ایک واقعی بڑے ادیب، مضمون نگار، کالم نگار، مترجم اور شاعر، جو مرحوم ہوئے، ان کی ایک تحریر نظر سے گزری، جس میں ایک جملہ ہے ’’پُرشور اور پُرہنگام سڑک‘‘۔ ہنگام کے اس استعمال سے واضح ہے کہ مرحوم کو اس کا مطلب معلوم نہیں تھا اور انہوں نے اسے ہنگامہ کے معنوں میں استعمال کیا۔ مذکورہ تحریر 1953ء میں ایک معتبر جریدے میں شائع ہوئی، اور اب 2019ء میں شائع ہونے والی کتاب کا حصہ ہے۔ حیرت ہے کہ اس طویل عرصے میں کسی نے بھی اس کی تصحیح کرنے کی زحمت نہیں کی۔ یہ غلطی ہم سے بھی اُس وقت سرزد ہوئی تھی جب ایف اے کے سالِ اوّل میں اردو کے پرچے میں ہم نے ہنگام کو ہنگامہ کے معنوں میں استعمال کیا، تاہم بطور سند جو شعر لکھا اس سے مطلب واضح تھا۔ شعر یہ ہے:
آنکھ میں آنسو مہر بلب
ہائے وہ رخصت کا ہنگام
ہم نے کسی کی رخصت پر برپا ہونے والے ہنگامے سے تعلق جوڑ دیا۔ لیکن ہم تو آج بھی طالب علم ہیں، کوئی بڑے کیا چھوٹے ادیب بھی نہیں۔ مذکورہ پرچے میں ہمارا ایک نمبر کٹ گیا تھا جس کی وجہ جاننے کے لیے پروفیسر صاحب سے رجوع کیا تو اپنی غلطی آشکار ہوئی۔ گزشتہ دنوں مرحوم ادیب کی تحریر پڑھتے ہوئے ہمیں اپنا واقعہ یاد آگیا۔ لیکن ہماری تصحیح جلد ہی ہوگئی تھی۔
ممکن ہے کہ اب بھی ہمارے کچھ ساتھی ہنگام کو ہنگامے کی بہن یا بھائی سمجھتے ہوں، یا اسے ہنگامے کا مخفف جانتے ہوں۔ لیکن دونوں الفاظ معنوی اعتبار سے ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔ ہنگام کا مطلب ہے ’’وقت، زمانہ، موقع‘‘۔ فارسی کا لفظ ہے نون غنہ کے ساتھ۔ امیر مینائی کا شعر ہے:
ہم جو رخصت ہوئے اس بت سے تو ہنگامِ وداع
ہنس کے بولا وہ صنم جائو خدا کو سونپا
اور ہنگامہ کا مطلب سب ہی کو معلوم ہے۔ بڑے شہروں میں یہ آئے دن برپا رہتا ہے اور گھروں میں بھی در آتا ہے۔ بارش برس کر گزر جاتی ہے لیکن کتنے ہی ہنگامے اپنے پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔ مرزا غالب کا شعر ہے:
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
علاوہ ازیں ’’ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق‘‘۔ یا ’’ہنگامہ ہے کیوں برپا شادی ہی تو کی ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
ہنگامہ کا مطلب شورش، بلوہ، دنگا، فساد، مجمع، بھیڑ، ہجوم وغیرہ۔ ہنگامہ برپا کرنا یعنی فساد برپا کرنا، شوروغل مچانا۔ خواجہ حیدر علی آتشؔ کا شعر ہے:
روز و شب ہنگامہ برپا ہے میانِ کوئے دوست
ہڈیوں پر میری لڑتے ہیں سگانِ کوئے دوست
کوئے دوست نہ ہوا شہر کراچی ہوگیا کہ ہر طرف سگانِ آوارہ کا ہنگامہ بپا ہے۔ ہنگام کی ایک بہن ’’ہنگامی‘‘ بھی ہے جس کا مطلب ہے: چند روز کا، خاص وقت تک کا۔ کبھی یوں بھی ہوا کہ ملک میں ہنگامی صورت حال نافذ کردی گئی جو چند روز نہیں، برسوں چلی۔ انگریزی میں اسے ایمرجنسی کہتے ہیں۔ حاصل یہ کہ سڑک پر ہنگامہ ہوسکتی ہے، پر ہنگام نہیں۔
اخبارات میں ’’بیرون ممالک‘‘ کی غلطی بہت عام ہوتی جارہی ہے۔ ویسے تو دیگر اخبارات بھی پیچھے نہیں لیکن روزنامہ جنگ میں یہ غلطی تواتر سے ہورہی ہے۔ ہفتہ 3 اگست کے اخبار میں بھی شہزاد اکبر سے منسوب بیان میں یہ غلطی موجود ہے ’’ملکی خزانہ (خزانے) کو ’’بیرون ممالک‘‘ میں بھجوا کر…‘‘ ہمارے صحافی بھائی ذرا غور تو کریں کہ بیرون ممالک کا مطلب کیا ہے۔ یعنی ممالک کے باہر۔ کون سے ممالک؟ اگر ممالک لکھنا ہی ضروری ہے تو ’’بیرونی ممالک‘‘ لکھا جائے، یا پھر ’’بیرونِ ملک بھجوا کر‘‘۔ مذکورہ جملے میں ’’میں‘‘ بھی غیر ضروری ہے۔ یہی غلطی اسی دن کے اخبار جسارت میں بھی موجود ہے لیکن سرخیوں میں نہیں آئی۔ خبر اسلام آباد کے نمائندے کے حوالے سے شائع ہوئی ہے اور جملہ ہے ’’ہنڈی حوالہ کے ذریعے بیرون ممالک رقوم بھجوائیں‘‘۔ آخر بیرونِ ملک لکھنے میں کیا پریشانی ہے؟ نمائندے نے تو جو لکھا سو لکھا، نیوز ڈیسک پر بیٹھے ہوئے ہمارے ساتھیوں یا پروف ریڈر کی بلا سے کہ بیرون ملک اور بیرونی ممالک میں کیا فرق ہے۔ ’’دنیا بھر میں جگ ہنسائی‘‘ بھی عام ہوگیا ہے۔ صرف جگ سے کام نہیں چلتا جس کا مطلب ہی دنیا ہے۔ خواجہ میر دردؔ کا شعر ہے:
جگ میں آکر اِدھر اُدھر دیکھا
تُو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
اخبارات میں ایک مزے کی ترکیب نظر سے گزرتی ہے ’’موقع پر رنگے ہاتھوں پکڑلیا‘‘۔ اب یا تو موقع پر پکڑا جائے یا رنگے ہاتھوں۔ دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرلیں۔ لیکن رنگے ہاتھوں کا پس منظر کیا ہے؟ یہ شاید کسی رنگریز کو معلوم ہو۔
محترم انور شعور ایک بڑے اور کہنہ مشق شاعر ہیں، لیکن حیرت ہے کہ انہوں نے ’’اضحیٰ‘‘ اور ’’ضحیٰ‘‘ کا فرق ملحوظ نہیں رکھا، اتوار 4 اگست کو روزنامہ جنگ میں ان کا قطعہ شائع ہوا ہے جس کا دوسرا شعر ہے:
اس برس آ رہی ہے گویا ساتھ
عیدالضحیٰ و عیدِ آزادی
گمان ہوا کہ شاید یہ کمپوزنگ کی غلطی ہے، ورنہ اتنا بڑا شاعر ایسی غلطی کیسے کرسکتا ہے! لیکن اگر انہوں نے عیدالاضحی لکھا ہوتا تو مصرع بے وزن ہوجاتا۔ انور شعور قادرالکلام شاعر ہیں لیکن صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے بھی عمومی غلطی کی ہے۔ ضحیٰ اور اضحیٰ میں بڑا معنوی فرق ہے۔ الضحیٰ تو دوپہر کو کہتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں بھی آیا ہے ’’والضحیٰ‘‘۔ یعنی قسم ہے روزِ روشن کی۔ اور اضحیٰ کا مطلب ہے قربانی۔ چنانچہ یہ عیدالاضحی کہلاتی ہے۔ اب یہ ماہرین بتائیں گے کہ کیا ’’عیداضحیٰ‘‘ لکھنے سے وزن پورا پڑتا ہے یا نہیں۔
صحافی دوستوں اور کالم نگاروں سے ایک بار پھر استدعا ہے کہ مارشل لا وغیرہ کے ’’لا‘‘ کے بعد ہمزہ لگانے کا تکلف نہ کیا کریں۔ لا (LAW) انگریزی کا لفظ ہے اور ہمزہ عربی کے الفاظ میں استعمال ہوتا ہے۔ ویسے ’’لا‘‘ عربی کا لفظ بھی ہے جس کا مطلب ہے ’’نہیں‘‘۔
’’فرانزک‘‘ انگریزی کا لفظ ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایک ہی اخبار کے ایک صفحے پر اس کا مختلف املا مل جاتا ہے یعنی فرانزک، فرانسک، فارنسک۔ یہ بوالعجبی ایک ہی صفحے پر یا ایک ہی اخبار میں نہیں ہونی چاہیے۔ مدیرانِ اخبارات کسی ایک املا پر اتفاق کرلیں۔ ویسے تو اس کا ترجمہ ہی عجیب ہے، تاہم یہ ترجمہ کم ہی نظر آتا ہے۔ چنانچہ انگریزی لفظ پر اکتفا کرلیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ’’دعوت‘‘ دہلی میں ایک مضمون بھی نظر سے گزرا کہ ’’دوسری زبانوں کے لفظوں کو اردو میں کیسے لکھا جائے‘‘۔ یہ مضمون صفدر امام قادری کا تھا۔ وہ لکھتے ہیں ’’اردو املا کی معیار بندی میں سب سے متنازع مسئلہ یہ ہے کہ دوسری زبانوں کے لفظوں کو کس انداز سے اردو میں شامل کیا جائے؟ پرانی مثالیں ’’لین ٹرن‘‘ کو لالٹین بنا لینا، کار (CAR) کو اسی طرح کار لکھنا یہ اس دور کی بات ہے جب اردو میں انگریزی یا دوسری یورپی زبانوں کے الفاظ کا تناسب ایک فیصد تسلیم کیا جاتا تھا۔ مگر آج نئے تعلیمی اور ترقیاتی اہداف نے اردو میں ایسے الفاظ کا تناسب 25 فیصد تک بڑھادیا ہے۔ (ویسے پاکستان میں جو اردو زبان سننے میں آتی ہے اس میں تو اردو کا تناسب 25 فیصد رہ گیا ہے)۔ پہلے عربی، فارسی پڑھے لکھے افراد اردو استعمال کرنے والے ہوتے تھے، مگر آج کے دور میں اردو بولنے اور لکھنے والوں کی بڑی تعداد انگریزی اور دوسری زبانوں کے واقف کاروں کی ہے۔ اردو خواں آبادی میں عربی اور فارسی سے نابلد نئی نسل سب سے بڑے مسئلے کے طور پر دیکھی جارہی ہے۔ اردو میں انگریزی اور یورپی زبانوں کے الفاظ اور محاورات اتنی بڑی تعداد میں شامل ہوگئے ہیں جنہیں لکھنے کے طریقوں میں معیار بندی کی ضرورت ہے۔ انجمن ترقی اردو (بھارت) یا عبدالستار صدیقی (ماہر لسانیات) کی اس سلسلے میں بہت واضح ہدایات تھیں کہ پڑھنے کی سہولت کے لیے SYLLABLES کو الگ الگ لکھا جائے۔ اردو املا میں رشید حسن خان نے اس سفارش کو قبول کیا (ہمارے خیال میں وہ کچھ زیادہ ہی آگے بڑھ گئے) مگر انگریزی الفاظ کے املا کے سلسلے میں تفصیل سے بحث نہیں کی۔
مثال کے طور پر مشہور تین لفظوں کو لیجیے جو سامنے کے ہیں یعنی RESTAURANT، ACADEMY اور SEMINAR۔ اکادمی، اکاڈمی، اکیڈمی، اکیدمی، اکادیمی۔ اسی طرح ریستوران، ریسٹورنٹ وغیرہ۔ اور سیمینار، سیمی نار، سیمنار، سے می نار وغیرہ۔ یہ تین لفظوں کا معاملہ نہیں۔ ایسے ایک ہزار الفاظ تو فوری طور پر منتخب کیے جاسکتے ہیں‘‘۔
ضرورت ہے کہ انگریزی الفاظ کا اردو میں املا طے کرلیا جائے، ورنہ فرانسک اور فرانزک کا تضاد برقرار رہے گا۔