کتاب : سیکولرزم
یورپی پس منظر اور اسلامی تناظر
مصنف : سید محمد نقیب العطّاس
ترجمہ تعارف
و اضافے : ڈاکٹر محمد ذکی کرمانی
صفحات : 184 قیمت:500 روپے
ناشر : عکس پبلی کیشنز بک اسٹریٹ
داتا دربار مارکیٹ۔ لاہور
سیکولرزم یا لادینیت پر اہلِ علم کی توجہ مبذول ہونے لگی ہے، اور اس موضوع پر اسلامی نقطہ نظر واضح کرنے والی تحریرات طبع ہونے لگی ہیں، ان میں سید محمد نقیب العطّاس کی یہ کتاب بہت اہم ہے۔ مصنف تحریر فرماتے ہیں: (اشاعت اوّل 1978ء)
’’پیش نظر کتاب دراصل بعض ان تصورات اور خیالات کی ارتقائی شکل ہے جو میں نے اپنی ملے زبان کی تصنیف رسالہ: اُنتک کوم مسلمین کے متعدد پیراگرافوں میں پیش کیے تھے۔ یہ کتاب 1974ء کے ابتدائی چند ماہ کے دوران تصنیف کی گئی تھی۔ لیکن ملک و بیرون ملک روز افزوں مصروفیات کی بنا پر میں اسے آج تک پریس نہ بھیج سکا۔
اس کتاب کا تیسرا باب 1395 ہجری (1975ء) کے ماہ رمضان میں نہ صرف پایہ تکمیل کو پہنچا بلکہ اس دوران ٹائپ بھی ہوگیا تھا۔ اسے بطور لیکچر میں نے International Islamic Conference اپریل 1976ء میں پیش کیا جو لندن میں قائم Royal Common Wealth Society اور World of Islam Festival کے باہمی اشتراک سے منعقد کی گئی تھی۔ ایک مونوگراف کی شکل میں اسی سال Muslim Youth Movement of Malyalam (ABIM) کوالالمپور نے اسے شائع کیا، اور پھر 1978ء میں یہ بعض دوسرے مسلم علما کے لیکچرز جو اسی موقع پر پیش کیے گئے تھے، کے ہمراہ The Challenge of Islam کے نام سے شائع کیا گیا۔ اس جلد کے مدیر الطاف گوہر تھے، اور یہ اسلامک کونسل آف یورپ، لندن سے شائع ہوئی۔
اس کتاب کے بعض مضامین میں نے مارچ 1977ء میں لکھنا شروع کیے اور اسی سال اپریل کے مہینے میں امریکہ میں ٹیمپل یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے قیام کے دوران ختم بھی کرلیے۔ امریکہ کا میرا یہ قیام 1976ء تا 1977ء کی سردیوں و موسم بہار کے دوران تھا۔ پانچواں باب ایک مقالے ’’علم کی فطرت اور مقاصدِ تعلیم کی تعریف‘‘ پر مشتمل ہے جسے 1977ء میں مکہ میں منعقد ہونے والی مسلم تعلیمات پر اوّلین عالمی کانفرنس میں پیش کیا گیا تھا۔ یہ مقالہ دوسرے منتخب مقالات کے ساتھ جو اس کانفرنس میں پیش کیے گئے، کتابی شکل میں شائع ہوگا جو King Abdul Aziz University اور Hodder & Stoughton کے باہمی اشتراک سے لندن سے 1979ء میں سات دوسری کتابوں کے سلسلے کے تحت شائع ہورہی ہے‘‘۔
کتاب کے مترجم ڈاکٹر محمد ذکی کرمانی انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی دہلی (IITDELHI) سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں۔ اسلام اور سائنس کی فکریات مطالعے کا ان کا خاص موضوع ہے۔ اردو اور انگریزی میں اسلام اور سائنس پر دو مجلے بھی شائع کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ذکی تحریر فرماتے ہیں: (2018ء)
’’سیکولرزم: یورپی پس منظر اور اسلامی تناظر آپ کے ہاتھوں میں ہے جو ملائشیا کے معروف مفکر سید نقیب العطّاس کی تصنیف Islam and Secularism کا اردو قالب ہے۔ اس موضوع پر راقم کے نزدیک کسی اور زبان میں شاید کوئی اتنی وقیع تصنیف موجود نہیں۔ العطّاس جدید فکریات کے ساتھ ساتھ علوم اسلامی سے راست واقفیت رکھتے ہیں۔ ان کی تصنیفات میں فلسفہ، تصوف، مابعدالطبیعات، تعلیم اور اس کا طریقہ کار، مَلے (Malay) زبان اور اس کے لٹریچر سے بڑی گہری واقفیت جھلکتی ہے۔ Islamization of Knowledge سے متعلق جو عظیم مباحثہ اور عملی سرگرمیاں چند دہائیاں قبل عالمی سطح پر بڑی تیزی سے سامنے آئیں، العطّاس اس کی فکر کے بانیوں میں ہونے کے باوجود اس بحث میں زیادہ نظر نہیں آتے، جس کی بنیادی وجہ غالباً یہ رہی کہ ان کے نزدیک اسلامیانے کے اس عمل کا آغاز ذہن و جسم اور روح کے اسلامیانے سے ہوتا ہے۔ نصاب کا اسلامیانا بہت بعد کا مرحلہ ہے۔
پیش نظر کتاب میں یہ مباحث بڑی گہرائی سے آئے ہیں، اور یہ موضوع ان کی تمام تصنیفات میں موجزن نظر آتا ہے۔ البتہ تعلیم کے موضوع پر ان کی فکریات کو ان کے شاگرد نے اپنی کتاب The Concept of Education in Islam:A Frame Workمیں واضح کیا ہے۔
میں پورے اطمینان اور اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ کتاب اسلامی فکریات کے اردو لٹریچر میں ایک ایسا وقیع اضافہ ہے جس میں علم کے ساتھ تحقیق و تجزیہ اپنے اعلیٰ معیار اور مکمل حضوری کے ساتھ موجود ہے۔
قارئین سے التماس ہے کہ نقیب العطّاس جو اپنی فطری عمر کو پہنچ رہے ہیں البتہ اب بھی کسی حد تک سرگرم ہیں، کے لیے دعا گو رہیں اور ان کے ساتھ اِس ناچیز کو بھی یاد رکھیں۔ اس کتاب کے فہم میں قارئین کو پیش آنے والی دقتوں کے لیے میں ذمہ دار ہوں، ورنہ العطّاس کی فکر بڑی مرتکز اور قرآن کریم کی شوکت و جلالت سے مزین ہے‘‘۔
ڈاکٹر محمد ذکی کرمانی نے کچھ مفید گفتگو سیکولرزم پر کی ہے، مناسب ہوگا کہ ہم اس کو درج کردیں:
’’سیکولرزم ایک فکر اور سوچ کا نام ہے جسے ہمارے دور میں مختلف انداز میں سمجھا گیا ہے اور استعمال بھی کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک انداز یہ ہے کہ سیکولرزم کے معنی کسی ملک میں موجود مختلف قومیتوں، مذہبی فرقوں اور ذاتوں کے درمیان برابری کا سلوک کرنا ہے۔ سیکولرزم کی یہ تعریف ایک سیاسی حکمت عملی کے پس منظر میں ابھرتی ہے جو ملکوں کو متحد رکھنے اور داخلی استحکام قائم کرنے کے لیے اختیار کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ انتظامی امور اور حقوق کے میدان میں تمام شہریوں کو بلاامتیاز سہولیات حاصل ہوں گیُ جبکہ انفرادی معاملات میں ان کو اپنی مذہبی روایت سے رہنمائی حاصل کرنے اور ان کے تحت زندگی گزارنے کا حق حاصل رہے گا۔
دوسری تعریف کی نوعیت فکری ہے جس میں ان ذرائع اور وسائل کے رہنمایانہ کردار کا انکار ہے جو جسم انسانی سے خارج میں واقع ہوں۔ اس نقطہ نظر کے مطابق صرف انسان کے داخل میں موجود وسائل مثلاً مشاہدہ، تجربہ اور عقل کی رہنمائی کو زندگی کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔ اس میں ہر اُس رہنمائی کا انکار ہے جو ماورائے ذات ہو، بالخصوص وحی کے ذریعے آنے والی ہر ہدایت انسان کے اجتماعی معاملات میں غیر اہم ہے۔ چنانچہ سیاسی، انتظامی اور قانونی معاملات میں فیصلوں کا معیار عقلِ انسانی ہے۔ آج کی دنیا میں قانون سازی اور انتظامیہ بنیادی طور پر انسانی عقل کی روشنی میں کیے گئے فیصلوں اور آرا پر مشتمل ہے۔
سیکولرزم ہی کے تحت ایک فکر یہ بھی کام کرتی ہے کہ وحی کی ہدایتوں یا روایتی اصولوں اور رسموں کو احترام کی نظر سے دیکھا جائے۔ ان کی صحت کا انکار نہ کیا جائے بلکہ ذاتی زندگی میں ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے اور اس حوصلہ افزائی کا اجتماعی اظہار بھی ہو، البتہ اجتماعی معاملات میں بالعموم وحی پر منحصر ہدایات کا کوئی رول نہ ہو۔
سیکولرزم کے سلسلے میں مذکورہ بالا تینوں رویّے بظاہر اجتماعی معاملات کی حکمت عملی سے متعلق ہیں، اور شاید اسی بنا پر بیسویں صدی میں یہ بتدریج ایک سیاسی بیانیہ بن کر ابھرا اور مذہب پسندی کے بالمقابل ایک زیادہ انسان دوست، انصاف پسند اور روشن خیالی پر مبنی نقطہ نظر بن کر سامنے آیا تھا۔ لیکن اسی صدی نے یہ بھی دیکھا کہ ظلم اور ناانصافی، حق تلفی اور قتل و غارت گری کے جو ہمالیہ کھڑے ہوئے، ان میں وہی اقوام اور ممالک پیش پیش تھے جنہوں نے سیکولرزم کو انفرادی و اجتماعی معاملات میں بطور حکمت عملی اپنایا تھا۔
سیکولرزم کا ایک دوسرا پہلو انفرادی ہے، یعنی اپنی ذاتی زندگی میں انسان جب یہ رویہ اپناتا ہے کہ اس کے نقطہ نظر، رویّے اور اس کی ذات سے پھوٹنے والے تمام اعمال کے سلسلے میں اسے کسی ایسی رہنمائی کی ضرورت نہیں جس کی جڑیں کہیں خارج میں پیوست ہوں۔ بنیادی تصور یہ ہے کہ انسان مکمل طور پر اس صلاحیت سے بہرہ مند ہے کہ وہ اپنی ذات کے تئیں اور دوسرے انسانوں اور یہ دنیا جس میں وہ زندگی گزار رہا ہے، کے بارے میں خود کوئی رائے قائم کرلے اور ان سے اپنا رشتہ اور رویہ طے کرے، اور اس سلسلے میں محض مشاہدہ، تجربہ اور عقل کی روشنی ہی اس کے لیے کافی ہے۔ یہ دراصل جدید علمی رویہ ہے جو اپنی پہنچ اور رسائی کی حدیں مقرر کرنا نہیں چاہتا۔ اس جدید نقطہ نظر کے مطابق زندگی کا کوئی میدان ایسا نہیں ہے جس میں انسان دخیل ہوکر کوئی رائے قائم نہ کرسکتا ہو۔ دراصل سیکولرزم کی بنیادیں بھی یہیں سے جڑیں پکڑنا شروع کردیتی ہیں۔ انسان کو یہاں تک پہنچنے کا تو یقینا حق ہے، لیکن یہاں سے ایک راہ اور پھوٹتی ہے جسے انسان کی بعض کمزوریاں مسدود کردیتی ہیں، اور یوں وہ یہ تسلیم کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے کہ بعض سوالات اور مسائل ایسے بھی ہیں جو انسانی عقل اور مشاہدے و تجربے کی نارسائی کی طرف اشارہ کررہے ہوتے ہیں۔ دراصل ایک میدان میں زبردست کامیابیوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی خود اعتمادی غرور کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ نتیجے کے طور پر مذکورہ بالا دوسری راہ سے ابھرنے والے اشارے اسے نظر نہیں آتے۔ اس صورتِ حال تک پہنچنے میں صرف علمی کامیابیاں ہی کارفرما نہیں ہوتیں بلکہ انسانی اخلاقی کمزوریاں بھی مؤثر رول ادا کرتی ہیں۔ علمی دور کے آنے سے قبل یہی کمزوریاں انسانی رویوں کو سیکولر طرز پر ڈھالتی رہی تھیں۔ جدید علمی دور کے آغاز سے ان رویوں کو ایک علمی ڈھال مل گئی ہے، اور یوں یہ فکر اور رویہ اور یہ نظام پورے عالم پر چھا گیا ہے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ سیکولر رویہ دراصل اس بات کے انکار سے پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو بعض میدانوں میں رہنمائی کی ضرورت ہے۔
پیش نظر کتاب بنیادی طور پر سیکولرزم کی انہی بنیادوں سے بحث کرتی ہے، اور یہ وضاحت کرتی ہے کہ یورپ کن بنیادی سوالات کے سلسلے میں ہدایت یعنی وحی کے فکری و عملی انکار کی بنا پر کن مسائل سے دوچار ہوکر عقل و خرد اور تجربے و مشاہدے پر مکمل انحصار کر بیٹھا، جس کے اثرات آج ہمارے سامنے ہیں۔ اسلام نے مذکورہ سوالات کی حوصلہ شکنی نہیں کی، بلکہ ان کے جواب بتانے کے لیے انسانی و کائناتی فطرت کے حوالے سے عقل کو ابھارا، اور اس کی مدد کے لیے مشاہدے اور تجربے کو لاکھڑا کیا۔ البتہ اِس کے ساتھ اسے یہ سوچنے پر بھی مجبور کیا کہ اس کی یہ فطری صلاحیتیں ایک حد رکھتی ہیں۔ یعنی بعض میدان ایسے ہیں جن میں انسانی عقل و تجربہ کوئی نہ کوئی نتیجہ تو نکال لیتا ہے لیکن یہ نتائج ابتدائی روشنی دے کر انسان کو پھر اندھیرے میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ چنانچہ ان میدانوں میں عقل کے ساتھ وحی کو رکھنا ضروری ہے۔
اس طرح وحی کے اعتبار کے ساتھ ساتھ عقل و خرد اور مشاہدے و تجربے کو حصولِ علم کا ایک معتبر ذریعہ تسلیم کیا گیا۔ جن میدانوں میں وحی کی ہدایت موجود نہ ہو وہاں تجربہ اور مشاہدہ اس کے قائم مقام قرار پائے، اور جن میدانوں میں وحی کی ہدایت موجود ہوگی تو اس کے مضمرات پر غور و فکر کے لیے عقلِ انسانی کے نتائج کو تسلیم کیا گیا۔
جستجو کے دوران مکمل طور پر آزاد عقل و مشاہدے و تجربے کا استعمال جس میں ماورائے انسان کوئی ذریعۂ ہدایت یا ذریعۂ علم تسلیم نہ ہو وہ یورپی پس منظر سے جس میں سیکولرزم اور سیکولر سوچ نے پرورش پائی ہے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ وحی سے یہ آزادی دراصل وحی کی انسانی تفسیر کی غلامی (جس کی ایک شکل چرچ بھی تھی) سے آزادی ہے جو بتدریج وحی کے انکار تک پہنچی ہے۔ اسلامی تناظر مختلف ہے۔ یہاں وحی کی ضرورت کو عقلِ انسانی تسلیم کرتی ہے اور مشاہدے و تجربے کو اسی پس منظر میں بلا روک ٹوک استعمال کرتی ہے، یہاں تک کہ وحی کا فہم بھی عقل و مشاہدہ اور تجربے پر منحصر نظر آنے لگتا ہے۔‘‘
کتاب مجلّد ہے، عمدہ طبع ہوئی ہے۔ سرورق پر کوفی میں سورہ اخلاص رنگین خوب صورت زخرفے میں طبع کی گئی ہے۔