آپ نے پاکستانی فوج کے لیے جدید آلات اور امریکی امداد میں اضافے کی خبریں تو ضرور پڑھی ہوں گی۔ جماعت الدعوہ، جیشِ محمد سمیت تمام تر جہادی تنظیموں کے خاتمے کے بعد ہی تو منزل آسان ہونا تھی، کیونکہ بندوقیں اٹھائے یہ دیوانے ضرور رنگ میں بھنگ ڈال سکتے تھے۔ کشمیریوں کی غیر مسلح اور جہادی دونوں طرح کی مزاحمت کو تو پہلے ہی دبا دیا گیا ہے۔ بھارت کی جانب سے لداخ کو باقاعدہ یونین کا حصہ بنانے اور کشمیر کی قانونی حیثیت میں تبدیلی مذاکرات میں حاوی رہنے کی کاوشیں ہیں۔ اب یہ مسئلہ پوری شدت سے اٹھے گا، ایٹمی جنگ کے خطرات پیدا ہوں گے اور پھر کردار شروع ہوگا امریکی ثالثی کی آفر اور اقوام متحدہ کا۔ کچھ عرصے بعد دنیا کا ’’معزز و منصف ترین ادارہ‘‘ اقوام متحدہ امن و آتشی کا جھنڈا لہرائے آئے گا اور کشمیر میں استصوابِ رائے کرایا جائے گا۔ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر یعنی پوری وادی میں ہونے والے اس الیکشن کو انٹرنیشنل امن افواج کی زیر نگرانی کرایا جائے گا۔ پاکستان کو عالمی دبائو پر اسے تسلیم کرنا ہوگا، جبکہ عوام کو بھی یقین دلایا جائے گا کہ ’’کشمیر آزاد ہورہا ہے‘‘۔ اور پھر کشمیری انتہائی آزادی کے ساتھ ’’خودمختاری‘‘ کے حق میں ووٹ دیں گے۔ یہ دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی ایک نئی مسلم اکثریتی ریاست ہوگی۔ سارے ممالک فوراً ہی اسے تسلیم کرلیں گے، اور امریکہ، عالمی بینک سمیت سارے بڑے عالمی ساہوکار کشمیر کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیں گے۔ کشمیر میں بڑی بڑی عمارتیں بنیں گی، اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر کھلیں گے۔ آپ شاید سوچ رہے ہوں گے کہ بھارت اسے کیوں کر تسلیم کرے گا؟ یہ اہم ترین سوال ہے۔ دراصل لداخ کو بھارت نے یونین کا حصہ بنا لیا ہے۔ وہ اُس کے پاس رہے گا۔ مقبوضہ کشمیر کو ستّر سال سے کنٹرول کرنے کی کوشش بھی کرلی ہے، لیکن کامیابی نہیں ملی۔ بھارت کو سلامتی کونسل کا رکن بننا ہے اور ایشیا کا ٹھیکیدار۔ بھارت کو چین کے مقابلے میں علاقائی طاقت بنانے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے جس کے لیے اسے پاکستان کے ساتھ کشیدگی ختم کرنا ہوگی۔ عالمی ساہوکاروں کا ہدف چین ہے، بھارت کو اگر اس کا مقابلہ کرنا ہے، سلامتی کونسل کی ممبرشپ چاہیے، مغربی منڈیوں میں رسائی اور عالمی سرمایہ کاری میں بڑا حصہ چاہیے تو اُسے کشمیر کو ’’سوئٹزرلینڈ‘‘ بنانا ہوگا، جو کہ ایک انٹرنیشنل علاقہ ہو، جہاں عالمی بینک اور سرمایہ دارانہ نظام کا مرکز بنے گا۔ مودی کی جانب سے ٹرمپ کو ثالثی کی پیشکش سوچ سمجھ کر ہی کی گئی ہے، اور اسی ماہ کے آخر میں فرانس میں ہونے والی جی ایٹ کانفرنس میں بھارتی وزیراعظم کو خصوصی دعوت دی گئی ہے، حالانکہ بھارت اس فورم کا ممبر بھی نہیں ہے۔ بھارت کو عالمی سامراجی قوتیں آنے والے دنوں میں بھاری پیشکشیں کریں گی اور اسے سرمایہ دارانہ نظام کا باقاعدہ حصہ بنایا جائے گا۔ چین کو جی ایٹ کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے حالانکہ چین دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل ہے، جبکہ بھارت کو خصوصی طور پر اس فورم میں شریک کیا جارہا ہے۔ ان ممالک کو چین سے غرض ہے اور اس کے لیے انہیں اس علاقے میں ایک پلیٹ فارم چاہیے جو پُرامن ہو اور وہاں پر بڑے پیمانے پر معاشی سرگرمیاں ہوسکیں۔ اس سے پہلے افغانستان پر چڑھائی کا مقصد بھی یہی تھا کہ ایک غریب ملک کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام یرغمال بنا کر مستقل اڈہ بنایا جائے، لیکن یہ خواب طالبان نے پورا نہیں ہونے دیا۔ قطر میں طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات آخری مراحل میں ہیں، معاہدہ ہونے والا ہے اور پھر امریکہ کو ’’باعزت‘‘ طریقے سے یہاں سے جانا ہے۔ اس طرح اس پورے خطے میں امریکی موجودگی کا خاتمہ ہوجائے گا جو کہ اُس کے لیے کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہے۔
دوسری جانب پاکستان کو مجبور کرنے اور جکڑنے کے لیے گزشتہ چند ماہ میں کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ سب سے پہلے تو عربوں کے شاہی دورے کرائے گئے جن کا مقصد پاکستان کو چینی سرمایہ کاری سے دور کرکے امریکی بلاک میں شامل کرنا تھا۔ آئی ایم ایف اِس بار صرف قرض ہی نہیں دے رہا بلکہ سیاسی و عالمی معاملات پر گائیڈ بھی کررہا ہے۔ بھارت کے ساتھ موجودہ صورت حال میں آئی ایم ایف کے دو بیانات انتہائی خطرناک ہیں۔ ایک بیان چین کے قرضوں کی معلومات کے متعلق، جبکہ دوسرا پاکستان کو سرحدی کشیدگی میں اضافے کی صورت میں امداد روکنے سے متعلق ہے۔
لیکن ٹھیرئیے! پاکستان کے لیے ابھی بھی امید کی کئی کرنیں موجود ہیں۔ مسئلہ کشمیر حل ہو، یہ خواہش سب کی ہے، پاکستان کی بھی شدید خواہش ہے۔ ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے اسے مجبور اور بے سہارا سمجھنے والے غلطی پر ہیں۔ پاکستان کو فوری طور پر علاقائی اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہے۔ آج قومی اسمبلی میں بھی یہ بات کی گئی اور قومی سلامتی کے اجلاس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اس کا اشارہ کیا ہے۔ پاکستان کو دوبارہ چین کے پاس جانا ہے، سی پیک کے سلسلے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ہے، اور روس و چین کے ساتھ مل کر کچھ سوچ بچار کرنی ہے۔ بھارت اب کشمیر نہیں رکھ سکتا، بس پاکستان کو اب اُسے ٹف ٹائم دینے کی پلاننگ کرنی ہے۔ اگر پاکستان ہمسایہ ممالک چین، روس کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگیا کہ کشمیر پر عالمی ثالثی اس خطے پر کیا اثرات مرتب کرے گی تو یقینا یہ بڑی کامیابی ہوگی۔ افغانستان سے امریکی انخلا پاکستان کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کو اپنی اہمیت کا احساس دلانا ہے۔ یقین مانیں کہ بھارت نے کشمیر کے حوالے سے یہ حرکت بوکھلاہٹ میں کی ہے اور اُس کے پاس اب بہت سے اخلاقی اور قانونی جواز ختم ہوگئے ہیں۔ پاکستان اگر اپنے پتّے بروقت اور مہارت سے کھیلے تو کشمیر کے حوالے سے بہترین معاہدہ کرسکتا ہے۔ دنیا پاک بھارت جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی، نہ ہی وہ جنگ ہونے دے گی۔ بس اب معاہدے کی شرائط کا گیم پلان ہے۔ جس نے مضبوط اعصاب کا مظاہرہ کیا وہی اپنے لیے بہترین معاہدہ کرانے میں کامیاب ہوجائے گا۔
پاکستان چین ، روس کو مل کر ایسی منصوبہ بندی کرنی ہے کہ کشمیر اگر اقوام متحدہ کے زیر کنٹرول جاتا ہے تو یہ سامراجی قوتوں کا پلیٹ فارم نہ بن سکے۔ بات صرف وادی کشمیر تک محدود رہے اور گلگت بلتستان وغیرہ پر پاکستانی حق تسلیم کیا جائے۔ یہ معاملہ زیر بحث ہی نہ آئے ورنہ پاکستان مذاکرات میں شرکت سے انکار کر دے۔ پانی کی تقسیم ، بجلی کے منصوبوں ، آمدو رفت ، پاکستان کے ساتھ تعلقات وغیرہ کے معاملے میں شقیں ایسی ہوں جو ہمارے مفاد میں ہوں۔ کشمیر کے حوالے سے ایک گریٹر گیم کا آغاز ہو چکا ہے۔ بھارت کو جلدی تھی قطر میں امریکہ و طالبان کے درمیان معاہدے سے پہلے پہلے اپنا کھیل شروع کرنے کی۔ اس نے ابتدا کر دی ہے۔ اب عالمی طاقتوں کے شریک ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔