عبادات کا حاصل

رشد و ہدایت
رشد و ہدایت

حضرت نوح علیہ السلام کی دعا

حضرت نوح علیہ السلام نے جب اپنے نافرمان بیٹے کے حق میں دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا رد کرتے ہوئے ان سے کہا کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنالے، تو حضرت نوح علیہ السلام نے اس دعا کی صورت میں اپنے رب سے معافی طلب کی اور پھر جواب میں رب العزت نے فرمایا کہ اب دیکھتے رہنا کہ کس طرح تجھ پر اور تیرے پیروکاروں پر ہماری برکتیں اور سلامتی نازل ہوتی ہے:
’’اے میرے رب! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں، اگر تُو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہوجائوں گا‘‘۔ (ہود:47)۔

نماز، روزہ اور یہ حج اور زکوٰۃ جنھیں اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرض کیا ہے، اور اسلام کا رُکن قرار دیا ہے، یہ ساری چیزیں دوسرے مذہبوں کی عبادات کی طرح پوجا پاٹ، نذر و نیاز اور جاترا کی رسمیں نہیں ہیں کہ بس آپ ان کو ادا کردیں اور اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہوجائے، بلکہ دراصل یہ ایک بڑے مقصد کے لیے آپ کو تیار کرنے اور ایک بڑے کام کے لیے آپ کی تربیت کرنے کی خاطر فرض کی گئی ہیں۔

خرابی کی جڑ

دنیا میں آپ جتنی خرابیاں دیکھتے ہیں اُن سب کی جڑ دراصل حکومت کی خرابی ہے۔ طاقت اور دولت حکومت کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ قانون حکومت بناتی ہے۔ انتظام کے سارے اختیارات حکومت کے قبضے میں ہوتے ہیں۔ پولیس اور فوج کا زور حکومت کے پاس ہوتا ہے۔ لہٰذا جو خرابی بھی لوگوں کی زندگی میں پھیلتی ہے وہ یا تو خود حکومت کی پھیلائی ہوئی ہوتی ہے، یا اس کی مدد سے پھیلتی ہے۔ کیونکہ کسی چیز کو پھیلنے کے لیے جس طاقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ حکومت ہی کے پاس ہے۔
حکومت کی خرابی تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ لوگوں کے خیالات کا گمراہ ہونا، اخلاق کا بگڑنا، انسانی قوتوں اور قابلیتوں کا غلط راستوں میں صَرف ہونا، کاروبار اور معاملات کی غلط صورتوں اور زندگی کے بُرے طور طریق کا رواج پانا، ظلم و ستم اور بدافعالیوں کا پھیلنا اور خلقِ خدا کا تباہ ہونا، یہ سب کچھ نتیجہ ہے اس ایک بات کا کہ اختیارات اور اقتدار کی کنجیاں غلط ہاتھوں میں ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب طاقت بگڑے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں ہوگی اور جب خلقِ خدا کا رزق انھی کے تصرف میں ہوگا، تو وہ نہ صرف خود بگاڑ کو پھیلائیں گے، بلکہ بگاڑ کی ہر صورت ان کی مدد اور حمایت سے پھیلے گی، اور جب تک اختیارات اُن کے قبضے میں رہیں گے، کسی چیز کی اصلاح نہ ہوسکے گی۔

اصلاح کے لیے پہلا قدم

یہ بات جب آپ کے ذہن نشین ہوگئی تو یہ سمجھنا آپ کے لیے آسان ہے کہ خلقِ خدا کی اصلاح کرنے اور لوگوں کو تباہی کے راستوں سے بچاکر فلاح اور سعادت کے راستے پر لانے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ حکومت کے بگاڑ کو دُرست کیا جائے۔ معمولی عقل کا آدمی بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ جہاں لوگوں کو زنا کی آزادی حاصل ہو، وہاں زنا کے خلاف خواہ کتنا ہی وعظ کیا جائے، زنا کا بند ہونا محال ہے۔ لیکن اگر حکومت کے اختیارات پر قبضہ کرکے زبردستی زنا کو بند کردیا جائے تو لوگ خودبخود حرام کے راستے کو چھوڑ کر حلال کا راستہ اختیار کرلیں گے۔ شراب، جوا، سُود، رشوت، فحش تماشے، بے حیائی کے لباس، بداخلاق بنانے والی تعلیم، اور ایسی ہی دوسری چیزیں اگر آپ وعظوں سے دُور کرنا چاہیں تو کامیابی ناممکن ہے، البتہ حکومت کے زور سے یہ سب بلائیں دُور کی جاسکتی ہیں۔ جو لوگ خلقِ خدا کو لوٹتے اور اخلاق کو تباہ کرتے ہیں اُن کو آپ محض پندونصیحت سے چاہیں کہ اپنے فائدوں سے ہاتھ دھو لیں تو یہ کسی طرح ممکن نہیں۔ ہاں، اقتدار ہاتھ میں لے کر آپ بزور اُن کی شرارتوں کا خاتمہ کردیں تو ان ساری خرابیوں کا انسداد ہوسکتا ہے۔ اگر آپ چاہیں کہ بندگانِ خدا کی محنت، دولت، ذہانت و قابلیت غلط راستوں میں ضائع ہونے سے بچے اور صحیح راستوں میں صَرف ہو، اگر آپ چاہیں کہ ظلم مٹے اور انصاف ہو، اگر آپ چاہیں کہ زمین میں فساد نہ ہو، انسان انسان کا خون نہ چوسے نہ بہائے، دبے اور گرے ہوئے انسان اُٹھائے جائیں اور تمام انسانوں کو یکساں عزت، امن، خوش حالی اور ترقی کے مواقع حاصل ہوں، تو محض تبلیغ و تلقین کے زور سے یہ کام نہیں ہوسکتا، البتہ حکومت کا زور آپ کے پاس ہو تو یہ سب کچھ ہونا ممکن ہے۔
پس یہ بالکل ایک کھلی ہوئی بات ہے جس کو سمجھنے کے لیے کچھ بہت زیادہ غور و فکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں کہ اصلاحِ خلق کی کوئی اسکیم بھی حکومت کے اختیارات پر قبضہ کیے بغیر نہیں چل سکتی۔ جو کوئی حقیقت میں خدا کی زمین سے فتنہ و فساد کو مٹانا چاہتا ہو اور واقعی یہ چاہتا ہو کہ خلقِ خدا کی اصلاح ہو تو اس کے لیے محض واعظ اور ناصح بن کر کام کرنا فضول ہے۔ اسے اُٹھنا چاہیے اور غلط اصول کی حکومت کا خاتمہ کرکے غلط کار لوگوں کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر صحیح اصول اور صحیح طریقے کی حکومت قائم کرنی چاہیے۔
یہی وہ بنیادی اصلاح ہے جس کو اسلام جاری کرنا چاہتا ہے۔ جو لوگ خدا کو اپنا بادشاہ (محض خیالی نہیں بلکہ واقعی بادشاہ) تسلیم کرلیں اور اُس قانون پر جو خدا نے اپنے نبیؐ کے ذریعے سے بھیجا ہے، ایمان لے آئیں، اُن سے اسلام یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کے ملک میں اُس کا قانون جاری کرنے کے لیے اُٹھیں۔ اس کی رعیت میں سے جو لوگ باغی ہوگئے ہیں اور خود مالک الملک بن بیٹھے ہیں، اُن کا زور توڑ دیں اور اللہ کی رعیت کو دوسروں کی رعیت بننے سے بچائیں۔ اسلام کی نگاہ میں یہ بات ہرگز کافی نہیں ہے کہ تم نے خدا کو خدا اور اس کے قانون کو قانونِ برحق مان لیا۔ نہیں، اس کو ماننے کے ساتھ ہی آپ سے آپ یہ فرض تم پر عائد ہوجاتا ہے کہ جہاں بھی تم ہو، جس سرزمین میں تمھاری سکونت ہو، وہاں خلقِ خدا کی اصلاح کے لیے اُٹھو۔ حکومت کے غلط اصول کو صحیح اصول سے بدلنے کی کوشش کرو، ناخدا ترس اور شتر بے مہار قسم کے لوگوں سے قانون سازی اور فرماں روائی کا اقتدار چھین لو، اور بندگانِ خدا کی رہنمائی و سربراہ کاری اپنے ہاتھ میں لے کر خدا کے قانون کے مطابق، آخرت کی ذمہ داری و جواب دہی کا اور خدا کے عالم الغیب ہونے کا یقین رکھتے ہوئے، حکومت کے معاملات انجام دو۔ اسی کوشش اور اسی جدوجہد کا نام جہاد ہے۔
یہ نماز اور روزہ اور یہ زکوٰۃ اور حج دراصل اسی تیاری اور تربیت کے لیے ہیں۔ جس طرح تمام دنیا کی سلطنتیں اپنی فوج، پولیس اور سول سروس کے لیے آدمیوں کو پہلے خاص قسم کی ٹریننگ دیتی ہیں پھر اُن سے کام لیتی ہیں، اُسی طرح اللہ کا دین (اسلام) بھی ان تمام آدمیوں کو، جو اس کی ملازمت میں بھرتی ہوں، پہلے خاص طریقے سے تربیت دیتا ہے، پھر اُن سے جہاد اور حکومتِ الٰہی کی خدمت لینا چاہتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ دنیا کی سلطنتوں کو اپنے آدمیوں سے جو کام لینا ہوتا ہے اُس میں اخلاق اور نیک نفسی اور خدا ترسی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ انھیں صرف کاررواں بنانے کی کوشش کرتی ہیں،خواہ وہ کیسے ہی زانی، شرابی، بے ایمان اور بدنفس ہوں۔ مگر دینِ الٰہی کو جو کام اپنے آدمیوں سے لینا ہے وہ چونکہ سارے کا سارا ہے ہی اخلاقی کام، اس لیے وہ انھیں کارِرواں بنانے سے زیادہ اہم اس بات کو سمجھتا ہے کہ انھیں خدا ترس اور نیک نفس بنائے۔
(خطبا ت سے اقتباس ، ص 259۔267)