سینیٹ میں عدم اعتماد کی دونوں تحریکیں ناکام ہوگئیں اور یوں صورتِ حال جوں کی توں رہے گی۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا بھی اپنے عہدے پر براجمان رہیں گے۔ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے رائے شماری کرانے کی قرارداد میں 64 اراکین نے ہاتھ اٹھائے، تاہم جب ووٹنگ ہوئی تو صرف 50 اراکین نے تحریک کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ صادق سنجرانی کی حمایت میں 45 ووٹ پڑے۔ تحریک کی کامیابی کے لیے کم از کم 53 ووٹوں کی ضرورت تھی۔ کھلی گنتی میں اپوزیشن جیت گئی، ووٹ کے ذریعے حکومت کامیاب رہی۔ یوں اب دونوں پلڑے پہلے کی طرح رہیں گے۔
حکومت اور اپوزیشن کے پلڑے تو برابر رہے لیکن ملک کی عزت کا پلڑا کتنا گرا، اس کا ضمیر فروش سینیٹرز کو احساس ہے؟ ان کے لیے بہتر تھا کہ ووٹ نہ ڈالتے اور چلے جاتے۔ ان کے عمل نے دنیا بھر میں پاکستان کی جنگ ہنسائی کروائی ہے۔ یہ پاکستانی سیاست کی اخلاقیات سے محرومی بھی ہے اور ملک و قوم کے لئے ہولناک بھی ہے۔
چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا فیصلہ اپوزیشن جماعتوں نے کیا تھا، جس کے جواب میں حکومت نے بھی ڈپٹی چیئرمین کے خلاف تحریک لانے کا اعلان کردیا۔ چند روز تک اِس سلسلے میں غیر معمولی سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں، حکومت اور اپوزیشن کے رابطے بھی ہوئے، بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال اسلام آباد آکر بیٹھے رہے، سینیٹ میں قائد ِ ایوان شبلی فراز چل کر مولانا فضل الرحمن کے پاس گئے۔ اپوزیشن جماعتیں مطمئن تھیں کہ اُن کے نمبر پورے ہیں، جبکہ حکومت کے اعلیٰ منصب دار بار بار اعلان کررہے تھے کہ اپوزیشن کی تحریک ناکام ہوجائے گی۔ سو، بیلٹ کے ذریعے یہ فیصلہ بھی ہوگیا۔ چیئرمین کے خلاف تحریک کے حق میں مطلوبہ ووٹ (53) نہیں آسکے، اور صرف50 ووٹ آئے۔ تحریک کے خلاف45 ووٹ آئے۔ پانچ ووٹ مسترد ہوگئے۔ اس طرح اپوزیشن کے 14 ووٹ کم ہوگئے اور حکومت اور اس کے اتحادیوں کے 9 ووٹ بڑھ گئے۔ مسترد شدہ ووٹوں کا نقصان بھی اپوزیشن کو ہوا۔ اس طرح تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی۔
سینیٹ کے اجلاس میں ووٹنگ شروع ہوئی تو ایک سو ارکان حاضر تھے۔ حکومت کو جو ووٹ زیادہ ملے اُن سب کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے۔ اس کا صاف اور سیدھا مطلب یہی ہے کہ اپوزیشن کی صفوں میں سب اچھا نہیں ہے۔ راجا ظفر الحق نے جب تحریک عدم اعتماد پیش کی تو 64ارکان نے کھڑے ہوکر حمایت کی تھی، لیکن ووٹنگ کے بعد نتیجہ اس حمایت کے مطابق نہیں نکلا۔ تحریک کی حمایت میں کھڑے ہونے والوں میں14 ارکان اُس وقت سجدوں میں گر گئے جب وقتِ قیام آیا۔ سینیٹ چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک عددی اعتبار سے تو کامیاب مگر قانون کی رو سے ناکام ہوگئی۔ عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی پر بہت گفتگو ہوگی، لیکن اصل بات یہ ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک اس لیے کامیاب نہیں ہوسکی کہ فی الحال فیصلہ یہی ہے۔ اس حکومت اور نظام کے خلاف اپوزیشن اور حزبِ مخالف کی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی کوئی بھی مشترکہ تحریک پیا من نہیں بھائے گی۔ یہی حقائق ہیں اور یہی اصل بات ہے، باقی سب کہانیاں ہیں۔ آج کی جمہوریت صرف اتنی آزاد ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو سیاست کرنے کا حق دیا گیا ہے، لیکن انہیں صنم خانے کے تراشے ہوئے بت گرانے اور نظام تلپٹ کرنے کی کھلی چھوٹ نہیں دی گئی، البتہ جو آگے بڑھ کر اس نظام کی حمایت کرے گا اسی قدر اُسے دامن بھر کر ریلیف بھی ملتا رہے گا۔ آج کے سیاسی اسٹاک ایکس چینج میں پیپلز پارٹی نے سیاسی منڈی میں اپنے حصص کا بہترین سودا کیا، اور یوں عدم اعتماد کی تحریک دھری کی دھری رہ گئی۔ جس روز سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ ہونے تھے اسی روز صبح کے اجلاس میں مشاہد حسین سید نے راجا ظفرالحق اور رضا ربانی کو رازداری میں بتادیا تھا کہ آصف علی زرداری اور ایک ٹائیکون کی ملاقات میں قافلہ لٹ چکا ہے اور عدم اعتماد کی تحریک بری طرح پٹ جائے گی، لہٰذا وہی ہوا جو ملاقات میں طے ہوا تھا۔ اب پیپلزپارٹی کو سیاسی ریلیف بھی ملنا شروع ہوگیا ہے۔ حقائق جاننے کے لیے تشکیل دی جانے والی کمیٹیوں کی کوکھ سے کچھ بھی نہیں نکلے گا۔
تحریکِ عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد حکومت کا مؤقف ہے کہ اپوزیشن کا بیانیہ پٹ چکا ہے اسی لیے عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی۔ لیکن بیانیہ تو حکومت کا بھی پٹ چکا ہے، تحریک انصاف کی لیڈرشپ اپوزیشن میں رہتے ہوئے جو بیانیہ لے کر چل رہی تھی، عوام کو ریلیف دینے سے لے کر آئی ایم ایف کے قرضوں تک یہ سارا بیانیہ آج کہاں ہے؟ تحریک انصاف حکومت کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اسے غیر معمولی حمایت میسر ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ وہ اس کے باوجود کارکردگی دکھا نہیں سکی۔ اسے جس قدر غیر معمولی حمایت اور سرپرستی ملی ہوئی ہے یہ ماضی میں کسی حکومت کو میسر نہیں رہی۔ یہ بات پتھر پہ لکیر سمجھیے کہ حکومت معیشت بہتر نہ کرسکی تو وزیراعظم کی کرشماتی شخصیت بوجھ بھی بن سکتی ہے۔ تلخ سچ یہ ہے کہ کشتی ڈوبنے سے بچانے کے لیے بوجھ اتارا جاتا ہے، تاہم یہ بوجھ اتارنے کے لیے بھی اپوزیشن کو ڈیل کی زرہ پہن کر سیاست کرنے کے بجائے ایک سنجیدہ حزبِ مخالف بن کر جمہور کی قوت مجتمع کرنا ہوگی۔
تحریک عدم اعتماد کی ناکامی، جسے اب افسانہ بناکر پیش کیا جارہا ہے، اس کا فیصلہ تو اپوزیشن کی پانچ جماعتوں نے کُل جماعتی کانفرنس میں کیا تھا، لیکن یہ اتحاد دو ہفتوں میں ہی بے نقاب ہوگیا۔ اب دونوں بڑی جماعتیں لکیر پیٹ رہی ہیں۔ قاعدے کے مطابق چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے کُل حاضر ارکان کے نصف سے زائد ووٹ چاہیے ہوتے ہیں، اور انہیں منصب سے ہٹانے کے لیے بھی یہی اصول اور قاعدہ ہے۔ اپوزیشن کی جماعتیں اب سر جوڑ کر بیٹھی ہوئی ہیں کہ64 ارکان کی حمایت کے باوجود وہ کامیاب کیوں نہیں ہوسکیں؟ اس کا سادہ سا جواب ملک کا سیاسی نظام ہے۔ اس نظام میں ہر سیاسی جماعت اپنے سربراہ کی مٹھی میں بند ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ نے پتّے کھیل کر ناکام بنائی اور بدلے میں ریلیف حاصل کرلیا ہے۔ دیکھتے جائیں اب ریلیف کی بارش دوسری کس سیاسی جماعت کے صحن میں برسے گی۔ خبر ہے کہ مریم نواز کے بھی رابطے ہوچکے ہیں، اُن کی ایک اہم ملاقات اسلام آباد میں مسلم لیگ(ن) کے ایک سابق رکن قومی اسمبلی کے گھر ہوچکی ہے۔ چونکہ دونوں جماعتیں رابطے میں ہیں، لہٰذا مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی دکھاوے کی اپوزیشن کریں گی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ پروڈکشن آرڈر پر آصف علی زرداری پارلیمنٹ ہائوس آئے تو میڈیا نے ان سے سوال کیا کہ صادق سنجرانی کو آپ کی پارٹی کے کس کس سینیٹر نے ووٹ دیا تو انہوں نے مسکراکر کہا” کچھ لوگ میرے تھے اور کچھ کسی اور کے تھے“۔ سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تجویز عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے آئی تھی، جس کا مؤقف تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کو اگر سنجیدہ حزبِ مخالف کا کردار ادا کرنا ہے تو سب سے پہلے سینیٹ کے چیئرمین کو اُن کے منصب سے ہٹانے کا متفقہ فیصلہ کیا جائے۔ کُل جماعتی کانفرنس میں اس تجویز پر عمل درآمد ہوا اور عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی، لیکن تحریک کی تیاری، اسے جمع کرانے اور ایوان میں پیش کیے جانے کے بعد خفیہ رائے شماری تک کوئی ایک بھی ایسا مرحلہ نہیں تھا جہاں عدم اعتماد کی تحریک لانے والی جماعتوں میں باہمی اعتماد نظر آیا ہو۔ عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لیے بلائے جانے والے سینیٹ کے اجلاس سے دو روز قبل اسلام آباد کی سیاسی چوپالوں اور پارلیمنٹ کی راہداریوں میں غیر معمولی خاموشی اور سناٹا تھا، ان دو دنوں میں عدم اعتماد کی محرک جماعتوں میں کوئی باہمی رابطہ نہیں تھا۔ یہی وہ دو دن تھے جن میں ڈیل ہوئی۔ پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ کو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے جو کچھ بھی حاصل کرنا تھا، کرلیا۔ اب مخالف ووٹ ڈالنے والے ارکان کی تلاش کے لیے نمائشی گھن گرج ہوگی، چند ہفتوں کے بعد یہ مشق بھی ختم کردی جائے گی۔
سوال یہ ہے کہ ڈیل کیا ہوئی ہے؟ اس ڈیل کے تین نکات ہیں: (1)وفاقی حکومت، سندھ کی صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرے گی،(2) پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ کے خلاف مقدمات بتدریج ہلکے پڑتے چلے جائیں گے اور(3) چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے وقت جو معاہدہ ہوا تھا، تین سال کی مدت مکمل ہونے تک اس کی پاس داری کی جائے گی۔ یوں سمجھ لیا جائے کہ پیپلزپارٹی نے ایک بار پھر جھک کر رفعتیں پالی ہیں، خود کو حقیقی سیاسی نقصان سے بھی بچالیا ہے، اور ایک تیر سے دو شکار کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کو بھی اپنے مقصد کے لیے خوب استعمال کیا ہے۔ اب آئندہ کا سیاسی منظر یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف ایک دوسرے کی سرپرست بن گئی ہیں اور کُل جماعتی کانفرنس کی حیثیت بوری بند لاش سے زیادہ نہیں رہی۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی سے یہ بھی عیاں ہوچکا ہے کہ جب تک سرپرستی حاصل ہے عمران حکومت بے حد ’مضبوط‘ وکٹ پرکھیلتی رہے گی اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ اگر یہ بات مزید صراحت سے کہی جائے تو یہ کہنا چاہیے کہ طاقت کا سرچشمہ عیاں ہوچکا ہے، اور یہ کھیل پانچ سال تک بھی چل سکتا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان میڈیا وار تو شروع دن سے ہے، بجٹ بھی اسی وجہ سے پاس ہونے دیا گیا۔ میڈیا وار کے بعد دوبدو مقابلے کا یہ پہلا معرکہ تھا جس میں اپوزیشن شدید ہزیمت سے دوچار ہوئی ہے۔ اس قدر سازگار ماحول کے باوجود بھی اگر حکومت کام نہ کرسکے تو عمران خان کی طلمساتی شخصیت اپنی قدر کھو سکتی ہے۔ اور یہاں اب حزب اختلاف کو اپنے بارے میں سوچنا ہوگا اور فیصلہ کرنا ہوگا کہ درحقیقت اسے کرنا کیا ہے؟ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں جب صادق سنجرانی کو لایا گیا تھا تو اُن کا انتخاب اتنا ہی غیر متوقع اور حیران کن تھا جتنا اب ان کا بچنا باعثِ استعجاب ہے۔ پیپلزپارٹی کی حمایت سے ہی سنجرانی اس عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ اب ہارس ٹریڈنگ کا واویلا قطعی طور پر بے محل اور فضول ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کے نتائج اپوزیشن کے لیے ایک تازیانہ ہے۔ کہا جارہا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اب تنہا رہ گئی ہے، اسے بھی ڈیل کرنی ہے تو پیپلزپارٹی کی راہداری سے گزرنا ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کے لیے یہ کڑا وقت تو ہے لیکن پیپلزپارٹی کی طرح وہ پشیمان نہیں ہے، البتہ پریشانی یہ ہے کہ نوازشریف جیل میں ہیں، شہبازشریف اور مریم نواز کے خلاف نیب کو منی لانڈرنگ کے متعدد شواہد مل چکے ہیں، عباس شریف کے ایک بیٹے نے دورانِ تفتیش اس حوالے سے خاصے انکشافات بھی کیے ہیں۔ عباس شریف کے دوسرے بیٹے بھی جلد نیب میں پیش ہوں گے۔ نیب ذرائع کے بقول یہ چیز ثابت ہوچکی ہے کہ صرف شہبازشریف، حمزہ، حسن اور حسین ہی نہیں، بلکہ مریم نواز بھی منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔ شہبازشریف اور مریم نواز کی گرفتاری کا امکان ہے۔ یہ گرفتاری دبائو بڑھاکر معاملات طے کرنے کے لیے بھی ہوسکتی ہے۔ ان کی گرفتاری کی صورت میں متبادل قیادت تیار ہے۔ متبادل قیادت کے حوالے سے رانا تنویر اور خواجہ آصف کا نام لیا جارہا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شہبازشریف کچھ دنوں میں ایک درخواست دیں اور کہیں کہ وہ علاج کی غرض سے پاکستان سے باہر جانا چاہتے ہیں۔
پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کا ”یارانہ“۔
آج ملک میں جس طرح کی سیاست کرنے کا حق ملا ہوا ہے، تحریک انصاف اور متحدہ اس کی ایک عمدہ مثال ہیں۔ ایک دوسرے کی حریف سمجھی جانے والی تحریک انصاف اور متحدہ نے عام انتخابات 2018ء کے بعد سیاسی حلیف بننے کا فیصلہ کیا۔ ایم کیوایم اور پی ٹی آئی نے اعلان کیا تھا کہ ان کا یہ اتحاد صرف اور صرف عوام کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ اس کی بنیاد ایک مفاہمتی یادداشت بنی جس پر 3 اگست 2018ء کو بنی گالا میں دونوں فریقین کے وفود کی ملاقات کے بعد دستخط ہوئے۔ یہ یادداشت 9 نکات پر مشتمل تھی، جس میں کراچی میں مردم شماری پر تحفظات سے متعلق قومی اسمبلی کی قرارداد پر عمل درآمد، کراچی کی بلدیاتی حکومت کے اختیارات سے متعلق سپریم کورٹ میں دائر متحدہ کی درخواست کی حمایت، کراچی آپریشن کا ازسرنو جائزہ، حکومتی عہدوں پر شفاف تقرریاں، 1998ء میں محصولِ چنگی نظام کے خاتمے کے بعد شہروں کو ہونے والے نقصانات کا ازالہ، شہری حکومت کو وفاق سے فی الفور فنڈز کی فراہمی، پولیس اصلاحات، حیدرآباد میں یونیورسٹی کا قیام، انتخابی حلقوں میں الیکشن آڈٹ شامل تھا۔ ایک سال کے دوران مفاہمتی یادداشت کے کسی ایک مطالبے پر تاحال مکمل عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ ماضی میں بات بات پر حکومت سے روٹھ جانے والی ایم کیو ایم پاکستان نے اِس بار یہ روایت بھی توڑ ڈالی، اور ہر مشکل گھڑی میں بلاتردد تحریک انصاف کی آواز پر لبیک کہا۔ ایوانِ زیریں میں عمران خان کے بطور وزیراعظم انتخاب سے لے کر ایوانِ بالا میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد تک متحدہ نے اپنی حمایت کا وزن پی ٹی آئی کے پلڑے میں ڈالا۔