محمد اعجازالحق، پاکستان مسلم لیگ (ضیاء) کے صدر اور جنرل محمد ضیاء الحق کے بڑے صاحب زادے ہیں۔ متعدد بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں، وفاقی کابینہ میں وزیر محنت و افرادی قوت، اور وزیر مذہبی امور رہے ہیں۔ پہلی بار ٹوبہ ٹیک سنگھ اور راولپنڈی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، بعد میں ہارون آباد سے رکن قومی اسمبلی بنے۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: صدر جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کو آج اکتیس سال ہوچکے ہیں اور ابھی تک ان کے طیارے کے حادثے کی رپورٹ منظرعام پر نہیں لائی گئی۔ کیا اس حادثے کی اصل وجوہات آپ کے ساتھ شیئر کی گئی ہیں؟
اعجازالحق: یہ بات درست ہے کہ صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کی اصل کہانی آج تک نہیں کھل سکی، اکتیس سال ہوچکے ہیں یہ حادثہ ہمارے لیے ذاتی حادثہ ہے، لیکن جو لوگ اس حادثے میں شہید ہوئے وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کررہے تھے، اور وردی میں ملبوس تھے، اس لیے پوری قوم بھی یہ جاننا چاہتی ہے کہ پاک فوج کی قیادت اور سینئر آفیسر کیسے اس حادثے کا شکار ہوئے، کون اس میں ملوث رہا، اور کون سی اندرونی اور بیرونی قوتیں اس میں شامل تھیں۔ جہاں تک آپ نے بات کی کہ ہمیں کچھ بتایا گیا؟ میں کہتا ہوں ہمیں کچھ نہیں بتایا گیا۔ پتا چلنا چاہیے کہ اس حادثے کی جوتحقیقاتی رپورٹ تھی اُس میں کیا لکھا گیا، اور اس رپورٹ میں حادثے کے بارے میں کیا تجزیہ کیا گیا۔
فرائیڈے اسپیشل: کبھی آپ نے خود بھی کوشش نہیں کی کہ رپورٹ حاصل کی جائے؟
اعجازالحق: یہ ہمارے خود سے حاصل کرنے اور نہ کرنے کا معاملہ نہیں ہے۔ اس حادثے میں ملک کی فوجی قیادت شہید ہوئی ہے، لہٰذا اس حادثے کی تحقیقات بھی تقاضا کرتی ہے کہ قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ سمجھتے ہیں کہ ملک میں جنرل ضیاء الحق کے حامی سیاست میں کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں؟
اعجازالحق: یہ بات ٹھیک ہے، ہمیں پورے ملک میں جنرل ضیاء الحق کی سیاسی حمایت کو یکجا کرکے ایک پلیٹ فارم پرلانا چاہیے تھا، لیکن ہم یہ کام نہیں کرسکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم اور ہمارا خاندان یہ سمجھتے تھے کہ مسلم لیگ(ن) کے صدر نوازشریف، جن کے بارے میں خود جنرل صاحب نے کہا تھا کہ میری عمر اُن کو لگ جائے، وہ ان کے مشن کو آگے بڑھائیں گے، اسی لیے ہم نے نوازشریف کا ساتھ دیا تھا۔ لیکن ہمیں مایوسی ہوئی۔ ان کے بعد پیپلزپارٹی آئی تو محترمہ بے نظیر بھٹو کے ایک وزیر نے کہا کہ جسے معلوم کرنا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کا طیارہ کیسے حادثے کا شکار ہوا وہ اللہ سے جاکر پوچھ لے۔ بلکہ اس حکومت نے تو تحقیقات بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور کہا تھا کہ اسے بس اللہ کا کام سمجھ کر چھوڑ دیا جائے۔ یہ صورت حال ہمارے لیے بہت پریشان کن تھی۔ اورجن لوگوں کو جنرل ضیاء الحق اپنے مشن کے لیے اپنا ساتھی سمجھتے تھے وہ سیاسی مفادات کے لیے خاموش ہوگئے۔
فرائیڈے اسپیشل: کشمیر میں ایک بڑی تبدیلی ہونے جارہی ہے، بھارت وہاں کی آبادی میں تبدیلی لارہا ہے اور رکاوٹ کو ختم کیا جارہا ہے۔ بھارت کے آئین میں آرٹیکل 370 ختم ہوجانے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
اعجازالحق: کشمیری عوام حالیہ تاریخ میں گزشتہ سات عشروں سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، لیکن یہ جنگ اصل میں 1932ء سے جاری ہے، اور آج تک عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل تک سب خاموش ہیں۔ پاکستان کا یہ اصولی مؤقف رہا ہے اور ہے کہ ہم کشمیری عوام کے حقِ رائے شماری کے لیے اُن کا مقدمہ دنیا کے ہر فورم پر لڑیں گے۔ پاکستان میں جتنے بھی حکمران گزرے ہیں، سب اسی اصول کو لے کر چلتے رہے، لیکن جنرل ضیاء الحق نے جس طرح کشمیر کا مقدمہ لڑا یہ کسی دوسرے حکمران کے نصیب میں نہیں آیا۔ آج سری نگر کے ہر گھر میں جنرل ضیاء الحق موجود ہے۔ انہوں نے جس طرح راجیو گاندھی کو دھمکی دی تھی وہ دھمکی آج تک بھارتی حکمرانوں کا خون خشک کیے ہوئے ہے۔ اس سال 17 اگست کو جنرل محمد ضیاء الحق شہید کی برسی پر ہم ایک اہم اعلان کریں گے اور پورے ملک میں فکرِ ضیاء پھیلانے کے لیے عوام کو منظم ہونے کی دعوت دیں گے، اور ہم یہ بھی عہد کریں گے کہ اس ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے سرحدوں پر لڑنے والے ایک ایک سپاہی کے پشتی بان بنیں گے۔ ہم سب کی دعا ہے کہ کشمیری عوام جلد اپنا حقِ رائے دہی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ جموں وکشمیر کی ریاست کے مسلم اکثریتی کردار کو ختم کرنے کی کوئی بھی کوشش، لاحاصل عمل ہے۔ حریت کانفرنس کا اس سلسلے میں مؤقف بالکل واضح ہے، اور یہ کہ مسئلہ کشمیر ایک زندہ حقیقت ہے اور کسی بھی عدالتی، قانونی یا سیاسی اقدامات کے ذریعے اس مسئلے کی متنازع حیثیت و ہیئت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا، اور آج نہیں تو کل اس مسئلے کو حل کرنا ہی ہوگا۔ پاکستان ہر عالمی فورم پر رائے شماری کے لیے کشمیری عوام کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔ جہاں تک دفعہ 370 اور 35 اے کو ختم کرنے کا تعلق ہے، اس کا مقصد اس ریاست کے مسلم اکثریتی کردار اور اس مسئلے کی متنازع حیثیت اور ہیئت کو تبدیل کرنا ہے، جو کشمیریوں کو کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے۔ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 35 اے کے تحت جموں و کشمیر کی اسمبلی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ خود اپنے مستقل شہری کی تعریف طے کرے۔ آرٹیکل 35 اے کے مطابق کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں وکشمیر کا شہری ہوسکتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی میں امریکہ، بھارت، چین اور اسلامی ممالک بہت اہم سمجھے جاتے ہیں۔ ہم کیسے اقوامِ عالم میں کشمیر کے بارے میں اپنا مقدمہ کامیابی کے ساتھ لڑ سکتے ہیں؟
اعجازالحق: خارجہ پالیسی میں سب سے اہم نکتہ بھارت اور امریکہ سے تعلقات سے متعلق ہے۔ بھارت سے اُس وقت تک کوئی اور بات نہیں ہوسکتی جب تک وہ کشمیری عوام کو اُن کا حقِ خودارادیت نہیں دیتا۔ رہ گئی بات امریکہ کی، وہاں کوئی بھی صدر ہو، امریکہ اپنا مفاد نہیں چھوڑتا۔ اب ٹرمپ بھی یہی کررہے ہیں۔ امریکہ نے اپنی جنگوں میں پاکستان کو بری طرح استعمال کیا اور پاکستان کی معیشت کو تباہ کیا، مگر پاکستان کو مالی سہارا دینے میں اُس نے ہمیشہ کنجوسی سے کام لیا، اور جب کام نکل گیا تو پاکستان کی طرف سے آنکھیں پھیر لیں۔ طوطا چشمی کا محاورہ شاید امریکی رویّے کے پیش نظر ایجاد کیا گیا تھا۔ امریکہ کو اچھی طرح علم ہے کہ پاکستان کی معیشت اس وقت کمزور ہے، قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ گیا ہے۔ پاکستانی قوم اُس دن کو یاد کرکے سر پیٹ رہی ہے جب ایک حکمران نے کسی سے مشورہ کیے بغیر آدھی رات کو ایک ادنیٰ سطح کے امریکی اہلکار کے فون پر امریکی حلیف بننے پر ہاں کردی تھی۔ پاکستان کو اس ہاں کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑی۔ اس ہاں سے قبل پاکستان میں مکمل امن و سکون تھا، کہیں دہشت گردی کا سایہ تک نہ تھا۔ مگر پھر ایسا عذاب نازل ہوا کہ روز بے گناہ پاکستانیوںکی لاشیں گرنے لگیں۔ کوئی جگہ محفوظ نہ رہی۔ ایک طرف یہ تباہی اور بربادی، اور دوسری طرف پاکستان سے امریکہ کا مسلسل اصرار کہ ڈو مور۔ پاکستان کی مسلح افواج نے قربانیاں دی ہیں اور دہشت گردوں کا نام و نشان مٹا دیا، مگر امریکہ کسی طور مطمئن نہیں۔ جبکہ اس نے بھارت پر نوازشات کی بارش برسا دی ہے۔ بھارت اس خطے میں امریکہ کے لاڈلے کا کردار ادا کر رہا ہے، دونوں کا ہدف یہ ہے کہ کسی طور چین کا سی پیک کا منصوبہ پروان نہ چڑھنے پائے۔ آج امریکہ پاکستان کے ساتھ وہی کچھ کررہا ہے جو اس نے سوویت روس کے خلاف جہاد کی کامیابی کے بعد کیا تھا ۔