یوں نہیں یوں! اور کچھ دیگر

کتاب : یوں نہیں یوں! اور کچھ دیگر
مصنف : ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی
صفحات : 222 قیمت:500 روپے
فون : 0300-9295077
ناشر : قریشی انٹرپرائزر ریزمن ٹاورز، کورنگی کراسنگ‘ کراچی 75190۔
فون : 0300-2112507

اچھے مزاح نگاروں کا قبیلہ ہمیشہ چھوٹا ہوتا ہے۔ بیسویں اور اکیسویں صدی میں پروفیسر رشید احمد صدیقی، عظیم بیگ چغتائی، احمد شاہ بخاری پطرس، شفیق الرحمن، محمد خالد اختر، ابن انشاء، مشفق خواجہ، شوکت تھانوی، مجید لاہوری اور گزشتہ سال مشتاق احمد یوسفی کے انتقال کے بعد اچھے فکاہیہ کالم نگار اور مزاح نگار خال خال رہ گئے ہیں۔ محترم جناب ایس ایم معین قریشی ان میں اس وقت سب سے نمایاں اور شگفتہ بیان لکھاری ہیں۔
انہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز1953ء میں کیا تھا۔ 1962ء میں آپ نے مجید لاہوری مرحوم کے شہرۂ آفاق شگفتہ طنز و مزاح کے حامل ’’نمکدان‘‘ میں طنزیہ اور مزاحیہ مضامین لکھنا شروع کیے۔ ان کی تحریری صلاحیتوں کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ وہ انگریزی اور اردو دونوں میں بیک وقت سنجیدہ اور ہلکے پھلکے شگفتہ انداز میں اپنی تحریر سے قارئین کو مستفید کرتے ہیں۔ انگریزی زبان میں ان کا ہفتہ وار مزاحیہ کالم Chrocodile Tears (مگر مچھ کے آنسو) روزنامہ ڈیلی نیوز کراچی میں 1982ء سے 2014ء تک مسلسل 32 سال تک شائع ہوتا رہا ہے۔ ’’حسب منشا‘‘ کے عنوان سے ان کا کالم ابن منشا کے قلمی نام سے لگ بھگ سات سال تک شائع ہوتا رہا۔ برجان درویش کے عنوان سے ان کا فکاہیہ کالم روزنامہ جنگ میں اور بعد میں 1990ء سے روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوتا رہا ہے۔ انگریزی کے مؤقر روزنامے ڈان میں تقریباً دو سال تک فرائی ڈے فیچر (Friday Feature) میں دینی موضوعات پر مضامین لکھے اور اخبار کے میگزین میں مزاحیہ مضامین بھی تحریرکیے۔کئی سال پیشتر پاکستان ٹیلی وژن سے ان کی مزاحیہ ڈراموں پر مشتمل مقبول سیریل ’’کہتا ہوں سچ‘‘ نشر ہوئی تھی۔ حالاتِ حاضرہ پر آج کی بات کے عنوان سے پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن (ریڈیو پاکستان) سے ان کی تقریریں قومی نشریاتی رابطے پر نشر ہوتی رہی ہیں۔
ان کا 1953ء سے شروع ہونے والا ادبی اور تصنیفی سفر تاحال کامیابی و کامرانی کے ساتھ جاری ہے اور اب تک ان کی چھبیس کتابیں شائع ہوکر باذوق قارئین سے خراج تحسین حاصل کرچکی ہیں۔ وہ متنوع موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے رہے ہیں۔ ان کے موضوعات میں سیاست، صحافت، ادب، معیشت، دین اور معاشرت شامل ہیں۔ ان کے مضامین پاکستان کے علاوہ بیرونِ ملک میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔
آپ پچیس سال تک معروف ادارے سیسی کے ترجمان ماہنامہ بہبود کے مدیر اعلیٰ رہے۔ آپ آرٹس کونسل کراچی کے تاحیات رکن بھی ہیں۔ پاکستان امریکن کلچرل سینٹر (PACC) نے آپ کو اعزازی رکنیت دے رکھی ہے۔ آپ روزنامہ جنگ کے یوبی ایل ادبی ایوارڈ کی جیوری کے رکن اور آرٹس کونسل کی ادبی کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔ 1994ء۔ 1996ء میں ان کو اُس وقت کے وزیراعظم کے ہاتھوں APNS ایوارڈ ملا۔ حکومتِ سندھ نے بھی ان کی قابلِ قدر اور طویل ادبی خدمات کے اعتراف میں نقد انعام سے نوازا۔ 2003ء میں ان کے ادبی سفر کی گولڈن جوبلی کے موقع پر متحدہ عرب امارات دبئی کی العارف گروپ آف کمپنیز نے انھیں گولڈ میڈل اور نقد انعام دیا۔ انھوں نے قومی زبان اردو کی خدمت کرتے ہوئے انجمن ترقی اردو پاکستان اور وفاقی اُردو یونیورسٹی کے تعاون سے پاکستان میں دفتری اُردو کے کورس کا نصاب مرتب کیا اور کورس کا آغاز کیا۔ 2016ء میں لاہور کالج کی خواتین یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے ان پر ایک مقالہ لکھ کر ایم فل کی سند حاصل کی۔ اردو نثر و نظم کے مستند مشاہیر اور لکھاریوں نے جن میں مشتاق یوسفی، شفیق الرحمن، محمد خالد اختر، مشفق خواجہ، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، پروفیسر مجتبیٰ حسین، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر رئوف پاریکھ، پروفیسر عنایت علی خان، سید ضمیر جعفری اور دیگر معروف شگفتہ نگار شامل ہیں، ان کی تحریروں، کالموں، مضامین اور برجستہ جملوں کو کھل کر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان مشاہیر کے تاثرات ان کے ہی الفاظ میں زیر تبصرہ ان کی اس تصنیف ’’یوں نہیں یوں اور کچھ دیگر‘‘ کے صفحہ نمبر 10 پر مختصراً درج ہیں۔ سید ضمیر جعفری نے اس تحقیقی اور فکاہیہ تصنیف کا تعارف اور پروفیسر غازی علم دین میرپور آزاد کشمیر نے اس کا پیش لفظ لکھا ہے۔
اس کتاب کی سب سے نمایاں خوبی اب تک ان کی تصنیف کردہ کتابوں سے مختلف النوع تحقیقی کام اور تجزیہ ہے۔ اساتذہ اور معروف شعرا کے مشہور اشعار جس طرح لوگوں کے اذہان اور یادداشت میں محفوظ رہتے ہیں اور اشعار سے ہم آہنگ معلوم ہوتے ہیں، ڈاکٹر معین قریشی نے ان اساتذہ کے شعری ادب کو پڑھ کر ان اغلاط کی نشاندہی کی ہے اور ان اغلاط کی ابتدا کی تاریخ بھی بیان کی ہے۔ یہ ان کا ایک تحقیقی اور تخلیقی کام ہے جسے بے حد سراہا جانا چاہیے، اور امید ہے کہ خوش ذوق اور ادب کے شائق قارئین اسے سندِ پذیرائی عطا کریں گے۔
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی اس چھبیسویں کتاب کی تقریب رونمائی گزشتہ ماہ 25 جولائی کو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیراہتمام منظر اکبر ہال میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب کی صدارت سابق گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر، سردار یاسین ملک، سینیٹر عبدالحسیب خان اور میاں زاہد حسین نے مشترکہ طور پر کی۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی پروفیسر سحر انصاری اور مہمانِ اعزازی محترمہ مہتاب اکبر راشدی تھیں۔ ڈاکٹر دائود عثمانی اور محترمہ نسیم انجم نے قارئین کو مصنف کتاب اور کتاب کے بارے میں اپنے تبصروں سے نوازا۔ تقریب کی نظامت حافظ حسین ضیا نے کی ۔ کراچی کے علمی، ادبی، ثقافتی اور سماجی حلقوں کی نمایاں شخصیات اور خوش ذوق شائقینِ ادب نے بڑی تعداد میں اس تقریب کو اپنی شرکت سے سرفراز کیا۔
سید ضمیر جعفری، محترم معین قریشی کے فن کے بارے میں کہتے ہیں ’’انہوں نے یہ مضامین فکاہی ادب کے ٹھیٹھ دھارے کے درمیان کھڑے ہوکر لکھے ہیں۔ ان کا طنز گہرا مگر میٹھا ہے۔ زمین کے دکھ درد ان کے یہاں بسنت میلے کی رنگین پتنگوں کی طرح اڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی فکر ان کے فن سے پوری طرح ہم رنگ اور ہم آہنگ ہے‘‘۔ ان کے اسلوب کو سید ضمیر جعفری سوچتی ہوئی شگفتہ نگاری کا اسلوب قرار دیتے ہیں۔ بقول ان کے مسکراہٹ اگر اچھی زندگی کی علامت ہے تو ڈاکٹر معین قریشی کی یہ کتاب اچھی زندگی کی ضمانت ہے۔ کسی انگریزی رسالے میں ڈاکٹر معین قریشی کی تحریر پڑھ کر ایک مرتبہ معروف مزاح نگار شفیق الرحمن نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ … ’’کہیں اس شخص کی انگریزی اردو سے آگے نہ نکل جائے‘‘۔
پروفیسر غازی علم دین زیر تبصرہ کتاب کے پیش لفظ میں فرماتے ہیں کہ مزاح نگاری بظاہر تو بہت ہلکی پھلکی شے ہے، لیکن اس شے کو تخلیق کرنے والا کوئی عام انسان نہیں بڑی شخصیت ہوتی ہے۔ جب تک کسی شخص میں غیر معمولی ذہانت، عمیق مشاہدے کی عادت اور شگفتہ طرزِ بیان کی قوت نہ ہو وہ کامیاب مزاح نگار نہیں ہوسکتا۔ کلام میں مزاح کی وہی حیثیت ہوتی ہے جو کھانے میں نمک کی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر معین قریشی اساتذہ کے شعری کلام کے دلدادہ ہیں، بقول ان کے شاعر کوئی معمولی مخلوق نہیں، مرنے کے بعد بھی وہ نہ صرف پٹ پٹ بولتا ہے بلکہ زندہ لوگوں سے زیادہ فنکشنل ہوجاتاہے۔
کتاب کی حروف چینی (Proof Reading) معیاری ہے۔ اچھے کاغذ پر طبع ہوئی ہے اور سرورق، اندر کے نفسِ مضامین سے ہم آہنگ ہے۔ یہ کتاب اپنے مضامین، تحقیقی تجزیے، عمیق مطالعے اور فکاہیہ چاشنی کی وجہ سے اردو ادب کے نثری سرمائے میں ایک اچھا اضافہ ہے۔