بھارت نے کشمیر کی تحریکِ آزادی کو سبوتاژ کرنے کے لیے امریکہ اور اسرائیل کی سرپرستی اور پشت پناہی کے ساتھ ایک بڑا اور نیا کھیل رچایا ہے۔ مودی حکومت نے اپنے انتخابی منشور کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کردیا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 ختم کرنے کا بل راجیا سبھا میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ صدر نے بل پر دستخط کردیے ہیں۔ خصوصی آرٹیکل ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا، جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔ مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے وادی جموں و کشمیر کو لداخ سے الگ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ لداخ کو وفاق کے زیرانتظام علاقہ قرار دیا جائے گا جہاں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی۔ تاہم چین نے لداخ کو متنازع علاقہ قرار دے کر بھارت کو خبردارکیا ہے۔
اس سے قبل اِس آرٹیکل کے تحت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے سوا بھارت کا کوئی بھی شہری یا ادارہ جائداد نہیں خرید سکتا تھا۔ اس کے ساتھ سرکاری نوکریوں اور ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق بھی صرف کشمیری باشندوں کو حاصل تھا۔ اب دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی سے اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو آبادی، جغرافیہ اور مذہبی لحاظ سے تبدیل کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے۔ اس منصوبے کے تحت مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریتی حیثیت ختم ہوجائے گی، اور اب وہاں غیر مسلموں اور غیر کشمیریوں کو بسانے کا عمل تیز ہوجائے گا۔ اِس وقت مقبوضہ کشمیر میں قابض انتظامیہ نے وسیع پیمانے پر کرفیو نافذ کرکے لوگوں کی نقل و حرکت اور عوامی جلسوں اور جلوسوں کے انعقاد پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی ہے۔ تمام تعلیمی اداروں کو بند کردیا گیا ہے، جبکہ پورے جموں وکشمیرمیں انٹرنیٹ سروس بھی معطل کردی گئی ہے۔ تعلیمی اداروں کے ہاسٹل خالی ہوگئے ہیں۔ سید علی گیلانی اور میر واعظ عمرفاروق سمیت تمام حریت پسند قیادت کو گھروں یا جیلوں میں نظربند کردیا گیا ہے۔ سابق کٹھ پتلی وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو بھی گھروں میں نظربند کردیا گیا ہے۔ کشمیر میں بھڑکائی ہوئی آگ تیز ہوگئی ہے۔ کشمیریوںپر بھارتی ریاستی دہشت گردی اور ظلم کی ہر حد کو پار کیا جارہا ہے۔ لیکن دوسری طرف وہاں کے عوام اور مجاہدین بلند حوصلوں اور عزم کے ساتھ سراپا احتجاج ہیں اور مسلسل اور بڑی مزاحمت کررہے ہیں۔ اس صورتِ حال پر امریکہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے جموں وکشمیرکی خصوصی حیثیت بدلنے کے معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ مورگن اورٹیگس نے ایک بیان میں کہا کہ بھارت اس اقدام کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دے رہا ہے، مقبوضہ کشمیر میں گرفتاریوں اور نظربندی پر تشویش ہے۔اس بیان سے لگتا ہے کہ امریکی بھی اسے واقعی معاملہ سمجھتا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹریس کو خط لکھا ہے جس میں انہیں مقبوضہ جموں و کشمیر کی تشویش ناک صورتِ حال اور خطے میں امن و امان کی صورتِ حال سے آگاہ کیا گیا ہے۔ خط کے متن میں ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں گزشتہ کئی دہائیوں سے سات لاکھ سے زائد بھارتی فوج کی موجودگی کے باوجود مزید دس ہزار سے زیادہ فورس بھجوائے جانے کی اطلاعات تشویش ناک ہیں۔ سری نگر ائیرپورٹ پر خصوصی طیاروں کی نقل و حرکت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں اضافی دستوں کی آمد پر بھی خط میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ خط میں اس پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے ہفتے بھر کے لیے راشن کو محفوظ کرنے کی ہدایات کشمیریوں کے خوف و ہراس میں مزید اضافے کا موجب بن رہی ہیں اور مزید خدشات جنم لے رہے ہیں۔ اب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی مقبوضہ کشمیر میں کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر میں سخت پابندیوں سے آگاہ ہے۔ مبصرگروپ نے ایل اوسی پر فوجی سرگرمیوں میں اضافے کا مشاہدہ کرکے رپورٹ دی ہے۔ انہوں نے تنازعے کے فریقین سے اپیل کی ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔ جبکہ او آئی سی نے اپنی ٹویٹ میں بھارتی اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان بھارت کے کسی حصے پر قبضہ کرلے تو اقوام متحدہ، امریکہ اور عالمی برادری کا رویہ یہی ہوگا؟ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ بھارت کیا کررہا ہے۔ بھارت اور مودی حکومت وہی کررہی ہے جو اُن کا پہلے دن سے پاکستان کے لیے ایجنڈا ہے، اور بھارت اس ایجنڈے کے تحت ایک بار پاکستان کو دولخت کرچکا ہے، بلوچستان اور کراچی میں اُس کا کھیل جاری ہے، کشمیر میں تو وہ ستّر سال سے بے رحمی اور ڈھٹائی کے ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیریوں کا بے دریغ خون بہا رہا ہے، اور ہم دیکھتے ہیں کہ عملی طور پر عالمی طاقتیں اُس کے ساتھ کھڑی ہیں، اور اوآئی سی ایک مُردہ ادارے کی صورت میں سامنے موجود ہے۔ جب کہ ہماری ماضی کی نواز حکومت تو عمران خان کے مطابق مودی کی یار اور غدار تھی، لیکن جب سے عمران خان وزیراعظم بنے ہیں وہ مودی سرکار کے آگے جس طرح جھکے اور گرے جا رہے ہیں اس پر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ موجودہ حکومت بھی ماضی کی حکومت کا تسلسل ہی ہے۔ عمران خان کا خیال تھا کہ مودی انتخابات میں جیتے گا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا۔ مودی جیت گیا اور اکثریت سے جیت گیا اور اب اُس نے اپنے کہے پر عمل درآمد شروع بھی کردیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مودی حکومت بڑے مقاصد کے تحت عالمی طاقتوں کے ساتھ اس خطے میں ایک بڑا منصوبہ رکھتی ہے جس میں صرف مقبوضہ کشمیر ہی کو اپنی گرفت میں لینا نہیں، بلکہ بھارتی اقدام سے اب آزاد کشمیر بھی خطرے میں ہے اور اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ بھارت اب آزاد کشمیر میں دراندازی کرے گا۔ اس دراندازی کو صرف اور صرف پاکستان کو منہ توڑ اور جرأت مندانہ جواب دے کر ہی روک سکتا ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے، اور یہی وجہ ہے کہ بھارت اور عالمی استعماری قوتوں کا پاکستان کو ختم کرنے کا خواب پورا نہیں ہوپارہا ہے۔
اس صورتِ حال میں خطرہ اس بات کا بھی موجود ہے کہ امریکہ ثالثی کے نام پر جس سے بھارت فی الحال انکاری ہے، کشمیر کے کسی ایسے حل پر پاکستان کو مجبور کرنے کی کوشش کرے جو کشمیری عوام کی خواہش کے برخلاف ہو۔ اس پر ایک عرصے سے کام ہوبھی رہا ہے۔ اس سے قبل جنرل پرویز مشرف نے بھی چار نکاتی فارمولا پیش کیا تھا جسے کشمیری قیادت نے مسترد کردیا تھا۔ آج پھر اُسی سے ملتے جلتے حل کی باتیں ہورہی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کشمیر کا اگر کوئی فارمولا ہے تو وہ بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی اور کشمیریوں کا تاریخی، آئینی و قانونی فارمولا ہی ہے جس کے مطابق جموں وکشمیر کی متنازع حیثیت اور اس کے باشندوں کا حقِ خودارادیت تسلیم کیا جائے ،اور مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ اس کے سوا کوئی دوسری بات پاکستان کے اصولی مؤقف سے دست برداری، کشمیریوں کی جدوجہد کی توہین اور اُن سے غداری کے سوا کچھ نہیں ہے، جس کی اجازت نہ کشمیری دیں گے اور نہ ہی پاکستانی قوم دے گی۔ یہ بات حکمرانوںکا یاد رکھنی چاہیے۔
(اے اے سید)