۔’’جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں‘‘۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ سبق صرف مسلمانوں کو پڑھانے اور یاد کروانے کے لئے ہی رہ گیا ہے

ہمارے سیاست دانوں خصوصاً حکمرانوں کو یہ سبق نہ جانے کس نے دیا ہے کہ ’’جنگ مسائل کا حل نہیں… ہم جنگ نہیں چاہتے… مذاکرات سے مسائل کا حل نکالیں گے…‘‘ الفاظ کی حد تک یہ جملے بہت خوش کن ہیں اور کانوں کو خاصے بھلے معلوم ہوتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ جب ایک فریق مذاکرات پر آمادہ ہی نہ ہو تو کیا یک طرفہ مذاکرات ممکن ہیں؟ ’’امن‘‘ بھی بہت اچھی چیز اور مطلوب و مقصود ہے، مگر ہر قیمت پر نہیں۔ جب آپ کے بچوں و بزرگوں کے جان و مال کے تحفظ، خواتین کی عزت و آبرو کی حفاظت اور ’’امن کی فاختہ‘‘ کی بقا و سلامتی کے لیے جنگ ناگزیر ہو تو کیا آپ پھر بھی اس سے گریز کا پرچم ہی اٹھائے رکھیں گے؟ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور جب یہ حد عبور کرلی جائے تو پھر کوئی اقدام لازم ہوجاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ’’جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں‘‘ کا سبق صرف مسلمانوں کو پڑھانے اور یاد کروانے کے لیے ہی رہ گیا ہے؟ جنگ اگر کسی مسئلے کا حل نہیں تو ٹینک، توپ، جنگی جہاز، گولہ بارود، ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم وغیرہ کیوں ایجاد کیے گئے؟ امریکہ و یورپ میں بڑی بڑی فیکٹریاں اس اسلحہ کی تیاری میں رات دن کیوں مصروف ہیں؟ ان ممالک نے اپنے یہاں اس اسلحہ کے ڈھیر کیوں لگا رکھے ہیں؟ اسلحہ اور گولہ بارود کی فروخت اہلِ مغرب کا سب سے بڑا کاروبار کیوں ہے؟ جنگ اگر اتنی بری چیز ہے تو آپ آنِ واحد میں پوری دنیا کو راکھ کے ڈھیر میں بدل دینے کی صلاحیت رکھنے والا اپنا خطرناک اسلحہ ضائع کیوں نہیں کردیتے؟ یہ اسلحہ تیار کرنے والی فیکٹریاں بند کیوں نہیں کردیتے؟ امن آپ کو اگر بہت عزیز ہے تو اسے تباہ کرنے والے اسلحہ کی فروخت بند کیوں نہیں کردیتے؟ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری… پوری دنیا جنگ کے خطرے سے بے نیاز ہوکر چین کی نیند سوسکے گی۔ مگر ایسا انسانی تاریخ میں کبھی ہوا ہے نہ اب ہوگا۔ امن سے محبت اور جنگ سے نفرت کے نعرے محض دوسروں کو سنانے کی لوریاں ہیں… اپنے لیے ’’جنگ سے بچائو کا بہترین راستہ جنگ کے لیے تیار رہنا ہے‘‘ کا اصول وضع کرلیا جاتا ہے۔
ماضیِ قدیم کی تاریخ کو نہ کھنگالیے، ماضیِ قریب میں جھانک لیجیے، جنگ اگر کسی مسئلے کا حل نہیں تو اسرائیل نے گزشتہ نصف صدی میں مشرق وسطیٰ میں بار بار جنگ کیوں مسلط کی؟ فلسطین، اردن، شام اور مصر وغیرہ کے جن علاقوں پر اسرائیل نے اسلحہ کے زور پر قبضہ کیا، کسی نے اُس کا کیا بگاڑ لیا؟ کسی اقوام متحدہ، کسی سلامتی کونسل، امن کی پرچارک کسی بڑی طاقت نے اُسے جنگ کرنے سے روکا؟ اسرائیل نے اگر مشرق وسطیٰ میں بار بار امن تہ و بالا کرکے کوئی برا عمل کیا تو امریکہ و یورپ سمیت تمام مہذب دنیا آج بھی یہ برا کام کرنے والے اسرائیل کی سرپرستی اور پشت پناہی کیوں کررہی ہے؟ ان سب کو ’’امن‘‘ آخر کیوں عزیز نہیں ہے؟ یہ ’’جنگ‘‘ کی آگ کو ہوا دینے کے لیے اسرائیل کو دھڑا دھڑ اسلحہ کیوں فراہم کررہے ہیں؟ ایران کے ایٹم بم بنانے سے انکار کے باوجود محض شک کی بنا پر اگر اُس پر پابندیاں عائد کردی گئی ہیں تویہی پابندیاں ایٹم بم تیار کرچکنے اور بے بس فلسطینیوں پر مظالم کی انتہا اور ان کی زندگی اجیرن کردینے والے اسرائیل پر کیوں عائد نہیں کی جاتیں؟ ’’امن‘‘ پسندوں نے آج تک جنگ پسند اسرائیل کا ناطقہ کیوں بند نہیں کیا؟
جنگ اگر مسائل کا حل نہیں تو سوال یہ بھی ہے کہ نائن الیون کے واقعے کے بعد آخر امریکہ نے محض شک کی بنا پر جنم دیے گئے تنازعۂ افغانستان کو طالبان حکومت سے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کو ترجیح کیوں نہیں دی؟… کیوں ان پر جبراً جنگ مسلط کر دی گئی؟ اور اس جنگ میں ساتھ نہ دینے کے خدشے پر پاکستان جیسے ’’پرانے دوست ملک‘‘ کو بھی دشمن تصور کرنے کی کھلی دھمکی دینا کیوں ضروری سمجھا گیا؟ پھر دنیا کی کمزور ترین طالبان حکومت کے خاتمے کے لیے جدید ترین اور خطرناک ترین اسلحہ افغانستان میں آزمایا گیا اور تورا بورا کے پہاڑوں کو نشانِ عبرت بنادیا گیا یہ سوچے بغیر کہ اس میں کتنے بے گناہ اور بے کس انسان لقمہ اجل بنیں گے؟ جنگ اگر مسائل کا حل نہیں تو کیمیائی گیس کے استعمال کا جھوٹا اور من گھڑت الزام عائد کرکے عراق پر امریکہ نے حملہ کیوں کیا؟ صدام حسین کے ساتھ مذاکرات کا راستہ کیوں اختیار نہیں کیا گیا؟ لاکھوں انسانوں کو تہِ خاک کیوں سلا دیا گیا؟ پورے عراق کو کھنڈرات میں کیوں بدل دیا گیا؟
اب آیئے پاکستان اور بھارت کے حالات پر… کہا جاتا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین چار جنگوں کے باوجود اب تک مسائل حل نہیں ہوئے، اس لیے ’’جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں‘‘۔ مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ قیامِ پاکستان کے فوری بعد بھارت نے کشمیر میں فوجیں داخل کرکے اس پر جبراً قبضہ کرلیا، تو بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ہدایت پر ہم نے بھی ’’کشمیر بزور شمشیر‘‘ کی پالیسی اختیار کی اور کشمیر کے ایک بڑے حصے کو آزاد کرا لیا۔ بھارت نے جب سارا کشمیر ہاتھ سے نکلتا ہوا محسوس کیا تو فوراً اقوام متحدہ میں جاکر درخواست دائر کی اور کشمیر میں حقِ خود ارادیت اور رائے شماری کے وعدوں کا ’’لالی پاپ‘‘ دے کر جنگ بندی کروا لی۔ تب سے اب تک کشمیریوں کو حقِ خودارادیت ملا اور نہ رائے شماری ہی کی نوبت آئی۔ بھارت حیلوں بہانوں سے اپنے اس وعدے ہی سے مکر گیا۔ پھر ’’معاہدۂ شملہ‘‘ میں جنگ بندی لائن کو کنٹرول لائن میں تبدیل کردیا گیا اور مسئلہ کشمیر کو ’’دو طرفہ مذاکرات‘‘ کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق ہوا، مگر نصف صدی اس شملہ معاہدے کو بھی گزر رہی ہے، بھارت ’’مذاکرات، مذاکرات‘‘ کھیلنے سے بھی انکاری ہوچکا ہے، اور اب 5 اگست کو اُس نے اپنے زیرِ تسلط کشمیر کو بھارتی آئین میں دی گئی خصوصی حیثیت بھی ختم کردی ہے، اسے اپنے غیر متنازع حصے کے طور پر بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کیا ہے، اور آئینی ترمیم کے ذریعے خطے میں واضح مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا راستہ بھی بزعمِ خود ہموار کرلیا ہے۔ گویا اب مسئلہ صرف پاکستان کے زیر کنٹرول کشمیر کا رہ گیا ہے کہ پاکستان کب اور کیسے اسے بھارت کے حوالے کرنے پر آمادہ ہوتا ہے، یا ہم خوش فہمی کا شکار ہونا چاہیں تو بھارت نے ’’کشمیر کا جو حصہ جس کے قبضے میں ہے وہ اُس کا‘‘ کی کیفیت کو تسلیم کرلیا ہے، یوں بھارت کی جانب سے از خود بڑی حد تک مسئلے کو حل کر لیا گیا ہے۔
مسئلہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے بعض لوگوں کے نزدیک شاید زمین کے ایک خطے پر قبضے کا مسئلہ ہو، لیکن درحقیقت یہ زمین سے کہیں زیادہ نظریے اور ایک کروڑ سے زائد مسلمانوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کا مسئلہ ہے جو گزشتہ طویل عرصے سے عدم تحفظ سے دوچار ہیں۔ نظریاتی اساس تو بالکل واضح ہے کہ جس نظریے اور فارمولے کے تحت پاکستان وجود میں آیا ہے کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ علاقہ پاکستان میں شامل ہوگا، اور جس علاقے میں غیر مسلم اکثریت میں ہوں، وہ بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ کشمیر کی آبادی کی غالب اکثریت مسلمان ہے، اس لیے اُس کا پاکستان سے الحاق نظری تقاضا ہے، مگر اس کے برعکس بھارت نے اس خطے پر جبراً قبضہ کررکھا ہے۔ جبر کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں طویل مدت سے اتنی بڑی فوج تعینات ہے جس کی رقبے اور آبادی کے تناسب سے دنیا بھر میں کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ پانچ اگست کے اقدام سے قبل اور بعد بھارتی حکومت نے فوج اور دیگر سیکورٹی فورسز کی تعداد میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اب کم و بیش نو لاکھ فوجی تعینات ہیں جنہوں نے پورے علاقے کو ایک بڑے قید خانے میں تبدیل کردیا ہے۔ کئی روز سے علاقے میں کرفیو نافذ ہے، عوام کا گھروں سے نکلنا ناممکن بنادیا گیا ہے، گھروں میں محصور لوگوں کے پاس اشیائے خور و نوش کی شدید قلت ہوچکی ہے، لوگ فاقوں پر مجبور کردیے گئے ہیں… تمام دفاتر، تعلیمی ادارے اور کاروباری مراکز فوج نے بندوق کی نوک پر بند کروا رکھے ہیں۔
ذرائع ابلاغ، اخبارات و جرائد، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور سماجی ابلاغیات سب پر سخت پابندی ہے۔ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سمیت رابطے کے تمام ذرائع مسدود کیے جا چکے ہیں اور کسی کو کوئی خبر نہیں کہ فوج کے ہاتھوں معصوم و مظلوم کشمیریوں پر کیا بیت رہی ہے۔ پوری دنیا یہ ظلم و ستم اور غیر انسانی سلوک دیکھ رہی ہے اور ’’ٹک ٹک دیدم… دم نہ کشیدم‘‘ کی کیفیت ہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت تمام عالمی ادارے تشویش کے اظہار سے آگے مظلوم کشمیریوں کو اس ظلم سے نجات دلانے کے لیے کچھ کرنے پر آمادہ نہیں۔
پاک فوج کے کور کمانڈرز کی کانفرنس میں کشمیریوں کی جدوجہد میں ساتھ دینے کے عزم کے اظہار کے ساتھ حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ فیصلہ کرے ہم عمل درآمد کریں گے، پاک فوج اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے پوری طرح تیار ہے، ہر قسم کی صورتِ حال کا دلیری سے مقابلہ کریں گے اور کشمیر میں ناجائز بھارتی قبضے کے معاملے پر کسی بھی حد تک جائیں گے۔ یوں کور کمانڈرز کانفرنس نے گیند حکومت کے کورٹ میں پھینک دی ہے، مگر ہمارے وزیراعظم عمران خان نے سینئر صحافیوں سے گفتگو میں فرمایا ہے کہ مودی ہٹلر کے راستے پر چل نکلا ہے، کشمیریوں کی نسل کُشی کی جارہی ہے، حالات کشیدگی کی طرف جا رہے ہیں، مگر ہم جنگ نہیں چاہتے، ہاں حملہ کیا گیا تو بھرپور جواب دیں گے۔
اللہ تعالیٰ رحم فرمائے ہمارے وزیراعظم پر کہ خود فرما رہے ہیں کہ کشمیریوں کی نسل کُشی کی جارہی ہے، ہم جنگ نہیں چاہتے، مگر حملہ کیا گیا تو بھرپور جواب دیں گے۔ بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں جو کرنا تھا وہ اُس نے کرلیا… کشمیریوں پر جتنا ظلم ممکن ہے وہ کررہا ہے، خود آپ کے بقول مودی ہٹلر بن چکا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ بھارت کو آپ پر حملہ کرنے کی ضرورت کیا ہے جس کا انتظار آپ فرما رہے ہیں کہ بھرپور جواب دے سکیں؟ ذرا یاد کیجیے 1971ء میں جب پاکستان کے مشرقی حصے میں کشیدگی پیدا ہوئی تو بھارت نے کیا پاکستان کی جانب سے حملے کا انتظار کیا تھا؟ یا محض انسانی حقوق اور جدوجہدِ آزادی کو جواز بناکر خود آگے بڑھ کر پاکستان کی مسلمہ سرحدوں کے اندر کارروائی کرکے بنگلہ دیش کو وجود بخشا تھا، اور ہماری مسلح افواج کو اس ذلت آمیز طریقے سے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا تھا جس کی مثال مسلم تاریخ میں ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ وہ بین الاقوامی طور پر مسلمہ سرحدیں تھیں، یہاں تو بھارتی فوج کے ظلم و ستم کا شکار علاقہ عالمی سطح پر سو فیصد متنازع خطہ ہے، مگر آپ ہیں کہ جرأت و ہمت سے کارروائی کرنے کے بجائے ’’ہم جنگ نہیں چاہتے‘‘ کا راگ الاپ رہے ہیں!
بعض دانش ور یہ دلیل بھی پیش فرما رہے ہیں کہ ہماری معیشت جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ مگر معاشی استحکام کب جنگوں میں فتح و کامرانی کا ضامن رہا ہے! جناب وزیراعظم بار بار پاکستان کو ریاست مدینہ کے نمونے پر استوار کرنے کے اعلانات فرما رہے ہیں، براہ کرم وہ ذرا تاریخ کا مطالعہ فرمائیں کہ جنگِ بدر سے فتح مکہ تک، اور اس کے علاوہ بھی کتنی جنگیں تھیں جو ریاست مدینہ کے والی نے معاشی استحکام کی حالت میں لڑی ہوں؟ پھر ذرا یہ بھی یاد کیجیے کہ بانیِ پاکستان نے قیام پاکستان کے فوری بعد کشمیر کا جو حصہ بزور شمشیر آزاد کرایا تھا اُس وقت پاکستان کی معاشی حالت کیا تھی؟ اگر مضبوط معیشت، اسلحہ اور سامانِ جنگ کی فراہمی جنگ میں کامیابی کے ضامن ہوتے تو برطانیہ، روس اور امریکہ جیسی عالمی طاقتیں افغانستان کے ایمانی جذبے سے سرشار، بے سروسامان اور نہتے مجاہدوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے مجبور نہ ہوتیں۔
جنابِ وزیراعظم جنگ کا ایک اہم اصول یہ بھی ہے کہ جو پہل کرتا ہے کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔ اس لیے جناب وزیراعظم ہمت کیجیے اور اپنے کشمیری بھائیوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری ادا کیجیے… بھارت کی طرف سے حملے اور پہل کے انتظار میں وقت ضائع نہ کیجیے۔