کشمیر کی خصوصی شناخت کا خاتمہ کھیل ختم نہیں، شروع ہوگیا ہے

پراکسی جنگوں کا یہ کھیل مودی نے نئی نسلوں کو منتقل کر دیا

جنوبی ایشیا کا اب اللہ ہی حافظ ہے، کیونکہ بھارت نے 72 سال کی لڑائی کو سوموار کی صبح اگلے ماہ وسال پر منتقل کردیا۔ یہ لڑائی اب کم ہونے کے بجائے آنے والے زمانوں اور آنے والی نسلوں کو منتقل ہوچلی ہے۔گویا کہ ایک ایسی آگ دہکائی گئی ہے جسے بجھانے کے لیے کئی برسات اور کئی سمندر بھی کم پڑیں گے۔ بھارتی حکومت نے آئینِ ہند میں کشمیر کو خصوصی شناخت دینے والی دفعات370 اور 35-Aکو ختم کرکے اپنے طور پر کشمیر کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل یا ختم کردیا۔ کشمیر کے آزادی پسندوں نے ان دفعات کو کبھی اہمیت نہیں دی، کیونکہ اُن کا نقطہ نظر یہ تھا کہ وہ کشمیر کے ساتھ بھارت کے تعلق کو مانتے ہی نہیں جبکہ یہ شقیں کشمیر اور بھارت کے تعلق کی علامت اور نشانیاں ہیں، اور وہ بھارت کو ایک قابض قوت سمجھ کر استخلاصِ وطن کی جدوجہد کررہے ہیں، اور یہ شقیں مہاراجا ہری سنگھ کے معاہدۂ الحاق سے پھوٹتی ہیں جسے آزادی پسندوں نے سرے سے ہی قانونی نہیں سمجھا۔ مگر بھارت کے دھارے میں سیاست کرنے والی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے لیے یہ موت و زیست کا مسئلہ رہا ہے، کیونکہ ان کے خیال میں کشمیر اور بھارت کے درمیان تعلق کی یہ کمزور اور آخری نشانیاں ہیں جن سے وہ طاقت حاصل کرکے دہلی کو خوف زدہ کیا کرتے تھے۔
کشمیرکو خصوصی شناخت دینے والی یہ شقیں حقیقت میں دو افراد کے راز و نیاز، باہمی اعتماد اور یارانے کا شاخسانہ تھیں۔ وہ دو اشخاص بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو اور کشمیر کے مقبول لیڈر شیخ محمد عبداللہ تھے۔ کانگریس میں ایک سخت گیر اور طاقتور ہندو قوم پرست لابی اور ذہن کشمیر کی الگ شناخت کے روزِ اوّل سے مخالف تھے۔ یہ وہی ذہن تھا جس نے سیکولر روایات کے امین اور ہندو مسلم اتحاد کے علَم بردار جدید وضع قطع کے حامل محمد علی جناح کو قائداعظم بن کر مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کے قیام کا نظریہ اپنانے پر مجبور کیا تھا۔ محمد علی جناح نے اپنے دورۂ سری نگر کے دوران اسی ذہن سے بچانے کے لیے ڈل جھیل میں کھڑے ایک آراستہ و پیراستہ شکارے میں پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’عبداللہ تم میرے بیٹوں کی جگہ ہو، تم ہندو ذہنیت کو نہیں سمجھتے، میں نے ان کو قریب سے دیکھا ہے، یہ تمھیں دھوکا دیں گے‘‘۔ جواں سال شیخ عبداللہ پنڈت نہرو کی ذات اور اُن کے ساتھ اپنے اعتماد کے اس اعلیٰ درجے پر فائز تھے کہ انہوں نے بوڑھے محمد علی جناح کی اس نصیحت کو ہوا میں اُڑا دیا۔ پون صدی بعد اسی بے اعتنائی پر محبوبہ مفتی سری نگر میں چیخ پڑیں کہ آج ثابت ہوگیا کہ دوقومی نظریے کو مسترد کرکے الحاق کرنے کا فیصلہ غلط تھا۔ غلام نبی آزاد نے یہی اظہارِ تاسف بھارتی لوک سبھا میں بھی کیا۔ شیخ محمد عبداللہ کی حقیقی نواسی نائلہ علی خان اسکالر، مصنف اور پڑھی لکھی خاتون ہیں۔ مدت سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ بھارتی حکومت کے فیصلے پر انہوں نے اپنے نانا شیخ عبداللہ کے ایک بیان کا حوالہ دیا ہے جس کے ایک ایک لفظ سے مایوسی ٹپک رہی ہے۔ دلبرداشتہ اور عزیرو اقارب کے حالات سے بے خبر نائلہ علی خان نے اپنی فیس بک پوسٹ پر لکھا ہے کہ میرے نانا کا کہنا تھا کہ میری ہمیشہ کوشش رہی کہ کشمیریوں کو عام بھارتی شہریوں جیسے حقوق حاصل ہوں، مگر بھارت کی جمہوریت پٹھان کوٹ میں پہنچ کر ٹھیر جاتی ہے۔ پٹھان کوٹ اور بانہال کے درمیان اس جمہوریت کا صرف سایہ ہی باقی رہتا ہے، جبکہ بانہال سے آگے یعنی وادی میں تو اس کی ایک جھلک بھی نظر نہیں آتی۔
جب پنڈت نہرو اپنی ذاتی ضمانت پر شیخ عبداللہ کے ساتھ اپنے شخصی وعدوں اور یقین دہانیوںکی بنیاد پر بھارتی آئین کی تشکیل کے وقت کشمیر کو خصوصی شناخت دے رہے تھے تو کانگریس میں سخت گیر ہندو لابی دوافراد کے اس ’’راز ونیاز‘‘ کی کھلی مخالفت کرتے ہوئے کشمیر کے بھارت میں انضمام کا مطالبہ کررہی تھی۔ ان میں سب سے نمایاں نام جن سنگھ کے بانی اور بنگال سے تعلق رکھنے والے کانگریسی لیڈر سیاما پرساد مکھرجی کا تھا۔ یہ وہ شخص تھا جس نے کشمیر کو خصوصی شناخت دینے کی کھل کر مخالفت کی، اور کانگریس سے احتجاجاً اپنی راہیں جدا کرلیں۔ سیاما پرساد نے اعلان کیا کہ ’’ایک دیش میں دو پردھان (دو وزیراعظم)، دو ودھان (دو دستور)، دو نشان (دوپرچم) نہیں چلیں گے‘‘۔ واضح رہے کہ پنڈت نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات اور فیصلوں کے نتیجے میں مقبوضہ جموں وکشمیر کا اپنا صدر، اپنا وزیراعظم، اپنا جھنڈا، اپنا شناختی کارڈ تھا، اور صرف تین شعبوں دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کا اختیار بھارتی حکومت کو دیا گیا تھا۔ یہ وہ تین نکتے تھے جن کا اختیار مہاراجا کے الحاق کے وقت بھارت کو دیا گیا تھا۔ 1953ء میں سیاماپرساد مکھر جی نے اس فیصلے کے خلاف سری نگر میں بھوک ہڑتال کا اعلان کیا۔ وہ اپنے دو جن سنگھی ساتھیوں کے ہمراہ ریاست جموں وکشمیر کی سرحد پر پہنچا تو جموں وکشمیر پولیس نے اسے غیر قانونی طور پر ریاست کی حدود میں داخلے کی کوشش میں گرفتار کرکے سری نگر جیل میں بند کردیا۔ اُس وقت بھارتی باشندوں کے لیے کشمیر میں داخل ہونے کے لیے پرمٹ لازمی ہوتا تھا۔ سیاماپرساد کی موت سری نگر جیل میں پراسرار انداز میں واقع ہوگئی۔ یہ پہلا ہندو تھا جس نے کشمیر کی خصوصی شناخت کی مخالفت میں اپنی جان دے کر اس تحریک کو ہندوئوں کے لیے متبرک اور مقدس بنادیا۔ سیاما پرسا کی یاد میں تعلیمی ادارے اور دوسری املاک کی جانے لگیں، اس کے نام پر سڑکیں اور پل بنائے گئے، حتیٰ کہ اس کی یاد میں ڈاک ٹکٹ بھی جاری ہوئے۔ سیاما کی موت کے بعد ہندوئوں نے نہرو عبداللہ وعدوں، ہری سنگھ کے معاہدۂ الحاق کی شقوں اور ضمانتوں کو پائوں کی ٹھوکر پر رکھ لیا، اور اس کی موت کے بعد شیخ عبداللہ کا گھیرا تنگ کیا جانے لگا، یہاں تک کہ شیخ عبداللہ کی حکومت کو برطرف کرکے انہیں قید کردیا گیا، اور یوںکشمیر کی خصوصی شناخت کا ایک زندہ ستون گرا دیا گیا، اور یہ کام نہرو کے ہاتھوں ہی کرایا گیا۔
شیخ عبداللہ کی برطرفی کے بعد رفتہ رفتہ کشمیر کی خصوصی شناخت ختم کی جانے لگی۔ صدر اور وزیراعظم کے عہدوں کو گورنر اور وزیراعلیٰ میں تبدیل کیا گیا، اور کشمیر کے آئین کے تحت ریاست کو حاصل اختیارات کم کیے جانے لگے ۔ لے دے کر اس شق کی اصل روح اسٹیٹ سبجیکٹ کے قانون تک محدود رہ گئی، جس کے تحت کوئی غیر کشمیری کشمیر میں جائداد خریدنے، نوکری کرنے اور کاروبار کا مجاز نہیں تھا۔ مگر یہ شق بھی سیاما پرساد مکھرجی کے مشن کے طور پر دہلی کے سخت گیر ہندو پالیسی سازوں کے نشانے پر رہی۔ 1993ء میں جب کشمیر میں عوامی مزاحمت زوروں پر تھی بھارتی پارلیمنٹ نے ایک قرارداد منظور کرکے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیا۔ یہ اقدام کشمیر کی خصوصی شناخت ختم کرنے کی جانب مرحلہ وار پیش قدمی کی سوچ کا آئینہ دار تھا۔ پلوامہ واقعے کے بعد بھارت نے جو نغمہ تیار کیا اُس کا ایک جملہ ’’توڑ دو دھارا ستر کو‘‘ سے مراد دفعہ 370کا خاتمہ ہی تھا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پلوامہ کا واقعہ بھارت کی ایک منظم اور منصوبہ بند سازش کا نتیجہ تھا۔ مودی تو راما پرساد مکھر جی کا اعلانیہ پیروکار ہے، اس لیے وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اعلانیہ دعوے دار تھا۔ دوتہائی اکثریت لینے کے بعد وہ اپنے اس طویل المیعاد منصوبے پر عمل کر گزرا۔
آج تاریخ خود کو دہر ا رہی ہے۔ 1953ء میں شیخ عبداللہ کو بطور وزیراعظم کشمیر گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا تھا، آج ان کا بیٹا فاروق عبداللہ اور پوتا عمر عبداللہ جو دونوں سابق وزرائے اعلیٰ ہیں، حریت قیادت کی طرح نظربند ہیں۔ بھارت کے دھارے میں کام کرنے والے کشمیریوں کو دکھ یہی ہے کہ کشمیری قیادت کے ساتھ سارے عہد و پیماں جہلم میں بہا دئیے گئے، اور یوں بھارت نے اپنے تئیں 72 سال کا ’اسٹیٹس کو‘ توڑ کر کھیل ختم کردیا۔ مگر بدقسمت جنوبی ایشیا اور سرزمینِ کشمیر میں یہ ایک نئے کھیل کی ابتدا ہے۔ کشمکش، کشیدگی، شدت پسندی، ردعمل، انتقام، مزاحمت، پراکسی جنگوں کا ایک کھیل مودی نے نئی نسلوں کو منتقل کردیا۔ بھارت نے کشمیر کو ہضم کرنے کے لیے حتمی وار کرلیا ہے، مگر اصل سوال یہ ہے کہ بھارت اسے ہضم بھی کرپائے گا؟ ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارت کشمیر پر کنٹرول کا اخلاقی جواز کھوتا چلا جارہا ہے۔ اب تو بھارت کے آخری نام لیوا بھی ہاتھ کھڑے کرچکے ہیں۔ اب بھارت ایک قابض قوت ہے جس کے ساتھ کوئی آئینی، قانونی اور تسلیم ورضا کا رشتہ باقی نہیں۔ دونوں کے درمیان اب طاقت کا رشتہ ہے، اور اس تعلق کو قائم رکھنے کے لیے طاقت استعمال کی جارہی ہے۔ بھارت کے اس فیصلے سے ثالثی کی حیثیت کم نہیں ہوئی بلکہ ثالثی کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ یہ بات نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھی ہے کہ امریکہ اور چین کو آگے بڑھ کر کشمیر کے مسئلے پر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

آرٹیکل 370 کا خاتمہ ،چین نے بھارتی اقدام ملکی خودمختاری کے منافی قرار دے دیا

چین نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر بھارت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ نئی دہلی نے چین کی سرحدی خودمختاری پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے، مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت تحمل کا مظاہرہ کریں۔ چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہوا چنینگ نے اپنے بیان میں کہا کہ چین نے بھارت کے ساتھ سرحد کے مغربی حصے میں چینی حدود میں بھارتی مداخلت کی ہمیشہ مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے یک طرفہ طور پر قوانین میں تبدیلی چین کی سرحدی خودمختاری اور سالمیت کی خلاف ورزی ہے جو بالکل ناقابلِ قبول ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ کشمیر کی موجودہ صورت حال پر چین کو سخت تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان اور بھارت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ خطے کے استحکام اور امن کے لیے مذاکرات کے ذریعے پُرامن طریقے سے اس تنازعے کو حل کریں اور کسی بھی قسم کی ایسی صورت حال سے گریز کریں جس سے سرحد کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہو۔ ہوا چنینگ کا کہنا تھا کہ کشمیر پر چین کا بہت واضح مؤقف ہے کہ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک تاریخی مسئلہ ہے جس پر عالمی برادری کا بھی اتفاق ہے، لہٰذا دونوں ملک تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کریں جس سے خطے کے تناؤ میں اضافہ ہو۔
یہ حالیہ عرصے میں مسئلہ کشمیر پر چین کا دوسرا اہم بیان ہے۔ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کو ثالثی کی پیشکش کی گئی تھی جس پر چین نے 26جولائی کو اپنا بیان جاری کیا تھا۔