کشمیریوں کی نسل کشی پر عالمی برادری کی خاموشی خود مجرمانہ غفلت ہوگی
نریندر مودی کی جنونی اور ہندوتوا پر مبنی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-Aکو ختم کرکے اس کی خودمختار حیثیت کو ختم کردیا ہے۔ یہ اقدام جنیوا کنونشن سمیت اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس ہے، اور بھارت نے ثابت کیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کے سیاسی حل میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اُس نے ایک ایسا راستہ اختیار کیا ہے جس کا شدید ردعمل مقبوضہ کشمیر میں ہوگا۔ اسی ردعمل کے پیش نظر پورے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے نفاذ اور سیاسی قائدین کی گرفتاریوں سمیت مواصلاتی نظام کو ختم کردیا گیا ہے اور آٹھ ہزار سے زیادہ مزید فوج کو طلب کرلیا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے بقول بھارت مقبوضہ کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے، اور حالیہ تبدیلی کو اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ اس لیے بھارت کی طرف سے ایسی کوئی بھی کوشش جو مقبوضہ کشمیر کی موجودہ آئینی حیثیت کو تبدیل کرے، بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پچھلے چند برسوں، اور بالخصوص مظفر وانی کی شہادت اور مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد نے کشمیر کے مسئلے کو ایک بین الاقوامی مسئلہ بنادیا ہے۔ اب یہ مسئلہ محض کشمیر یا پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے کے طورپر ہی موجود نہیں، بلکہ وہاں جو انسانیت سوز مظالم اور سفاکی بھارت کی فوج طاقت کے نشے میں کررہی ہے اس نے عالمی برادری کے ضمیر کو بھی جگایا ہے۔ سوشل میڈیا کی اس نئی دنیا نے لوگوں کے سامنے اپنے مؤقف کو پیش کرنے کے لیے بہت سے نئے مواقع کو پیدا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں نوجوان نسل اپنا مقدمہ اس سوشل میڈیا کی مدد سے دنیا میں اجاگر کرنے میں پوری طرح کامیاب نظر آتی ہے۔
اقوام متحدہ ہو، یورپی یونین ہو یا ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹیں… سبھی یہ صدا بلند کررہے ہیں کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان آوازوں کی گونج بھارت کے اہلِ دانش یا انسانی حقوق کے کارکنوں میں بھی سننے کو مل رہی ہے کہ بھارت بس کرے اور مسئلہ کشمیر کا حل طاقت کے بجائے مذاکرات سے تلاش کیا جائے۔ سب سے اہم بات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات اور خاص طور پر مسئلہ کشمیر پر ثالث کا کردار ادا کرنے سے سامنے آئی ہے۔ امریکی صدر کی جانب سے ثالثی کی پیش کش نے یقینی طور پر بھارت کو سیاسی طور پر تنہا کردیا ہے۔ کیونکہ بقول امریکی صدر کے، وہ ثالثی کی یہ پیش کش بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی خواہش پر ہی کررہے ہیں، کیونکہ یہ اُن کا مطالبہ یا خواہش تھی کہ میں ثالث کا کردار ادا کروں۔
اگرچہ بھارت نے اس بیان کی تردید کردی ہے، مگر امریکی صدر تسلسل کے ساتھ اس مؤقف پر قائم ہیں کہ انہوں نے مودی کے حوالے سے ثالثی کی جو پیش کش کی ہے وہ درست ہے۔ ان کے بقول نریندر مودی اور عمران خان دونوں میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ نریندر مودی مسلسل خاموش ہیں، اور اُن کی خاموشی نے اس بات کو تقویت دی ہے کہ وہ بھی اب مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اب مسئلہ کشمیر کی عالمی حیثیت بڑھ رہی ہے اور چین، روس، ترکی، ملائشیا، برطانیہ سبھی اس مسئلے کے حل پر زور دے رہے ہیں۔ اور اگر عالمی طاقتیں اسی انداز میں بھارت پر اپنا دبائو بڑھاتی رہیں تو مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں مثبت نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
ایک طرف بھارت اور نریندر مودی پر دبائو بڑھ رہا ہے، اور دوسری طرف بھارت کا جارحانہ ردعمل ہمیں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مزید خلاف ورزیوں کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بھارت نے عملی طور پر جنیوا کنونشن اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کنٹرول لائن پر کلسٹر بم گرا دیے ہیں۔ 30 اور 31 جولائی کی رات وادی نیلم میں کلسٹر بموں سے کارروائی نے ثابت کیا ہے کہ اس وقت بھارت پر جنون سوار ہے اور وہ ہر قیمت پر کشمیریوں کو سبق سکھانا چاہتا ہے۔کیونکہ بھارت کا مؤقف ہے کہ پچھلے چند برسوں میں کشمیر کی جدوجہد نے اسے عالمی برادری میں جواب دہ بنایا ہے۔ مودی سرکار یہ سمجھتی ہے کہ اگر ہم نے ابھی بھی طاقت کے استعمال سے اس مسئلے کو یہیں ختم نہ کیا تو یہ بحران بھارت کے تناظر میں مزیدبڑھے گا،جس کا نتیجہ بڑے عالمی دبائو کی صورت میں سامنے آئے گا، جو سفارتی سطح پر بھارت کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
بھارت کو سمجھنا ہوگا کہ مقبوضہ کشمیر میں طاقت یا فوج کے استعمال کا نتیجہ اس کے حق میں نہیں آیا۔ کیونکہ طاقت کے بے جا استعمال نے وہاں کی تحریک کو کمزور کرنے کے بجائے اور زیادہ شدت دی ہے۔ نئی نسل واقعی فیصلہ کن جنگ چاہتی ہیں، کیونکہ اس نئی نسل کے کم ازکم چار افراد نے اس جنگ میں شہادت حاصل کی ہے۔ عورتوں، بچوں، بچیوں اور بوڑھوں کے حوالے سے انسانیت سوز مظالم کی جو تصاویر سامنے آرہی ہیں وہ لوگوں میں مزید غصے اور نفرت کو جنم دینے کا سبب بن رہی ہیں، اور لوگوں میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ کشمیر میں بھارت واقعی ظلم و زیادتی کررہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے ممتاز سیاسی راہنما سید علی گیلانی جو کشمیر کی جدوجہد کے اصل راہنما ہیں، انہوں نے الزام لگایا ہے کہ بھارت مقبوضہ وادی میں نسل کُش آپریشن شروع کرنے والا ہے۔
لگتا ہے کہ بھارت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ موجودہ صورت حال میں اپنے حق میں بہتری لانے کے لیے پہلے مقبوضہ کشمیر میں جدوجہدِ آزادی کو طاقت کے ذریعے روکا جائے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ خوف وہراس پیدا کرکے تحریک کو کمزور کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ تشدد کا نیا راستہ اور نئے نئے خطرناک طریقے اختیار کیے جارہے ہیں۔ لیکن اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ اس عمل سے تحریک کمزور ہوگی تو وہ غلطی پر ہے۔ اسے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے کہ طاقت کے استعمال کی پالیسی سے ہی کشمیر کا مسئلہ بگاڑ کا شکار ہوا ہے، اور آج عالمی برادری میں اسے جس سیاسی تنہائی کا سامنا ہے وہ بھی طاقت کے کھیل کی وجہ سے ہی ہے۔
اس وقت مقبوضہ کشمیر کی صورت حال اور بھارت کے سخت ردعمل کے باعث پاکستان کا سفارتی محاذ پر کام بڑھ گیا ہے۔ اس وقت عالمی برادری میں مسئلہ کشمیر کے حق میں جو ماحول بن رہا ہے ہمیں اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ کیونکہ اس وقت لوہا گرم ہے اور عالمی برادری مسئلے کا حل چاہتی ہے تو ہمیں بھارت کے موجودہ طرزعمل اور بالخصوص انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایک بڑی مہم چلانی چاہیے۔ ہمیں فوری طور پر اقوام متحدہ اور عالمی فورمز سے رجوع کرنا چاہیے کہ وہ اس تناظر میں اپنا کردار ادا کریں۔ خاص طور پر یہ جو سید علی گیلانی نے الزام لگایا ہے کہ بھارت کشمیریوں کی نسل کُشی کرنا چاہتا ہے، اس پر عالمی برادری کی خاموشی خود مجرمانہ غفلت ہوگی۔
پاکستان میں معروف سیاست دان اور اچھی شہرت کے حامل سید فخر امام کشمیر کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ یہ ان کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کشمیر کمیٹی کے سربراہ کے طور پر پاکستان کے اندر اور باہر اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔ وہ دنیا کی پارلیمنٹس کے سربراہان کو خط لکھ کر اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دلاسکتے ہیں۔ پاکستان میں اور پاکستان سے باہر کشمیر کمیٹی کے سربراہ ایسی کانفرنسیں کرسکتے ہیں جو عالمی برادری اورمیڈیا کو متوجہ کرسکیں۔ اسی طرح کشمیر کمیٹی کے سربراہ تمام جماعتوں کی ایسی قومی کانفرنس کا انعقاد کریں جس کی صدارت خود وزیراعظم کریں، تاکہ اس کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ ایک مضبوط آواز بن کر سامنے آسکے، اورہم اس قرارداد کی مدد سے دنیا میں اپنا مقدمہ مؤثر انداز میں پیش کرسکیں۔ کشمیریوں کی توجہ کا مرکز بھی پاکستان ہے، اورپاکستان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کشمیریوں کی سیاسی جدوجہد کے ساتھ کھڑا ہو، تاکہ مسئلے کا ایسا حل سامنے آسکے جو سب کے لیے قابلِ قبول ہو۔